غزلیں ۔۔۔ نسرین سید

اس خاک میں ملاؤ، کوئی خاک مختلف

تشکیل کو مری، ہو ذرا چاک مختلف

 

چرخ کہن ہٹاؤ، کہ درکار ہیں مجھے

پرواز کے لیے کئی افلاک مختلف

 

کچھ اور ہی دکھایا مری عقل و فہم نے

بابِ دروں کھلا، ہوا ادراک مختلف

 

عادی ہیں گو ستم کے یہ اہل وطن مگر

اس بار اور ظلم ہیں، سفاک مختلف

 

معلوم تھا ہمیں کہ بلا کا ہے حیلہ جُو

اب کے بہانہ لایا ہے چالاک، مختلف

 

جنت کو چھوڑ کر میں زیاں کار کب رہی

پائی ہیں اس جہان میں املاک مختلف

 

خود کو جلا کے نور کا منبع بنی ہوں میں

اس روشنی میں ہیں خس و خاشاک مختلف

 

نسرینؔ بُود و باش ہے کچھ اور عشق میں

یہ بوریا الگ ہے، یہ پوشاک مختلف

٭٭

 

 

 

 

آنکھ جھرنا ہے کہ ساون کی جھڑی ہے، واللہ

کیوں نہ ہو عشق مشقت ہی کڑی ہے واللہ

 

تلخ لہجے میں جو اک بات کہی ہے تم نے

دل میں وہ، تیر کی مانند گڑی ہے، واللہ

 

اس پہ گرتے ہیں مرے اشک تو یوں لگتا ہے

تری تصویر نگینوں سے جڑی ہے ، واللہ

 

منزل عشق سے دو چار قدم دوری تھی

بیچ میں آ کے انا پھر سے اڑی ہے، واللہ

 

اب اسے اور کوئی کیسے جچے گا نسرینؔ

آنکھ یہ، اونچی جگہ جا کے لڑی ہے، واللہ

٭٭

 

 

خوشا اے دل، الم کی یہ فراوانی مبارک ہو

عطائے عشق ہے جو بھی پریشانی، مبارک ہو

 

ہے آسانی سے ہاتھ آیا، یہ آسانی مبارک ہو

زلیخا، تجھ کو یوسف کی یہ ارزانی مبارک ہو

 

وہ جلوہ عکس ہے، معکوس ہے، خود آئینہ ہے وہ؟

تحیر دل کو، آنکھوں کو یہ حیرانی مبارک ہو

 

چلی آئی ہوں دنیا چھوڑ کر، تیری غلامی میں

مرے دل کی، مرے شاہا، یہ سلطانی مبارک ہو

 

تجھے اے دل بھلا بزمِ طرب سے لینا دینا کیا

ہے نسبت قیس سے تجھ کو، بیابانی مبارک ہو

 

کہاں کا سہل تھا تسخیر کرنا سنگ کو، آخر

کیا ہے موم جس نے، آنکھ کا پانی مبارک ہو

 

تم ہی تھے نا، رہائی کی دعا دیتے تھے لوگوں کو

سنا ہے عشق کے تم بھی ہو زندانی، مبارک ہو

 

اِسی ہنگامے پر موقوف ہے بس زندگی اپنی

جو برپا کی ہے دل نے، حشر سامانی مبارک ہو

 

زباں سے کب کہا جاتا اسے، حالِ دروں اُس پر

ہے کھولا جس نے، زخمِ دل کی عریانی مبارک ہو

 

حصار ان بازوؤں کا ہے حفاظت کے لیے نسریںؔ

میسر ہے اُن آنکھوں کی نگہبانی، مبارک ہو

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے