تہذیب ۔۔۔ ہری شنکر پرسائی/حسان خان

ہندی کہانی

 

بھوکا آدمی سڑک کنارے کراہ رہا تھا۔ ایک سخی آدمی روٹی لے کر اس کے پاس پہنچا اور اسے دے ہی بھوکا آدمی سڑک کنارے کراہ رہا تھا۔ ایک سخی آدمی روٹی لے کر اس کے پاس پہنچا اور اسے دے ہی رہا تھا کہ ایک دوسرے آدمی نے اس کا ہاتھ کھینچ لیا۔ وہ آدمی بڑا رنگین تھا۔

پہلے آدمی نے پوچھا، ’’کیوں بھائی، بھوکے کو کھانا کیوں نہیں دینے دیتے؟‘‘

رنگین آدمی بولا، ’’ٹھہرو، تم اس طرح اُس کا فائدہ نہیں کر سکتے۔ تم صرف اُس کے تن کی بھوک سمجھ پاتے ہو، میں اُسکی روح کی بھوک جانتا ہوں۔ دیکھتے نہیں ہو، انسانی جسم میں پیٹ نیچے ہے اور دل اوپر۔ دل کی زیادہ اہمیت ہے۔‘‘

پہلا آدمی بولا، ’’لیکن اُس کا دل پیٹ پر ہی ٹکا ہوا ہے۔ اگر پیٹ میں کھانا نہیں گیا تو دل کی ٹک ٹک بند نہیں ہو جائے گی؟‘‘

رنگین آدمی ہنسا، پھر بولا، ’’دیکھو، میں بتلاتا ہوں کہ اُس کی بھوک کیسے بجھے گی!‘‘

یہ کہہ کر وہ اُس بھوکے کے سامنے بانسری بجانے لگا۔ دوسرے نے پوچھا، ’’یہ تم کیا کر رہے ہو، اِس سے کیا ہو گا؟‘‘

رنگین آدمی بولا، ’’میں اُسے تہذیب کا راگ سنا رہا ہوں۔ تمہاری روٹی سے تو ایک دن کے لیے ہی اُس کی بھوک بھاگے گی، تہذیب کے راگ سے اُس کی جنم جنم کی بھوک بھاگے گی۔‘‘

وہ پھر بانسری بجانے لگا۔

اور تب وہ بھوکا اٹھا اور بانسری جھپٹ کر پاس کی نالی میں پھینک دی۔

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے