غزلیں ۔۔۔ سید انور جاوید ہاشمی

چھپا کر آنسوؤں میں پیش کر دیتے تبسم کیا

ہمیں تو ایک لگتے ہیں خموشی کیا تکلم کیا

 

بہت دن ہو گئے وہ آئینہ صورت نہیں آیا

بکھر کر عکس اس کا آئینے میں ہو گیا گم کیا!

 

کسی نظارا سازی کی تمنا مٹ گئی دل سے

نگاہوں سے ہوئے اوجھل فلک، خورشید و انجم کیا

 

چلو مانا کہ یک جائی سرِ محفل نہیں اچھی

بدن کی بھی صدا سنتے نہیں ہو آخرش تم کیا

 

حریفِ عشق کوئی سامنے درکار ہے یا پھر

خود اپنے آپ سے ہونے لگا ہے پھر تصادم کیا

٭٭٭

 

ایک قتّالہ نظر بر سرِ دیوان پڑی

جیسے اِک تازہ غزل بر سرِ دیوان پڑی

 

اپنے لہجے میں ملِا لہجۂ تازہ اپنا

خلقتِ دہر لگی بے سر و سامان پڑی

 

زخم دکھلائے وہی جن کا دکھاوا ممکن

راہ اپنائی وہی جو مجھے آسان پڑی

 

کُوئے جاناں کی طرف جرأتِ رندانہ بڑھی

رہ گزر سے جو الگ رہ تھی، وہ سنسان پڑی

 

جائے حسرت نہ رہی  ملکہ سباؔ  کی اُس دم

جب نظر اُس کی سُوئے تختِ سلیمان پڑی

 

مجھ سے تجدیدِ غزل ہاشمی کرتے نہ بنی

کیسی مشکل یہ  گھڑی  سر پہ میرے آن پڑی

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے