غزلیں ۔۔۔ تنویر قاضی

کسی بارش کے جو با دل رہے ہیں

تمہاری آنکھ کا کاجل رہے ہیں

 

نہیں مانجھی سے اب نظریں ملاتے

مسافت کے لئے بے کل رہے ہیں

 

رکھو جاری تم اپنی گُفتگُو کو

لگے جیسے کہ جادو ٹل رہے ہیں

 

زمانے بن گئے ہیں شامیانے

تمہارے ساتھ اک دو پل رہے ہیں

 

کھڑی ہے ہونٹوں پر اخروٹ مَل کر

کبوتر چھتریوں پر جل رہے ہیں

 

در آئے جو دھنک میں رنگ ہو کر

ترے جوبن کا وہ آنچل رہے ہیں

 

تمہارے نین دشت تشنگی میں

تھکے کاندھوں کی اک چھاگل رہے ہیں

 

کوئی بھیتر اذیت ہے اُنہیں بھی

خود اپنی خواجگی میں کھَل رہے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

جلتے ہیں شجر ڈھولا

گرتے ہیں کگر ڈھولا

 

بکھرے ہیں پرندوں کے

ٹُوٹے ہوئے پر ڈھولا

 

مانجھی کی کہانی تھی

کشتی کا سفر ڈھولا

 

اپنی ہی گلی میں اب

ملتا نہیں گھر ڈھولا

 

چھلنی مشکیزے اور

پنگھٹ کی ڈگر ڈھولا

 

ٹہنی، ٹہنی دیکھیں

کٹتے ہوئے سر ڈھولا

 

اک پیاس کی ریت اُڑے

یہ دل ہے کہ تھر ڈھولا

 

تجھ پر جو مرتے ہیں

جائیں نہ وہ مر ڈھولا

 

دل عشق کا مسکن تھا

اب بیٹھا ہے ڈر ڈھولا

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے