ایک اور سیتا – افسانہ از نند کشور وکرم

وقت کے سفاک ہاتھوں نے کچھ ایسا ظلم ڈھایا کہ سیتا پاکستان میں رہ گئی اور رام ہجرت کر کے ہندوستان چلے گئے۔

عجیب بن باس تھا جو رام کو سیتا کے بغیر اکیلے کاٹنا پڑا۔

اور کیسے لمحات جدائی تھے ، کیسی ہجر کی گھڑیاں تھیں کہ سیتا دکھ جھیلنے کے لئے وہیں رہ گئی۔

شاید کاتب تقدیر نے ان کے مقدر میں یہی لکھا تھا۔

عجیب طرح کے حالات پیدا ہو گئے تھے کہ رام کو بہ عالم مجبوری سیتا کے بنا ہندوستان میں تا عمر بن باس کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ مگر وہ کرتا بھی کیا؟ جب انسان کو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں اور وہ اپنے آپ کو محفوظ محسوس نہیں کرتا تو وہ نہ چاہتے ہوئے بھی کسی محفوظ مقام کی طرف رخ کر لیتا ہے تاکہ اپنی اور اپنے کنبے کی جان بچا سکے۔ اور رام بھی تو ایک انسان تھا۔ وہ بھی مجبوریوں کے بندھنوں میں جکڑا نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے کنبے کے ساتھ ہندوستان چلا گیا۔

مگر سیتا کے بنا؟

آخر کیوں؟

کیسا رام تھا وہ؟

رام اسلام آباد کے ایک گیسٹ ہاؤس میں آنکھیں بند کئے کوئی آدھ گھنٹے سے آرام کرسی پر دراز تھا جیسے وہ تھکن سے چور چور ہو اور اسے نیند آ رہی ہو۔ مگر ایسا نہیں تھا۔ نہ تو اسے نیند آ رہی تھی اور نہ ہی وہ تھکاوٹ سے چور تھا بلکہ وہ تو اس وقت اپنے کمرے میں آنکھیں بند کئے ، ماضی کی یادوں میں کھویا اپنے بچپن کے دوست چوہدری سرفراز کے بیٹے چوہدری رشید کے آنے کا انتظار کر رہا تھا۔ اور آرام کرسی پر نیم دراز برسوں پیشتر کے واقعات و حادثات کے اس گہرے دلدل میں دھنسا ہوا تھا جہاں سے وہ لاکھ کوشش کے باوجود بھی نکلنے سے معذور تھا۔

برسوں پہلے جب وہ گارڈن کالج میں زیر تعلیم تھا تو گاؤں شہر سے سات آٹھ میل کی دوری پر ہونے کی وجہ سے اسے شہر میں اپنے چچا کے ہاں رہنا پڑا تھا کیونکہ روزانہ آنا جانا بڑا مشکل کام تھا۔ ہاں وہ ہر سنیچر وار کو چھٹی ہونے پر سائیکل سے گاؤں چلا جاتا تھا جہاں اس کے والد سندر لال فوجی ملازمت سے سبکدوشی کے بعد گاؤں میں اکیلے مقیم تھے کیونکہ ان کی رفیقۂ حیات یعنی رام کی ماں شیلا زچگی کے دوران وفات پا گئی تھی اور ان کی بڑی بیٹی کملا کی شادی دور دراز گاؤں قاضیاں میں ہو چکی تھی اور وہ اپنے شوہر کے ساتھ ان دنوں پونہ میں مقیم تھی جو کہ ملٹری میں صوبیدار کے عہدے پر فائز تھا۔

اس کے بابا گاؤں میں تن تنہا سکونت پذیر تھے اور اپنے خوردونوش کا زیادہ تر اہتمام خود ہی کرتے تھے۔ یا گاؤں میں رہ رہے ان کے بچپن کے ساتھی پنڈت گھنشام داس کے گھر والے ان کے کھانے پینے کا دھیان رکھتے۔ خاص طور پر ان کی بیٹی سیتا جس کی پیدائش پر گھنشام داس کی بیوی نے اپنی سہیلی شیلا سے اس کی خوبصورت گول مٹول گڑیا کو دیکھ کر کہا تھا۔ "دیکھ شیلا آج سے تیری بیٹی میری بیٹی ہو گئی۔ ”

اور بیٹی کو بھی بچپن سے ہی یہ احساس ہو گیا تھا کہ دیوار سے لگا پڑوس کا گھر اس کا ہونے والا سسرال ہے ، اس لئے وہ اس گھر کی صفائی ستھرائی کا پورا دھیان رکھتی۔ جب پنڈت جی علی الصباح ندی پر نہانے اور پوجا پاٹھ کے لئے مندر چلے جاتے تو وہ ان کی غیر موجودگی میں ان کے سارے گھر کی صفائی کر آتی اور ان کے لئے ناشتہ بھی بنا کر چھوڑ آتی۔

گاؤں کی خواتین کو پانی بھرنے کے لئے گاؤں سے نیچے کوئی آدھ کلو میٹر کی دوری پر واقع کنویں پر جانا پڑتا تھا جہاں سے سر پر گاگریں اور گھڑے اٹھائے چڑھائی چڑھتے ہوئے عورتوں کی سانس پھول جاتی اور پھر چڑھائی کے خاتمے پر گاؤں کے میدان میں بیٹھے ہوئے بعض تماش بینو، چوسر اورتاش کھیل میں مصروف نوجوانوں کی ہوس ناک آنکھوں اور بعض اوقات ان کے طنزیہ فقروں سے بھی بچنے کی ناکام کوشش کرنی پڑتی تھی۔ خاص طور پر چھٹی اور تہوار پر تو اس میدان میں بہت بھیڑ اکٹھی ہو جاتی تھی جن میں زیادہ تر لوگ قرب و جوار کے گاؤں کے ہوتے تھے اور جو سودا سلف خریدنے یہاں آیا کرتے تھے۔ ان دنوں تو عورتیں دن کو پانی بھرنے سے گریز کرتیں اور کوشش کرتیں کہ وہ علی الصباح یا شام کو سورج ڈھلے ہی پانی بھرنے جائیں جب لوگ اپنے اپنے گاؤں کو جا چکے ہوں۔

ان مجتمع افراد میں کئی قرب و جوار سے آنے والے اوباش قسم کے لوگ بھی ہوتے تھے جو قصبے کی عورتوں اور لڑکیوں کو اپنی ہوسناک نظروں سے گھورنے اور موقع ملنے پر آوازہ کسنے سے بھی نہیں چوکتے تھے۔ ان ہی میں ایک نوجوان دلو خان بھی تھا۔ دلو جب بھی اپنے سجے سنورے اونٹ پر سوار قصبے میں آتا تو عورتیں تو عورتیں بازار کے دکاندار بھی خوف و ہراس سے سہم سے جاتے۔

پھر ایک دن اچانک شہر میں فرقہ پرستی کے بھیانک دیو نے شہر کی رواداری اور ہم آہنگی سے رہنے والے لوگوں کو اپنے خونی پنجوں میں جکڑ لیا اور آگ اور خون کی ایسی ہولی کی شروعات کی کہ اس کے چھینٹوں نے گردونواح کے گاؤں کو بھی اپنے ناپاک اور خونی رنگ سے آلودہ کر دیا اور پھر اس آگ نے انسانی قتل و غارت گری کے ساتھ ہی لا تعداد عورتوں کو بھی آبروریزی اور اغوا کے سیلاب سے گزرنا پڑا اور سیتا بھی اسی سیلاب میں بہہ گئی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے ہی اس کے والد پنڈت گھنشام داس کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور اسے علاقے کا بدمعاش دلو خان، جو مدتوں سے اس پر بری نظر رکھتا تھا، اونٹ پر بٹھا کر نہ جانے کہاں غائب ہو گیا۔ پولیس نے اسے ڈھونڈنے کی لاکھ کوشش کی مگر نہ تو اس کا سراغ ملا اور نہ ہی دلو خان کا۔ شاید وہ اسے بھگا کر علاقے سے دور کسی اور شہر میں کہیں روپوش ہو گیا تھا۔ کہ پولیس کے لاکھ ڈھونڈنے پر بھی وہ ہاتھ نہ لگا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے سارے ملک میں خون کی ایسی ہولی کھیلی گئی کہ نہ چاہتے ہوئے بھی لاکھوں انسانوں کو مجبوراً ہجرت کا عذاب سہنا پڑا۔

رام کو بھی لاکھوں انسانوں کی طرح اپنی جان بچا کر ہجرت کرنی پڑی اور وہ بھی سیتا کے بنا۔ مگر وہ سیتا کی یاد کو دل سے نہ مٹا سکا۔ وہ اس ابدی درد و غم کو دل میں سمیٹے زندگی کی ڈگر پر چلتا رہا۔

اس دوران کئی راتیں آئیں اور چلی گئیں۔ وہ ازدواجی زندگی کے بندھنوں میں بندھ جانے کے بعد دو بچوں کا باپ بھی بن گیا۔ نوجوانی کے بعد ادھیڑ عمری اور پھر پیری کے نقوش اس کے چہرے پر عیاں ہونے لگے اور اس کے سیاہ بالوں میں سفیدی نے نمایاں ہو کر اس چہرے کو مزید متانت اور سنجیدگی سے دوچار کر دیا تھا۔ لیکن سب کچھ بدل جانے کے باوجود سیتا کی یاد اس کے دل کے نہاں خانے میں اسی طرح پنپتی رہی۔ وہ سوچتا وہ وہاں کس حال میں ہو گی؟ اسے دیکھنے اور ملنے کی خواہش اس کے دل میں ہمیشہ جاگزیں رہی اور وہ تڑپتا رہا۔

سبکدوشی سے کوئی ڈیڑھ دو برس قبل اسے ایک پاک و ہند کانفرنس میں اسلام آباد آنے کا موقع ملا اور واپسی سے پہلے اس نے اپنے بچپن کے دوست اور ہم جماعت چودھری سرفراز خان سے ملنے پر دلو خان کے گھر جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اور دوست نے اسے دلو کے گھر لے جانے کا وعدہ کیا جو اسلام آباد کے قریب ہی ایک گاؤں میں واقع تھا۔

شام ڈھلنے سے کوئی گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ پہلے چودھری سرفراز خان کا بیٹا چودھری رشید آ گیا اور اسے اپنی جیپ میں بٹھا کر دلو خان کے گاؤں کی طرف روانہ ہو گیا۔ جب وہ ڈھوک دلو خان میں داخل ہوئے تو دالان میں ایک لمبا چوڑا تیس پینتیس سال کا شخص مویشیوں کے لئے چارہ کاٹنے میں مصروف تھا۔ رام نے سوچا شاید یہ سیتا کا بیٹا ہو گا۔ کیونکہ اتنے عرصے میں اس کی اتنی عمر تو ہونی ہی چاہئے۔ اسے دیکھ کر اسے نہ جانے کیا کیا یاد آ گیا اور جذبات کی رو میں بہہ کر اس کی آنکھوں میں آنسو موتیوں کی طرح جھلملانے لگے۔ چودھری رشید نے آگے بڑھ کر چارہ کاٹتے شخص کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔

"السلام علیکم۔”

جواب میں اس شخص نے بھی بڑے زور سے جواب دیا: "وعلیکم السلام”

"دلو خاں صاحب ہیں؟” چودھری رشید نے پوچھا۔

"جی! لیکن ان کی طبیعت ٹھیک نہیں وہ اندر سورہے ہیں۔”

"ہمیں ان سے ملنا تھا۔۔ ۔ کیا ملاقات کی صورت ہو سکتی ہے؟” وہ شخص کچھ دیر تذبذب کی حالت میں گم صم کھڑا رہا، پھر بولا:

"میں اندر جا کر دیکھتا ہوں۔ اگر جاگ رہے ہوں گے تو میں آپ کو بتاتا ہوں۔”

اتنا کہہ کر نوجوان اندر چلا گیا۔ سامنے باورچی خانے میں ایک ادھیڑ عمر خاتون کھانا بنارہی تھی۔ رام نے اسے دیکھ کر اپنے تصور کے گھوڑے دوڑائے ، شاید یہ اس کی سیتا کی بہو ہو گی اور اس کے پاس ہی بیٹھے ننھے ننھے بچے جو کھانے پینے میں مصروف تھے شاید اس کے پوتے پوتیاں ہوں۔ ابھی وہ اتنا ہی سوچ پایا تھا کہ اندر سے نوجوان نے آ کر انہیں ساتھ چلنے کا اشارہ کیا۔

"آئیے! ابو جاگ رہے ہیں۔‘’

دونوں خاموشی سے اس کے پیچھے پیچھے اس کوٹھری میں چلے گئے جہاں دلو خان آرام کر رہا تھا۔ ضعیفی اور بوڑھاپے نے اسے بے حد کمزور کر دیا تھا۔ انہیں دیکھ کر وہ بڑی مشکل سے اٹھ کر بیٹھ پایا۔ اس کے نحیف و نزار جسم کو دیکھ کر رام کو آج سے چالیس پچاس سال پہلے کا دلو خان یاد آ گیا جس کا سارے علاقے میں بڑا دبدبہ تھا اور جس کے نام سے لوگ تھر تھر کانپتے تھے اور جب کبھی وہ قصبے میں اپنے اونٹ پر سوار داخل ہوتا تو لوگ اس کے لئے راستہ چھوڑ دیتے تھے اور عورتیں گھروں سے نکلنا ملتوی کر دیتی تھیں۔ دلو خان کے پاس ہی بچھی چار پائی پر وہ دونوں بیٹھ گئے تو چودھری رشید نے کہا۔

"میں چودھری سرفراز کا بیٹا ہوں اور یہ میرے والد کے بچپن کے دوست اور ہم جماعت ہیں اور ہندوستان سے آئے ہیں۔ یہ آپ کی بیوی سیتا سے ملنا چاہتے ہیں۔”

"کون سیتا؟”

"وہی سیتا جسے آپ دنگوں کے دوران اغوا کر کے لے آئے تھے۔”

"یہاں کوئی سیتا نہیں۔” دلو خان نے بڑی نقاہت سے کہا۔

"لیکن یہ تو سارا علاقہ جانتا ہے کہ آپ اسے اونٹ پر بٹھا کر متعدد افراد کی موجودگی میں لے گئے تھے۔ کیا یہ جھوٹ ہے؟” رام نے بڑی دھیمی اور نمرتا بھری آواز میں پوچھا۔

"نہیں! یہ سچ ہے۔”

دلو خان کچھ دیر چپ چاپ سا کسی سوچ میں مستغرق رہا، اسے جواب کے لئے الفاظ نہیں سوجھ رہے تھے اور چودھری رشید اور رام اس کے چہرے پر ٹکٹکی باندھے جواب کے انتظار میں اسے دیکھے جا رہے تھے۔ دلو خان کی آنکھوں میں اچانک آنسو بہنے لگے اور پھر ذرا سنبھل کر اس نے دھیرے دھیرے بڑی مدھم آواز میں کہنا شروع کیا۔۔ ۔

"کیا بتاؤں اس دن عجیب واقعہ پیش آیا۔ فساد میں جب لوگ آتش زنی اور لوٹ مار میں مصروف تھے۔ تب میں اس لڑکی کو زبردستی اپنے اونٹ پر بٹھا کر اپنی ڈھوک کی جانب روانہ ہو گیا۔ وہ لڑکی تھوڑی دیر تک زار و قطار روتی اور چیختی چلاتی رہی اور اونٹ سے کودنے کی کوشش بھی کرتی رہی لیکن اس کی ایک نہ چلی اور پھر آہستہ آہستہ اس کی چیخیں اور رونا دھونا بھی کچھ مدھم پڑ گیا۔

ڈھوک سے کوئی ایک فرلانگ پہلے اس نے کہا کہ اسے رفع حاجت کے لیے جانا ہے۔ یہ ایسی التجا تھی جسے ٹالا نہیں جا سکتا تھا۔ میں نے اونٹ روک لیا اور اسے اُتار کر پاس ہی نگرانی کے لیے اس سے تھوڑی دیر کھڑا ہو گیا تاکہ وہ بھاگ نہ جائے۔ وہ آہستہ آہستہ پاس ہی ایک جھاڑی کے پیچھے جا کر رفع حاجت کے لیے بیٹھ گئی مگر ایک منٹ بھی نہ گزرا ہو گا کہ اچانک بڑے زور سے ایک چیخ سنائی دی۔ میں دوڑ کر اس جھاڑی کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ وہ جھاڑی کے پاس ہی واقع کنویں میں کود کر دم توڑ چکی ہے۔”

رام کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ وہ سوچنے لگا کہ کیا عورت کا مقدر دھرتی میں سمانا، کنویں میں چھلانگ لگا کر اپنی عزت بچانا اور مرد کے ظلم سے تنگ آ کر آگ میں جلنا یا خود کشی کرنا ہی لکھا ہے؟؟

 

ماخوذ: ادب لطیف، 75 سالہ نمبر (حصہ اول، دسمبر 2010)

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے