ماہ نامہ ’’الحمرا‘‘ لاہور کے سالنامے جنوری 2013ء تا اپریل 2013ء کے شماروں میں ڈاکٹر جاوید اقبال کی خود نوشت سوانح حیات’’ اپنا گریباں چاک‘‘ کے تعلق سے مختلف اربابِ نظر کی آرا ء نظر سے گزریں تو اس خود نوشت کے مطالعے کا اشتیاق جاگا۔ میرے کرم فرما پروفیسر غازی علم الدین، (میرپور، آزاد کشمیر) نے از راہِ کرم پاکستان سے اپنے مطالعے کا نسخہ (اضافہ شدہ ایڈیشن اپنا گریباں چاک مطبوعہ مارچ 2006ء سنگ میل پبلی کیشنز لاہور) عنایت فرمایا۔ جس کے لیے میں ان کا بے حد ممنون ہوں ۔
ڈاکٹر جاوید اقبال کا ہائی کورٹ لاہور کے چیف جسٹس کے عہدے سے باسٹھ برس کی عمر میں 1986ء میں ریٹائر منٹ ہوتے ہی اسی روز سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے تقرر عمل میں آیا۔ انھوں نے ملک اور بیرون ملک کئی سمیناروں میں حصہ لیا۔ اتنے ممالک کا سرکاری سطح پر دورہ کیا کہ اقبال سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔
علامہ اقبال، نظام حیدرآباد آصف سابع میر عثمان علی خاں کے دورِ حکومت میں حیدرآباد دکن میں ہائی کورٹ کا جج بننا چاہتے تھے مگر یہ ممکن نہ ہوسکا مگر جاوید اقبال نے یہ کارنامہ انجام دیا کہ پاکستان کی عدالتِ عالیہ کے منصبِ جلیلہ سے وابستہ رہے۔
جاوید اقبال نے کئی بار عمرے کیے۔ حرمین شریفین کی زیارت سے مشرف ہوئے مگر اقبال یہ آرزو اپنے سینے میں لے کر اس دنیا سے گزر گئے اپنی ناکام آرزو کو انھوں نے جو شعری پیرایہ دیا ہے وہ یادگار بے مثال ہے۔
’’اپنا گریباں چاک‘‘‘ میں ڈاکٹر جاوید اقبال نے پاکستان اور بیرون پاک سیاسی صورتِ حال کا جو نقشہ کھینچا اس سے ان کی سیاسی بصیرت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف انھوں نے انتخابات میں حصہ لیا اور فرزند اقبال ہونے کے باوجود شکست کھائی۔ اس کے باوجود بھٹو نے انھیں اپنے ساتھ رکھا۔ اسی طرح یہ جنرل ضیاء الحق کے کڑاسلامی رویے سے نالاں تھے اس کے باوجود انھیں اہم اہم مواقع پر جنرل ضیاء الحق یاد فرمایا کرتے تھے اور ان سے مشورے طلب کرتے تھے۔ غرض ڈاکٹر جاوید اقبال نے بڑی کامیاب زندگی گزاری اور ان کے اپنے خیال میں یہ کامیابی انھوں نے اپنے بل پر اپنی قابلیتوں کے سہارے حاصل کی ہے۔ ان کی کامیابیوں میں اقبال کا کوئی حصہ نہیں ہے۔
جاوید اقبال کی پیدائش 1924ء کی ہے اور علامہ اقبال نے 1938ء میں وفات پائی۔ گویا جس وقت باپ کا انتقال ہوا بیٹا صرف چودہ برس کا تھا۔ ڈاکٹر جاوید نے بڑی صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے بعض انکشافات بھی کیے۔ کہتے ہیں :۔
’’ماہ رمضان میں گھر میں والدہ اور دیگر خواتین روزے رکھتیں اور قرآنِ شریف کی تلاوت کرتیں ۔ گھر کے ملازم بھی روزے رکھتے۔ البتہ میرے والد علامہ اقبال شاذو نادر ہی روزہ رکھتے تھے اور جب رکھتے تھے تو ہر چند گھنٹوں کے بعد علی بخش کو بلوا کر پوچھتے کہ افطاری میں کتنا وقت باقی ہے۔
گھر کی خواتین کو نماز پڑھتے دیکھنا مجھے یاد نہیں ۔ والد کو کبھی کبھار فجر کی نماز پڑھتے ضرور دیکھا ہے۔
جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے مجھے ماں باپ نے کبھی نماز پڑھنے یا روزہ رکھنے کے لیے مجبور نہیں کیا۔
مجھے نہانے سے سخت نفرت تھی لیکن عید کی شب گرم پانی سے والدہ نہلاتیں اور میں بڑے شوق سے نہاتا۔ صبح اٹھ کر نئے کپڑے پہنے جاتے۔
کلائی پر باندھنے کے لیے مجھے ایک سونے کی گھڑی دی جاتی جو افغانستان کے بادشاہ نادر شاہ نے مجھے تحفے کے طور پر بھیجی تھی۔
ایک دو مرتبہ والد اور والدہ کے ساتھ سیال کوٹ بھی گیا تھا۔ تب میرے دادا بقید حیات تھے۔ ۔ ۔ ان کا نام شیخ نور محمد تھا مگر شیخ نتھو کہلاتے تھے اس لیے کہ ان کی ولادت پر(ان کی) والدہ نے انھیں نا ک میں نتھ پہنا دی تھی۔ ان کی پیدائش سے پہلے ان کے والدین کے ہاں گیارہ لڑکے پیدا ہوئے مگر پیدا ہوتے ہی مر جایا کرتے تھے، صرف یہی بچے اور لمبی عمر پائی۔ آپ کسی مدرسے کے پڑھے ہوئے نہیں تھے‘‘‘
خود اپنی پیدائش کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں :
’’میری ولادت سے کچھ ماہ پیشتر میرے والد سر ہند تشریف لے گئے۔ شیخ احمد سر ہندی کے مزار پر حاضری دی اور دعا کی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے انھیں اولادِ نرینہ سے نوازا تو اسے ساتھ لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوں گے۔ چنانچہ جب میں تقریباً دس برس کا ہوا (۲۹ جون ۱۹۳۴ء تو مجھے ہمراہ لے کر سر ہند شیخ احمد کی بارگاہ میں حاضر ہوئے‘‘‘
جاوید اقبال کو لے کر مذکورہ مزار پر منت پوری کرنے کا ذکر علامہ اقبال کے ایک مکتوب میں بھی ملتا ہے جو ۱۹۳۴ء میں لکھا گیا تھا۔ گویا مرنے سے چار برس پہلے تک بھی وہ مزاروں پر حاضری کے قائل تھے۔
اپنی جنم پتری کے بارے میں ڈاکٹر جاوید اقبال نے لکھا :
’’میرے والد کے ایک ہندودوست راجہ سر نریندر ناتھ نے انھیں میری جنم پتری بنوانے کی صلاح دی اور اس سلسلے میں اپنی خدمات پیش کیں ۔ میرے والد نے میری ولادت کی تاریخ کے ساتھ، صحیح وقت کی تفصیل بھی انھیں مہیا کر دی۔ ۔ ۔
شاید جنم پتری یہ معلوم کرنے کے لیے بنوائی گئی کہ مستقبل میں ان کا بیٹا اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں کوئی نمایاں کردار ادا کرنے کے قابل ہوتا ہے یا نہیں ؟‘‘
آگے چل کر یہی بیٹا کہتا ہے :
’’میں تو اپنے سال ولادت یعنی 1924ء کو عالم اسلام کے لیے نہایت اہم سال سمجھتا ہوں کہ اسی سال ترکی میں خلافت یعنی مسلم سیاسی نظام میں مطلق العنانیت کے فرسودہ تصور کا خاتمہ ہوا‘‘
یہ وہی خلافت ہے جس کی بقا کے لیے مولانا محمد علی شوکت علی کے ساتھ ساری ملت نے تن من دھن کی بازی لگائی تھی اور گاندھی جی نے بھی ہم نوائی کی تھی۔ یہ وہی اقبال ہے جس نے کبھی کہا تھا۔
ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخیِ افلاک میں ہے خوار و زبوں
ڈاکٹر جاوید اقبال اپنی والدہ سردار بیگم کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ان کا انتقال ۲۳، مئی 1935ءکو بیالیس سال کی عمر میں ہوا جب وہ گیارہ سال کے اور ان کی بہن منیرہ پانچ سال کی تھیں ۔ مرنے سے پہلے سردار بیگم نے علامہ اقبال کی ایماء پر تھوڑے سے پس و پیش کے بعد جاوید منزل اپنے بیٹے جاوید کے نام ہبہ کر دی۔ علامہ اقبال نے ایک کرایہ نامہ تحریر کیا اور تین کمروں میں رہائش کا پیشگی کرایہ ہر ماہ کی اکیس تاریخ کو ادا کر دیا کرتے تھے۔
آگے چل کر حکومتِ پاکستان نے ’’جاوید منزل‘‘‘ منہ مانگے دام دے کر خرید لی اور جنرل ضیاء الحق کے حکم پر رقم ادا کر دی گئی اور اس میں اقبال میوزیم کا افتتاح بھی جنرل ضیاء الحق ہی نے کیا۔ جاوید منزل کی فروخت سے جو معقول رقم حاصل ہوئی اس سے ڈاکٹر جاوید اقبال نے ایک عالی شان مکا ن تعمیر کروایا جہاں اب وہ رہتے ہیں ۔ علامہ اقبال نے جو مکان اپنی بیوی کے نام پر تعمیر کیا تھا اور جسے انھوں نے جاوید کے نام ہبہ کروایا تھا وہی جاوید کے نئے مکان کی بنیاد بنا۔
علامہ اقبال کی پہلی بیوی سے دو بچے ہوئے آفتاب اقبال اور معراج بیگم( جو جوانی میں فوت ہو گئیں )۔ اس طرح شاید اقبال اپنی جائیداد کو پہلی بیوی کی اولاد سے محفوظ رکھنا چاہتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے اسے دوسری بیوی سردار بیگم (والدہ ء جاوید) کے نام پر خریدا اور پھر سر دار بیگم کے مرنے سے پہلے اسے جاوید کے نام ہبہ بھی کروا دیا تاکہ آگے چل کر کوئی مسئلہ ء وراثت کھڑا ہونے نہ پائے۔ ویسے شریعت کے مطابق باپ اپنے کسی بچے کو اپنی جائیداد سے بے دخل نہیں کرسکتا۔ علامہ اقبال اپنے بڑے بیٹے آفتاب اقبال سے نالاں ضرور تھے اور آفتاب نے بھی علامہ کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی۔ یہ تلخ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے۔
ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی خودنوشت سوانح کے تیرھویں باب میں علامہ اقبال کے نام ایک بہت ہی معلوماتی ’’دوسرا خط‘‘ لکھا ہے جس میں انھوں نے اپنے والد کے عقائد پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ مثلاً
۱۔ آپ (علامہ اقبال) کی رائے خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق قانون سازی کے حق میں ہے۔ ( صفحہ 282)
۲۔ آپ (اقبال) ایک سے زائد ازدواج (ازواج) کے امتناع کو شرعاً جائز قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ معاشرتی حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسلامی ریاست کا سربراہ کسی بھی قرآنی حکم یا اجازت کی تعویق، تحدید یا توسیع کرسکتا ہے۔ ( صفحہ 282)
۳۔ مولانا شبلی( نعمانی) کی طرح آپ (علامہ اقبال) مسلمانوں میں فری مارکیٹ اکانومی FREE MARKET ECONOMYکے فروغ کی خاطر بینکوں کے منافع کو ربوا (سود) کے زمرے میں نہیں لاتے۔ ( صفحہ 282)
۴۔ علامہ اقبال کے نزدیک جنت اور دوزخ مقامات نہیں بلکہ احوال یا کیفیات ہیں ۔ ۔ ۔ ( صفحہ 282)
۵۔ اقبال کے خیال میں تو جنت بھی مستقل عشرت کدہ یا مسلسل عیش و آرام کا کوئی مقام نہیں بلکہ انسان موت کے بعد اگر چاہے تو حیات کا تسلسل ختم کر کے ہمیشہ کے لیے نیست و نابود ہوسکتا ہے۔ ایسی روحانی خودکشی کا اسے اختیار ہے (صفحہ 318)۔
۶۔ علامہ اقبال کا قول ہے ’’بدی کی اپنی ایک تعلیمی حیثیت ہے، نیک لوگ عموماً بے وقوف ہوتے ہیں ‘‘‘(اپنی سادہ لوحی کے سبب)(صفحہ 254)
مخفی مباد نظام دکن آصف جاہ سابع میر عثمان علی خاں کے دورِ حکومت میں ایک تحصیلدار کی ماہانہ تنخواہ د س بارہ روپے (حالی )سے زیادہ نہیں ہوا کرتی تھی۔ خوش حالی کے اس دور میں اتنے مشاہرے میں وہ عیش کیا کرتا تھا۔ علا مہ اقبال کا اپنے بچوں کی آیا(گورنس )کو ماہانہ پچاس روپے تنخواہ دینا گویا حاتم کی قبر پر لات مار نا ہے۔ اپنی بیوی کے انتقال کے بعد علامہ اقبال نے اپنے بچوں کی نگہداشت کے لیے ایک جرمن خاتون ڈورسِ کو ماہانہ پچاس روپے پر اپنے گھر رکھا جن کی بہن علی گڑھ یونیورسٹی میں بیالوجی کے پروفیسر کی اہلیہ تھیں ۔ ان سے ملنے ڈورس آئی تھیں ۔ مگر پروفیسر رشید احمد صدیقی کی ترغیب پر وہ علامہ اقبال کے بچوں کی گورنس بن کر لاہور آ گئیں ۔ اس طرح اقبال کے گھر کا ماحول، رہن سہن مغربی انداز کا ہو گیا۔ بچے بہت خوش ہوئے۔ اقبال چونکہ جرمن زبان جانتے تھے وہ ڈورس سے جرمن ہی میں گفتگو کیا کرتے تھے۔ اپنی بیٹی منیرہ سے بھی کہتے تھے کہ جرمن زبان سیکھے۔
اقبال کے بھائی نے منیرہ کے لیے ایک چھوٹا سا برقع (غالباً مقنع) تحفتاً بھیجا تو ڈورسِ سخت غصے میں آئیں ۔ اقبال ہنس دیئے اور فرمایا
’’میرے بڑے بھائی نے یوں منیرہ کے لیے اپنی محبت کا اظہار کیا ہے۔ آپ ان کا تحفہ رکھ لیں ۔ ضروری نہیں کہ منیرہ یہ برقع (مقنع) اوڑھے اور میں تو یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ جب منیرہ بڑی ہو گی تو خواتین میں پردہ رہے گا بھی یا نہیں ‘‘‘۔
یہ غالباً مقنع تھا جو چھوٹی بچیوں کو بطورِ تربیت شرعی گھرانوں میں پہنا یا جاتا ہے۔ ڈاکٹر جاوید نے لکھا:
’’منیرہ کے لیے وہ ننھا سا برقع اچھا خاصہ تماشا تھا۔ وہ برقع پہنے گھر میں ادھر ادھر بھاگتی پھرتی۔ حتیٰ کہ اس بھاگ دوڑ میں برقع پھٹ کرنا کارہ ہو گیا۔ ‘‘‘
ڈورس کے بحیثیت گورنس تقرر سے پہلے کوئی مسلم خاتون بھی رجوع ہوئی تھیں مگر اُس برقع پوش خاتون کی شرط تھی کہ اقبال اس سے نکاح پڑھوا لیں مگر اقبال نے اسے ہنس کر ٹال دیا۔ جاوید اقبال لکھتے ہیں :
’’وہ نہایت رجعت پسند قسم کی مسلمان لگتی تھیں ۔ برقع پوش تھیں ۔ منیرہ نے انھیں دیکھتے ہی مسترد کر دیا تھا‘‘
غالباً وہ دیندار خاتون ایک غیر محرم کے ساتھ ایک ہی چھت کے تلے رہنے کا کوئی شرعی جواز چاہتی تھیں ۔ لیکن اقبال آخری عمر میں کوئی خطرہ مول لینا نہیں چاہتے تھے۔ مغربی تعلیم کے مدرسوں میں پڑھنے والے بچوں نے خود بھی اس خاتون کو رد کر دیا۔
