ایلینز
ممتاز مفتی
یہ ایک انوکھے سفر کی کہانی ہے۔
آپ نے عجیب و غریب سفروں کی کہانیاں سنی ہیں ۔ سند باد کے سفر۔ الف لیلوی سفر، گلیور کے سفر، بالشتیوں میں دیو قامتوں میں ۔
لیکن صائم کی ماں کا یہ سفر بالکل انوکھا تھا۔ وہ کبھی عازمِ سفر نہ ہوئی تھی۔ نہ ہی رختِ سفر باندھا۔ نہ ہاتھ میں لگام تھامی تھی نہ پاؤں رکاب پر رکھتا تھا۔
نہ وہ کبھی جہاز میں سوار ہوئی تھی نہ جہاز طوفان سے ٹکرایا تھا نہ وہ بہہ کر کسی انجانے جزیرے کے ساحل پر جا لگی تھی۔ پھر پتہ نہیں کیسے۔۔۔۔ اس نے آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ ایک ان جانی بے گانی مخلوق اس کے ارد گرد بھیڑ لگائے کھڑی اُسے یوں دیکھ رہی ہے جیسے وہ عجوبہ مخلوق ہو۔
یہ سفر اس لحاظ سے انوکھا تھا کہ اماں نے خود حرکت نہ کی تھی۔ بلکہ ایک ایلین ماحول خود بخود چل کر اس کے ارد گرد آ کھڑا ہوا تھا۔
وہ سوچنے لگی۔۔۔! یا اللہ یہ میں کہاں آ گئی ہوں ۔ یہ کون لوگ ہیں ۔ یہ لوگ مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہیں ۔ ان ایلینز میں بہت سے چہرے مانوس سے دکھتے تھے۔ جیسے وہ اُنہیں جانتی تھی، جیسے وہ اُس کے ہم سفر رہے تھے۔ لیکن پتہ نہیں کیوں ایک نظر میں وہ مانوس دکھتے ، دوسری نظر میں ایسا لگتا جیسے بیگانہ ہوں ۔ ایلینز۔
پھر امّاں کو اپنے آپ پر شک پڑنے لگا۔۔۔ میں کون ہوں ۔۔۔ کہاں ہوں ۔ میرا مصرف کیا ہے۔۔ کس لئے ہوں ۔ کیوں ہوں ۔
اُسے کچھ سمجھ نہ آیا۔۔۔ وہ سوچتی رہی۔ محسوس کرتی رہی۔ سوچتی رہی۔ حتیٰ کہ بیمار پڑ گئی۔ ڈاکٹر نے ٹوٹیاں لگا کر اُسے دیکھا۔
ڈاکٹر تو صرف SYMPTOMSدیکھتے ہیں انہیں بیماری سے دلچسپی ہے۔ انسان سے نہیں ۔ اُنہیں ابھی تک شعور نہیں ہوا کہ بیماری روح سے پھوٹتی ہے۔ ڈاکٹر بھلا کیا کہتا، بولا مریضہ کو کوئی بیماری نہیں ، صرف کمزوری ہے۔ بڑھاپا ہے۔
جس کا فکر جسم تک محدود ہو وہ کیسے سمجھے گا کہ بڑھاپا عمر سے نہیں ہوتا بلکہ جینے کی امنگ نہ ر ہے تو اعضاء بوڑھے ہو جاتے ہیں ۔
اماں میں جینے کی اُمنگ نہ رہی تھی۔
جینے کی امنگ تبھی قائم رہتی ہے جب کوئی خواہش، کوئی خیال، کوئی اُمید ،کوئی فرد، کوئی مطمحِ نظر ، کوئی سراب آپ کو انگلی پکڑ کر بہلائے ، جینے کی اُمنگ تبھی قائم رہتی ہے جب آپ کی اپنی حیثیت ہو۔ آپ کو احساس ہو کہ آپ کا کوئی مصرف ہے۔
کئی ایک سال سے اماں محسوس کر رہی تھی کہ اس کا کوئی مصرف نہیں رہا۔ وہ ایک فالتو ہستی ہے۔
رضائی میں پڑی ہوئی سلوٹ میں جنبش ہوئی۔ ہڈیوں کے ایک ڈھانچے نے سر نکالا۔ بے نور آنکھوں نے صائم کی طرف دیکھا۔ نگاہیں صائم سے پار ہو گئیں ۔ اگر آسیہ کے لئے صائم میں کوئی مفہوم ہوتا تو یقیناً نگاہ صائم پر رُک جاتی۔ آنکھوں میں لگاؤ کی چمک لہراتی لیکن صائم تو عرصہ دراز سے اس کے لئے ایلین بن چکا تھا۔
صائم آسیہ کا اکلوتا بیٹا تھا جو اس وقت ماں کی چارپائی کی پائینتی پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس وقت کمرے میں ماں اور بیٹے کے سوا کوئی نہیں تھا۔
آٹھ دن سے وہ اس کی پائینتی پر بیٹھا تھا۔ آٹھ دن سے آسیہ مر رہی تھی۔
دفعتاً اس ہڈیوں کے ڈھانچے میں تڑپ پیدا ہوئی۔ آسیہ کی مضطرب لیکن کراری آواز گونجی۔ اب کیا دیر ہے۔ اب کس کا انتظار ہے۔ تم مجھے لے جاتے کیوں نہیں ۔ اس نے ارد گرد کی فضا کو مخاطب کر کے کہا۔ آسیہ کے بات کرنے سے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کمرے میں صائم کے علاوہ اور لوگ بھی موجود تھے۔
شاید روح ہو ، ہیولے ہوں ، فرشتے ہوں ۔
آٹھ دن سے وہ آسیہ کے ارد گرد منڈلا رہے تھے۔ آٹھ دن سے وہ انہیں ڈانٹ رہی تھی۔
میرا منہ کیا تک رہے ہو۔ مجھے لے جاتے کیوں نہیں ۔ اب کیا دیر ہے۔
اس نے گھر کے باقی لوگوں سے بات کرنی چھوڑ رکھی تھی۔
گھر میں چند ایک لوگ ہی تو تھے۔ صائم، اس کی دو نوجوان بیٹیاں سلمیٰ ستارہ ایک بیٹا سمیع بہو اسما اور صائم کی بیوی ثمینہ۔
عرصہ دراز سے آسیہ ان سب افراد کی زندگیوں سے خارج ہو چکی تھی۔
اگرچہ ان سب کے دلوں میں بوڑھی امّاں کی بڑی عزت تھی۔ لیکن عزت تو کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ عزت تو کوئی جذبہ نہیں ۔ عزت تو تہذیب کی ایک مصنوع ہے۔ جس طرح پلاسٹک کے پھول ہوتے ہیں ۔ اماں وہ شہد کی مکھی تھی جس کے ارد گرد پلاسٹک کے پھولوں کا باغ سجا ہوا تھا۔
صرف ایک گھرانے کو اماں سے قلبی تعلق تھا۔ وہ ڈاکٹر صولت کا گھر تھا۔ ڈاکٹر صولت اماں کے بھائی کا بیٹا تھا۔ اس کا گھر ایک جزیرہ تھا جہاں جدید دور کی آندھی اثر انداز نہ ہوئی تھی۔ جہاں ماضی ابھی تک حال کا بہروپ دھارے آلتی پالتی مار کر بیٹھا تھا۔
ڈاکٹر صولت کا گھر واحد گھر تھا جہاں امّاں کے لئے ایلینز نہیں بستے تھے۔ جہاں وقت کو دوام مل گیا تھا جہاں ابھی تک سنہ ١٩١٠عیسوی رائج تھی۔ جہاں بڑی امّاں کو محسوس ہوتا کہ وہ اصلی پھولوں پر بیٹھی ہے۔
لیکن صائم کے لئے ڈاکٹر صولت کا گھر ایک ODD مقام تھا۔ اُسے صولت سے شکایت تھی کہ اس نے گھر کو حنوط کر رکھا ہے۔ اور اس حنوط شدہ گھر نے آسیہ کو اس قابل نہ چھوڑا کہ کہیں اور رہ سکے۔ صولت کی نسبت صائم کا تعلق آسیہ سے کہیں زیادہ پرانا اور گہرا تھا۔
آسیہ اور صائم نے سال ہا سال اکھٹے مل کر دکھ سہے تھے۔ اکھٹے مل کر دکھ سہنا گہرا تعلق پیدا کر دیتا ہے۔
یہ اس زمانے کی بات ہے جب گردو پیش ایلین نہ تھا۔ جب آسیہ اپنے دور میں زندگی بسر کر رہی تھی۔ جب لوگ اس کی بات سمجھتے تھے۔ اسے اہمیت دیتے تھے۔ جب زندگی میں اس کا ایک مقام تھا ، مفہوم تھا۔
اُن کے دکھوں کی وجہ صرف حالات کی ناسازگاری تھی۔ اس ناسازگاری کی بنیاد ایک عام سا حادثہ تھا کہ خاوند نے دوسری شادی کر لی تھی اور آسیہ کو ہمیشہ کے لئے گھر کی نوکرانی کی حیثیت دے دی گئی تھی۔
جس باورچی خانے میں اسے دن رات کام کرنا پڑتا تھا۔ وہاں سے اسے اپنے اور اپنے بیٹے کے لئے طعام نہیں ملتا تھا۔ اس لئے مالک اور مالکن کو کھانا کھلانے کے بعد اسے اپنا چولہا جھونکنا پڑتا۔
مالک کے باورچی خانے کا ایک فائدہ ضرور تھا کہ جب وہاں بھنڈی پکتی تو آسیہ بھنڈیوں سے اتاری ہوئی ٹوپیاں لے آتی اور ان سے اپنی ہانڈی پکاتی۔ جب وہاں کریلے پکتے تو کریلوں سے چھیلا ہوا بور پکانے کو مل جاتا۔ نوکرانی کے بیٹے کے لئے بور کریلے تھا۔ ٹوپیاں بھنڈیاں تھیں ۔ چھلکے سبزیاں تھیں ۔
نوکرانی کے بیٹے نے بچپن میں رات کے وقت کبھی کھانا نہ کھایا تھا۔ اس لئے کہ مالک رات گئے گھر آتا تھا اور نوکرانی کو کھانا کھلانے سے پہلے چھٹی نہیں ملتی تھی۔ کھانا کھلا کر جب وہ آوٹ ہاوس پہنچتی تو بیٹا سوچکا ہوتا۔ پھر وہ چولہا جھونکتی۔ چھلکے پکاتی اور جب ہانڈی تیار ہو جاتی تو بیٹے کو جگاتی۔ اسے کھانا کھلاتی۔
بیٹا کھا تو لیتا مگر جاگتا نہ تھا۔ اس لئے اسے یاد نہیں تھا کہ بچپن میں اس نے کبھی رات کا کھانا کھایا ہو۔
پھر مالک کا اسٹیٹس اونچا ہو جانے پر ایک ٹرینڈ با وردی نوکر رکھنا لازم ہو گیا۔ اس لئے آسیہ کو نکال دیا گیا۔ اور ماں بیٹا آزاد ہو گئے۔
آزادی نے اُنہیں نئے مسائل سے دو چار کر دیا الاؤنس بہت قلیل تھا ضروریات بڑھتی ہی چلی جا رہی ہی تھیں ۔
بڑھتی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ماں بیٹے کو محنت مزدوری کرنی پڑی اُنہوں نے مل کر چار پائیاں بُنیں ۔ کتابوں پر جلدیں باندھیں ۔ کاغذ کے پھول بنائے۔ پتنگ بنائے۔ دھاگا خرید کر اس پر مانجھا لگایا تاکہ دور بیچ سکیں ۔ بچوں کے کھلونے بنائے۔ آسیہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کا بیٹا محنت مزدوری کرے۔ اس کی خواہش تھی کہ ایک سلائی مشین خریدے اور اکیلی سلائی کا کام کرے لیکن اتنے پیسے نہ تھے۔ پھر کسی مخیر نے قرض کے طور پر ایک پرانی گھسی پٹی مشین خردی دی اور کپڑے سینے لگی۔
آسیہ ہر فن مولا عورت تھی۔ وہ ہر کام کر سکتی تھی۔ وہ ہر عام سے عام کام میں بھی انفرادیت کی کلیاں ٹانک دیا کرتی تھی۔ انوکھے کام سوچا کرتی، انوکھی چیزیں بنایا کرتی۔ لیکن یہ اس دور کی بات ہے جب ہاتھ کے کام کی قدر نہ تھی قیمت نہ تھی۔ ان کا باہمی تعلق بہت گہرا تھا۔ اس تعلق کے کئی رُخ تھے۔ ماں بیٹے کا تعلق، مظلومیت کا تعلق، غربت کا تعلق، مزدوری کا تعلق، دکھ کا تعلق۔
اگر صائم علم حاصل نہ کرتا۔ اور وہ دونوں ہمیشہ کے کے لئے مزدور رہتے۔ محنت اور مشقت بھری زندگی بسر کرتے تو یہ تعلق جوں قائم رہتا۔ لیکن علم قینچی بن کر آیا اور اس عظیم تعلق کے پُرزے اُڑا دیے۔
شاید علم دوست اس پر احتجاج کریں اور اپنی جواز پسندی کے تحت تاویل پیش کریں کہ جو خلوص بھرے تعلق کے پُرزے اُڑا دے وہ علم نہیں ہو سکتا۔ مجھے کسی حتمی علم کا تو نہیں پتہ میں تو صرف یہ جانتا ہوں کہ جو رائج الوقت ہو وہی علم ہوتا ہے۔ ہر دور میں رائج الوقت علم کا خصوصی رُخ ہوتا ہے۔
آسیہ کے دور میں ایمان لانا تھا۔ صائم کے دور میں شک کرنا۔ تاریخ شاہد ہے کہ علم کا رُخ ہمیشہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا رہا ہے صائم کے زمانے میں عقل و خرد کا دور تھا۔ جوں جوں وہ علم حاصل کرتا گیا۔ جوں جوں عقل و خرد کی آنکھیں کھلتی گئیں توں توں جذبہ مضحکہ خیز ہوتا گیا۔ تعلقات کٹتے گئے۔
صائم کو آسیہ کے خلاف کئی ایک شکایات پیدا ہو گئیں ۔ اماں ایسے مرد سے شادی کرنے پر کیوں رضا مند ہوئی جو ایک عورت کا ہو کر نہیں رہ سکتا تھا بلکہ جسے عورت ذات سے دلچسپی تھی۔ اماں نے اپنے ہی گھر نوکرانی بن کر رہنے کو کیوں منظور کیا۔ اماں نے ظلم کے خلاف آواز بلند کیوں نہ کی۔ اماں نے اندھی وفا شعار کو کیوں اپنائے رکھتا۔ شاید امان غم خور۔ شاید اماں ایذا پسند ہو۔
آہستہ آہستہ صائم کی نگاہ میں مظلوم اماں تسکین پسند آسیہ نظر آنے لگی۔ دکھی اماں ایذا پسندی کی لذّت سے سرشار دکھائی دینے لگی۔ یوں باہمی مظلومیت کا تعلق ٹوٹتا گیا۔ دکھ کا تعلق ٹوٹتا گیا۔ مزدوری کا تعلق ٹوٹتا گیا۔ ایذا پسند کے لئے محنت جد و جہد نہیں ہوتی۔ دکھ دکھ نہیں ہوتا۔ بلکہ انا کی تسکین ہوتی ہے۔ بطخ کے لئے جوہڑ ہوتا ہے۔
اس عقل و دانش بھری سوچ بچار کی وجہ سے ایک ایسا دن آیا جب دونوں کے درمیان صرف ایک تعلق باقی رہ گیا۔ بیٹے اور ماں کا تعلق۔ لیکن بیٹے اور ماں کا تعلق تو ایک عارضی تعلق ہے جو صرف اس وقت تک قائم رہتا ہے جب تک بیٹا ماں کا محتاج ہوتا ہے وہ تو ماں کا بیٹے سے تعلق ہے جو واحد دائم تعلق ہے۔
چونکہ صائم ماں کا محتاج نہیں رہا تھا اس لئے وہ تعلق بھی ٹوٹ چکا تھا۔ صرف برائے نام باقی تھا اس برائے نام تعلق کو ہم رسمی طور پر احترام بھی کہتے ہیں ۔
احتراماً صائم آٹھ روز سے امّاں کی پائنتی پہ بیٹھا تھا۔ اور آٹھ روز سے امّاں مسلسل مر رہی تھی۔
دیر تک وہ رضائی میں پڑی ہوئی سلوٹ کی طرف دیکھتا رہا۔ کوئی جنبش نہ ہوئی۔
دفعتاً اس کے ذہن میں ایک خیال اُبھرا۔ شاید اُس نے پھر سے غور سے امّاں کی طرف دیکھا۔ اس کی نگاہ میں ڈر نہیں بلکہ امید کی جھلک تھی۔ جیسے اس امید نے آنکھوں میں دیا روشن کر دیا ہو۔
چونکہ اماں نے منہ رضائی میں ڈھانپ رکھا تھا۔ صائم نے بیٹھے بیٹھے اندازہ لگایا کہ ماں کا دل کہاں ہو گا۔ پھر وہ اس مقام کو ٹکٹکی باند کر دیکھتا رہا۔ دیکھتا رہا کہ حرکت ہے یا نہیں ۔
وہ مقام بالکل ساکت تھا۔
اس کے دل سے ایک ہلکی سی آواز آئی جیسے کسی نے اطمینان کا لمبا سانس لیا ہو۔
پھر ایک سرگوشی سی اُٹھی۔ اچھا ہوا بچاری اس عذاب سے مخلصی پا گئی۔
اس کے اندر رچی بسی ہوئی عقل بول رہی تھی۔
پتہ نہیں کبھی کبھی وہ سرگوشیوں میں کیوں بولتی تھی۔ ایسے کیوں بولتی تھی جیسے وہ احساسِ گناہ سے بھیگی بھیگی ہو۔
اس کے اندر رچی بسی عقل تو گھر کی ملکہ تھی۔ عرصہ دراز سے گھر پر اس کا راج تھا پھر وہ سرگوشیوں میں بات کیوں کرتی تھی۔ کس سے ڈرتی تھی۔ صائم کے دل میں وہ کون تھا جس کے ڈر سے سہم جاتی۔ شرمسار ہو جاتی۔ ندامت سے بھیگ جاتی اس کے آواز پر زیرِ لبی ہو کر رہ جاتی۔
صائم کو تو اپنی عقل پر ناز تھا۔ وہ اپنے آپ کو دانشور سمجھتا تھا۔ محفلوں میں جان بوجھ کر بلند آواز میں ایسے ادراکی نقطے بیان کرنے کا عادی تھا جو دوسروں کو چونکا دیں ۔
محفلوں کی بات چھوڑیے۔ اس نے کئی بار اپنی عقل وہ دانش کے بل بوتے پر ماں سے کہہ دیا تھا اماں جب تم مرو گی تو میں دیگیں چڑھاؤں گا۔ غریبوں کو کھانا بانٹوں گا۔ شکرانے کے نفل پڑھوں گا کہ یا اللہ تیرا بڑا احسان ہے کہ تو نے میری ماں کو اتنی لمبی عمر دی اور ماں کے ساتھ اتنی دیر اکھٹے رہنے کا موقع عطا کیا۔ اور اماں میں گھر والوں سے کہہ دوں گا کہ میری ماں کے مرنے پر کوئی نہ روئے۔ کوئی بین نہ کرے۔ رونا اور بین کرنا تو ناشکری کی مترادف ہے۔
آسیہ کی عمر 95 سال کی تھی۔ صائم سمجھتا تھا کہ ساٹھ ستر سال کے بعد موت زحمت بن جاتی ہے۔
صائم خود ستر سال کا ہو چکا تھا خود اس کے اپنے ارد گرد ایلین ماحول قائم ہو چکا تھا۔ اس کے اپنی بیٹیاں سلمیٰ اور ستارہ اس کے خیالات اور احساسات سے بیگانہ تھیں بالکل ایسے ہی جیسے وہ خود ماضی میں اماں سے بے گانہ ہوا تھا۔
اماں سے ایلین بننے کی بات تو سمجھ آتی ہے۔ اماں جدید تعلیم سے آراستہ نہیں تھی۔
لیکن سلمیٰ اور ستارہ کے ایلین بننے کی بات سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ صائم کا ماں سے تعلق تو علم نے کاٹا تھا۔ لیکن اولاد سے کٹنے کی ذمہ داری کس پر تھی۔
اس ڈر کے مارے کہ اس کے اپنے بچے اس سے کٹ نہ جائیں وہ مسلسل علم حاصل کرتا رہا تھا۔ رائج الوقت علم زمانے کے ساتھ ساتھ چلتا رہا تھا کہ پیچھے نہ رہ جائے۔ پھر بھی وہ پیچھے رہ گیا تھا۔ کیوں ؟
اس مسئلے پر وہ سوچتا رہا تھا۔ سوچتا رہا تھا۔ ایک بات تو یقینی تھی کہ وہ بے علمی کی وجہ سے پیچھے نہیں رہا تھا۔ دانش کی وجہ سے پیچھے نہیں رہا تھا۔ نئے فکر سے ناواقفیت کی وجہ سے پیچھے نہیں رہا تھا۔ صائم نے کبھی نہ سوچا تھا کہ وہ علم ہی کی وجہ سے پیچھے رہ گیا تھا۔ شاید نئی نسل علم و دانش چھوڑ کر پھر سے جذبے کے پیچھے چل پڑی تھی یہ سوچے بغیر کہ جذبہ تو راستہ ہوتا ہے منزل نہیں ۔
منزل کیسی۔ ان کے جذبے کا تو کوئی رُخ ہی نہ تھا۔ صرف شدت ہی شدت تھی۔ ہانڈی آگ پر چڑھی تھی مگر ہانڈی میں تھا کیا؟ سوچ سوچ کر وہ ہار گیا مگر سمجھ کچھ بھی نہ آیا تھا۔
مثلاً سلمیٰ کو فلم اس لئے پسند آتی کہ اس میں کوئی خاص اداکار ہوتا۔ اگر وہ اداکار ہوتا تو سب کچھ آپ ہی آپ ہو جاتا۔ فلم کی کہانی عمدہ ہو جاتی۔ فوٹو گرافی شاندار ہو جاتی۔ مکالمے چست ہو جاتے۔
ستارہ کو ٹی وی سیریز اس لئے ناپسند ہوتی کہ اس میں کام کرنے والی کسی ایکسٹرا عورت کی شکل و صورت ایسی ہوتی کہ دیکھ کر اس ے گھن آتی۔
سلمیٰ سمجھتی کہ کالج کی فلاں پروفیسر اس قدر عمدہ پڑھاتی ہے کہ ایک ایک لفظ دل نشین ہو جاتا ہے۔ اس لئے کہ وہ بڑی پیاری ہے۔ کتنی پیاری ہے وہ۔ سلمیٰ یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہ تھی کہ کوئی بد شکل پروفیسر اچھا پڑھا سکتی ہے۔
ستارہ سمجھتی تھی کہ فلاں مضمون اس لئے اچھا ہے کہ فیشن ایبل سرکلز میں اس کا ذکر رہتا ہے اور فلاں مضمون اس لئے بُرا ہے کہ اس میں دقیانوسی سوچیں بھری پڑی ہیں ۔
اتفاقاً صائم نے دروازے کی طرف دیکھا۔ دروازے میں سلمیٰ کھڑی تھی۔ بال لٹک رہے تھے چہرا ستا ہوا تھا۔ سر دروازے کی چوکھٹ سے لگا ہو ا تھا۔ ٹکٹکی باندھے وہ آسیہ کی طرف دیکھ رہی تھی۔
سلمیٰ حزن و ملال کی تصویر بنی کھڑی تھی۔
گھر کے سارے افراد حزن و ملال سے بھرے ہوئے تھے۔ سارا ماحول حزن و ملال سے بوجھل ہو رہا تھا۔
اس لئے نہیں کہ ماں یا دادی اماں مر رہی تھی۔
بلکہ اس لئے کہ گھر میں موت گھس آئی تھی چاروں طرف منڈلا رہی تھی۔ سارا گھر موت سے یوں لبالب بھرا ہوا تھا جیسے انار دانوں سے ہوتا ہے۔
ان جانے میں گھر کا ہر فرد آرزو مند تھا کہ وہ بوجھ اٹھ جائے۔ بوجھل بورڈم دور ہو جائے۔ گھر کا موڈ بحال ہو جائے۔ چاہے بوڑھی اماں پر کچھ بیت جائے۔
سلمیٰ نے اشارے سے پوچھا کہ بڑی اماں کا کیا حال ہے۔
صائم نے مایوسی میں سر ہلا دیا۔ سلمیٰ کی اداسی اور گہری ہو گئی۔ سر ڈھلک گیا ، بال لٹکنے لگے اور ساتھ ہی آنکھوں میں اُمید کی کرن ناچنے لگی۔
سلمیٰ ایک جذباتی لڑکی تھی۔ اسے آسیہ سے بڑی محبت تھ لیکن کیا کرتی، اپنی مصروفیتوں کی وجہ سے مجبور تھی۔ اس کی چہیتی سہیلی شانی کے بیاہ کو صرف آٹھ دن باقی رہ گئے تھے۔ اس نے شانی سے وعدہ کر رکھا تھا کہ اس کے بیاہ پر ملتان آئے گی۔ وہ چاہتی تھی کہ چاہے کچھ ہو جائے لیکن اس کے ملتان جانے میں رخنہ نہ پڑے اور اگر اماں یونہی پڑی رہی تو وہ ملتان نہیں جا سکے گی۔
پہلے ہی اماں کی بیماری کی وجہ سے سلمیٰ کی ساری روٹین تباہ ہو چکی تھی۔
مثلاً فون ہی لیجے۔
فون اس برامدے میں فکس کیا ہوا تھا جو امّاں کے کمرے سے ملحق تھا۔ امّاں کی وجہ سے سلمیٰ فون کو آزادانہ طور پر استعمال نہیں کر سکتی تھی۔
پہلے تو عادی طور پر وہ ہر آنے والی کال کو بڑے شوق سے موصول کیا کرتی تھی۔
ان کالوں میں زیادہ تر رونگ نمبر ہوتے تھے وہ ان رونگ نمبروں کو بڑے نخرے سے جھاڑ پلا دیا کرتی۔ یا بڑے تہذیب یافتہ انداز سے رونگ نمبر کا مذاق اُڑا دیتی۔
خاص سہیلیوں کے علاوہ سلمیٰ کو کسی خاص رائٹ یا رونگ نمبر سے دلچسپی نہیں تھی۔ لیکن رونگ نمبر کو کاٹنے میں کتنا مزا آتا تھا۔
واٹ فن۔۔۔ اظہار لگاؤ کے جواب میں اظہارِ بے نیازی میں کتنی لذت ہوتی ہے۔
اماں کی بیماری کی وجہ سے وہ سہیلیوں سے بھی بات نہیں کر سکتی تھی۔ پہلے تو وہ فون پر گھنٹوں باتیں کیا کرتی تھی۔ پتہ نہیں کیا باتیں کرتی تھی۔ پاس کھڑے شخص کے بھی کچھ پلے نہیں پڑتا تھا۔
فون پر وہ لمبے لمبے وقفوں کے بعد ایک ایک لفظ بولتی رہتی۔ اچھا۔ کیوں ۔ بور۔ موڈ نہیں ۔ وہ کیسے۔ ایسے الفاظ یا پھر خالی ہنس دیتی۔ چھوٹی ہنسی لمبی ہنسی۔ مہذب ہنسی جس میں ہنسی نہ ہوتی البتّہ آواز کے زیرو بم میں جاذبیت ضروری ہوتی ہے۔
سلمیٰ کے لئے امّاں کی صحت یا بیماری اہم نہ تھے۔ اہم بات تو یہ تھی کہ اس کی روز مرّہ بحال ہو جائے۔
ستارہ کو بھی اماں سے بڑا لگاؤ تھا لیکن وہ بھی مجبور تھی۔
ستارہ نے اپنی تمام تر اہمیت کا انحصار ہر امتحان میں کلاس میں فرسٹ آنے پر رکھا ہوا تھا۔ امّاں کی بیماری کی وجہ سے سارے گھر پر جو بوجھ پڑا ہوا تھا۔ وہ اس کی پڑھائی میں مخل ہو رہا تھا۔ اسے فکر لگ گئی تھی کہ کہیں رابعہ اُس کی پوزیشن نہ ہتھیا لے۔
رابعہ وہ بدصورت بھدی لڑکی تھی جو رٹا لگا لگا کر ہر امتحان میں اس کے پیچھے پیچھے چڑیل کی طرح لگی ہوئی تھی اور ہر بار سیکنڈ آتی تھی۔ کہیں وہ چڑیل میری جگہ نہ لے لے۔ ستارہ کو صرف یہی ایک فکر لگا رہتا تھا۔ ہے اللہ اماں کی بیماری کیا مصیبت ہے۔ اس مصیبت سے کب جان چھٹے گی اس اس بات پر غصہ آتا تھا کہ امّاں ڈاکٹر کا علاج کیوں نہیں کراتی۔
ستارہ کی بات سچی تھی۔ عرصہ دراز سے اماں نے فیصلہ کر رکھا تھا کہ وہ علاج نہیں کرائے گی۔ اسے ڈاکٹروں پر اعتماد نہیں تھا۔
اب کیا حال ہے۔ صائم کی بیوی ثمینہ نے کمرے میں داخل ہو کر پوچھا۔
صائم نے مایوسی میں سر ہلا دیا۔
ثمینہ چار پائی پر بیٹھ گئی وہ حزن و ملالی سے نُچڑ رہی تھی۔
ثمینہ اور آسیہ کے مابین خدا ترسی کے سوا کوئی تعلق نہ تھا۔ ثمینہ ایک مذہبی عورت تھی مذہب اس کے صرف خوفِ خدا تھا۔ وہ بیچاری خود اس گھر میں اکیلی تھی۔ وہ خود ایلینز میں گھری ہوئی تھی۔ وہ کر ہی کیا سکتی تھی۔
اگرچہ آسیہ اور ثمینہ کا ساس بہو کا رشتہ تھا لیکن وہ رشتہ ہمیشہ برائے نام رہا تھا۔ سارا قصور آسیہ کا تھا۔ اگر وہ حکم چلانا جانتی تو ساس کا مرتبہ حاصل کر لیتی۔ لیکن وہ تو ازل سے حکم بجا لانا جانتی تھی۔ چوکی پر بیٹھ کر حکم چلانا اُس کے بس کا روگ نہیں تھا۔ اس لئے بیتے کے گھر میں اس کی کوئی حیثیت قائم نہ ہو سکی تھی۔ کیسے ہوتی خود بیٹے نے اسے قائم نہ ہونے دیا تھا۔ جب بھی اماں دل کی بات کرتی تو صائم عقل و دانش کی قینچی سے اسے کاٹ دیتا۔ اماں تم نہیں سمجھتی۔
بیٹے کے گھر سے ماں کا صرف ایک تعلق تھا۔
آسیہ میں خدمت اور کام کا جذبہ اس قدر گھر کر چکا تھا کہ جس گھر میں وہ جا کر ٹھہرتی اس گھرے کے چھوٹے چھوٹے کام شروع کر دیتی۔ ٹوٹی ہوئی چیزیں جوڑ دیتی۔ صوفوں کے کپڑے دھو کر پھر سے چڑھا دیتی۔ پردے رنگ کر کے نئے بنا دیتی۔ ٹوٹے ہوئے سوٹ کیس مرمت کر دیتی۔ پُرانے کپڑوں کو جوڑ کر ٹی کوزیاں بناتی، رضائی کے ابرے تیار کرتی۔ میز پوش تکیے کے غلاف اور کیا۔
آسیہ کی اس عادت کی وجہ سے لوگ اس کی قدر کرتے تھے۔
بیٹے کے گھر سے ماں کا بس یہی ایک تعلق تھا اسی واسطے ثمینہ اسے عزیز رکھتی تھی۔
کسی نے کبھی نہ سوچا تھا کہ تعلق تو نہیں ۔ یہ تو مفاد ہے۔ بہر طور ثمینہ کا حزن و ملال دلی تھا۔ کیونکہ وہ خدا ترس عورت تھی۔
کیوں ابا۔ سمیع نے داخل ہو کر پوچھا کیا حال ہے اماں کا۔
ویسا ہی ہے۔ صائم نے کہا۔
اوہ۔۔۔ سمیع خاموش ہو گیا۔
کچھ دیر کمرے پر خاموشی طاری رہی۔
اماں کو ضرور دوا کھانی چاہیے۔ سمیع بولا۔
ہاں ۔۔ صائم نے کہا۔ لیکن اماں مانے بھی۔
ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم امّاں کے لئے کچھ نہیں کر رہے۔ سمیع نے کہا۔
ہاں ۔
ایک فیلنگ آف گلٹ ہے۔ سمیع گویا اپنے آپ سے کہہ رہا تھا۔
سمیع ازلی طور پر مشنری کارکن تھا۔ اس کے لئے دفتر دفتر نہ تھا بلکہ مقصدِ حیات تھا۔ کام اس کی زندگی کا مرکز تھا اور یہ مرکز پھیل کر سارے دائرے پر محیط ہو چکا تھا۔ باقی تمام رشتے اور تعلق لگاؤ سمٹ سمٹا کر دائرے کی لکیر پر یوں کھڑے تھے جیسے اوور لوڈڈ بس میں مسافر پائیدان پر لٹکے ہوتے ہیں ۔
اوہ ! سمیع چونکا۔ مجھے تو جانا ہے۔ دفتر میں فنکشن شروع ہو چکا ہو گا۔ ابو میں واپسی پر ڈاکٹر لے آؤں اس نے یوں کہا جیسے صرف ڈاکٹر لے آنے سے امّاں سے تعلق استوار ہو جائے گا۔ سنس آف گلٹ دور ہو جائے گا۔
اماں سے پوچھ لو۔ صائم نے کہا۔
اماں ۔ اماں جی۔ سمیع نے آواز دی۔
اماں نے کوئی جواب نہ دیا۔
پھر سمیع گھوم کر اماں کے سرہانے کی طرف جا کھڑا ہوا۔ اس نے اماں کے منہ سے رضائی اتار دی۔
او۔ وہ زیرِ لب چلّایا۔ اماں تو۔ اماں تو۔۔
کیا کہا۔۔ کئی ایک چیخیں گونجیں ۔
اماں گزر گئیں کیا۔
ہائے اللہ۔۔۔۔ اماں چلی گئیں ۔
پڑوس والے کہتے ہیں کہ صائم کے گھر سے چیخوں کی آوازیں بلند ہوئیں ۔
کچھ لوگ کہتے ہیں ۔ نہیں چیخیں نہیں وہ تو بگڑے ہوئے قہقہوں کی آوازیں تھیں ۔
——–
میں نے وہ آوازیں نہیں سُنیں ۔ لیکن میں محسوس کرتا ہوں جیسے صائم کی ماں مری نہیں بلکہ صائم کے گھرے سے منتقل ہو کر میری مان بن کر میرے گھر آ بیٹھی ہے۔ جیسے یہ کہانی صائم کی ماں کی نہیں بلکہ میری ماں کی ہے۔ شاید تمھاری ماں کی ہو۔ ہم سب کی ماؤں کی ہو۔ مجھے ایسا لگتا ہے جیسے وہ گھر گھر بیٹھی ہے اور اس کے ارد گرد ایلینز یوں ناچ رہے ہیں جیسے وحشی قربانی کرنے سے پہلے بَلی کے گرد ناچتے ہیں ۔
٭٭٭
ٹائپنگ: محمد احمد