حریف وصال ۔۔۔ حمایت علی شاعر

عجیب شب تھی

جو ایک پل میں سمٹ گئی تھی

عجیب پل تھا

جو سال ہا سال کی مسافت پہ پرفشاں اس کے سائے میں ایک موسم ٹھہر گیا تھا

(کسی کے دل میں تھا کیا کسی کو خبر نہیں تھی)

بس ایک عالم سپردگی کا

بس ایک دریائے تشنگی تھا کہ جس کی موجیں

امڈ امڈ کر بکھر رہی تھیں

کھلے سمندر میں ڈوب جانے کی آرزو میں مچل رہی تھیں

خیال حسن خیال میں گم

نگاہ خواب جمال میں گم

نہ جانے کس خواب کی یہ تعبیر تھی کہ آنکھوں میں جاگتی تھی

نہ جانے کس آرزو کی تکمیل ہو رہی تھی

کہ آنکھ سے آنکھ

لب سے لب محو گفتگو تھے

مگر بس اک بات معتبر تھی

کسی کے دل میں تھا کیا کسی کو خبر نہیں تھی

وہ لمحہ گزرا کہ سحر ٹوٹا

یکا یک احساس عمر جاگا

ہر ایک چہرہ خود اپنی آنکھوں میں آئینہ ہو گیا ہو جیسے

طلسم سم سم سے جس خزانے کا در کھلا تھا

وہ یک بہ یک کھو گیا ہو جیسے

عجیب تھا ایک چور دل میں

جو اس خزانے کا پاسباں تھا

جو سائے کی طرح درمیاں تھا

تقاضۂ ماہ و سال تھا وہ؟

کہ دل کی گہرائیوں میں بے دار

کوئی خوف مآل تھا وہ؟

عجیب سا اک خیال تھا وہ

ہجوم جذبات میں در آیا تھا جو حریف وصال بن کر

جو دل کی دھڑکن میں رک گیا تھا ضمیر کا اک سوال بن کر

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے