بھول بھلیاں ۔۔ اقبال حسن آزاد

بھول بھلیاں

 

               اقبال حسن آزاد

 

 

 

اگر اسے بھول جانے کا مرض لاحق نہ ہوتا تو زندگی کس قدر دشوار ہو جاتی۔     وہ کوئی کمپیوٹر تو نہیں کہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی باتوں کی تفصیل اور سانسوں کی آمد و شد کا ڈاٹا رکھتا پھرے۔ اچھا ہی ہے کہ اسے بھول جانے کی بیماری ہے ورنہ اس بے رنگ زندگی میں رکھا ہی کیا ہے۔ اسی بھول بھلیاں میں گھومتے گھامتے ایک دن ایسا آئے گا کہ وہ سانس لینا بھول جائے گا اور پھر…..

بھول جانے کا یہ مرض بہت پرانا تھا۔ بچپن میں وہ کبھی کوئی کتاب اسکول لے جانا بھول جاتا ، کبھی پنسل ، کبھی ربر اور اسکول میں اسے مار لگتی مگر گھر آتے آتے وہ یہ بھی بھول جاتا کہ اسکول میں اسے ٹیچر نے مارا ہے۔ بھول جانے کی شکایت جب اس کی ماں کے کانوں میں پہنچی تو وہ اس کے اسکول جانے سے قبل اس کے اسکول بیگ کو خوب ا چھی طرح چیک کر لیا کرتی اور گھر کے کونے کونے سے اس کی بکھری ہوئی چیزیں سمیٹ کر بیگ میں رکھ دیا کرتی۔     جب وہ کچھ اور بڑا ہوا اور بازار جانے کے لائق ہو گیا تب بھی اس کی ماں اس سے سودا منگوانے سے گریز کرتی تھی کہ اسے معلوم تھا کہ وہ کچھ نہ کچھ بھول آئے گا۔ کبھی دکان پر کوئی سامان بھول جاتا اور کبھی دکاندار سے بقیہ پیسے لینا بھول جاتا۔     بھول جانے کے مرض کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہوئے پتہ نہیں کیسے وہ ہر سال پاس کرتا گیا۔ وہ تو یونیورسٹی میں آنے کے بعد جب اس نے سگمنڈ فرائڈ کی کتابوں کا مطالعہ کیا تب اسے معلوم ہوا کہ انسانی ذہن کے تین خانے ہوتے ہیں ۔ شعور، لا شعور اور تحت الشعور۔ جو شے انسان کے لئے سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے وہ ہمیشہ اس کے شعور میں محفوظ رہتی ہے۔ کم اہمیت والی باتیں لا شعور میں چلی جاتی ہیں اور کبھی کبھی کسی موقع پر شعور کی سطح پر ابھر آتی ہیں اور انسان کو بھولی ہوئی بات یاد آ جاتی ہے اور جس شے کی اہمیت نہیں کے برابر ہوتی ہے وہ تحت الشعور میں چلی جاتی ہے۔ سر کاری دفتروں میں ہر سطح کی فائلیں موجود رہتی ہیں ۔ پہلی سطح کی فائل میز پر رہتی ہے ، دوسری سطح کی الماری میں اور تیسری سطح کی آفس کے گودام میں ۔

اس کا شہر بہت چھوٹا تھا۔ شہر کیا بس ایک قصبہ تھا۔ اسی لئے جب اس نے اسکول کی تعلیم مکمل کر لی تو اس کی بیوہ ماں نے اسے اعلیٰ تعلیم کے لئے بڑے شہر بھیج دیا اور خود چھوٹی بیٹی کے ساتھ آبائی مکان میں رہ گئی۔ کالج کا ایک سال ختم ہوتے ہوتے وہ اسکول کے تمام ساتھیوں کے نام اور چہرے بھول چکا تھا۔

ایک دن جوبلی مارکیٹ میں اس کا ایک ہم عمر اس سے آ ٹکرایا۔

”ارے منصور! کیسے ہو یار ؟”

وہ ٹھٹھک گیا۔ مخاطب کے چہرے پر ایک شناسا مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ اس نے ذہن پر بہت زور ڈالا مگر اسے یہ یاد نہ آسکا کہ اجنبی کون ہے۔ وہ اجنبی چہرہ پوچھ رہا تھا۔

”گھر جاتے ہو یا نہیں ؟”

”گھر…..گھر۔۔۔۔ تو میں ہر مہینے جاتا ہوں ۔ ”

