رات ہوئی اور نیل گگن سے
اندھیاروں کے بادل اترے
کھن سے ’چاند پلنگڑی‘ ٹوٹی
بادل کی ’جل گگری‘ پھوٹی
آنگن پار کھلے چھجوں سے
سن، سن، سن، سن پچھوا گزری
جھر جھر جھر جھر بارش برسی
زینے نے بھی ٹانگ بھگوئی
کمرے کی چھت پھوٹ کے روئی
دیواروں سے اترا گارا
آناً فاناً بھیگ چلا تھا
بستر، برساتی، گلیارا
کھاٹ کی ادوائن پہ گچھم گچھا
لیٹ کے رات بتائی
صبح سویرے صحن میں آئی
صحن میں نیم کی پرلی جانب
آم کے چنچل پیڑ کے نیچے
ریتلی مٹی اور کیچل میں
مردہ کوئل ڈھیر پڑی تھی
اور آندھی کا جھانپڑ کھا کے
ٹپکے کا اک آم گرا تھا
٭٭٭