اکرام باگ، قمر احسن مجھ سے کافی سینیر تھے۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب یہ نام افسانے کی دنیا میں عزت و احترام سے لئے جاتے تھے۔ مجھے قمر احسن بھی پسند تھے اور اکرام باگ بھی۔ اس کے باوجود کہ یہ دور فکشن کی بھول بھلیوں کا دور تھا۔ بے سر پیر کی کہانیاں حاوی تھیں۔ ایک دلچسپ بات اور تھی۔ شروع کی کہانیوں میں علامتیں، بہت مبہم یا بوجھل نہیں تھیں لیکن اکرام باگ سے قمر احسن تک یہ بات شدت سے محسوس کی جا رہی تھی کہ کہانیاں در اصل یوں لکھنی چاہئیں جس کی تفہیم ممکن نہ ہو۔ شوکت حیات نے تو بعد میں باضابطہ اس بات کا اعلان بھی کیا کہ کہانی لکھنے کے بعد اگر قاری کہانی کے بارے میں دریافت کرتا ہے تو مصنف یقیناً اسے سمجھا پانے میں ناکام رہے گا۔ اس لےہ کہ کہانی اترنے کی کیفیت الہامی ہوتی ہے۔ اکرام باگ کی ایک کہانی دیکھئے۔
’’اپنے آپ کو دیکھنے کے لے اپنے آپ میں نہ رہو، میں نے ظاہر علی شاہ کو تب غور سے دیکھا جب وہ اپنے آپ میں نہ تھے۔ ’’
—تقیہ بردار (اکرام باگ)
مجموعی تاثر یہ ہے کہ محض الفاظ رہ گئے تھے۔ ایک صوتی آہنگ ہے، جو فضا میں بکھر رہا ہے۔ ایسے ظاہر علی شاہ اس وقت انتظار حسین، حمید سہروردی، علی امام نقوی کی کہانیوں میں نہ صرف زندہ تھے بلکہ جدیدیت کے نیے نئے رنگ بھی بکھیر رہے تھے۔ یعنی کہا جائے تو ستر کے بعد کے بیشتر ہندستانی افسانہ نگار انتظار حسین کے رنگ و آہنگ کی نقل یا تقلید کے علاوہ کچھ نہیں جانتے تھے۔ لیکن مجھے اکرام باگ پسند تھے۔ یہاں روحانی فلسفوں کا ایک جزیرہ آباد تھا، جسے سمجھنا ضروری نہیں تھا۔ یہاں کیفیت ہی کیفیت تھی۔ الفاظ آپ کو بہا کر لے جاتے تھے۔
’’میں نے محسوس کیا کہ گردش مدام پیالہ میں چراغ کی لویں لپٹی ہوئی ہیں اور نیم اندھیرے کے پیچھے تمام سرخ آنکھیں اجنبی کو گھور رہی ہیں۔ رضوان کے ٹہوکے پر میں نے بدقت تمام چسکی لی۔ تلخ ترین ذائقہ کے ساتھ دور کہیں ڈھول کی آواز کا گمان ہوا۔
جنگل۔ تو جہاں جنگل نہیں وہاں عشق عدم ہے۔ معشوق اپنی زلف کھولے، درندوں سے بے نیاز، عاشق کے وجود سے منکر کہ وہ خود ہی عاشق ہے، عشق کے سایہ میں سوتا ہے کہ یہی اصل بیداری ہے۔ راہی تو جو عاشق ہے، تو جو درندوں سے خوف زدہ ہے کہ تجھ پر جنگل اصل حقیقت ہے۔ معشوق کی جانب گامزن ہوا۔
چلم سے نکلا ہوا دھواں تعلیم گاہ کے جاری سبق کا ابتدائیہ تھا۔
ختم۔ تو سب کچھ ختم ہو گیا۔ راکھ تم کو یاد ہے۔ کہ یہ آگ کب سلگی تھی۔ مگر۔۔۔۔ مگر تم تو مجھ سے منکر اور درندوں سے بے نیاز ہو۔ لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہے چونکہ میں اپنے آپ کا منکر اور درندوں سے بے نیاز نہیں ہوں کہ اس قسم کے وقوعہ میں بظاہر کوئی اسرار نہیں ہوتا۔ الوداع ہوتی ہوئی سرد ترین صبح میں ٹرین کی بے جان سیاہ سخت کھڑکی سے تمہارا سفید کنگن میرے ہاتھوں سے شاید اسی لے گر گیا تھا کہ ہر ابتدا اپنے خاتمہ کی اولین گواہ ہوتی ہے۔ خیالات خشوع و خضوع کے حصار کو توڑ رہے تھے۔ مگر یہاں میری آواز سننے والا کون تھا؟‘‘
—تقیہ بردار (اکرام باگ)
یہ فکشن کے لئے خطرناک دور تھا مگر یادگار بھی۔ جب قمر احسن کے عروج کا دور تھا، وہ اچانک غائب ہو گئے۔ کہاں گئے، کسی کو پتہ نہیں۔ کیوں گئے؟ یہ بات راز رہی۔ مگر قمر احسن کی گمشدگی کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ فاروقی اس نام پر اس قدر مہربان تھے کہ اس دور میں کوئی بھی قمر احسن سے بڑا نہیں تھا۔ اور قمر احسن بہت حد تک اردو افسانے کے زوال کا اندازہ کر چکے تھے۔ قمر احسن کئی اعلیٰ درجہ کی کہانیاں دینے کے باوجود رو پوش ہو گئے۔ اکرام باگ نے گوشہ نشینی اختیار کر لی۔ اس وقت کے بیشتر افسانوں میں ہوا میں معلق فلسفے تھے، جنہیں بیان کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ کہیں کوئی کردار نہیں تھا۔ ماجرا سازی نہیں تھی— کبھی مثنوی مولانا روم اٹھا لی— کبھی قرآن پاک نکال کر با وضو بیٹھ گئے۔ کبھی حدیث شریف سے استفادہ کیا — ان سے دل اکتا گیا تو پنچ تنتر لے آئے — ایک جانور سے کام نہیں بنا تو پورا جانورستان لے آئے — جدیدیت کی تحریک نے فکشن کو بلیک ہول میں پھیک دیا۔ قمر احسن اور اکرام باگ بھی اس تحریک کا شکار ہوئے۔ ان لوگوں کو کبھی ابن صفی متاثر کرتا تھا۔ اور کبھی ایڈگر ایلن پو کے انداز میں ان کی کہانیاں پر اسرار ہو جایا کرتی تھیں۔ دلچسپ بات یہ تھی، کہ باغی افسانہ نگار جنہیں Reject کرنے کا پر زور اعلان کرتے پھرتے تھے۔ خود ان کی کہانیوں میں وہ فضا موجود تھی— تقیہ بردار کی مکمل فضا ایسی ہے کہ آپ اس میں ورجینا وولف، جوائز یا ایڈگر ایلن پو کی کہانیوں کا عکس تلاش کر سکتے ہیں۔
’’ساکت پانی میں انجیر کا سوکھا پتہ گرا تو مجھے خیال آیا کہ متوقع دیدار کی کہانی میں شامل ہونے کے لےت بلا تاخیر سورج نیا پیام لے آیا ہے۔ مجبور سورج، مجبور دنیا اور مجبور آدمی پر طلوع ہوتا ہوا۔
چلنا ہی چاہئے — راہی!
خ: و: ن: ی: ا: ل: و: ہ
یہ کوئی محلہ ہے یا جنگل؟ بندروں، لومڑیوں، ریچھوں اور بیلوں کے ریوڑ سے بچتا بچاتا اشارہ گاہ تک پہنچا۔ سامنے دروازہ پر سورج کی زرد کرنوں میں سفید زنجیروں سے بندھا کالا کتا، استقبالیہ مسکراہٹ لےا درندوں کو خوش آمدید کر رہا تھا۔‘‘
—اکرام باگ
یہ مختصر سا قافلہ بار بار خود کو دہرا رہا تھا۔ گھوم پھر کر وہی لفظ تھے۔ وہی علامتیں تھیں، جو ذرا ذرا سے فرق کے ساتھ ساتھی جدیدیت پسند لکھنے والوں کی کہانیوں میں اترتی جاتی تھیں۔ یہ کہانیاں وہ آرام سے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر ایک نشست میں مکمل کر لیتے تھے۔۔۔۔ اور اس کے لے بہت زیادہ کہانی کے پیچھے دوڑنے یا بھاگنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی — یہ وہی دور تھا، جب اردو سے اس کا قاری دور ہو گیا — در اصل یہ دور اردو فکشن کے لےک سیاہ رات کی مانند تھا اور اس سیاہ رات کی آغوش سے کسی کرشمہ کی امید کرنا فضول تھا۔
میں تسلیم کرتا ہوں کہ قمر احسن اور اکرام باگ دونوں ہی بڑے تھے۔ مگر دونوں ہی جدیدیت کی یلغار کا شکار ہوئے۔ جب زمانہ تبدیل ہوا، اردو فکشن میں بھی تبدیلیاں آنے لگیں، ہماری دنیا سائنس اور ٹکنالوجی کی ریس میں بہت آگے نکل گئی، اس وقت شدت سے یہ احساس ہوا ہو گا کہ ہم کیا لکھ رہے ہیں؟ یا یہ کہ اب دنیا تبدیل ہو گئی ہے۔ جدیدیت کو بھی نیا سانچہ درکار ہے۔ کچھ غائب ہو گئے۔ کچھ خاموش ہو گئے۔ کچھ کو دردناک سزا ملی۔ اکرام باگ کی سوچ اپنے وقت سے آگے کی سوچ تھی، مگر یہ شخص بھی گمنامی کی آغوش میں چلا گیا۔ پھر گمنامی سے عدم آباد۔
جدیدیت بدلی ہوئی فضا میں سید محمد اشرف، خورشید اکرم، صدیق عالم، خالد جاوید کی شکل میں موجود ہے۔ یہ جدیدیت کے عروج کا دور ہے۔ سید محمد اشرف، خالد، صدیق اور خورشید نے بہترین کہانیاں ادب کو دی ہیں۔ کاش وقت پر اکرام باگ اور قمر احسن بھی یہ سمجھ لیتے کہ تغیر زمانہ کا نصیب ہے، تو گمشدگی کی ضرورت پیش نہیں آتی۔
٭٭٭