وہ کنوار ی تھی مگر حاملہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایسی حاملہ جسے آج دن تک کسی نا مِحرم نے آنکھ اُٹھا کر اور مِحرم نے اوڑھنی کے بغیر نہ دیکھا پھر بھی وہ کنواری تھی اور حاملہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اِس بات کی خبر اُس بوڑھی ماں کو بھی نہ ہو سکی جس کے ساتھ رات کچھ فُٹ کی دوری پر وہ بستر ڈال کر سویا کرتی۔
اُس کی زندگی کے ماہ وسال پہاڑی پتھروں سے نکلتی انگور کی بیل کی ماند تھے جس پر کچے اور سبز دانے اپنی فطرت کے مطابق جوان ہوتے اور پھر پَکتے، پَکتے اور پَکتے جاتے۔
جب اُنہیں کو ئی اُتارنے ‘ توڑنے ‘ یا کھا نے والا میسر نہ آتا تو اتنا پَک جا تے کہ اُن میں سے رَس ٹپکنے لگتا اور اُس کی جوانی بھی غربت کی بیل پر اِتنی پَک چکی تھی کہ اَب اُس میں سے رَس نکل نکل کر ٹپکنا شروع ہو چکا تھا۔
وہ درمیانے نین نقش والی لڑ کی تھی۔ تعلیمی مدارج احسن طریقے سے طے کرنے کے بعد ایک سالہ سلائی کڑ ھائی کا کورس کر ڈالا۔
زندگی کے پُل پر وہ اِن شوخ اور دیدہ زیب لباس کے ساتھ اکیلے ہی آدھا سفر طے کر چکی تھی اور پُل کے نیچے پھیلا معاشی تنگی اور لڑکوں کی قحط کا لئی خطرے کے نشان سے اُوپر آ چکا تھا۔
گھر بیٹھے بیٹھے اُس کے اندر کی سیم اُس کے جسم اور کپڑوں پر اُترنے لگی اور وہ جسم اور کپڑوں کے خیال سے لاپرواہ ہوتی گئی۔
وہ وقت دُور نہ تھا کہ اُس کے بدن کی دیوار پر پھِری سفیدی، گھٹن اور سیم کے ٹکڑو ں کی شَکل میں اُتر اُتر کر گرتی پھر اُس نے گھر کے صحن میں محلے کے بچوں کو ٹیوشن دینا شروع کر دی۔
دوپہر ہوتے ہی بچے اپنے بھاری بھر کم بَستوں کے ساتھ آنا شروع ہو جاتے اور شام ڈھلے گھروں کو وا پس پلٹ جا تے۔
اُس کی دوستوں میں سے ایک وہ تھی۔ جو بڑی کپتی تھی۔ بولتی تو بولتی جاتی۔ ہنستی تو ہنستی جاتی۔ غصہ ہوتی تو پاس پڑی چیزیں اور کتابیں اُ ٹھا اُ ٹھا کر پھینکتی اور مَارتی۔ اُسی کا اب اُس کے گھر آنا جانا باقی تھا۔
وہ بھی زندگی کے پُل پر آدھے سے کچھ اُوپر کا سفر اکیلے طے کر چکی تھی لیکن وہ چاہتی تھی باقی کا سفر کسی کی ہمراہی میں طے کرئے۔ اور یہ اُس کا حق بھی تھا۔ مگر لئی جو معاشی تنگی اور لڑکوں کی قحط کا شکار تھا۔ اُس کے لئے جبر بن چکا تھا۔
اُسی نے ثمینہ کو اُن آوازوں کے متعلق بتا یا جن سے وہ پچھلے کچھ عرصے سے مخاطب تھی۔
وہ گھنٹوں اُن سے باتیں کرتیں، خود بہکتی، دل کو بہلاتی، اور اندر کے آتش کدے کو ٹھنڈا کرتی۔
ایک شام آسمان پر بادل جمع تھے ہلکی ہلکی میٹھی ہو ا جسموں کے کھُلے پُوروں میں داخل ہو کر لطافت پیدا کر رہی تھی۔ چھت پر پڑے گلاب، موتیا، اور نیاز بُو مہکنے اور خوشبو دینے لگے با رش کی پھُوار خوشبو دار پودوں کے پتوں پر جمی گرد ا ور آلودگی صاف کرنے لگی۔ صاف ستھر ے پتے، ٹہنیاں اور پھُول ایک نئے وجود کی طرح ظاہر ہونے لگے۔
وہ بھی کسی ایسی ہی با رش کی منتظر تھی۔ جو اُس کے جسم کی ضرورتوں اور خواہشوں کی گرد کو جبر کی ندی میں بَہا دے۔
پھر اُسے اپنی دوست ا ور اُس سے مطلقہ آوازیں اور اُن سے منسوب باتیں یاد آنے لگیں۔ کتنی دلفریب، میٹھی اور شیریں باتیں تھیں۔ جب وہ اُسے گھر آ کے سناتی تو اِس کی َرگوں میں ٹھہرا ہوا حَبس کا موسم کسی خوشگوار احسا س کے ساتھ چلنا شروع ہو جا تا۔
وہ پچھلے چند لمحوں سے چھت کی مغربی دیوار پر تھوڑی رکھے نیچے کھلے پلاٹ میں لڑکوں کو بارش میں بھیگتا اور کرکٹ کھیلتا دیکھ رہی تھی۔ اُنہیں میں سے ایک وہ بھی تھا جو اُس کی آنکھ کی پُتلی میں آ بیٹھا تھا اور باقی کے اُس کے پیچھے دھندلے اور غیر نمایاں ہوتے گئے۔
وہ بلے با ز تھا جس کی بارش سے بھیگی ہوئی شرٹ ورزشی جسم کے ساتھ چمٹی جا رہی تھی۔ اُس کے کاندھے، سینے اور بازوؤں کے کَٹ بڑے واضح اور نمایا ں تھے۔
اُس نے ایک اُونچا شاٹ کھیلا اور گیند اُس کے چھت پر آ پڑی۔ اُس نوجوان کی آنکھیں ہوا کو کاٹتی ہوئی گیند کے تعاقب میں اُس سے ٹکرائی۔
اور یہ لمحہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بس۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہ کچھ دنوں بعد کی بات ہے جب سورج اپنے جسم کی آگ زمین کے باسیوں پر برسا رہا تھا شام وہ چھت پر بالٹی پانی کی بھر لائی اور مَگے کی مدد سے ایک ایک کر کے وہ چھت پر رکھے خشک پُودوں کو پانی ڈالنے لگی۔ پانی ڈالتے وقت اُسے احساس گزرا کہ سَدا بہار اور موتیا کے پودے کئی دنوں سے اُس کی طرح پیاسے اور خشک تھے۔ زخم حیات اور رات کی رانی کے گملوں کی مٹی اُس کے خیالات کی طرح سخت اور پتھریلی ہو چکی تھی اور کوارگندل کے سبز اور اُوپر کو اُٹھے پتے پیلے، نرم اور نیچے کو ڈھلک چکے تھے۔
کسی خیال کے مسمریزم میں وہ دیوار سے نیچے جھانکنے لگی۔ جہاں کچھ دن پہلے وہ بلے باز کسی منجھے ہوئے کھلاڑی کی طرح ہوا میں گیند اُچھالتا تھا۔
وہ اپنے خیالات کے گملے کی سخت مٹی کو جذبات اور احساسات کی گوڈی سے نرم کرنے لگی۔
ایک دن بیٹھے بیٹھے اُسے اپنی دوست کی بات یاد آئی۔ وہ کہتی تھی تم بھی اِن آوازوں کو مخاطب کر سکتی ہو۔ اپنی زندگی کی اندھیری شاہراہ پر چلتے ہوئے ہاتھ میں پکڑے ہم کلام کے جگنوؤں کو روشن کرسکتی ہو۔
مگر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ کیسے اِن نامحرم آوازوں سے ہم آواز ہو سکتی تھی۔ اُس کے دماغ کے سینے پر غیرت نام کی اوڑھنی اُس کی ماں کی جانب سے لپٹی تھی۔
وہ اِن میں آوازوں کے چھید کیسے لگا سکتی تھی؟
پھر۔ ۔ ۔
اُس کی دوست نے اُس کی اوڑھنی میں اِنہیں آوازوں کے کئی چھید خاموشی اور کبھی اَلھڑبازی میں لگا دئے۔
اور وہ نوجوان بلے باز کو ذہن میں رکھ کر اُن آوازوں سے ہم کلام ہونا شروع ہو گی۔ ایسی سریلی اور مدھر باتیں جو کانوں کے پیالوں میں اَمرت گھول دیں۔ جن کے سحر میں راتیں بیت جائیں اور دن چڑھ جائے۔ شروع شروع کے حجا با ت آہستہ آہستہ بے حجابی میں بدلتے گئے۔
وہ برہنہ باتیں جو بَغل میں لیٹی انجان ماں سے ہو تی ہوئیں۔ بیٹی کے کَان میں جاتیں ‘کَان سے دِل، دِل سے دماغ، دماغ سے جسم اور جسم سے رحم میں جا کر ٹھہر جاتیں۔
اُس کا تمام بدن پسینے سے تر بتر ہو جاتا۔ سانس کسی بدکے ہوئے گھوڑے کی مانند بھاگتا، جسم سورج میں پڑے لوہے کی طرح تپتا۔ یہ عمل کئی لمحوں تک جا ری رہتا۔ پھر آوازیں معدوم ہو نا شروع ہو جاتیں۔ جسم ڈھیلا پڑنے لگتا۔ منہ اور خشک ہوتے ہونٹ پانی کی طلب کرتے اور دماغ پر غنودگی چھانے لگتی۔
ساتھ بستر پر خراٹے بَھرتی مَاں جس کی کنواری بیٹی ہر رات اُس کی موجودگی میں کئی آوازوں سے جسمانی ملاپ کرتی اور وہ بے خبر جو بیٹی کو چار دیواری میں ڈال کر مطمئن تھی۔
وقت گزرتا گیا۔ اُس کے رحم کا لئی خطرے کے نشان سے اُوپر آ گیا۔ وہ کنواری آنکھوں کے گرد حلقے ڈالے سارا سارا دِن چارپائی پر پڑی رہتی۔
یہ اُس دِن کی بات ہے کہ جب ایک دوپہر اُس کی ماں نے آ کر خبر دی کہ اُس کی اکلوتی دوست پچھلی رات گھر سے غائب ہے۔ یہ اُس کے لئے پریشان کن بات نہ تھی۔ اُسے معلوم تھا کہ وہ کچھ عرصے سے ایک آواز کے تعاقب میں تھی۔ اور وہ آواز اُس کے تعاقب میں، وہ اپنا حق لینا جانتی تھی۔ زمانے سے، لوگوں سے، گھر والوں سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اُسی رات جب چاند ہلکی نیلی روشنی اُس کے چہرے پر پھینک رہا تھا اور وہ اپنے کمرے کی اکلوتی کھڑکی سے گورکھ دھندہ نما گلیوں میں آنکھ سے آوارہ گردی میں مشغول تھی تو اندھیرے میں اُنہیں آوازوں کا ہجوم اُس کی جانب بڑھنے لگا اور اُسے پہلی بار محسوس ہوا کہ یہ ننگی آوازیں رات کے اس پہر شہر کے گلی کوچوں میں بے ترتیب تھُور زدہ مکانوں میں مقیم لڑکیوں کے جسم کے ساتھ دیمک کی مانند چمٹی ہیں۔
٭٭٭