کراچی میں مقیم بچوں کے ادب کے فروغ کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے والے ادیب سید مسعود احمد برکاتی بھی ہمارے درمیان نہیں رہے۔ گزشتہ چند ماہ سے ان کی علالت کی خبریں آ رہی تھیں مگر اس دوران ان کی ادارت میں شائع ہونے والے بچوں کے ادبی مجلہ ’’ ہمدرد نو نہال‘‘ کی باقاعدہ اشاعت سے تشویش و اضطراب کے بادل چھٹ گئے۔ ان کی رحلت کی اچانک خبر سن کر دِل دہل گیا کہ اجل کے ہاتھوں بچوں کے ادب کے ہمالہ کی ایک سر بہ فلک چوٹی زمیں بوس ہو گئی۔ علم و ادب کا وہ آفتاب جو 15۔ اگست 1933کوٹونک (راجپوتانہ) سے طلوع ہوا وہ 10۔ دسمبر2017کو کراچی میں ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ صر صر اجل نے اس شمع فروزاں کا بجھا دیا جسے مہیب سناٹوں سے معمور سفاک ظلمتوں میں ستاۂ سحر کی پہچان قرار دیا جاتا تھا۔ ان کے پس ماندگان میں تین بیٹیاں اور ایک بیٹا شامل ہے۔ شدید ترین احساس زیاں اور لرزہ خیز المیہ کے جان لیوا تصور سے میرا دم گھٹنے لگا۔ اجل کے بے رحم ہاتھوں نے ہمیں بچوں کے ادب کے اس یگانۂ روزگار تخلیق کار سے محروم کر دیا جس نے اپنی بے لوث محبت، بے باک صداقت اور حب الوطنی کے اعجاز سے پاکستان کی تین نسلوں کی بے لوث فکر رہنمائی کا فریضہ انجام دیا۔ پاکستان کی نئی نسل کے اذہان کی تطہیر و تنویر کا موثر اہتمام کر کے سید مسعود احمد برکاتی نے ستاروں پر کمند ڈالی۔ مجھے اختر الا ایمان کے یہ شعر یاد آیا:
کون ستارے چھُو سکتا ہے
راہ میں سانس اُکھڑ جاتی ہے
ڈیڑھ سال کی عمر میں یتیم ہونے کے بعد مسعود احمد برکاتی نے بڑی محنت، لگن اور جانفشانی سے اپنی دنیا آپ پیدا کی اور دانہ دانہ جمع کر کے خرمن بنایا اور نہایت وقار، خود اعتمادی اور شان استغنا سے زندگی بسر کی۔ سید مسعود احمد برکاتی کو بچپن ہی سے تخلیق ادب با لخصوص بچوں کے ادب میں گہری دلچسپی تھی۔ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ مسعود احمد برکاتی نے محض چودہ سال کی عمر میں اپنے دادا کی یاد میں ادبی مجلے ’’البرکات ‘‘کا اجرا کیا۔ جب آزادی کی صبح درخشاں طلوع ہوئی تو مسعود احمد برکاتی اپنے بڑے بھائی محمود احمد برکاتی کے ہمراہ سال 1948کے آغاز میں کراچی پہنچے۔ ان کے بڑے بھائی پروفیسر محمود احمد برکاتی کا شمار اپنے عہد کے ممتاز ماہرین تعلیم میں ہوتا تھا اور وہ بھی حکیم محمد سعید کے معتمد رفیق رہے۔ محمود احمد برکاتی چالیس کتب کے مصنف تھے اور ان کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں سال 2001میں صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ پاکستانی ادبیات کی ثروت میں قابل قدر اضافہ کرنے والے اس ادیب کو ظالم و سفاک درندوں نے ستاسی(87) سال کی عمر میں 2013میں دہشت گردی کا نشانہ بنا دیا۔ اس ظلم کے نتیجے میں علم و ادب کا ہنستا مسکراتا چمن مہیب سناٹوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ کراچی میں ہمدرد دوا خانہ کے مہتمم حکیم محمد سعید (1920-1998) کی نگاہِ انتخاب سید مسعود احمد برکاتی پر پڑی اور سال 1953 میں انھیں ہمدرد دوا خانہ کے زیر اہتمام شائع ہونے والے بچوں کے ادبی مجلہ ’’ ہمدرد نو نہال‘‘ کی ادارت سونپ دی۔ اپنے ذوقِ سلیم کو رو بہ عمل لاتے ہوئے سید مسعود احمد برکاتی نے زندگی بھر یہ ذمہ داری نبھائی۔ قادر مطلق نے سید مسعود احمد برکاتی کو ایک مضبوط اور مستحکم شخصیت سے نواز تھا۔ وہ مصلحت وقت، تذبذب اور گو مگو سے قطعی نا آشنا تھے اور سدا حق گوئی اور بے باکی کو شعار بنانے پر اصرار کرتے تھے۔ ان کی فرض شناسی، احساسِ ذمہ داری، علم دوستی اور ادب پروری کا ایک عالم معترف تھا۔ سیدمسعود احمد برکاتی نے اپنی تخلیقی فعالیت سے حکیم محمد سعید اور علمی و ادبی حلقوں کو بہت متاثر کیا۔ ان کی صائب رائے کی اہمیت کے پیشِ نظر حکیم محمد سعید ان پر بہت اعتماد کرتے اور ان کے مشوروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اپنے تدبر اور فہم و فراست کی بنا پر وہ حکیم محمد سعید کے دست راست بن گئے۔ پاکستان میں بچوں کے ادب کی تخلیق کے سلسلے میں حکیم محمد سعید اور سید مسعود احمد برکاتی نے ایک متفقہ لائحہ عمل اپنایا۔ وہ بچوں کے ادب کے وسیلے سے نئی نسل کی اخلاقی تربیت کو کلیدی اہمیت کا حامل قرار دیتے تھے۔ انھیں یقین تھا کہ نئی نسل کو حوصلے، عزم، اعتماد، یقین اور اخلاقیات کا درس دینے سے سماجی اور معاشرتی زندگی میں انقلاب بر پا کیا جا سکتا ہے۔ مذہب کی آفاقی اقدار، وطن، اہلِ وطن، معاشرے، نئی نسل اور انسانیت کی فلاح و بہبود ہمیشہ اُن کا مطمح نظر رہا۔ ارضِ پاکستان کی تہذیبی و ثقافتی میراث سے قلبی وابستگی، والہانہ محبت اور روحانی عقیدت مسعود احمد برکاتی کے لیے لائق صد افتخار تھی۔ سیدمسعود احمد برکاتی نے پاکستان کی تین نسلوں کو خون جگر دے کر پروان چڑھایا۔ وہ ایسے محب وطن ادیب تھے جو حریت ضمیر سے جینے اور حریت فکر کا علم بلند رکھنے کے سلسلے میں اسوۂ شبیرؓ پر عمل پیرا ہونے کے قائل تھے۔ ان کی تحریریں ایمان افروز خیالات، فکر و خیال کی دنیا میں صحت مند معلومات کی شمع فروزاں کرنے والے علمی و ادبی مباحث، بچوں کے لیے تعلیمی، تفریحی اور تاریخی افادیت سے لبریز مواد کا مرقع ہوتی تھیں۔ سید مسعود احمد برکاتی کے پر جوش مداح انھیں بچوں کے لیے ادب تخلیق کرنے والی انگریزی زبان کی عالمی شہرت یافتہ ادیبہ ای نڈ بلیٹن (Enid Blyton) سے کم نہیں سمجھتے۔ ای نڈ بلیٹن(1897-1963)کو ہر عہد میں بچوں کی مقبول مصنفہ سمجھا گیا اور آج بھی دنیا بھر کی مختلف زبانوں میں بچوں کی اس مقبول ادیبہ کی تصانیف کے تراجم ہو رہے ہیں۔ اب تک بچوں کے ادب کی اس فعال اور مستعد ادیبہ کی کتب کی چھے ہزار ملین کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔ بچوں کے ادب کی اس ہر دِل عزیز اور زیرک معلمہ، مقبول شاعرہ اور پر لطف اسلوب کی حامل ناول نگار ادیبہ کی تصانیف کے دنیا کی نوے بڑی زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں۔ بلا جواز تعریف و توصیف، میڈیا کے ذریعے خود ستائی، تعلّی اور جعل سازی کے ذریعے مصنوعی مقبولیت کا ڈھنڈورا پیٹنے کے بڑھتے ہوئے رجحان سے اپنا دامن بچاتے ہوئے سید مسعود احمد برکاتی نے بچوں کے ادب کو مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوش ثریا کر دیا۔ سید مسعود احمد برکاتی نے ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے زندگی بھر نہایت خاموشی کے ساتھ اپنا تخلیقی کام جاری رکھا۔ انجمن ستائش باہمی اور اس کے کرتا دھرتا مسخروں کی چربہ سازی سے انھیں کوئی غرض نہ تھی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے موجودہ دور میں انٹر نیٹ، بلاگ اور برقی کتب کے پھیلاؤ نے حالات کی کایا پلٹ دی ہے۔ فکری اعتبار سے یہ ایک لرزہ خیز اور اعصاب شکن سانحہ ہے کہ کتب بینی کا شوق اب رفتہ رفتہ ماند پڑنے لگا ہے اور اس کے بجائے انٹر نیٹ پر دُور بیٹھے کسی مانوس اجنبی کے ساتھ گھنٹوں بے فائدہ تکلم کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ان حالات میں مسعود احمد برکاتی کی مقبولیت ان کے مسحور کن اسلوب کا منھ بولتا ثبوت ہے اور ان کے مداحوں کی دلیل میں کافی وزن پایا جاتا ہے۔ بچوں کے ادب کے فروغ کے سلسلے میں سید مسعود احمد برکاتی کی تخلیقی کامرانیوں کی تفصیل درج ذیل ہے:
تراجم:
پیاری سی پہاڑی لڑکی، تین بندوقچی، مونٹی کرسٹو کا نواب، ہزاروں خواہشیں
اردو تصانیف:
ایک کھلا راز، جوہر قابل، چور پکڑو، دو مسافر دو ملک، ہزاروں خواہشیں، صحت کی الف، ب، صحت کے 99نکتے، فرہنگ اصطلاحات، قیدی کا اغوا، مفید غذائیں، وہ بھی کیا دِن تھے، تین بندوقچی
ادارت:
ہمدرد نو نہال کراچی (چونسٹھ برس)، ماہ نامہ سائنسی دنیا، ماہ نامہ عرفان، ہمدرد صحت، پیامی (یو نیسکو) کے معاون مدیر۔
اعزازات:
نشانِ سپاس 1996: آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی جرائد کمیٹی
لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ: آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی
سید مسعود احمد برکاتی نے اپنے تمام وسائل اور توانائیاں بچوں کے ادب کے فروغ کے لیے وقف کر رکھی تھیں۔ اس کرشماتی سر چشمۂ فیض سے سیراب ہونے والے لاکھوں نوجوان پاکستان اور دنیا کے طول و عرض میں موجود ہیں جو مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ملک و قوم کی خدمت میں مصروف ہیں۔ سید مسعود احمد برکاتی نے اردو میں بچوں کے ادب کا وسیع مطالعہ کیا تھا اور اسے افادیت سے لبریز قرار دیتے تھے۔ وہ کم سن بچوں کو شبنم کے قطرے اور بکھرے ہوئے موتی قرار دیتے اور ان کے نکھار پر زور دیتے تھے۔ انھوں نے ڈاکٹر نثار احمد قریشی، ڈاکٹر بشیر سیفی، صابر کلوروی، صابر آفاقی، حسرت کاس گنجوی، انعام الحق کوثر، احمد تنویر، اسمٰعیل میرٹھی (1844-1917)، ولی محمد نظیرؔ اکبر آبادی(1735-1830)، رام ریاض (1933-1990)، صوفی غلام مصطفی تبسم (1899-1978)، ہنری سٹیل کامگر (Henry Steele Commager)، پال ہیزرڈ(Paul Hazard) کی اُن گراں قدر خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جو یہ رجحان ساز ادیب بچوں کے ادب کے فروغ کے سلسلے میں انجام دیتے رہے۔ سیدمسعود احمد برکاتی کی بے ساختہ، بر محل اور حسِ مزاح سے لبریز گُل افشانی گفتار بچوں کو بہت پسند تھی۔ اپنی حاضر جوابی، جذبۂ ایثار، بذلہ سنجی، ظرافت اور خلوص و درد مندی سے وہ ہر ملاقاتی کا دِل موہ لیتے اور ان کے ساتھ طویل نشست سے بھی طبیعت نہ بھرتی اور تشنگی کا احساس موجود رہتا۔ کم سِن بچوں میں وہ گھُل مِل جاتے اور اُن کے ذوقِ سلیم کے مطابق دلچسپ اور سبق آموز کہانیاں اور لطیفے سُنا کر انھیں خوش کر دیتے تھے۔ وہ اس بات پر اصرار کرتے تھے کہ اگر پتھروں کی تراش خراش میں خلوص، دردمندی اور محبت سے کام لیا جائے تو ان کا مقدر بھی سنور سکتا ہے۔ کم سن بچوں کے لیے قابل مطالعہ اور اصلاحی نوعیت کا ادب تخلیق کرنا کوئی بازیچۂ اطفال نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اُمیدوں کے اس چمن کو خون دِل سے سینچنا پڑتا ہے۔ سال 1953میں ہمدرد دوا خانہ کراچی کے زیر اہتمام حکیم محمد سعید کی سر پرستی میں شائع ہونے والے بچوں کے ادبی مجلہ ’’ہمدرد نو نہال ‘‘کی ادارت سنبھال کر مسلسل پینسٹھ (65) برس روشنی کا سفر جاری رکھنے والے اس یگانۂ روزگار ادیب نے بچوں کے لیے بیس(20) کتب بھی لکھیں۔ یہ وہ اعزاز و امتیاز، حیران کن کرامت اور عدیم النظیر عالمی ریکارڈ ہے جس کا دنیا بھر میں مسعود احمد برکاتی کا کوئی شریک و سہیم نہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے سید مسعود احمد برکاتی نے طویل عرصہ تک مجلہ ہمدرد نو نہال کی ادارت کے فرائض انجام دئیے۔ اس عرصے میں بچوں کا یہ ادبی مجلہ کبھی تاخیر و تعطل کی زد میں نہ آیا۔ ہمدرد نو نہال کا ہر شمارہ بر وقت شائع ہوتا تھا اور بچے نہایت شدت کے ساتھ اس کا انتظار کرتے تھے۔ سید مسعود احمد برکاتی نے پیہم سات عشروں تک بچوں کے لیے ادب تخلیق کر کے ید بیضا کا معجزہ دکھایا۔
بر صغیر میں بچوں کے ادب کی تخلیق تاریخ کا ایک معتبر حوالہ ہے جس کی اہم کڑی پیسہ اخبار پریس، لاہور سے ملتی ہے۔ یہیں سے منشی محبوب عالم نے سال 1902میں ’’بچوں کا اخبار ‘‘ شائع کر کے بچوں کو اُمید فردا سے تعبیر کیا۔ رجحان ساز ادیب سید امتیاز علی تاج کے والد مولوی سید ممتاز علی نے 13۔ اکتوبر 1909کو لاہور سے بچوں کے مقبول ادبی مجلہ ’’پھول ‘‘کی داغ بیل ڈالی۔ تاریخی حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ نذر سجاد حیدر (1894-1977) بچوں کے ادبی مجلے ’’پھول ‘‘ کی پہلی مدیرہ کے منصب پر فائز ہوئیں اور بچوں کے رسالے ’’پھول ‘‘ کی بندش (1957) تک اس پر عزم خاتون نے مسلسل اڑتالیس برس یہ خدمات بہ طریق احسن انجام دیں۔ چشمِ بینا سے متمتع نذر سجاد حیدر نے سال 1905میں کُل ہند مسلم خواتین کانفرنس کے انعقاد کی رائے دی تا کہ معاشرتی زندگی میں مردوں کی زیادہ شادیوں، کم سن بچیوں کے بے جوڑ جبری بیاہ اور بے بس و لاچار عورتوں پر کوہِ ستم توڑنے والے شقی القلب درندوں کے انسانیت سوز مظالم کے خلاف احتجاج کیا جائے۔ بر صغیر میں تانیثیت کی علم بردار خواتین ڈاکٹر رشید جہاں (1905-1952) اور نذر سجاد حیدر نے نو آبادیاتی دور میں قارئین ادب میں عصری آ گہی پروان چڑھانے، ان میں مثبت شعور و آگہی کو مہمیز کرنے اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو صیقل کرنے کی جو مساعی کیں ان کی بنا پر تاریخ ہر دور میں اُن کے نام کی تعظیم کرے گی۔
سید مسعود احمد برکاتی کا خیال تھا کہ بچوں کو نصابی ضروریات کے تحت رسمی انداز میں تدریس ادب کے بجائے زندگی کے تمام معمولات، مطالعۂ ادب اور حاصل مطالعہ کے بارے میں سوالات پوچھنے اور تجسس کو شعار بنانا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ ہمدرد نو نہال میں شامل ادارتی کلمات کے بعد تربیتی اور اصلاحی مقاصد کے تحت جو مضامین شامل کیے جاتے تھے ان میں زیادہ تر مذہبی، علمی، ادبی، تاریخی مضامین شامل ہوتے تھے۔ ہمدرد نو نہال کے ہر شمارے میں شامل علمی اور ادبی تخلیقات سے یہ تاثر قوی ہو جاتا کہ سید مسعود احمد برکاتی نئی نسل کو کشتِ نو سے تعبیر کرتے جس کی جڑیں اپنے آباء و اجداد کی علمی میراث میں گڑی ہیں۔ اسی کے فیض سے نئی نسل زندگی کی تاب و تواں حاصل کر کے خزاں کے سیکڑوں مناظر میں بھی طلوع صبح بہاراں کے ایقان سے متمتع ہے۔ انھوں نے بچوں کے ادب کی اس روایت کو پروان چڑھایا جس کے ابتدائی نقوش سال 1902میں فکر و خیال کی دنیا میں نئی نسل کو ولولۂ تازہ عطا کرنے والے منشی محبوب عالم کے مجلے ’’بچوں کا اخبار ‘‘میں ملتے ہیں۔ تاریخی حقائق اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ نذر سجاد حیدر کا تعلق ایک ممتاز علمی و ادبی خاندان سے تھا اور وہ اپنے عہد میں اُردو زبان کی ممتاز ادیبہ تھیں۔ نذر سجاد حیدر کے خاندان کے بارے میں یہ جان لینا کافی ہے کہ وہ سید سجاد حیدر یلدرم کی اہلیہ اور قرۃ العین حیدر کی والدہ تھیں۔ نذر سجاد حیدر نے اپنی تصانیف ’’ہوائے چمن میں خیمۂ گُل‘‘، ’’جانباز ثریا ‘‘، ’’ مذہب اور عشق ‘‘ اور ’’نجمہ ‘‘ سے اُردو ادب کی ثروت میں جو گراں قدر اضافہ کیا وہ تاریخ ادب کا اہم باب ہے۔ بر صغیر پاک و ہند میں نو آبادیاتی دور میں دہلی سے سال 1926میں اشاعت کا آغاز کرنے والے بچوں کے ادبی مجلے ’’پیام تعلیم ‘‘کو بھی بہت پذیرائی مِلی۔ پس نو آبادیاتی دور میں پاکستان میں بچوں کے جو مجلات ذوقِ سلیم سے متمتع نئی نسل میں مقبول رہے ہیں ان میں۔ بچوں کے مقبول ادبی مجلہ ’’ غنچہ ‘‘ نے سال 1922میں بجنور (اتر پردیش، بھارت) سے اشاعت کا آغاز کیا۔ قیام پاکستان کے بعد ’’ غنچہ ‘‘ کراچی سے پھر کھِلنے لگا لیکن سال 1970میں سمے کے سم کے ثمر نے اسے مسل دیا۔ پس نو آبادیاتی دور میں پاکستان میں بچوں کے جو مجلات ذوقِ سلیم سے متمتع نئی نسل میں مقبول رہے ہیں ان میں آنکھ مچولی، اتالیق، اچھا ساتھی، اطفال ادب، امید فردا، انوکھی کہانیاں، بھائی جان، بچوں کی دنیا، پکھیرو، تعلیم و تربیت، ٹافی، جنت کا پھُول، چاند ستارے، چندا نگری، ساتھی، شاہین ڈائجسٹ، عزیز، غنچے اور کلیاں، کارٹون، کوثر، کلیم، کھلونا، گُل پھُول، گُل دستہ، گہوارہ، مِیٹی، معصوم، نکھار، نرالی دنیا، نُور اور ہلال شامل ہیں۔ بچوں کے اِن مجلات میں سے اکثر ابلقِ ایام کے سموں کی گرد میں اوجھل ہو کر تاریخ کے طوماروں میں دب گئے اور باقی بچ جانے والے بچوں کے گنتی کے ادبی مجلات پر سائبر ٹیکنالوجی اور برقی کتب کے موجودہ دور میں ایسی برق گری ہے کہ وہ بھی جان کنی کے عالم میں ہیں۔ سید مسعود احمد برکاتی کو اِس بات کا پختہ یقین تھا کہ ہر وہ مقام جہاں ہو نہار بچوں کا ہجوم ہو گا وہاں بے پایاں مسرتیں، راحتیں اور کامرانیاں ہمیشہ سایہ فگن رہیں گی۔ کم سِن بچوں سے ملتے وقت سید مسعود احمد برکاتی اپنی علمی فضیلت کا رعب و دبدبہ بالائے طاق رکھ دیتے اور اپنی کشت نو پر اپنی عطر بیز خوش اخلاقی، مسکراہٹوں اور شفقتوں کے سدا بہار پھول نچھاور کر کے ان کے دل جیت لیتے تھے۔
بچوں کے ادب کے ممتاز نقاد اور محقق پروفیسر ڈاکٹر نثار احمد قریشی نے پاکستان میں بچوں کے ادب کے فروغ کے لیے جو گراں قدر خدمات انجام دیں وہ تاریخ ادب میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ اُردو کے ممتاز شاعر صوفی غلام مصطفیٰ تبسم (1899-1978)ؔ کی شخصیت اور اُن کے اسلوب پر اُن کے معرکہ آرا تحقیقی کام میں بچوں کے اَدب پر ہونے والے کام کا تجزیاتی مطالعہ فکر و خیال کے نئے دریچے وا کرتا ہے۔ صوفی غلام مصطفیٰ تبسم نے بچوں کی دلچسپی کے لیے کئی انوکھے کردار تخلیق کیے ان میں ’’ٹوٹ بٹوٹ ‘‘ بہت مقبول ہوا۔ چند برس قبل جب ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی کتاب ’’ دنیا جن سے روشن ہے ‘‘ شائع ہوئی تو مسعود احمد برکاتی نے اس کتاب کے موضوعات کو بے حد سراہا اور اسے بچوں کے ادب کے ارتقا اور زندگی کی حقیقی معنویت کی تفہیم کے سلسلے میں سنگِ میل قرار دیا۔ اپنی اس کتاب میں ڈاکٹر نثار احمد قریشی نے اُن نابغۂ روزگار اساتذہ کے بارے میں لکھا ہے جن کے شاگرد اُفقِ علم و ادب پر مثل آفتاب و ماہتاب ضو فشاں رہے۔ اِس کتاب میں نئی نسل نے اپنے محسن اساتذہ کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ سید مسعود احمد برکاتی کا خیال تھا کہ اپنے اسلاف، محسنوں اور بزرگوں کو یاد رکھنا اور ان کی خدمات کا اعتراف کرنا نئی نسل کی سعادت مندی کی دلیل ہے۔ سید مسعود احمد برکاتی ہمیشہ اس کتاب کی مثال دے کر اپنے احباب کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے کہ دنیا بھر کی زندہ اقوام صدق دِل سے اپنے اساتذہ کی عزت و تکریم کو شعار بنا تی ہیں۔ ان کے یہ اقدامات انھیں نہ صرف اقوام عالم کی صف میں بل کہ انھیں خود اپنی نظروں میں بھی معزز و مفتخر کر دیتے ہیں۔ انگریزی زبان کے محقق اور نقاد پیٹر ہنٹ (Peter Hunt) کی سال 1999میں لندن سے شائع ہونے والی انگریزی زبان کی تصنیف ’ بچوں کے ادب کی تفہیم ‘ (Understanding Children’s Literature)کو وہ ایک اہم کتاب قرار دیتے تھے۔ ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی طرح سید مسعود احمد برکاتی کا بھی یہ خیال تھا کہ کارڈیف یونیورسٹی میں تدریسی خدمات پر مامور اس استاد نے دنیا کے مختلف ممالک کی ایک سو بیس ممتاز جامعات میں اپنے توسیعی لیکچرز میں بچوں کے ادب کے بارے میں حقائق کی جس عالمانہ انداز میں گرہ کشائی کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ پر وفیسر ڈاکٹر نثار احمد قریشی نے الا ظہر یونیورسٹی قاہرہ میں اپنے عرصۂ تدریس کے دوران میں عالمی ادبیات میں بچوں کے ادب کی اہمیت پر متعدد فکر پرور اور خیال افروز مقالات پیش کیے۔ سید مسعود احمد برکاتی کے ڈاکٹر نثار احمد قریشی کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔ دونوں دانش وروں کی دلی تمنا تھی کہ یہ بلند پایہ مقالات کتابی صورت میں پیش کیے جائیں۔ حیف صد حیف کہ ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی اچانک وفات کے باعث یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔ ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی وفات کوسید مسعود احمد برکاتی ایک بہت بڑے ادبی سانحہ اور ناقابل تلافی قومی نقصان سے تعبیر کرتے تھے۔
گزشتہ صدی کے آٹھویں عشرے میں پروفیسر ارشاد گرامی اور شبیر احمد اختر نے ٹوبہ ٹیک سنگھ سے طالب علموں کے لیے ادبی مجلے ’’ مشعل ‘‘ کی اشاعت کا آغاز کیا۔ کمالیہ میں مقیم اردو کے ذہین محقق اور نقاد محمد اسحاق ساقی کی طرح یہ دنوں ادیب مسعود احمد برکاتی کے بہت بڑے مداح اور معتقد تھے۔ معرفت اور فقر کی دنیا کا مکین درویش منش ادیب محمد اسحاق ساقی بھی اپنی ذات میں ایک انجمن تھا وہ کچھ بھی نہ کرتا تو کمال کر دیتا اور اپنی گل افشانی ٔ گفتار سے سب احباب کو نہال کر دیتا۔ مسعود احمد برکاتی کی مشاورت اور مجلہ مشعل کی مجلس ادارت کی محنت سے مختصر مدت میں یہ مجلہ اپنے عہد کا نمائندہ اور عصر آ گہی کا ترجمان بن کر اُبھرا۔ المیہ یہ ہوا کہ سیل زماں کے تھپیڑوں کی زد میں آنے کے بعد یہ سب سلسلے اچانک ختم ہو گئے۔ پروفیسر ارشاد گرامی کو دِل کا عارضہ زینۂ ہستی سے اُتار گیا اس کے بعد کسی اور مشعل کی وجہ سے شبیر احمد اختر کا دِل ہی درد کی صورت اختیار کر گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ دونوں ادیب جہاں سے اُٹھ گئے اور ان کے جانے کے بعد مجلہ ’’ مشعل‘‘ کا بھی کہیں اتا پتا نہ مِلا اور ہزاروں الم نصیب پس ماندگان کی پُر نم آنکھیں دیکھتی کی دیکھتی رہ گئیں۔ محمد اسحاق ساقی نے زندگی بھر سید مسعود احمد برکاتی سے معتبر ربط بر قرار رکھا۔ ایک ملاقات میں محمد اسحاق ساقی نے بتایا کہ ہر ملاقاتی کے ساتھ اخلاق اور اخلاق سے پیش آنا سید مسعود احمد برکاتی کا شیوہ تھا۔ پاکستان کے مختلف علاقوں سے مجلہ ’’ ہمدرد نو نہال ‘‘ کے لیے بھیجی جانے والی ہو نہار بچوں کی تخلیقات کی نوک پلک سنوار کر انھیں شائع کرنے میں وہ بہت انہماک کا مظاہرہ کرتے تھے۔ سید مسعود احمد برکاتی کی محنت، توجہ اور کاوشوں کے اعجاز سے ’’ہمدرد نو نہال‘‘ نے نو خیز اور با صلاحیت تخلیق کاروں کی ایک تربیتی درس گاہ کی صورت اختیار کر لی تھی جہاں نئے لکھنے والوں کو اظہار و ابلاغ کے بارے میں حقیقی شعور و آ گہی سے متمتع کیا جاتا تھا۔ وہ ہو نہار بچے جنھوں نے اس مجلے سے اپنے ادبی اور تخلیقی سفر کا آغاز کیا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انھوں نے شعر و ادب کی دنیا میں اس طرح رنگ جمایا کہ ہر سُو اپنی ادبی کامرانیوں کی دھاک بٹھا دی۔ سید مسعود احمد برکاتی نئے لکھنے والوں کو ہمیشہ یہی مشورہ دیتے تھے کہ کوئی ادب پارہ تخلیق کرنے کے بعد جذبۂ انسانیت نوازی سے سرشار کسی مقامی اُستاد سے اس پر اصلاح ضرور لے لیا کریں۔ جھنگ میں مختلف تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہو نہار بچے ’’ہمدرد نو نہال‘‘ کی مجلس ادارت کو اپنی تحریریں ارسال کرنے سے قبل جن اساتذہ سے فیض یاب ہوتے تھے ان میں غفار بابر، محمد فیروز شاہ، دیوان احمد الیاس نصیب، گدا حسین افضل، احمد بخش ناصر، عاشق حسین فائق، فیض محمد خان، عمر حیات بالی، حاجی حافظ محمد حیات، معین تابش، سجاد بخاری، مظفر علی ظفر، امیر اختر بھٹی، رام ریاض، مہر بشارت خان، سمیع اللہ قریشی اور مہر بشارت خان شامل ہیں۔
تراجم کو کسی بھی زبان کے ادبی سرمائے میں اضافے کا وسیلہ سمجھا جاتا ہے۔ تراجم کے ذریعے دو تہذیبوں کو قریب تر لایا جا سکتا ہے۔ سید مسعود احمد برکاتی نے تراجم کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی اور انھیں بچوں کے مجلہ ’’ہمدرد نو نہال‘‘ میں جگہ دی۔ سید مسعود احمد برکاتی کی تحریک پر مختلف اوقات میں بچوں کے لیے ادب تخلیق کرنے والے عالمی شہرت کے حامل جن ممتاز ادیبوں کی تحریریں بچوں کے مقبول ادبی مجلات کی زینت بنیں ان میں جیمز جوائس (James Joyce)، ای ای کمنگز(E. E. Cummings)، اپٹون سنکلیر(Upton Sinclair)، ارنسٹ ہیمنگوے (Ernest Hemingway)، الڈلس ہکسلے ( Aldous Huxley)، جون اپڈائک (John Updike)، امبرٹو ایکو(Umberto Eco)، ٹی ایس ایلیٹ ( T.S. Eliot)، گر ٹیوڈ سٹین(Gertrude Stein)، بیورلی کلیری(Beverly Cleary)شامل ہیں۔ احمد بخش ناصر نے بیورلی کلیری کی کتاب ’’Ramona and Her Mother ‘‘رامونہ اور اس کی ماں کو جب پنجابی زبان کے قالب میں ڈھالا تو لوک ورثہ اسلام آباد سے وابستہ معروف ادیب عبدالغفور درشن نے اس کاوش کو بہت سراہا۔ گدا حسین افضل اسی پنجابی ترجمے کو اردو زبان میں منتقل کرنے کے آرزو مند تھے مگر اجل کے بے رحم ہاتھوں نے ان سے قلم چھین لیا اور یہ منصوبہ تشنۂ تکمیل رہ گیا۔ نامور ماہر نفیسات حاجی حافظ محمد حیات کی تصنیف ’’ نور حیات ‘‘ شائع ہوئی تو سید مسعود احمد برکاتی نے اسے بچوں کی اخلاقی تربیت کے لیے بہت مفید قرار دیا۔ سید مسعود احمد برکاتی نے یہ بات واضح کر دی کہ اس عالم آب و گِل کے خلائی جہاز میں سوار رہ نوردانِ شوق کو یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ہمارے بچے ہی ہمارے مستقبل کے وارث ہیں۔ ان شاہین بچوں کو پُر اعتماد بنانے کے لیے ان کی خدا داد صلاحیتوں کو صیقل کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ اس طرح ان کے بال و پر قوی ہوں گے اور وہ عملی زندگی میں بلند پروازی پر مائل ہوں گے۔ ہونہار بچوں کی کشتِ جاں میں تخلیقِ ادب کا جو تخم سید مسعود احمد برکاتی نے بویا وہ اب نخل تناور بن چکا ہے۔ پاکستان کے ہر علاقے میں بچوں کے ادب میں گہری دلچسپی لی جا رہی ہے۔ سید مسعود احمد برکاتی کی یہ دلی تمنا تھی کہ بچوں کی تخلیقات سے محض بچے ہی حظ نہ اُٹھائیں بل کہ ہر عمر کے لوگ ان شاہیں بچوں کے تخیلات کی جولانیوں کا مشاہدہ کریں اور ان کا استحسان بھی کریں۔ انھوں نے یہ باور کرانے کی مقدور بھر کوشش کی کہ زندگی کو مستقبل کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ہر انسان کو جو پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ان میں روح اور قلب کی تسکین کا زیاں عبرت کا ساماں ہے۔ بچوں کے لیے خوابوں کی خیاباں سازیاں بہت اہم ہیں۔ یہ خواب ہی ہیں جو یاس و ہراس کے اعصاب شکن ماحول اور ہجوم غم کی ظلمتوں میں کامرانیوں کی نقیب صداقتوں کی جھلک دکھا کر جہد و عمل کی راہ دکھاتے ہیں۔ عملی زندگی میں بچوں کو یقین، اعتماد اور عزم کے ساتھ سرگرم عمل دیکھنے کا جو خواب سید مسعود احمد برکاتی نے دیکھا تھا اس کی تعبیر سامنے آ رہی ہے اور صحنِ چمن کے در و بام سے محبت سے لبریز ان کے پیغام کی باز گشت صاف سنائی دے رہی ہے۔ سید مسعود احمد برکاتی کی تخلیقی فعالیتیں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ ان کی تحریریں پڑھ کر بچے اپنے مستقبل کے خوابوں کی تعبیریں تلاش کریں گے۔ دُور افق سے سید مسعود احمد برکاتی اپنے دبنگ لہجے میں شاہین بچوں سے مخاطب ہو کر یہ پیغام دے رہے ہیں:
اِسے لمحے نہیں صدیاں سنیں گی
میری آواز کو محفوظ رکھنا
٭٭٭