وہ اقبال جس نے اکبر اعظم کی طرح ایک بزرگ کے مزار پر جا کر ایک بیٹے کے لیے منت مانگی اور منت پوری کرنے کے لیے اپنے بیٹے کو لے کر شیخ احمد سرہندی کے مزار پر حاضری بھی دی، وہ اقبال جس نے بچوں کی خاطر کوئی دوسرا نکاح نہیں کیا بلکہ تعدد ازدواج پر امتناع کو شرعاً جائزہ قرار دیا تھا، وہ اقبال جس نے ڈاکٹروں کے مشورے کے باوجود وی آنا (آسٹریا) جا کر اپنے گلے کی تکلیف کا علاج کروانا پسند نہیں کیا کہ اس طرح (اپنے علاج پر) روپیہ خرچ کر کے وہ اپنے بچوں کی آئندہ بہتر زندگی کا حق غصب کرنا نہیں چاہتا تھا بلکہ بھوپال کے نواب کی پیش کش قبول کر کے بجلی کے جھٹکوں کے ذریعے مفت علاج کرواتا رہا، وہ اقبال جو جاوید منزل کا مالک ہوتے ہوئے بھی، جاوید کو ہر ماہ پابندی سے کرایہ ادا کرتا تھا، وہ اقبال جو یہ چاہتا تھا کہ اس کا بیٹا باضابطہ DISCIPLINEDزندگی گزار کر سرخ رو ٹھیرے۔ ایسے صاحبِ ایثار باپ کے فرزند ڈاکٹر جاوید اقبال فرماتے ہیں :
’’والد کی وفات کے بعد میں ان کے نافذ کردہ ڈسپلن سے آزاد ہو گیا۔ جن باتوں سے انھوں نے منع کر رکھا تھا میں نے بڑی رغبت سے ان میں سے ہر ایک کو اپنایا۔ صحیح و غلط میں غلط۔ اور نیکی و بدی میں ۔ بدی کا رستہ منتخب کرنا بہتر سمجھا۔ اگر سرِ شام گھر میں موجود رہنے کا حکم تھا تو میں آدھی رات سے پہلے گھر میں قدم نہ رکھتا تھا۔ اگر سینما دیکھنا منع تھا تو ہر روز دو دو بلکہ تین تین شو دیکھتا۔ روز مرہ
کے باورچی خانے کا حساب لکھتے وقت پیسوں میں گھپلا کرتا۔ رنگ برنگی ریشمی قمیصیں ، مہنگے ولایتی بوٹ اور یورپی انداز کے سلے ہوئے سوٹ، نکٹائیاں ، اوورکوٹ، دستانے، اور فلٹ ہیٹ زیب تن کرتا، مئے نوشی، یورپی طرز کے رقص، اور رات کے کھانے کے لیے معروف جگہوں (پرجاتا)۔ ‘‘‘
اور تو اور جاوید اقبال کو بہت گراں گزرتا ہے جب لوگ انھیں علامہ اقبال کے حوالے سے یاد کرتے ہیں ۔ ان کی انا کو ٹھیس لگتی ہے۔ انہوں نے کتاب کے پیش لفظ میں صاف صاف لکھا:
’’میں عمر میں پاکستان سے بڑا ہوں ۔ میرے والد علامہ محمد اقبال ایک عظیم شاعر، فلسفی اور تصورِ پاکستان کے خالق سمجھے جاتے ہیں ۔ ان کے فرزند ہونے کی حیثیت سے زندگی کے مختلف ادوار میں میرا رد عمل مختلف رہا ہے۔
۔
بچپن میں باپ کے حوالے سے پہچانا گیا تو میں نے برا نہیں مانا کیونکہ مجھے علم ہی نہیں تھا کہ وہ کون ہیں اور کیا کرتے ہیں ۔
۔
جوان ہوا تب بھی باپ کے حوالے سے پہچانا گیا۔ یہ میرے لیے پد رم سلطان بود کی بناء پر فخر کا مقام تھا۔
۔
زندگی میں اچھا برا مقام پیدا کیا تب بھی باپ کے حوالے سے پہچانا گیا تو مجھے برا لگا۔ یہ میری ’’انا‘‘ کی نشوونما میں مداخلت تھی۔
۔
اب بوڑھا ہو چکا ہوں ، تب بھی باپ کے حوالے سے میری شناخت ہوتی ہے۔ عجیب اتفاق ہے میرے والد کے پرستاروں نے مجھے بڑا ہونے نہیں دیا۔ بہر حال میں نے کن حیلوں سے ایک بہت بڑے درخت کے سائے سے نکل کر اپنا مقام پیدا کرنے کی کوشش کی یہی میری داستانِ حیات ہے۔
علامہ اقبال سے تعلق کو بوجھ سمجھنے والے فرزند کے تعلیمی مدارج کا یہ حال ہے کہ ساتویں جماعت میں فیل، نویں جماعت میں فیل، ایف۔ اے تھرڈ کلاس پاس، بی۔ اے دوسرے درجے میں کامیاب، ایم۔ اے فیل، بار ایٹ لا فیل، (دونوں دوسری بار کامیاب) انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو کے بالمقابل ناکام۔
اتنی ناکامیوں کے باوجود وہ ہائی کورٹ کے جج بنائے گئے اور جس دن ریٹائر ہوئے اسی دن سپریم کورٹ کے جسٹس بنائے گئے۔ کیا میرٹ کی بنیاد پر یہ ممکن تھا علامہ اقبال کے فرزند ہونے کے ’’رعایتی نشانات‘‘ ہی تو ان کے کام آئے۔
پوری کتاب میں اپنے باپ کی اتنی تعریف نہیں جتنی ڈاکٹر جاوید اقبال اپنی بیوی ناصرہ کی شان میں کرتے ہیں یہاں تک کہ جاوید منزل کی( حکومت کے ہاتھ بیچ کر) حاصل شدہ رقم سے تعمیر کردہ دو منزلہ عمارت بھی ناصرہ بیگم کے نام ہبہ کر دی۔ حکومتِ برطانیہ نے اقبال کے فکرو فن کے اعتراف میں انھیں ’’سر‘‘ کے خطاب سے سرفراز فرمایا تھاجس کا ذکر ڈاکٹر جاوید نے کہیں نہیں کیا حالانکہ ٹیگور کی طرح اقبال نے سر کے خطاب سے دست برداری کا اعلان نہیں کیا تھا۔
جگن ناتھ آزاد کو سلام کرنے کو جی چاہتا ہے جنھیں نہ صرف علامہ اقبال کا تقریباً کلام حفظ تھا بلکہ وہ اقبال کے حوالے سے پہچانے جانے پر نازاں بھی تھے۔ ایسے وقت جب کہ ہندوستان میں اقبال کا نام لینا بھی جرم کے مماثل تھا، جگن ناتھ آزاد نے سرکاری سطح پر علامہ کی شاعرانہ حیثیت کا احساس کروایا۔ ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ کو ترانے کا درجہ دلایا جو آج بھی برقرار ہے۔ بہ ذاتِ خود وہ جیسے بھی شاعر رہے ہوں ، علامہ اقبال جیسے برگد کے زیرِ سایہ سانس لینے ہی میں زندگی سمجھتے تھے۔
علامہ اقبال کے پرستاراور ہم جلیس راجہ حسن اختر کے بیٹے محمود اختر کیانی کی اقبال سے عقیدت کا یہ حال تھا کہ وہ انھیں اپنا تایا سمجھتے تھے اور اگر کوئی ناہنجار کسی بھی سطح پر اقبال کے خلاف کسی قسم کی تنقید کرتا تو مرنے مارنے پر تیار ہو جاتے۔ (گھنگھرو ٹوٹ گئے۔ قتیل شفائی)
’’اقبال کی خامیاں ‘‘‘ تلاش کرنے والے لبھو رام جوش ملسیانی کی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ وہ کتابچہ اپنے نام سے شائع کروائے تاہم جس کا دنداں شکن جواب شمس الرحمن فاروقی نے دیا۔ کشمیر کے ڈاکٹر بشیر احمد نحوی سے لے کر جنوبی ہند کے سید احمد ایثار، بہادر یار جنگ، مضطر مجاز اور رؤف خیر تک اقبال کے چاہنے والوں کا ایک قافلہ ہے جو رواں دواں ہے۔ میرا تو خیال ہے کہ علامہ اقبال سے پہلے بھی کوئی ’’خدائے سخن‘‘‘ نہیں اور اقبال کے بعد شاعری کا دعویٰ کرنا، نبوت کا دعویٰ کرنے کے برابر ہے، زیادہ سے زیادہ اولیائے غزل اور اوصیائے نظم ہوسکتے ہیں۔
٭٭٭