غزلیں ۔۔۔ انور جلال پوری

سنگ میں نہر بہانے کا ہنر میرا ہے

راہ سب کی ہے مگر عزمِ سفر میرا ہے

سارے پھلدار درختوں پہ تصرف اس کا

جس میں پتے بھی نہیں ہیں وہ شجر میرا ہے

در و دیوار پہ سبھی کی حکومت ہے یہاں

ہو گا غالب کا کبھی اب تو یہ مکاں میرا ہے

تُو مجھے پا کے بھی خوش نہ تھا یہ قسمت تیری

میں تجھ کو کھو کے بھی خوش ہوں یہ جگر میرا ہے

٭٭٭

 

 

جو ذکر حق تھا اسے داستاں کہنے لگے

زمانے والے یقیں کو گماں کہنے لگے

عذابِ در بدری اس قدر ہوا ہم پر

کہ سخت دھوپ کو ہم سائباں کہنے لگے

کچھ ایسا کٹ گیا رشتہ کھلی فضاؤں سے

اسیرِ کنجِ قفس کو ہم مکاں کہنے لگے

یہ کس نے چھین لی ساری برساتیں ہم سے

جو خشک گھاس کو ہم زعفران کہنے لگے

٭٭٭

 

 

 

کچھ یقین کچھ گمان کی دلی

ان گنت امتحان کی دلی

مقبرے تک نہیں سلامت اب

تھی کبھی آن بان کی دلی

خواب، قسم، خیال، افسانہ

ہائے اردو زبان کی دلی

بے زبانی کا ہو گئی ہے شکار

اسداللہ خان کی دلی

٭٭٭

 

 

زلف کو ابر کا ٹکڑا نہیں لکھا میں نے

آج تک کوئی قصیدہ نہیں لکھا میں نے

جب مخاطب کِیا قاتل کو، تو قاتل لکھا

لکھنوی بن کے مسیحا نہیں لکھا میں نے

میں نے لکھا ہے اسے مریم و سیتا کی طرح

جسم کو اس کے اجنتا نہیں لکھا میں نے

کبھی نقاش بتایا،۔  کبھی معمار کہا

دستِ فنکار کو کاسہ نہیں لکھا میں نے

تُو مرے پاس تھا، یا تیری پرانی یادیں

کوئی اک شعر بھی تنہا نہیں لکھا میں نے

نیند ٹوٹی کہ یہ ظالم مجھے مل جاتی ہے

زندگی کو کبھی سپنا نہیں لکھا میں نے

میرا ہر شعر حقیقت کی ہے زندہ تصویر

اپنے اشعار میں قصہ نہیں لکھا میں نے

٭٭٭

 

 

قیام گاہ نہ کوئی، نہ کوئی گھر میرا

ازل سے تا بہ ابد صرف اک سفر میرا

خراج مجھ کو دیا آنے والی صدیوں نے

بلند نیزے پہ جب ہی ہوا ہے سر میرا

سبھی کے اپنے مسائل، سبھی کی اپنی انا

پکاروں کس کو جو دے ساتھ عمر بھر میرا

میں غم کو کھیل سمجھتا رہا ہوں بچپن سے

بھرم یہ آج بھی رکھ لینا چشمِ تر میرا

مرے خدا! میں تری راہ جس گھڑی چھوڑوں

اسی گھڑی سے مقدر ہو در بہ در میرا

٭٭٭

 

 

کوئی رسوا تو کوئی معتبر ہوتا ہی رہتا ہے

یہاں یہ کھیل پیار عمر بھر ہوتا ہی رہتا ہے

یہ دنیا ہے یہاں تم حادثوں سے دوستی کر لو

کہ ہر لمحہ یہاں زیر و زبر ہوتا ہی رہتا ہے

تصور بھی عجب شے ہے، تصور ہی کے شہپر پر

کہیں بیٹھے رہو، پھر بھی سفر ہوتا ہی رہتا ہے

اگر غیرت سلامت ہے تو غربت کے بھی عالم میں

بڑی عزت سے مفلس کا گزر ہوتا ہی رہتا ہے

یہ انسانوں کی بستی ہے، یہاں انسان کو دھوکا

وہ چاہے یا نہ چاہے گا، مگر ہوتا ہی رہتا ہے

٭٭٭

 

 

 

پرایا کون ہے اور کون اپنا سب بھلا دیں گے

متاع زندگانی ایک دن ہم بھی لٹا دیں گے

تم اپنے سامنے کی بھیڑ سے ہو کر گزر جاؤ

کہ آگے والے تو ہرگز نہ تم کو راستا دیں گے

جلائے ہیں دیئے تو پھر ہواؤں پر نظر رکھو

یہ جھونکے ایک پل میں سب چراغوں کو بجھا دیں گے

کوئی پوچھے گا جس دن واقعی یہ زندگی کیا ہے

زمیں سے ایک مٹھی خاک لے کر ہم اڑا دیں گے

گلہ، شکوہ، حسد، کینہ کے تحفے میری قسمت ہیں

مرے احباب اب اس سے زیادہ اور کیا دیں گے

مسلسل دھوپ میں چلنا چراغوں کی طرح جلنا

یہ ہنگامے تو مجھ کو وقت سے پہلے تھکا دیں گے

اگر تم آسماں پر جا رہے ہو شوق سے جاؤ

مرے نقش قدم آگے کی منزل کا پتا دیں گے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے