غزلیں ۔۔۔ قمر صدیقی

وہ اک مکان جو خستہ دکھائی دیتا ہے

وہیں سے شہر کا چہرہ دکھائی دیتا ہے

 

کھلی ہیں آنکھیں تو بے رنگ ہیں سبھی منظر

ہوں بند آنکھیں تو کیا کیا دکھائی دیتا ہے

 

یہ موج موج بکھرنا ہے چند لمحوں کا

وہ دیکھو دور کنارہ دکھائی دیتا ہے

 

دیارِ شب میں چراغاں تھا صبح ہونے تک

پھر اس کے بعد اندھیرا دکھائی دیتا ہے

 

تمام دن کی مشقت کے بعد بھی سورج

بوقتِ شام سنہرا دکھائی دیتا ہے

 

ہے اس کی ذات کسی انجمن سے کم تو نہیں

جو شمعِ بزم سا تنہا دکھائی دیتا ہے

 

تمھیں تو چہرے پہ بس اشک ہی نظر آئے

ہمیں تو چاند پہ دھبا دکھائی دیتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

سیدھی سچی بات ہے یہ

دن نہیں یارو رات ہے یہ

 

چھوڑ کے اک دن چل دیں گے

دنیا کی اوقات ہے یہ

 

آنکھ میں غصہ لب خاموش

نفی نہیں اثبات ہے یہ

 

مفت ملے گر دنیا تو

بھیک ہے یہ خیرات ہے یہ

 

ہاتھ ملے پر دل نہ ملے

جیت نہیں ہے، مات ہے یہ

 

یہ ہے طاقت کا نشّہ

بچ کے رہنا گھات ہے یہ

 

غم کو رکھا ہے سینت کے یوں

عشق تری سوغات ہے یہ

 

پھول سے خوشبو کب ہے جدا

تیرا میرا ساتھ ہے یہ

 

اس پر تو کچھ دھیرے چل

یار قمر فٹ پاتھ ہے یہ

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے