غزلیں ۔۔۔ محمد صابر

 

 

 

مرے سفر کا کوئی فاصلہ مقرر ہو

میں کس کے ساتھ چلوں قافلہ مقرر ہو

 

میں بات کر کے بڑا بے لگام پھرتا ہوں

مرے بھی سر پہ کوئی سر پھرا مقرر ہو

 

یہاں ہے پھرتی اجل ایک سے لبادے میں

ہماری موت کا بھی حادثہ مقرر ہو

 

مرا ہجوم یہاں کس طرح سے حق پر ہے

مرے گروہ کا بھی مسئلہ مقرر ہو

 

تری بے وقت کی یادیں خلل کا باعث ہیں

ترے خیال کا اب سلسلہ مقرر ہو

 

ہمارے درمیاں سے عشق کو اٹھا لے اب

ہمارے بیچ نیا رابطہ مقرر ہو

 

ہماری بات کا ہر دوسرا مخالف ہے

ہمارے بات پہ اب تیسرا مقرر ہو

 

زمیں پہ ایک سے ڈر کے لےہ ضروری ہے

زمیں کے لوگوں پہ بس اک خدا مقرر ہو

 

ترے نزول پہ سارا بدن دھڑکتا ہے

لہو نچوڑنے کا مرحلہ مقرر ہو

 

ہمیں تو شک ہے کہ ہم اور بھی کچھ ہیں یا کہ نہیں

مرے بدن میں ترا حافظہ مقرر ہو

٭٭٭

 

ابھی جو جان پہ گزرا ہے حادثہ کیا ہے

جو میں مرا ہی نہیں ہوں تو پھر ہوا کیا ہے

 

مجھے پتہ تو چلے میں نے کیا اٹھانا ہے

مجھے خبر تو ہو تقسیم میں مرا کیا ہے

 

امید کیا ہے کیا حوصلہ دلاتا ہے

یہ ہم سے پوچھ کہ تنکے کا آسرا کیا ہے

 

ترا خیال ہے تھپکی سی مست ہونے کی

ہماری نیند کا تجھ سے یہ واسطہ کیا ہے

 

مجھے پتا ہے کہ دل کس طرح دھڑکتا ہے

ابھی جو دل سا بجا ہے یہ دوسرا کا ہے

 

مجھے بتایا گیا ہے یہاں سب اچھا ہے

یہ کون رو رہا ہے اس کا ماجرا کیا ہے

 

یہ شخص کون سی سوغات لے کے آیا ہے

یہ شخص میرے فقیروں میں بانٹتا کیا ہے

 

یہاں تو چار طرف با شعور بستے ہیں

یہ شخص کون ہے گلیوں میں ہانکتا کیا ہے

 

ہمارے پیار کی بولی لگائی جائے گی

ہمیں نکال کے بازار میں نیا کیا ہے

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے