آباد درد و غم سے ہے کاشانِ عین میم*
اشکِ لہو سے لکھا ہے دیوانِ عین میم
تیرِ نظر تھا ان کا، خطا ہوتا کس طرح
ہونا تھا جن کو، ہو گئے، اوسانِ عین میم
اس نازنیں کی تابشِ رخسار دیکھ کر
ناصح بھی ہو گئے تھے رقیبانِ عین میم
خاکِ وفا میں عجز و عقیدت کو بیج کر
سینچا جگر کے خوں سے گلستانِ عین میم
دشتِ جنوں کی سمت ہے یہ درد کا سفر
اور اس کی یادیں توشہ و سامانِ عین میم
دو چار قافیے تھے غزل ہی نہ ہو سکی
مانع ہوئی ہے تنگئیِ دامانِ عین میم
عاطفؔ ترے فراق میں ٹوٹا، بکھر گیا
اور ٹوٹنے سے رہ گیا پیمانِ عین میم
عین میم: عاطفؔ ملک
٭٭٭
عمر بھر کے درد سے دوچار ہونے کے لیے
اک نظر کافی ہے ان سے پیار ہونے کے لیے
صحبتِ یاراں میں گزرا ایک پل درکار تھا
میرے دل کو، مجھ سے ہی بیزار ہونے کے لیے
تم کو کیا معلوم کیسی سختیاں سہتا رہا
سوکھا سہما پیڑ سایہ دار ہونے کے لیے
دشمنوں نے جب چلائے حسن پر طعنوں کے تیر
عشق آیا راہ میں دیوار ہونے کے لیے
اختیار و دولت و مسند نشینی ہے بہت
آدمی کے صاحبِ کردار ہونے کے لیے
وہ گھنی، کالی گھٹا زلفوں کی برسا دو کہ آج
دشتِ دل بے تاب ہے گلزار ہونے کے لیے
جان بھی اپنی فدا کر دوں اگر موقع ملے
تیرے افسانے کا اک کردار ہونے کے لیے
جب سے لوگوں نے سنی تیری مسیحائی کی بات
کر رہے ہیں سب دعا بیمار ہونے کے لیے
بخش دو منصور کو لوگو! کہ عاطفؔ ہے یہاں
جرمِ سرمستی میں رہنِ دار ہونے کے لیے
٭٭٭