ریلوے سٹیشن
جمیل اختر
"جناب یہ ریل گاڑی یہاں کیوں رکی ہے؟” جب ۵ منٹ انتظار کے بعد گاڑی نہ چلی تو میں نے ریلوے اسٹیشن پہ اترتے ہی ایک ٹکٹ چیکر سے یہ سوال کیا تھا۔۔۔
"او جناب پیچھے ایک جگہ مال گاڑی کا انجن خراب ہو گیا ہے اب اس گاڑی کا انجن اسے لے کے اس اسٹیشن آئے گا۔”
.اور کوئی متبادل حل نہیں ہے اس کے سوا۔۔۔۔۔”؟؟؟میں نے پوچھا
"نہیں جی یہی حل ہے۔۔۔” اس نے کہا
"کتنا وقت لگے گا؟؟؟” میں نے پریشان کن انداز میں سوال کیا تھا۔۔۔
"دو گھنٹے تو کہیں نہیں گئے۔۔۔۔”ٹکٹ چیکر نے کہا
دو گھنٹے ؟؟؟؟میں نے پریشانی میں لفظ دہرائے
دو گھنٹے اب اس سٹیشن پہ گزارنے تھے۔۔۔۔ اب مسافر گاڑی سے اتر کر پلیٹ فارم پر جمع ہونا شروع ہو گئے تھے۔ کچھ چائے کا آرڈر دے رہے تھے کچھ اور کھانے کا سامان خرید رہے تھے۔۔۔۔
راولپنڈی سے ملتان جاتے ہوئے راستے میں یہ ایک چھوٹا سا سٹیشن تھا۔۔۔۔ ایک عرصے بعد میں اس راستے سے گزرا تھا اور اس سٹیشن پر تو بہت ہی مدت بعد۔۔۔ شاید تیس سال بعد…
مجھے گورڈن کالج کے وہ دن یاد آ گئے جب میں ، صفدر اور احمد ملتان سے راولپنڈی پڑھنے آئے تھے۔۔۔ ان دنوں جب چھٹیوں میں گھر جاتے تو تقریباً ہر سٹیشن پر اترتے تھے۔ کیسے دن تھے نہ وقت کا پتہ چلتا نہ راستے کی کچھ خبر۔ ادھر راولپنڈی سے بیٹھے اور ادھر ملتان سٹیشن۔۔۔۔
میں جس بنچ بہ آج بیٹھا ہوں عین ممکن ہے اب سے تیس برس پہلے بھی کبھی بیٹھا ہوں ۔ ہوسکتا ہے بنچ تبدیل کر دیا گیا ہو۔مجھے ویسے ہی ایک خیال آیا. میں نے عمارت کی طرف دیکھا یہ وہی پرانی عمارت ہے۔۔۔میں نے شاید یہ عمارت پہلے دیکھ رکھی ہے.وقت کس تیزی سے گزرتا ہے آواز بھی نہیں ہوتی کسی بھی لمحے کو قید نہیں کیا جاسکتا۔ میں کراچی میں محکمہ ڈاک میں ملازم ہوں ۔ ایک سال بعد ریٹائر ہونا ہے, ایک کام کے سلسلے راولپنڈی آنا پڑا اب ملتان جا رہا ہوں کچھ روز وہاں رہ کہ کراچی جانے کا ارادہ ہے۔۔۔۔
میں نے گھڑی کی طرف دیکھا۔۔۔۔۔ انجن کو گئے ابھی صرف پندرہ منٹ ہوئے تھے۔۔۔۔۔۔ یہ وقت بھی عجیب ہے گزارنے پہ آؤ تو ایک پل نہیں گزرتا۔ انتظار وقت کو طویل کر دیتا ہے۔۔۔
"جناب تھوڑا ساتھ ہو کے بیٹھیں گے، میں نے بھی بیٹھنا ہے۔۔۔۔ ”
ایک بزرگ ہاتھ میں عصا لئیے کھڑے تھے۔۔۔ میرے ہم عمر ہی ہوں گے شاید….
