غزلیں ۔۔۔ نوید ناظم

 

 

دل ہے کہ دِیا ہے، کیا ہے آخر؟

کچھ جل تو رہا ہے، کیا ہے آخر؟

 

شاید یہ کمال ہجر کا ہو

کیوں درد اٹھا ہے، کیا ہے آخر؟

 

کچھ بھی تو رقیب میں نہیں ہے

کیوں اُس کا ہوا ہے، کیا ہے آخر؟

 

زنجیر ہے، دام ہے، کہ شب ہے؟

وہ زلف گھٹا ہے، کیا ہے آخر؟

 

دیکھو تو سہی کبھی مِرا دل

یہ کوئی بلا ہے کیا ہے آخر؟

 

یہ درد ہے؟ دکھ ہے؟ غم ہے کوئی؟

مجھ کو جو ملا ہے کیا ہے آخر؟

 

قصہ تو نوید کا ہے کوئی

ہم نے بھی سنا ہے، کیا ہے آخر؟

٭٭٭

 

 

تم تو سنتے نہیں فغاں ورنہ

ہم کو کرنا تھا غم بیاں ورنہ

 

جھانک کر دیکھتا نہیں دل میں

درد اپنا بھی ہے نہاں ورنہ

 

تم زمیں کو لپیٹ لو اپنی

ہم بچھا دیں گے آسماں ورنہ

 

برق سے بے خبر ہمیں رکھا

ہم بناتے نہ آشیاں ورنہ

 

اس سے غم کو نکال دیتا ہوں

کیونکہ لمبی ہے داستاں ورنہ

 

یوں نہ ہم پر ستم روا رکھو

کیا کہے گا تمھیں جہاں ورنہ

 

آج ہم سے رقیب بچتا کیوں

آ گئے ہیں وہ درمیاں، ورنہ!

 

داغِ دل آج بے مزہ کیوں ہے

لطف دیتا ہے یہ نشاں ورنہ

 

شکر ہے دشت مل گیا ہم کو

ہم کو رہنا تھا بے اماں ورنہ

٭٭٭

 

One thought on “غزلیں ۔۔۔ نوید ناظم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے