غزلیں ۔۔۔ فیصل عجمی

یہ واقعہ ہے میری غذا کھا گئی مجھے

میں کھا گیا ہوا کو، ہوا کھا گئی مجھے

 

کیسی بلائیں تھیں مرے پیچھے لگی ہوئی

خاموشی پی گئی ہے، صدا کھا گئی مجھے

 

رُو پوش تھا میں کب سے خدا کی تلاش میں

آیا نظر تو خلقِ خدا کھا گئی مجھے

 

دیکھا قریب سے جو بلا کے حسین کو

تصویر سے نکل کے بلا کھا گئی مجھے

 

دنیا قریب آئے تو سینے سے مت لگا

میں نے پرے ہٹائی تو کیا کھا گئی مجھے؟

 

شہرت نے کیسا دھوکہ دیا ناگہاں نہ، پوچھ

مجھ کو دکھا کے آبِ بقا کھا گئی مجھے

٭٭٭

 

 

 

 

بارش میں نامراد نیا قہر بن گئی

یہ اُس گلی کی بات ہے جو نہر بن گئی

 

دنیا ہے ایک سانپ سپیرے کے روپ میں

تریاق بن گئی ہے کبھی زہر بن گئی

 

جائیں کہاں، فرار کا رستہ کوئی نہیں

یہ زندگی تو جلتا ہوا شہر بن گئی

 

کچھ لوگ غرق ہو گئے، دریا کا کیا گیا؟

کشتی کے ڈوبنے سے نئی لہر بن گئی

 

تاریک و تنگ گھر میں تمازت ہے کس قدر

آئی سحر تو آتے ہی دوپہر بن گئی

 

اِس شاعری کا حسن سے رشتہ عجیب ہے

دیکھا اسے تو ایک نئی بحر بن گئی

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے