غزلیں ۔۔۔ ابراہیم اشک

تری زمیں سے اٹھیں گے تو آسماں ہوں گے

ہم ایسے لوگ زمانے میں پھر کہاں ہوں گے

 

چلے گئے تو پکارے گی ہر صدا ہم کو

نہ جانے کتنی زبانوں سے ہم بیاں ہوں گے

 

لہو لہو کے سوا کچھ نہ دیکھ پاؤ گے

ہمارے نقش قدم اس قدر عیاں ہوں گے

 

سمیٹ لیجئے بھیگے ہوئے ہر اک پل کو

بکھر گئے جو یہ موتی تو رائیگاں ہوں گے

 

اچاٹ دل کا ٹھکانا کسی کو کیا معلوم

ہم اپنے آپ سے بچھڑے تو پھر کہاں ہوں گے

 

ہیں اپنی موج کے بہتے ہوئے سمندر ہم

تمام دشت جنوں میں رواں دواں ہوں گے

 

یہ بزم یار ہے قربان جائیے اس پر

سنا ہے اشکؔ یہاں دل سبھی جواں ہوں گے

٭٭٭

 

 

 

 

بزم دنیا کا تماشا نہیں دیکھا جاتا

زندگی یوں تجھے رسوا نہیں دیکھا جاتا

 

جب سے تنہائی کا احساس ہوا ہے مجھ کو

کوئی دشمن بھی اکیلا نہیں دیکھا جاتا

 

کوئی سچ بولنے والا بھی تو آگے آئے

ہر طرف جھوٹ کا چرچا نہیں دیکھا جاتا

 

کون سا درد کا سیلاب ہے اپنے دل میں

ایک آنسو بھی کسی کا نہیں دیکھا جاتا

 

لوچ دیکھا ہے کسی شوخ بدن کا جب سے

ہم سے بہتا ہوا دریا نہیں دیکھا جاتا

 

جس کو آنا ہے چلا آئے گا ملنے کے لیے

بے سبب بیٹھ کے رستا نہیں دیکھا جاتا

 

آئینہ سیکھ گیا شکل بدلنا جب سے

ہم سے تو عکس بھی اپنا نہیں دیکھا جاتا

 

دکھ جو اپنا ہو تو ہر حال میں سہہ سکتے ہیں

دکھ مگر ہم سے پرایا نہیں دیکھا جاتا

٭٭٭

 

 

 

 

زمانے میں غزل کے میں نئے لہجے بناتا ہوں

کہ اپنے عشق کے زخموں سے گل دستے بناتا ہوں

 

میں وہ آبِ رواں ہوں جو پہاڑوں کی چٹانوں میں

کبھی منزل بناتا ہوں کبھی رستے بناتا ہوں

 

یہ سب قدرت کی رنگینی سے میرے دل نے سیکھا ہے

تصور میں دھنک رنگوں سے میں چہرے بناتا ہوں

 

مجھے معلوم ہے یہ پتھروں کی بارشیں ہوں گی

مگر میں پھر بھی اس دنیا میں آئینے بناتا ہوں

 

جہاں والوں نے سمجھا ہی نہیں میری عبادت کو

دلوں کو جیت کر میں پیار کے سجدے بناتا ہوں

 

مرے الفاظ تو خوشبو کے جیسے دل کو چھوتے ہیں

گلوں کی موج سے میں درد کے نغمے بناتا ہوں

 

کروں سڑکوں پہ ہنستے کھیلتے بچوں سے یارانہ

سبب یہ ہے کہ اپنے گھر میں غبّارے بناتا ہوں

 

وفا کے چاک پر جذبات کی رکھتا ہوں جب مٹّی

تو پھر غزلیں، رباعی اور میں دوہے بناتا ہوں

 

محبت اشکؔ مجھ کو روشنی سے ہے تبھی تو میں

کبھی جگنو بناتا ہوں کبھی تارے بناتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

کریں سلام اسے تو کوئی جواب نہ دے

الٰہی اتنا بھی اس شخص کو حجاب نہ دے

 

تمام شہر کے چہروں کو پڑھنے نکلا ہوں

اے میرے دوست مرے ہاتھ میں کتاب نہ دے

 

غزل کے نام کو بدنام کر دیا اس نے

کچھ اور دے مرے ساقی مجھے شراب نہ دے

 

میں تجھ کو دیکھ کے تیرے بھرم کو جان سکوں

اک آدمی ہوں ذرا سوچ ایسی تاب نہ دے

 

وہ مل نہ پائے اگر مجھ کو اس زمانے میں

تو ایسی حور کا دنیا میں کوئی خواب نہ دے

 

یہ میرے فن کی طلب ہے کہ دل کی بات کہوں

وہ اشکؔ دے کہ زمانے کو انقلاب نہ دے      ٭٭٭

 

غزل ہو گئی جب بھی سوچا تمہیں

فسانے بنے جب بھی لکھا تمہیں

 

کبھی دھوپ ہو تم کبھی چاندنی

سمجھ کر بھی کوئی نہ سمجھا تمہیں

 

غرض کوئی سورج سے ہم کو نہیں

سحر ہو گئی جب بھی دیکھا تمہیں

 

مجھے اپنے دل پر بڑا ناز ہے

بڑے ناز سے جس نے رکھا تمہیں

 

کبھی میری آنکھوں میں جھانکو ذرا

یہاں کوئی تم سا ملے گا تمہیں

 

یہ تھی اشکؔ صاحب کی دیوانگی

تھے تم روبرو پھر بھی ڈھونڈا تمہیں

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے