خدا کہوں گا تمھیں، ناخدا کہوں گا تمھیں
پکارنا ہی پڑے گا تو کیا کہوں گا تمھیں
مری پسند مرے نام پر نہ حرف آئے
بہت حسین بہت با وفا کہوں گا تمھیں
ہزار دوست ہیں، وجہِ ملال پوچھیں گے
سبب تو صرف تمھی ہو، میں کیا کہوں گا تمھیں
ابھی سے ذہن میں رکھنا نزاکتیں میری
کہ ہر نگاہِ کرم پر خفا کہوں گا تمھیں
ابھی سے اپنی بھی مجبوریوں کو سوچ رکھو
کہ تم ملو نہ ملو مدعا کہوں گا تمھیں
الجھ رہا ہے تو الجھے گروہِ تشبیہات
بس اور کچھ نہ کہوں گا ادا کہوں گا تمھیں
قسم شرافتِ فن کی کہ اب غزل میں کبھی
تمھارا نام نہ لوں گا صبا کہوں گا تمھیں
٭٭٭
یہ عشق کی گلیاں جن میں ہم کس کس عالم میں آئے گئے
کہتی ہیں کہ حضرت اب کیسے تم آج یہاں کیوں پائے گئے
اک شرط ہے یاں خوشبوئے وفا یاد آئے تو کرنا یاد ذرا
جب تم پہ بھروسا تھا گل کا کیا مہکے کیا مہکائے گئے
ہے یہ وہی لوح باب جنوں لکھا ہے نہ پوچھو کیا اور کیوں
تم لائے کلید جذب دروں اور سب منظر دکھلائے گئے
اک تخت روان شعر آیا کچھ شاہ سخن نے فرمایا
پھر تاج ترنم پہنایا اور غزلوں میں تلوائے گئے
٭٭٭