.مجھے کچھ ناگوار گزرا لیکن میں تھوڑا سکڑ کر بنچ کے کونے میں بیٹھ گیا۔۔۔۔۔۔۔
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ وقت کے بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔۔۔ گزرے تو عمر گزر جائے نہ گزرے تو لمحہ صدیوں کی مثل ہو جائے۔۔۔۔۔
چائے والے کی دکان پہ رش کم ہوا تو مجھے بھی خیال آیا کہ اب چائے پینی چاہیے۔
"سنئے , محترم میری جگہ رکھئے گا میں چائے لے آؤں ۔۔۔۔”میں نے ان صاحب کو کہا
"اچھا”جواب ملا
"جناب ایک کپ چائے۔”میں نے چائے والے کو کہا۔۔۔
"جی بہتر”دکاندار نے کہا
چائے والے کو پیسے دیتے ہوئے میں نے اسے غور سے دیکھا ایسا لگا میں نے اسے پہلے بھی کہیں دیکھا ہو۔۔۔۔شاید اس کے والد یہ سٹال چلاتے ہوں انہیں دیکھا ہو۔۔۔۔
مجھے پوچھنا چاہئے اس کے والد کے بارے؟؟؟میں نے سوچا
میں چپ چاپ واپس بنچ پر آ کے بیٹھ گیا۔۔۔۔۔
مجھے ہر چیز دیکھی دیکھی کیوں لگ رہی ہے۔۔۔۔
میں نے گھڑی کی جانب دیکھا۔۔۔
ابھی بھی دو گھنٹے گزرنے میں ایک گھنٹہ رہتا تھا۔۔۔۔
میں چائے پیتے ہوئے پھر ماضی کے صفحات الٹنے لگا۔۔۔۔
"آپ کہیں جا رہے ہیں ۔۔۔”
ساتھ بیٹھے صاحب نے پھر یادوں کے سلسلے کو روکا۔۔۔۔۔
"جی ریلوے سٹیشن بر بیٹھے سب لوگ کہیں نہ کہیں جا ہی رہے ہوتے ہیں ۔۔۔”
میں نے کہا
"نہیں سب لوگ نہیں جا رہے ہوتے۔۔۔”ان صاحب نے جواب دیا
"اچھا۔۔۔”
میں نے مختصر جواب دیا اور ماضی کی ورق گردانی شروع کر دی۔۔۔۔
میں نے عمارت پر لکھے اسٹیشن کے نام کو بغور پڑھا۔۔۔۔۔یہ نام یہ نام کچھ سنا سنا سا تھا۔۔۔۔ سوچوں کا سلسلہ پھر گورڈن کالج کی طرف مڑ گیا تھا۔۔۔۔۔
کیسے کیسے ہم جماعت تھے کبھی کبھی سارا سارا دن اکھٹے گھومنا اور اب یہ حالت کہ نام تک یاد نہیں رہے۔ شکلیں بھی جو یاد ہیں وہ بھی دھندلی دھندلی۔۔۔۔
میں ، صفدر ، احمد اور ایک اور دوست بھی تھا جو ہمارا ہوسٹل میں روم میٹ تھا۔۔۔۔ اوہ ہا ں یاد آیا بشارت علی نام تھا اس کا۔۔۔ اور یہ سٹیشن۔۔۔۔ اب یہ گتھی سلجھی تھی۔۔ بشارت علی اسی اسٹیشن پر اترا کرتا تھا۔۔۔میں بھی کہوں مجھے سب دیکھا دیکھا کیوں لگ رہا ہے۔ اس سٹیشن کے پیچھے بنے ریلوے کوارٹرز میں اس کا گھر تھا۔
دماغ بھی عجیب ہے ابھی جس کا نام نہیں یاد آ رہا تھا اور ابھی اس کے ساتھ جڑی کئی یادیں ایک ساتھ دماغ کے کواڑوں پر دستک دینے لگی تھیں ۔۔۔
آپ کہاں جا رہے ہیں ؟؟؟ ان صاحب نے پھر سلسلہ منقطع کیا۔۔۔
"ملتان۔” مختصر جواب تھا میرا۔۔۔ میں نے ان سے پوچھ کر بات طویل نہیں کرنا چاہ رہاتھا۔
ہاں تو میں کہہ رہا تھا۔۔۔۔۔
کہ جب ہم چھٹیوں میں گھر واپسی کا سفر کرتے اور بشارت کا یہ اسٹیشن پہلے آتا اور گاڑی یہاں پانچ منٹ کے لئے رکتی، تو ہم چاروں ایک ساتھ اترتے اور بھاگتے ہوئے بشارت کے گھر تک جاتے۔ اور اسے اس کے گھر کے سامنے الوداع کہتے اور بھاگتے ہوئے واپس گاڑی تک آتے۔۔۔بعض دفعہ گاڑی رینگنا شروع کر دیتی تھی , لیکن ہم کسی نہ کسی طرح گاڑی میں سوار ہونے میں کامیاب ہو ہی جاتے. پھر بہت سے لوگ ہمیں ڈانٹتے کہ ایسا کرنا کتنا غلط تھا لیکن اگلی بار پھر یہی ہوتا۔۔۔۔
وقت کیسے بدل جاتا ہے اتنی تیزی سے۔۔۔۔ میں نے گھڑی کی طرف دیکھا۔۔۔۔ ابھی آدھا گھنٹہ مزید رہتا تھا۔۔۔
ہم تھرڈ ایئر میں تھے جب بشارت نے پڑھنا چھوڑ دیا تھا۔۔۔۔ معلوم نہیں ایسا اس نے کیوں کیا۔ وہ پڑھائی میں اچھا تھا پھر بھی جانے کیوں ایک روز اس نے ہم سب کو یہ فیصلہ سنا کر حیران کر دیا۔۔۔۔۔جانے اسے کونسی مجبوری نے آن گھیرا تھا۔ ہم نے اس سے اس وقت بھی نہیں پوچھا تھا اور بعد میں بھی نہ پوچھ سکے۔
ہم نے اسے کہا تھا کہ ہم اسے خط لکھا کریں گے اور گھر واپسی پر اس کے گھر ضرور بھاگتے ہوئے آیا کریں گے۔۔۔ اسے ضرور ہمارا انتظار کرنا چاہیے کہ ہم اچھے دوست ہیں ۔ ہمارا ایسا کہنے سے اسے کچھ اطمینان ہوا تھا۔ پھر اس کے بعد ہم نے بشارت ہو نہیں دیکھا…..
مجھے یا د ہے اس کے واپس جانے کے بعد ہم بہت اداس رہے تھے کچھ دن۔۔۔ پھر ہم مصروف ہو گئے۔۔۔۔
ہم بشارت کو بھول گئے اور ہم نے اسے کبھی خط نہ لکھا اس کے بعد ہم کبھی بھی اس اسٹیشن پر نہ اترے اور نہ بھاگ کہ اس کے گھر اس کی خیریت پوچھنے گئے۔۔ہم جا سکتے تھے لیکن معلوم نہیں ہم کیوں نہیں گئے۔۔۔۔
مجھے آج شدت سے یہ احساس ہوا کہ تین سال کی دوستی کا اختتام ایسے نہیں ہونا چاہئے تھا۔ ہمیں ضرور اس سے اس کے حالات پوچھنے چاہیے تھے۔۔۔ میں نے اسٹیشن سے پرے بنے ریلوے کوارٹرز کو دیکھا۔۔۔سب دیکھا دیکھا تھا۔۔۔۔ کیا اب بھی وہ یہاں رہتا ہوگا؟؟؟ مجھے جانا چاہئے تیس سال بعد ویسے ہی بھاگتے ہوئے؟؟؟؟
آپ غالباً راولپنڈی سے آرہے ہیں ؟؟؟؟ سلسلہ پھر روک دیا گیا۔۔۔
"جی ہاں میں راولپنڈی سے آ رہا ہوں ،ملتان جانا ہے اور کراچی میں کام کرتا ہوں ایک سال بعد ریٹائر ہونا ہے۔ "میں نے ایک سانس میں ساری داستان کہہ سنائی کہ اب مزید کوئی سوال نہ ہو۔۔۔
آپ شاید کچھ برا مان گئے میرے سوال پر؟؟؟؟
"نہیں ایسی کوئی بات نہیں ۔” میں نے کہا۔۔۔ اور گھڑی کی جانب دیکھا۔۔ وقت پورا تھا دور سے انجن کی آواز سنائی دی۔ انجن کے اسٹیشن پر پہنچنے اور اس گاڑی کے ساتھ منسلک ہونے میں پانچ منٹ تو لگ جانے تھے۔۔۔۔۔کیا مجھے بشارت کا پتہ کرنا چاہئے۔۔۔۔
میں اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔
آپ کہیں جا رہے ہیں ؟؟؟؟
"ہاں ۔۔۔۔ لیکن نہیں ۔۔۔۔” میں اب بھاگ کے نہیں جا سکتا تھا۔۔۔۔۔۔
مجھے ہمیشہ افسوس رہے گا کہ میں بشارت سے اس کے حالات نہ پوچھ سکا۔۔۔۔۔ مجھے آج سے پہلے ایسا کبھی خیال نہیں آیا تھا۔۔ اس سٹیشن پر بیٹھے بیٹھے نہ جانے مجھے کیا ہو گیا تھا۔۔۔۔ دل کیسا افسردہ ہو گیا تھا۔۔۔۔۔
انجن آگیا تھا۔۔۔ لوگ آہستہ آہستہ گاڑی پر سوار ہونے لگے تھے میں رش کم ہونے کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔۔
"آئیں نہ آپ بھی؟؟؟ میں نے ان صاحب سے پوچھا۔۔۔
"نہیں میں نے کہیں نہیں جانا۔۔۔ میں تو ویسے ہی روز اس وقت گاڑی دیکھنے آتا ہوں ۔۔۔۔۔ بس صاحب اب یہی ایک مصروفیت ہے۔۔۔”
تو آپ یہیں کے رہنے والے ہیں ؟؟؟؟
"جی ”
"آپ اس گاوں میں کسی بشارت کو جانتے ہیں ؟؟؟؟ میری اور آپ کے ہم عمر ہی ہوں گے”۔۔۔۔میں نے سوال کیا کہ شاید یہ بشارت کو جانتے ہوں
بزرگ نے غور سے میری طرف دیکھا
"آپ انہیں کیسے جانتے ہیں ؟؟؟”
"آپ یہ چھوڑیں آپ یہ بتائیں جانتے ہیں کیا؟؟؟”
"جی جانتا ہوں ۔۔۔”
"آپ یہ بتا سکتے ہیں وہ اب کیسے ہیں وہ میرے ساتھ پڑھتے تھے گورڈن کالج میں ۔میں نے ان سے پوچھنا تھا انہوں نے پڑھنا چھوڑ دیا تھا شاید حالات خراب ہو گئے ہوں ۔۔۔۔۔وہ اب کیسے ہیں ۔۔۔۔ہم انہیں خط نہ لکھ سکے شاید انہوں نے ہمارا اور ہمارے خط کا انتظار کیا ہو۔ مجھے معذرت کرنی تھی ان سے”
"کیا آپ بتا سکتے ہیں ۔۔۔۔۔”
تم کمال احمد ہو شاید؟؟؟؟؟ان صاحب نے مجھے بغور دیکھتے ہوئے کہا تھا
جی جی میں کمال احمد….لیکن آپ کیسے جان گئے کیا آپ ہی بشارت ہیں ؟؟؟
دیکھو گاڑی نکلنے والی ہے۔۔۔۔طویل سوالوں کے جواب مختصر وقت میں نہیں دئیے جا سکتے۔۔۔۔
خدا حافظ۔۔”
اور وہ صاحب اٹھے اور تیزی سے ریلوے سٹیشن سے باہر کے راستے پر چل دئیے۔۔۔
تیس سال بعد میں بھاگتے ہوئے گاڑی میں سوار ہوا تھا۔۔۔۔۔ ایک افسردگی اور پریشانی کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭٭
ریل کی سیٹی میں کیسے ہجر کی تہمید تھی
اُس کو رخصت کرکے گھر لَوٹے تو اندازہ ہُوا
انسانی زندگی میں بہت ساری چیزیں یادوں کے کینوس میں ایسے فٹ ہو جاتی ہیں کہ پھر وہ بھلائے نہیں بھولتی ۔ جمیل اختر صاحب آپ نے عمدہ کہانی لکھی ۔ آج ہمارے آفس سے ایک بندہ ایک سال گذار کر جا رہا ہے ۔ ڈیسک میں بیٹھے بیٹھے اس کے ساتھ گذارے ہوئے ایک ایک لمحات یاد آتے ہیں ۔ میں نے یہ کہانی اسے میل کیا ہے ۔ ڈیڈیکیٹ کرتے ہوئے اس کو ۔
Very nice 🙂
کویَ محرم نہیں ملتا جہاں میں
مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زباں میں
Jamil bhai, bohot khoob. 🙂
واہ بہت ھی کمال لکھا ھے سلامت رھیۓ
بہت عمدہ. اللہ پاک سلامت رکھے ایسا ھی اچھا اچھا لکھتے رہیے
wah Bhai,, Kya Baat
hai… <3
Excellent writing. Must appreciate
Sir Jameel,
Buhat Aalaa,,,,,Nice Work on urdu Adab,,,,,Kuch buhat purana yaad ata hai apka ye Afsana parhta ho jb bhi,,,Carry on with it.
سفرِ زیست میں کئی ریلوے اسٹیشن آتے ہیں اور کسی خاص اسٹیشن پر کسی نہ کسی مانوس کن مسافر کی رفاقت ہمسفر ہوتی ہے۔سفر خواہ کتنا مختصر کتنا طویل ہو مگر لمحہِ حاضر میں کتنے ارادے کتنے وعدے علیحدگی سے قبل زادِ راہ میں جوڑ لیے جاتے ہیں مگر نیا اسٹیشن آتے ہی نئے مسافر سوار ہوتے ہیں اور سابقہ ارادے اور وعدے منزل تک پہنچنے کی جلدی میں مسافروں کے ہجوم میں پلیٹ فارم کے رش میں کہیں کھو جاتے ہیں۔جب ریل گاڑی کبھی اسٹیشن پر انتظار کرواتی ہے تو مسافر فرصت پا کر زادِ راہ کا جائزہ لیتا ہے تو چھوٹی چھوٹی سی چیز بھی ذہن کے کواڑوں پر دستک دیتی ہے۔۔
زندگی کے زادِ راہ کے انہیں فراموش چیزوں کو نہایت عمدگی سے یاد و فکر کی سطح پر ابھارتا ہوا خوبصورت افسانہ۔۔
مصنف کو بہت ساری داد۔۔
Behtareeen…..bohat khoob
کیا عمدہ افسانہ ہے
بہت اچھا افسانہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