غزلیں ۔۔۔ فریاد آزرؔ

ضرورتاً خواص سے بھی کام لے لیا کرو

مگر سدا حمایتِ عوام لے لیا کرو

 

خطا تمہیں معاف کر سکے تو ٹھیک ہے مگر

خودا پنے آپ سے ہی انتقام لے لیا کرو

 

یہ کائناتِ دل بہت حسین ہی سہی مگر

کبھی کبھی دماغ سے بھی کام لے لیا کرو

 

خدا سے مانگتے رہو، اگر نہ مل سکے تو پھر

کسی غریب سے دعا انعام لے لیا کرو

 

خموشیوں کے شور سے جو کان پک گئے ہوں تو

کبھی کبھی سکونِ ازدحام لے لیا کرو

٭٭٭

 

 

 

 

سیاست بھی ہمیں کیا خوب مجبوری بتاتی ہے

جو ہم پر ظلم ہوتا ہے تو جمہوری بتاتی ہے

 

نوائے عصر کو جھانسی کے قصے یاد ہیں لیکن

کہاں وہ داستاں کوئی بھی میسوری بتاتی ہے

 

یہاں تاریخ بھی مرہونِ منت ہے سیاست کی

وفا کی داستاں میری وہ کب پوری بتاتی ہے

 

میں ایک اک سانس لینے اس کے در تک کیوں نہیں جاتا

اب اس میں بھی ہوا میری ہی معذوری بتاتی ہے

 

میں اپنوں کے مظالم کی حدوں سے کیا نکل آیا

مجھے تاریخ چنگیزی و تیموری بتاتی ہے

 

جہنم سے بچے رہنے کی میں جب بھی دعا مانگوں

تو یہ دنیا اسے بس خواہش حوری بتاتی ہے

 

مرے قدموں سے منزل واقعی نزدیک ہے آزرؔ

مری رفتار صدیوں کی مگر دوری بتاتی ہے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے