۔۔۔۔۔۔
۱
۔۔۔۔۔۔۔
چراغِ دل بھی بجھا ، پر دھواں نہیں ہوئے ہم
بچھڑ کے تم سے ابھی رائیگاں نہیں ہوئے ہم
ابھی تلک ہے ہمیں خواب دیکھنے کا جنوں
کہ زندگی سے ابھی بدگماں نہیں ہوئے ہم
اس احتیاط سے کی ہم نے درد کی تہذیب
کہ اپنے شعر سے بھی کچھ عیاں نہیں ہوئے ہم
بکھرتے رشتوں کی دہلیز پر کھڑے تھے مگر
انا گرفتہ تھے جھک کر کماں نہیں ہوئے ہم
اک ایسا زخم تھے ہم زندگی کے چہرے پر
سلیم اہلِ قلم سے بیاں نہیں ہوئے ہم
٭٭٭
۔۔۔۔۔
۲
۔۔۔۔۔
میں اپنے آپ سے ناراض ہو کے زندہ تھا
اب اس سے بڑھ کے مجھے کیا عذاب سہنا تھا
وہ یاد ہے میں رہا جس کی یاد سے بیزار
اور اس کو بھول گیا جس کو یاد رکھنا تھا
سفر سے کیسا تعلق تھا وحشتِ دل کا
کہیں بھی جاؤں و ہی د شت آ نکلتا تھا
ہوائیں میرے گھروندے مٹاتی رہتی تھی
میں ایک بچے کی مانند ہنستا رہتا تھا
نہ کوئی فکر، نہ لہجہ، نہ آگہی نہ خیال
مری غزل پہ یہ کیسا زوال آیا تھا
٭٭٭