”کبھی ملاقات نہیں ہوتی ہے۔ گھر آؤ تو پرانے دوستوں سے بھی مل لیا کرو۔ ”

اب گھر جانے کے بعد پرانے دوستوں سے ملنے کا وقت ہی کہاں تھا۔ سنیچر کی شام کو گھر پہنچتا اور سوموار کو تڑکے گھر سے نکل پڑتا۔ جب تک وہ گھر میں رہتا ، ماں کے پاس بیٹھا رہتا۔ کبھی اس کا سر دباتا کبھی پیر۔ کبھی اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ مل کر کچن میں ماں کا ہاتھ بٹا تا۔ ماں کہتی بیٹا ذرا باہر گھوم آؤ تو وہ کہتا ، نہیں ماں میں تو بس تم سے ملنے آ تا ہوں ۔     وہ اجنبی چہرہ گھر کا تذکرہ کر کے بھیڑ میں کہیں گم ہو چکا تھا۔ اسے بڑی شدت کے ساتھ ماں کی یاد ستانے لگی۔ چلو ماں سے ملتے ہیں ۔ اس کے قدم اسٹیشن جانے والی سڑک پر ہو لئے۔ دور سے اسٹیشن دکھائی دینے لگا تو اس کے قدم کچھ اور تیز ہو گئے۔ کہیں گاڑی چھوٹ نہ جائے۔ اسے لگا جیسے اس کی ماں اسے آواز دے رہی ہے۔ اگر ماں نہ ہوتی تو ؟ماں ہے تو سب کچھ ہے۔ اسٹیشن کے پاس پھر کوئی اس سے ٹکرایا۔

”کہاں جا رہے ہو منصور ؟”

”گھر؟ ”

”گھر…..مگر اس وقت تو وہاں کی کوئی گاڑی نہیں ہے اور پھر تمہارا سامان کہاں ہے۔ ؟”

”سامان…..؟” ایں …..وہ ایسے ہی چلا آیا اور کہنے والے نے اس سے کیا کہا۔ اس وقت اس کے شہر کی کوئی گاڑی بھی نہیں جاتی۔ دھت تیری کے۔ ”

وہ واپسی کے لئے مڑ گیا۔     شہر کی شام کتنی دلفریب ہوتی ہے۔ جی چاہتا ہے بس یونہی بے مقصد سڑکوں پر مارے مارے پھریں ۔ ہر طرف زندگی جگ مگ ، جگ مگ کرتی نظر آتی ہے۔ جگمگاتی شاہراہوں سے گزرتے ہوئے ایک سنیما ہال پر نظر پڑی تو خیال آیا چلو پکچر دیکھتے ہیں ۔ وہ ٹکٹ لے کر اندر داخل ہوا۔ مار دھاڑ سے بھر پور فلم تھی۔ اسے بڑا مزا آ رہا تھا۔ بلکہ اسے تو اتنا زیادہ مزا آیا کہ پتہ ہی نہ چلا کہ کب انٹرول ہو گیا۔

جب ہال کی روشنیاں جل اٹھیں اور بہت سارے لوگ سگریٹ پینے یا اپنے اپنے شانوں کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے ہال سے باہر نکلنے لگے تو اس کے دل میں بھی سگریٹ پینے کی خواہش پیدا ہوئی۔ وہ باہر نکلا۔ ایک دکان سے سگریٹ خریدا اور اسے سلگا کر بھری پری سڑک پر نکل آیا۔ وہ بھول چکا تھا کہ ابھی ابھی وہ پکچر دیکھ رہا تھا اور ابھی آدھی فلم دیکھنی باقی تھی۔ البتہ اسے یہ یاد رہا کہ ماں سے ملنے جانا ہے اور اگر نہ جا سکا تو ایک خط ضرور لکھ دے گا۔

دوسرے دن گیارہ بجے کے آ س پاس وہ پوسٹ کارڈ خریدنے پوسٹ آفس پہنچا تو پوسٹ آفس بند تھا۔ اس نے حیرت سے پوسٹ آفس کے گیٹ پر لگے ہوئے تالے کو دیکھا اور ایک راہ گیر سے پوچھ بیٹھا۔ ”آج پوسٹ آفس کیوں بند ہے ؟”

”کیوں کہ آ ج اتوار ہے۔ ”راہ گیر جواب دے کر آگے بڑھ گیا اور وہ اپنی یادداشت کو کوستا ہوا واپس ہو لیا۔     کبھی کبھی وہ سوچتا کہ کیا اس کا دماغ اتنا چھوٹا ہے کہ اس میں بہت ساری یادوں کی سمائی مشکل ہے یا پھر باتیں اس کے دماغ سے پھسل پھسل کر باہر نکل پڑتی ہیں ۔ اماں کے پاس ہوتا تو وہ اسے ذرا ذرا سی بات یاد دلاتی رہتیں مگر یہاں …..شکر ہے کہ اس کی اس دھوکہ دینے والی یادداشت کا اثر اس کی تعلیم پر نہیں پڑا تھا۔ ورنہ ساری زندگی اسی چکر ویو میں گزر جاتی۔ اور تب تو گزارا اور بھی مشکل ہو جاتا۔     جب اس کی تعلیم ختم ہو گئی اور نوکر ی بھی مل گئی تو اس کی ماں کو اس کا گھر بسانے کی فکر ہوئی۔ وہ ابھی شادی کرنا نہیں چاہ رہا تھا۔ وہ تو بس ماں کی خدمت کرتے رہنا چاہتا تھا مگر ماں کی ضد کے آگے اس نے ہتھیار ڈال دئے۔ بہن کی نسبت پہلے سے طے تھی۔ دونوں کی شادی ساتھ ساتھ ہو گئی۔ بیٹی گئی تو بہو آ گئی۔ بیوی کو ماں کے پاس چھوڑ کر وہ شہر چلا گیا۔ ماں کی یاد ستاتی تو گھر آتا اور دیکھتا کہ ماں کے علاوہ اس کی بیوی بھی اس کی راہ دیکھ رہی ہے۔     اور جب اس کی بیوی کے سر کا آنچل سرک کر کاندھے پر آ گیا…..

بار حیا سے جھکی ہوئی نگاہیں پوری طرح کھل گئیں …..

اور منہ میں خاموش بیٹھی زبان بولنے لگی تو اس کی ماں نے اسے مشورہ دیا کہ اب وہ اپنی بیوی کو بھی اپنے ہمراہ شہر لے جائے تاکہ وہ ہوٹل کا کچا پکا کھانا کھا کر بیمار ہونے سے محفوظ رہے۔ سو وہ اپنی بیوی کو بھی شہر لے آیا۔     شروع شروع میں ا س کی بیوی کو اس کے بھول جانے کے مرض سے بڑی الجھن ہوتی۔ وہ سمجھتی کہ اس کا شوہر جان بوجھ کر اس کی فرمائشوں کو ٹال جاتا ہے اور پھر بھول جانے کی ایکٹنگ کرتا ہے۔ مگر جب اسے یقین ہو گیا کہ اس کے شوہر کو سچ مچ بھول جانے کا مرض ہے تو پھر اس نے اپنا رویہ بدل دیا۔ اب وہ اہم بات کو اس کی ڈائری میں نوٹ کر دیا کرتی اور دن میں تین چار بار آفس فون کر کے اسے ضروری باتیں یاد دلاتی رہتی۔ دھیرے دھیرے اس کی بیوی اسے چیزوں کو یاد رکھنے کے طریقے سکھانے لگی۔ ساتھ ہی ساتھ اس نے اس کی غذا میں ایسے اجزاء بھی شامل کرنے شروع کر دئے جن سے انسان کی یادداشت تیز ہوتی ہے۔ وہ اس کے لئے بادام کا حلوہ اور میتھی کا لڈو بناتی۔ وہ چاہتی تھی کہ اس کا شوہر ہمیشہ اس بات کو یاد رکھے کہ یہ عورت جو اس کے لئے کھانا بناتی ہے ، اس کے کپڑے دھوتی ہے اور اس کے ساتھ سوتی ہے وہ اس کی بیوی ہے اور گھر میں جو دو چھوٹے چھوٹے بچے ہیں وہ اسی کے ہیں ۔ ان باتوں سے اس کی یادداشت پر کیا اثر پڑا یہ تو نہیں معلوم البتہ وہ دن بیوی کا دست نگر ہوتا گیا۔ قدم قدم پر اسے بیوی کی ضرورت پڑنے لگی۔    اب وہ اس کی بصارت تھی …..    اس کی سماعت تھی …..    اس کی یادداشت کی امین تھی …..    اور اس کی زندگی کا سہارا تھی۔ اب وہ اپنی ماں کو بھول چکا تھا۔ چھوٹی بہن کو بھول چکا تھا۔ ماں اور بہن دونوں کہیں تحت الشعور میں جا کر سو رہی تھیں ۔

پھر جیسے زمین کروٹ بدلتی ہے۔ نیچے کی چیزیں اوپر آ جاتی ہیں اور اوپر کی چیزیں نیچے چلی جاتی ہیں ، ایسی ہی الٹ پلٹ اس کے ذہن میں بھی ہونے لگی۔ زندگی کے چالیس پڑاؤ پار کرتے کرتے اسے اپنے اندر ایک عجیب سی تبدیلی کا احساس ہوا۔ سامنے کی باتیں تو وہ اب بھی بھول جایا کرتا تھا مگر بچپن کی یادیں تحت الشعور سے نکل کر شعور کی سطح پر روشن ہونے لگی تھیں ۔ اسے اپنا شہر ، اپنا اسکول ، اسکول کے ساتھی ، گھر ، چھوٹی بہن ، ماں سبھوں کی یاد آنے لگی۔     ماں …..ماں کو تو وہ بالکل ہی بھلا بیٹھا تھا۔ ایک زمانے سے اس نے ماں کو کوئی خط بھی نہیں لکھا تھا نہ ہی اسے پیسے بھیجے تھے۔ پتہ نہیں ماں کس حال میں ہو گی۔ ماں کی یاد اس کے حواس پر ، پر پھیلا کر بیٹھ رہی۔ چلو ماں کو دیکھ آتے ہیں ۔ خفا تو ضرور ہوگی مگر آخر کو ماں ہے۔ دیکھے گی تو سینے سے لگا لے گی۔ مگر بیوی کو اپنے ارادے کے بارے میں بتانا مناسب نہ ہوگا۔ اسے یاد آنے لگا۔ بیوی کو شہر لانے کے بعد پہلے پہل جب وہ ماں سے ملنے کا ارادہ کرتا تو اس کی بیوی کسی نہ کسی بہانے اسے وہاں جانے سے روک دیتی۔ ایک دفعہ جب اس نے گھر جانے کا مصمم ارادہ کر لیا تھا اور اپنا سامان بھی پیک کر لیا تھا تو اس کی بیوی نے اس کے پیسے چھپا دئے تھے تا کہ وہ اپنی ماں سے ملنے نہ جا سکے۔ یہ بات اسے بڑی نا گوار گزری تھی ، مگر جلد ہی وہ اس واقعہ کو بھول گیا تھا۔ مگر اس بار ایسا نہیں ہو گا۔ وہ اپنی بیوی سے کہے گا کہ اسے آفس کے کام کے سلسلے میں کسی دوسرے شہر جانا ہے اور وہ چپکے سے جا کر ماں سے مل آئے گا۔     گاڑی میں سوار ہونے کے بعد راستے بھر وہ ماں کو یاد کرتا رہا تھا۔ چند گھنٹوں کا سفر اسے مہینوں کی مسافت معلوم ہو رہا تھا۔ گاڑی کسی اسٹیشن پر رکتی تو اسے بے چینی محسوس ہونے لگتی۔ رکتے چلتے جب گاڑی اس کے شہر کے اسٹیشن پر پہنچی تو شام کجلا رہی تھی۔ اس نے ایک رکشہ لیا۔ ایک ایک شے جانی پہچانی تھی۔ اسٹیشن سے نکل کر چھوٹا سا بازار ، اس کے آگے بڑا سا میدان۔ میدان کے بعد اس کا اسکول ، اسکول کے بغل میں تالاب اور تالاب کے پہلو سے جو سڑک جاتی ہے وہ ٹھیک اس کے گھر کے دروازے پر ختم ہوتی ہے۔ اس کی ماں کو پان کھانے کی عادت تھی۔ اسٹیشن سے نکل کر اس نے ایک ڈھولی پان خرید لیا تھا۔ کچھ پھل خریدے تھے اور ایک ڈبہ مٹھائی لی تھی۔ حالاں کہ اس کی ماں میٹھا نہیں کھاتی تھی البتہ اسے اپنے ہاتھوں سے ضرور کھلاتی تھی۔     رکشہ جانے پہچانے راستوں سے گزرتا ہوا جب اس کے گھر کے سامنے پہنچا تو دروازے پر تالا دیکھ کر اسے اچانک یاد آ گیا۔     ماں کو گزرے ہوئے تو کئی سال ہو گئے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے