روحوں کی دعوت ۔۔۔ الیگزنڈر پشکن/ مترجم نا معلوم

(مرسلہ: فرخ منظور)

 

آدریان پروخوروف کے گھر کا سارا ساز و سامان جنازہ لے جانے والی گاڑی پر لد چکا تھا۔ مریل گھوڑے چوتھی دفعہ بسمانیا سے نکتسکایا سڑک کی طرف چلے جہاں اس نے نیا مکان خریدا تھا۔ تابوت ساز نے دکان مقفل کر باہر دروازہ پر اس اعلان کی تختی لٹکا دی کہ گھر کرایہ یا فروخت کے لیے خالی ہے اور خود پیدل اپنے نئے گھر کی طرف چل پڑا۔

نئے مکان کی اسے مدت سے آرزو تھی اور اس نے بھاری رقم ادا کر کے خریدا تھا۔ مگر جب وہ نئے گھر کی پیلی دیواروں کے قریب پہنچا، تو اسے یہ محسوس کر کے بہت تعجب ہوا کہ اس کے دل میں ذرا خوشی نہ تھی۔ نئے گھر کی اجنبی دہلیز سے گزر کر اس نے دیکھا، سارا سامان ابھی تک گڈمڈ پڑا ہے۔ اس وقت اسے اپنا پرانا ٹوٹا پھوٹا مکان یاد آیا جہاں وہ اٹھارہ سال تک رہا تھا، جہاں ہر چیز قرینے سے لگی رہتی تھی۔

اس نے اپنی نوکرانی اور دونوں لڑکیوں کو سستی پر ڈانٹ پلائی اور خود گھر کی درستی میں ان کی مدد کرنے لگا۔ تھوڑی دیر میں ہر چیز قاعدے سے رکھ دی گئی۔ مقدس تصویریں، چینی کے برتنوں کی الماری، میز، صوفہ اور پلنگ پچھلے کمرے میں ترتیب سے لگ گئے۔ آدریان پروخوروف کے کام کا سامان یعنی مختلف قسم، رنگوں اور پیمائش کے تابوت، ماتمی لناس، ماتمی عبائیں اور دستاریں اور مشعلوں سے بھری ہوئی الماریاں باورچی خانے اور دالان میں رکھ دی گئیں۔ باہر دروازے پر تختی لٹکا دی گئی جس پر لکھا تھا ’’سادہ اور رنگین تابوت یہاں بنائے جاتے ہیں۔ نیز کرایہ پر ہر وقت مہیا کیے جا سکتے ہیں۔ پرانے تابوتوں کی مرمت کا بھی انتظام ہے۔‘‘ کام ختم ہوا، تو اس کی بیٹیاں اپنے کمرے میں چلی گئیں۔ نئے گھر کا معائنہ کرنے کے بعد وہ کھڑکی کے پاس بیٹھا اور سماوار گرم کرنے کا حکم دیا۔ شیکسپیئر اور سر والٹر اسکاٹ نے اپنی تصانیف میں گورکنوں کو بڑا خوش طبع اور زندہ دل دکھایا ہے۔ مگر ہمیں سچائی زیادہ عزیز ہے، اس لیے ہم ان کی تقلید نہیں کر سکتے۔ ہمارے تابوت ساز کی طبیعت اپنے منحوس پیشے کے بالکل مناسب تھی۔ آدریان پروخوروف بہت خاموش اور افسردہ مزاج آدمی تھا۔ اس کی خاموشی صرف دو دفعہ پر ٹوٹتی: ایک جب اسے اپنی بیٹیاں کھڑکی میں سے تاک جھانک کرتی نظر آتیں، تو انھیں ڈانٹنے پھٹکارنے کو اس کی زبان کھل جاتی۔ دوسرے جب اسے کسی بدنصیب (یا خوش نصیب) گاہک سے اپنی محنت کی زیادہ سے زیادہ اجرت وصول کرنی ہوتی۔

اس وقت بھی حسب معمول آدریان گم سم کھڑکی کے قریب بیٹھا اور چائے کی ساتویں پیالی پیتا اپنے افسردہ خیالات میں کھویا ہوا تھا۔ اسے وہ موسلادھار بارش یاد آئی جو پچھلے ہفتے ریٹائرڈ بریگیڈئیر کا جنازہ عین قبرستان پہنچتے ہی ہوئی تھی۔ پانی پڑنے سے کئی عبائیں سکڑ گئیں، ٹوپیوں کے پٹے تڑمڑ ہو گئے۔ اس کے ہاں سامان خاصا پرانا اور خستہ حالت میں تھا۔ اسے ڈر تھا کہ اب چیزیں ٹھیک کرانے میں کافی روپیہ خرچ ہو گا۔

اس نے سوچا، یہ نقصان سوداگر کی بوڑھی بیوہ تریوخینا کی تجہیز و تکفین سے پورا ہو جائے گا۔ وہ پچھلے سال سے گور میں پاؤں لٹکائے بیٹھی تھی۔ مگر مشکل یہ تھی کہ وہ محلہ رازگلیائی میں رہتی تھی جو وہاں سے کافی دور تھا۔ پروخوروف کو ڈر تھا کہ اس کے وارث وعدہ کرنے کے باوجود وقت پر اسے بھول جائیں گے۔ وہ کسی قریبی تابوت ساز سے معاملہ طے کر سکتے تھے۔

وہ اپنی سوچ میں گم تھا کہ دروازے پر کسی نے تین بار کمزور دستک دی۔ ’’کون ہے؟‘‘ آدریان نے چلا کر پوچھا۔

دروازہ، کھلا اور ایک آدمی جو جرمن کاریگر معلوم ہوتا تھا، کمرے میں داخل ہوا اور بشاش لہجے میں آدریان سے کہنے لگا ’’معاف کرنا ہمسائے‘‘ اس نے ٹوٹی پھوٹی روسی میں کہا۔ ’’اگر میری وجہ سے تمھارے کام میں ہرج ہوا تو معاف کرنا، مگر میں کئی دن سے تم سے ملنا چاہ رہا تھا۔ میں ایک موچی ہوں۔ میرا نام گوٹلب شلٹز ہے۔ تمھاری کھڑکی میں سے جو چھوٹا سا گھر نظر آتا ہے نا، میں اسی میں رہتا ہوں۔ کل میری شادی کی پچیسویں سالگرہ ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم اور تمھاری لڑکیاں آ کر ہمارے ہاں کھانا کھائیں۔‘‘

یہ دعوت خوش دلی سے قبول کر لی گئی۔ آدریان نے موچی کو بیٹھنے اور چائے پینے کا کہا۔ کچھ ہی دیر میں گوٹلب شلٹز کی سادہ اور پر خلوص طبیعت کی وجہ سے دونوں گھل مل کر باتیں کرنے لگے۔ آدریان نے پوچھا ’’سناؤ تمھارے کاروبار کا کیا حال ہے؟‘‘

’’شکر ہے، چل رہا ہے۔‘‘ شلٹز نے جواب دیا ’’اونچ نیچ تو ہمارے ہاں بھی ہوتی ہے مگر اس کی شکایت کیا؟ میرا کام تمھاری طرح کا نہیں کیونکہ زندہ آدمی بغیر جوتوں کے گزارہ کر سکتا ہے مگر مردہ بغیر تابوت کے نہیں رہ سکتا۔‘‘

’’بالکل ٹھیک، بالکل ٹھیک۔‘‘ آدریان نے اتفاق کرتے ہوئے کہا۔ ’’مگر ساتھ ساتھ یہ بھی تو ہے کہ زندہ آدمی کے پاس جوتے خریدنے کو دام نہ ہوں، تو وہ ننگے پاؤں پھر لے گا۔ مگر مردہ بھک منگوں کو مفت تابوت دینا پڑتا ہے۔‘‘

کچھ دیر یوں ہی بات چیت چلتی رہی۔ آخر موچی اٹھا اور جانے کی اجازت چاہی۔ چلتے چلتے ایک دفعہ پھر اپنے ہاں آنے کی یاد دہانی کرائی۔ اگلے دن دوپہر کے وقت آدریان اور اس کی بیٹیاں نئے مکان سے نکل کر پڑوسی کے گھر جانے کو روانہ ہوئیں۔ دونوں لڑکیاں زرد رنگ کی ٹوپیاں اور سرخ سلیپر پہنے ہوئے تھیں جو وہ خاص خاص مواقع پر پہنتیں۔

موچی کا ننھا سا کمرا مہمانوں سے کھچا کھچ بھرا تھا۔ ان میں زیادہ تر جرمن اہل ہنر، ان کی بیویاں اور شاگرد شامل تھے۔ صرف ایک روسی افسر تھا، پولیس کانسٹیبل یورکو۔ آدریان اس سے ملنے بڑھا، کیونکہ وہ جانتا تھا، جلد یا بدیر اسے کانسٹیبل کی مدد درکار ہو گی۔ جب مہمان میز پر بیٹھے، تو دونوں ایک دوسرے کے قریب تھے۔

شلٹز، اس کی بیوی اور سترہ سالہ لڑکی لوٹ خین مہمانوں کے ساتھ شریک طعام تھے اور کھانا پیش کرنے میں نوکروں کی مدد بھی کر رہے تھے۔ یورکو نے چار آدمیوں کے برابر کھایا۔ آدریان بھی کچھ پیچھے نہ تھا، مگر اس کی بیٹیاں بڑے تکلف سے کھا رہی تھیں۔ گفتگو زیادہ تر جرمن زبان میں ہو ئی۔ آوازیں بلند سے بلند ہوتی جا رہی تھیں کہ اتنے میں میزبان نے سب کو اپنی طرف متوجہ کر کے ایک بوتل کھولی اور پھر بہ آواز بلند روسی میں کہا ’’میری نیک شریک زندگی لوئیزا کا جام صحت!‘‘ ہلکے رنگ کا مشروب بوتل میں سے ابلنے لگا۔ مہمان خوشی خوشی نیک لوئیزا کا جام صحت پینے لگے۔

میزبان نے پھر دوسری بوتل کا کارک اڑاتے ہوئے کہا ’’اور یہ ہے میرے عزیز مہمانوں کا جام صحت!‘‘ مہمانوں نے شکریہ ادا کر کے گلاس پھر خالی کر دیے۔ اب کیا تھا، پے درپے جام صحت پیے جانے لگے۔ پہلے ہر مہمان کا جام صحت پیا گیا۔ پھر ماس کو شہر، پھر جرمنی کے چھوٹے چھوٹے درجن بھر غیر معروف شہروں، پھر ہر قسم کے کاروبار، پھر ہر کاریگر اور اس کے شاگرد کا۔ آدریان نے نہایت ایمانداری سے ہر دفعہ گلاس خالی کیا۔ آخر میں وہ نشے میں اتنا دھت ہو چکا تھا کہ ترنگ میں آ کر اپنا بھی ایک جام صحت تجویز کیا جو سب نے خوشی خوشی پیا۔

اتنے میں ایک مہمان نان بائی نے اپنا گلاس اٹھا کر پر جوش لہجے میں کہا ’’ان کا جام صحت جن کے لیے ہم کام کرتے ہیں یعنی ہمارے گاہکوں کے لیے!‘‘ یہ جام بھی اوروں کی طرح متفق طور پر جوش و خروش کے ساتھ پیا گیا۔ اب مہمانوں نے ایک دوسرے سے معانقہ شروع کیا۔ درزی نے موچی، موچی نے درزی، نان بائی نے ان دونوں سے، پھر سب لوگوں نے نان بائی اور یہ سلسلہ اس طرح چلتا رہا … ان باہمی معانقوں کے دوران یورکو نے تابوت ساز سے کہا ’’پڑوسی! تم اپنے مردوں کا جام صحت پیو نا؟‘‘

اس بات پر سب ہنس پڑے سوائے تابوت ساز کے جس نے غصے سے بھوئیں سکیڑ لیں۔ مگر سب پینے پلانے میں اتنے مشغول تھے کہ کسی نے اس کی طرف توجہ نہ دی۔ جب سب رخصت ہونے کے لیے اٹھے تو گرجا سے شام کے گھنٹوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ مہمانوں کے رخصت ہوتے ہوتے کافی دیر ہو گئی۔ سب نشے میں دھت تھے۔ موٹے نان بائی اور ایک جلد ساز نے جس کا چہرہ سرخ چمڑے میں مجلد معلوم ہوتا تھا، کانسٹیبل کو بغلوں میں ہاتھ دے کر اس کے ٹھکانے تک پہنچا یا۔ یوں روسی کہاوت کہ ’’قرض کی ادائیگی نعمت ہے‘‘ پوری کر دکھائی۔

تابوت ساز گھر پہنچا، تو ناراض اور جھنجھلایا ہوا تھا۔ ’’آخر یہ کیا بات ہے؟‘‘ اس نے بہ آواز بلند سوچتے ہوئے کہا ’’کہ اور سب پیشے تو قابل عزت ہیں، میرا پیشہ کس بات میں گھٹیا ہے؟ کیا تابوت ساز جلاد کا بھائی بند ہوتا ہے؟ آخر یہ غیر ملکی احمق جرمن کس بات پر ہنس رہے تھے؟ کیا ان کے خیال میں تابوت ساز احمق یا مسخرہ ہے؟ اور میں … میں سوچ رہا تھا کہ اپنے نئے گھر کی خوشی میں ہونے والی دعوت میں سب کو بلاؤں گا، مگر اب؟ اب نہیں … بس اب تو میں ان لوگوں کو بلاؤں گا جن کی میں خدمت کرتا ہوں یعنی لاشوں کو۔‘‘

’’جناب! یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟‘‘ اس کی نوکرانی نے اس کے جوتے اتارتے ہوئے کانپ کر کہا۔ ’’ذرا آپ سوچیے تو … خدا کے لیے اپنے پر صلیب کا نشان بنائیے۔ آپ مردوں کو اپنے گھر دعوت پر بلائیں گے؟ اف خدایا میری توبہ!‘‘

’’ہاں تو کیا ہوا؟ خدا گواہ میں ایسا ہی کروں گا۔‘‘ آدریان نے کہا ’’اور کل ہی بلاؤں گا! اے میرے محسنوں کی روحو! کل رات کا کھانا میرے ساتھ کھاؤ اور جو کچھ روکھا سوکھا میرے پاس ہے، اس میں شریک ہو کر میری عزت بڑھاؤ۔‘‘ یہ کہہ کرتا بوت ساز اپنے پلنگ پر لیٹ گیا۔ جلد ہی وہ خراٹے لینے لگا۔

٭٭

 

صبح کا اندھیرا پوری طرح غائب نہ ہوا تھا کہ آدریان کو اٹھنا پڑا۔ تاجر کی مالدار بیوہ تریوخینا رات کو چل بسی تھی۔ ایک آدمی گھوڑے پر سوار یہ خبر آدریان کو پہچانے آیا۔ تابوت ساز نے اسے دس کوپک انعام میں دیے اور خود عجلت میں کپڑے تبدیل کر کے گھوڑا گاڑی میں سوار راز گلیائی پہنچا۔ گھر کے دروازے پر پولیس کا پہرہ تھا۔ تاجر گدھوں کی طرح منڈلاتے ہوئے اِدھر اُدھر پھر رہے تھے۔ میت میز پر رکھی تھی۔ بے جان مومی چہرے کے نقش و نگار ابھی تک بگڑے نہ تھے۔ رشتے دار، پڑوسی اور نوکر چاکر چاروں طرف سے اسے گھیرے ہوئے تھے۔ ساری کھڑکیاں کھلی تھیں۔ اندر مومی شمعیں جل رہی تھیں اور پادری دعائے میت پڑھ رہے تھے۔

آدریان متوفیہ کے بھتیجے کے پاس گیا جو نہایت فیشن ایبل کوٹ میں ملبوس ایک نوجوان تاجر تھا۔ آدریان نے جا کر کہا کہ تابوت، شمعیں، تابوت برادر اور جنازے کے ساتھ دیگر ضرور اشیا جلد اچھی حالت میں مہیا کر دی جائیں گی۔ وارث نے بے خیالی کے ساتھ شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ مول تول کرنا نہیں چاہتا اور ہر بات اس کے ایمان پر چھوڑتا ہے۔

تابوت ساز نے حسب عادت قسم کھا کر کہا کہ وہ ایک کوپک زیادہ لینا بھی حرام سمجھتا ہے۔ اس نے پھر مختار خاص سے نظروں ہی نظروں میں کچھ طے کیا اور اپنے گھر آ کر تیاری میں مشغول ہو گیا۔ سارے دن وہ نکتسکی دروازے سے راز گلیائی تک پھیرے کرتا رہا۔ شام تک ہر چیز قاعدے کے مطابق وہاں پہنچ گئی۔ وہ کوچوان کو چھٹی دے کر اپنے گھر پیدل روانہ ہوا۔ چاندنی چھٹکی ہوئی تھی۔ تابوت ساز بخیریت نکتسکی دروازے تک پہنچ گیا۔ جب وہ گرجا کے پاس سے گزرا، تو یورکو نے ڈپٹ کر پوچھا ’’کون ہے؟‘‘ پھر تابوت ساز کو پہچان کر اسے شب بخیر کہا۔

رات زیادہ گزر چکی تھی۔ آدریان گھر کے قریب پہنچا، تو اسے ایسا لگا، کوئی چپکے سے اس کے دروازے میں غائب ہو گیا۔ ’’اس کا کیا مطلب؟‘‘ آدریان سخت حیران تھا۔ ’’اس وقت کس کو میری ضرورت ہو سکتی ہے؟ کیا خبر کوئی چور ڈاکو ہو؟ یا کہیں ایسا تو نہیں کہ کوئی میری احمق لڑکیوں کے پاس آیا ہو؟‘‘

اسے فوراً اپنے دوست یورکو کو مدد کے لیے بلانے کا خیال آیا۔ اتنے میں ایک اور آدمی دروازے کے قریب پہنچا۔ وہ اندر داخل ہونے ہی والا تھا کہ اس کی نظر آدریان پر پڑی جو تیزی سے گھر کی طرف آ رہا تھا۔ وہ ٹھہر گیا اور اپنی وردی کی ٹوپی سلام کے طور پر اٹھائی۔ آدریان کو اس کا چہرہ کچھ دیکھا بھالا معلوم ہوا۔ ’’آپ کو کیا مجھ سے ملنا ہے؟‘‘ اس نے تقریباً ہانپتے ہوئے سوال کیا۔ ’’اندر تشریف لے آئیے۔‘‘

’’تکلف کی ضرورت نہیں صاحب‘‘ اجنبی نے کھوکھلی آواز میں جواب دیا۔ ’’آپ پہلے تشریف لے چلیے اور اپنے مہمانوں کو راستہ دکھائیے۔‘‘ آدریان کو گھر پہنچنے کی اتنی جلدی تھی کہ اسے خود ہی تکلف گوارا نہ تھا۔ دروازہ کھلا ہوا تھا، وہ گھر کی سیڑھیوں تک پہنچ گیا اور اس کے پیچھے پیچھے دوسرا بھی … آدریان کو لگا کہ گھر میں کچھ لوگ اِدھر ادھر چل پھر رہے ہیں۔

’’لعنت خدا کی، آخر بات کیا ہے؟‘‘ اس نے تیزی سے اندر داخل ہوتے ہی سوچا اور … اس کے گھٹنے جواب دے گئے جب اس نے دیکھا کہ سارا کمرا لاشوں سے بھرا ہوا تھا۔

کھلی کھڑکی میں سے چاندنی ان کے سرد اور نیلگوں چہروں، دھنسے ہوئے دھانوں، دھندلی نیم وا آنکھوں، اور ستی ہوئی ناکوں پر پڑ رہی تھی۔ آدریان نے خوف زدہ نگاہوں سے ان لوگوں کو پہچانا جن کے کفن دفن میں اس نے مدد کی تھی۔ پیچھے آنے والا وہی فوجی افسر تھا جو پچھلے ہفتے موسلا دھار بارش میں دفن ہوا تھا۔ سب مرد اور عورتیں اس کے چاروں طرف جمع ہو گئے اور اسے سلام اور مبارک باد پیش کرنے لگے۔ سوائے ایک غریب کے جو چند ہی دن ہوئے مفت دفنایا گیا تھا۔ اسے قریب آنے کی جرأت نہ ہوئی، وہ کمرے کے کونے میں ایسی عاجزی سے کھڑا تھا جیسے اسے اپنے چیتھڑوں پر شرم آ رہی ہو۔

غریب کے سوا سبھی ڈھنگ کے لباس پہنے ہوئے تھے۔

خواتین ربن والی ٹوپیاں اوڑھے تھیں۔ فوجی افسر اپنی کرم خوردہ وردی میں تھے۔ سب کی حجامتیں بڑھی ہوئی تھیں۔ تاجر نہایت بڑھیا لباس میں ملبوس تھے۔ فوجی افسر نے سب کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا ’’پروخوروف! ہم سب لوگ تمھارے بلاوے پر اٹھ کر آئے ہیں۔ صرف وہ جو بالکل خاک در خاک ہو چکے یا محض ہڈیوں کا ڈھانچہ تھے اور اٹھنے سے معذور ہیں، نہیں آ سکے۔ مگر ان میں سے بھی ایک آنے کا اتنا خواہش مند تھا کہ نہ رک سکا … ‘‘ اس دوران ایک چھوٹا سا ڈھانچہ مجمع میں گھس کر راہ بناتا ہوا آدریان کی طرف آیا۔

اس کے بے رونق چہرے پر محبت بھری خوفناک مسکراہٹ طاری تھی۔ شوخ سبز اور سرخ رنگ کے کپڑے کی دھجیاں اس کے چاروں طرف اس طرح لٹک رہی تھیں جیسے وہ کوئی کھمبا ہو … ٹانگوں کی ہڈیاں اس طرح کھڑکھڑا رہی تھیں جیسے ہاون میں موسلی۔ ’’ارے پروخوروف! کیا تم مجھے نہیں پہچانتے؟‘‘ ڈھانچے نے کہا۔ ’’کیا تم ریٹائرڈ سارجنٹ پیوتر پترووچ کریل کن کو بھول گئے جس کے لیے تم نے پہلا تابوت بیچا تھا (جو تھا تو صنوبر کی لکڑی کا مگر تم نے بلوط کا کہہ کر دیا) ۱۸۹۹ء میں … ‘‘ ان الفاظ کے ساتھ ڈھانچے نے اپنے بازو بغل گیر ہونے کے لیے بڑھائے۔

آدریان نے پوری طاقت سے چیخ ماری اور اسے دھکا دے کر پرے کر دیا۔ پیوتر پترووچ جھوما اور ہڈیوں کا ڈھیر بن کر زمین پر آ رہا۔ لاشوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ سب اپنے ساتھی کی ہتک کا بدلہ لینے، کوسنے اور دھمکیاں دیتے آدریان کی طرف بڑھے۔ بد قسمت میزبان ان کی چیخوں سے تقریباً بہرا اور ان کے حملے سے اتنا بدحواس ہوا کہ بے ہوش ہو کر مرحوم سارجنٹ کی ہڈیوں کے ڈھیر پر گر پڑا۔

٭٭

 

سورج کی شعاعیں تابوت ساز کے پلنگ پر پڑ رہی تھیں۔ گرمی سے گھبرا کر اس نے آنکھیں کھولیں، تو خادمہ کو سماوار میں انگارے سلگانے میں مصروف پایا۔ آدریان کو گزشتہ رات کے خوفناک واقعات یاد آئے … تریوخینا، فوجی افسر اور سارجنٹ کریل کن ابھی تک اس کے تخیل میں دھندلے دھندلے سایوں کی طرح منڈلا رہے تھے۔ پہلے تو چپ چاپ انتظار کرتا رہا کہ شاید ملازمہ خود ہی بات چھیڑے اور رات والے واقعہ کا انجام بتائے۔

’’آدریان پروخوروچ جناب، آج آپ بہت دیر تک سوتے رہے۔‘‘ اکسینیا نے اسے لباس دیتے ہوئے کہا۔ ’’ہمارا پڑوسی درزی آپ سے ملنے آیا تھا اور پولیس کانسٹیبل یہ بتانے کہ آج پولیس انسپکٹر کی سالگرہ ہے۔ مگر آپ تو ایسے بے خبر سو رہے تھے کہ میرا جی نہ چاہا، آپ کی نیند خراب کریں۔‘‘

’’مرحومہ تریوخینا کے ہاں سے تو کوئی نہیں آیا؟‘‘

’’مرحومہ؟ یعنی کیا … کیا وہ مر گئیں؟‘‘

’’تم بھی کتنی احمق ہو۔ کیا کل تم نے ان کے کفن دفن کا سامان تیار کرنے میں میرا ہاتھ نہیں بٹایا تھا؟‘‘

’’آپ کا دماغ درست ہے جناب؟ یا ابھی تک رات کے نشے کا خمار باقی ہے؟ کل کس کا کفن دفن ہوا تھا؟ سارے دن تو آپ جرمن کے ہاں دعوت میں رہے۔ رات کو بالکل مدہوش واپس آئے۔ آتے ہی ایسے بے سدھ پلنگ پر پڑ گئے کہ اب جاگے ہیں … گرجا کے گھنٹے بھی بج بج کر خاموش ہو گئے۔‘‘

’’اچھا؟ سچ مچ؟‘‘ تابوت ساز نے اطمینان کی سانس لے کر کہا۔

’’سچ مچ نہیں تو کیا؟‘‘ ملازمہ نے جواب دیا۔

’’اگر ایسا ہے تو لاؤ چائے جلدی سے، اور میری بیٹیوں کو بھی بلا لاؤ۔‘‘

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے