اقبال اور منصور حلّاج۔۔۔ ڈاکٹر رؤف خیر

ہمارے اکثر شعرا کے نزدیک حسین بن منصور حلّاج حق گوئی کا نمائندہ ہے جس کی پاداش میں اسے دار و رسن سے گزرنا پڑا۔ اردو اور فارسی شاعری میں منصور حلّاج کے لیے نرم گوشہ پایا جاتا ہے۔ بلکہ کئی صوفیہ کے پاس بھی منصور حلّاج تصوف کی اعلی منازل پر متمکن دکھائی دیتا ہے۔ اس کے آباء و اجداد زرتشت مذہب کے ماننے والے تھے۔ اس کا نام تو حسین ہے منصور تو اس کے باپ کا نام ہے اور حلاج کہتے ہیں روئی دھنکنے والا لداف یا نداف۔
حسین بن منصور حلّاج کی پیدائش 244 ہجری مطابق 828ء فارس میں ہوئی۔ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ منصور حلّاج کو 309 ھجری (مطابق 993ء) میں قتل کر دیا گیا تھا۔
مولانا عبدالرحمن کیلانی نے اپنی شاہ کار کتاب ’’شریعت و طریقت‘‘ (مطبوعہ مکتبہ السلام وسن پورہ لاہور طبع اول 1988) میں حلّاج کے تعلق سے متضاد نکات نظر پر مدلل تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے اپنی بات حوالوں کے ساتھ پیش کی ہے۔ وحدت الوجود اور حلول وغیرہ کے معاملات پر جو صوفیہ سے منسوب ہیں کھل کر بحث کی ہے۔ یہاں ہم اپنے موضوع سے متعلق امور میں ان کی کتاب سے استفادہ کر رہے ہیں۔
منصور حلّاج کا تعلق بھی حلول سے ہے۔ خدا کا کسی انسان کے جسم میں حلول کر جانے کا عقیدہ یہود و نصاریٰ میں بھی پایا جاتا ہے۔ عُزیر اور مسیح کو اللہ کے بیٹے سمجھنے کا نظریہ حلول ہی کا شاخسانہ ہے جس کی کتاب اللہ میں علی الاعلان نفی کی گئی ہے۔
سینٹ پال کا قول ہے کہ ’’ہم ذاتِ باری میں مسلسل تحلیل ہوتے رہتے ہیں‘‘ یہی حلول وحدت الوجود کی صورت ہے۔
عبد اللہ بن سبا یہودی تھا۔ اسلام کے ہاتھوں یہودیت کا قلع قمع جو ہوا تو اسے بے حد شاق گزرا۔ وہ بڑا ذہین تھا۔ مسلمانوں سے انتقام لینے کے تو یہودی قابل نہیں رہ گئے تھے چنانچہ اس نے منافقانہ چال اختیار کی۔ مسلمانوں کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنا شروع کیا۔ پہلے تو وہ حضرت علیؓ کو خدا کی ذات کا مظہر قرار دے کر یہ باور کرانے لگا کہ خدا ان کے بدن میں حلول کر گیا ہے۔ انھیں خدا ہی کہنے اور کہلوانے لگا۔ اس قسم کا عقیدہ رکھنے والوں کو حضرت علیؓ نے جلوا دیا مگر عبد اللہ بن سبا فرار ہو گیا۔
عبد اللہ بن سبا کا پھیلایا ہوا حلول کا یہ عقیدہ اس کے پیرو کاروں نصیریہ، کیسانیہ، قرامطیہ اور باطنیہ سے ہوتا ہوا صوفیہ کے اندر داخل ہو گیا۔ حسین بن منصور حلّاج بھی اسی عقیدے کے علم بردار تسلیم کیے جاتے ہیں۔ ان سے پہلے بھی ایسے صوفیہ گزرے ہیں جو یہی (حلول کا) عقیدہ رکھتے تھے مگر سینوں میں چھپائے رکھتے تھے۔ حلول کو شہرت دوام حلّاج سے ہوئی۔ اس کا دعویٰ تھا کہ خدا اس کے اپنے اندر حلول کر گیا ہے۔ اسی وجہ سے وہ ’’انا الحق‘‘ کا نعرہ لگاتا تھا‘‘۔ (شریعت و طریقت۔ صفحہ 68)
علامہ اقبال کو بھی تصوف سے خاصہ شغف ان کے والد شیخ نتھو سے ورثے میں ملا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اولیائے کرام سے انھیں گہری عقیدت رہی ہے۔ عبد الکریم الجیلی (متوفی 820ھ) مصنف ’’انسان کامل‘‘ بھی حلول کے عقیدے کا قائل و مبلغ تھا۔ حلّاج تو حلول کا جیتا جاگتا پیکر ہی تھا۔ اقبال نے فلسفۂ خودی پیش کرتے ہوئے الجیلی کے ’’انسان کامل‘‘ سے بھی استفادہ کیا تھا۔ منصور حلّاج بھی اقبال کا ہیرو رہا ہے۔ اقبال سے پہلے بھی کئی صوفیائے کرام حلّاج کی تائید کرتے نظر آتے ہیں۔
’’کشف المحجوب‘‘ کے مصنف حضرت علی ہجویری (متوفیٰ 465 ھجری) حلولی صوفیہ کے تعلق سے لکھتے ہوئے منصور حلّاج کی مدح میں رقم طراز ہیں:
’’انھی میں سے مستغرق معنی ابو المغیث حضرت حسین بن منصور حلّاج رضی اللہ عنہ ہیں۔ آپ سر مستان بادۂ وحدت اور مشتاق جمال احدیت گزرے ہیں اور نہایت قوی الحال مشائخ تھے۔ (کشف المحجوب)
جنید بغدادی کے خلیفہ شبلی کا حوالہ دیتے ہوئے علی ہجویری لکھتے ہیں:
شبلی کہتے ہیں ’’میں اور حسین بن منصور حلّاج ایک ہی طریق پر ہیں مگر مجھے میرے دیوانہ پن نے پیچھے رکھا اور حسین بن منصور حلّاج کو اس کی عقل مندی نے ہلاک کر دیا‘‘۔
یہ لکھ کر علی ہجویری تبصرہ کرتے ہیں: ’’اگر معاذ اللہ وہ (منصور) بے دین ہوتے تو شبلیؒ یہ نہ فرماتے کہ میں اور حلّاج ایک ہی چیز ہیں۔‘‘
جوش عقیدت میں علی ہجویری نے منصور کے ساتھ ’’رضی اللہ عنہ‘‘ تک لکھ دیا۔ حالانکہ یہ سند صرف صحابہ کرام کے لیے اللہ نے اتاری ہے۔
صاحب گلشن راز محمود شبستری نے اپنی مثنوی میں حلّاج کی تائید میں یہ شعر کہا ہے:
روا باشد انا الحق از درختے
چرا نبود روا از نیک بختے!
یعنی طور سینا پر جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دیدار الٰہی پر اصرار کیا تو اللہ نے لن ترانی کہا بھی کہ تو نہیں دیکھ سکتا۔ اس کے باوجود ایک ہلکی سی جھلک بھی دیکھ نہ پائے۔ ایک درخت سے آواز آئی کہ ’’یہ میں خدا ہوں‘‘۔ اسی واقعے کی طرف محمود شبستری اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے۔
ایک درخت اگر یہ کہتا ہے کہ میں خدا ہوں تو وہ تو روا ہے مگر حلّاج ایک نیک بخت ’’ انا الحق‘‘ کہتا ہے تو کیسے ناروا ہو گیا؟
علامہ اقبال بھی زبور عجم میں محمود شبستری کی تائید کرتے نظر آتے ہیں۔ اپنی مثنوی ’’گلشن راز ’’ میں‘‘انا الحق کس حقیقت کا بیان ہے؟‘‘ کے جواب میں محمود شبستری نے کہا: ’’سوائے حق کے کوئی انا الحق کہہ نہیں سکتا‘‘۔
علامہ اقبال بھی محمود کی ہم نوائی کرتے ہوئے اپنی مثنوی ’’گلشن رازِ جدید‘‘ میں فرماتے ہیں کہ ’’ہمارے علم کی بنیاد قیاس پر ہے اور قیاس کی بنیاد ’’حِس‘‘ پر ہے۔۔۔۔ کائنات ہماری نظروں کے سامنے ہوئے ہوئے بھی اس کے ہونے کی گواہی لابدی ہے تو خودی جو نظروں سے پوشیدہ ہے اس کے وجود پر گواہی کو غلط کیوں کہا جائے۔ یہ ’’انا الحق‘‘ کی صدا گواہی ہے خودی کے حق ہونے پر۔ علامہ اقبال نے کہا:
بہ خود گم بہر تحقیق خودی شو
انا الحق گوئے و صدیق خودی شو
’’تحقیق کی خاطر خود میں گم ہو کر خودی کا اظہار بن جا اور انا الحق کا نعرہ لگا کر خودی کی تصدیق کرنے والا ہو جا۔‘‘
موسیٰ کے دیدار الٰہی کے سلسلے میں عرض ہے کہ موسیٰ تو کلیم اللہ کہلاتے ہیں کہ اللہ نے کلام سے مشرف کیا۔ کلام ظاہر ہے ماورائے حجاب ہی ہوتا رہا۔ روبرو ہونے کی آرزو کبھی پوری نہ ہو سکی۔ طور پر درخت کا انّی اللہ کہنا ماورائے حجاب ہی کی ایک صورت ہے۔ اس کو بہانہ بنا کر حلّاج کے انا الحق کا جواز پیدا کرنا جسارت علمی کے سوا کیا ہے۔ العلم حجاب الاکبر۔
حلّاج کے تعلق سے اپنی مثنوی میں مولانا روم نے حلّاج کا فرعون سے تقابل کر کے کہا:
گفت فرعو نے انا الحق گشت پست
گفت منصورے انا الحق گشت مست
لعنت اللہ ایں انا را در قفا
رحمۃ اللہ ایں انا را درقفا
ترجمہ: ’’فرعون نے انا الحق کہا تو ذلیل ہو گیا اور منصور نے انا الحق کہا تو عشق و محبت میں مست قرار پایا۔ فرعون کی خودی کے لیے تو بعد میں اللہ کی لعنت ہی رہ گئی اور منصور کی خودی کے لیے بعد میں اللہ کی رحمت رہی ہے‘‘۔
رومیؔ کی یہ تفریق آخر کس بنیاد پر روا سمجھی جائے۔ قانون قدرت کے مطابق دونوں کو سزا ملنی چاہئے تھی سو فرعون غرقاب ہوا تو منصور حلّاج قتل کر دیا گیا۔
عبد الحق محدث دہلوی کی کتاب ’’اخبار الاخیار‘‘ کا ترجمہ کرتے ہوئے سبحان محمود فرماتے ہیں کہ پیران پیر حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ (متوفی۔ 561 ہجری) کا اقتباس ہے:
حضرت شیخ (پیرانِ پیر) نے فرمایا کہ ’’حسین بن منصور حلّاج کے زمانے میں کوئی ان کی دستگیری کرنے والا اور جس لغزش میں وہ مبتلا ہوئے، کوئی بچانے والا نہیں تھا۔ اگر میں ان کے زمانے میں ہوتا تو ان کی دست گیری کرتا اور نوبت یہاں تک نہ پہنچتی‘‘۔
اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ’’شریعت و طریقت‘‘ کے مصنف جناب عبدالرحمن کیلانی نے فرمایا:
’’ شیخ عبدالقادر جیلانیؒ حلّاج کی کس قسم کی دست گیری فرمانا چاہتے تھے یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ وہ اُسے اس عقیدے سے باز رکھنا چاہتے تھے یا اس عقیدے کو سینے میں چھپانے کی تلقین کرنا چاہتے تھے یا علمائے وقت کے فتوے سے اختلاف کر کے انھیں بچا لینا چاہتے تھے۔ بہ ہر حال یہ بات واضح ہے کہ آپ کو (پیران پیر کو) حلّاج سے ہمدردی ضرور تھی۔‘‘
خواجہ نظام الدین اولیا (متوفی 725 ہجری) کا فتویٰ منصور حّلاج کے تعلق سے دو ٹوک ہے:
’’اخبار الاخیار می نویسد کہ از نظام الدین اولیا سوال کردند کہ حکم شیخ ابن منصور حلّاج چیست؟
فرمود کہ مردود است۔ جنیدؒ او رارد کردہ بود جنید مقتدائے وقت بود۔ ردّ او ردّ ہمہ باشد)
ترجمہ: صاحب اخبار الاخیار لکھتا ہے کہ نظام الدین اولیا سے پوچھا گیا کہ شیخ کا ابن منصور حلّاج کے متعلق کیا ارشاد ہے۔ فرمایا۔ ’’وہ مردود ہے۔ جنیدؒ نے اس کو رد کیا تھا۔ جنید مقتدائے وقت تھے۔ ان کا رد کرنا سب کا رد کرنا ہے‘‘
(حوالہ: البلاغ المبین فارسی از شاہ ولی اللہ محدث دہلوی صفحہ 77 مطبوعہ مکتبہ سلفیہ لاہور)
اس پر صاحب شریعت و طریقت کا محاکمہ سوچنے پر مجبور کرنے والا ہے۔ تبصرہ ملاحظہ فرمائیے:
’’واضح رہے کہ حضرت جنید تو 298 ہجری میں وفات پا گئے تھے حّلاج کا قتل 309 ہجری میں ہوا۔‘‘ گویا انھوں نے اپنی زندگی ہی میں حلّاج کو رد کیا تھا۔
حلّاج کے تعلق سے بریلوی مسلک کے امام احمد رضا خان سے دریافت کیا گیا:
سوال: حضرت! منصورؔ اور تبریزؔ و سرمدؔ نے ایسے الفاظ کہے جن سے خدائی ثابت ہے لیکن ولی اللہ گنے جاتے ہیں اور فرعون، شداد، ہامان و نمرود نے (یہی) دعویٰ کیا تھا تو مخلد فی النار ہو گئے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب: اُن کافروں نے خود کہا اور ملعون ہوئے اور اِنھوں نے (صوفیہ نے) خود نہ کہا (بلکہ) اس نے کہا جسے کہنا شایان ہے، اور آواز بھی انہی سے مسموع ہوئی جیسے حضرت موسیٰ نے درخت سے سنا انی انا اللہ (میں ہوں رب) کیا درخت نے کہا تھا؟ حاشا۔ بلکہ اللہ نے کہا تھا۔‘‘
اس پر مصنف شریعت و طریقت کا تبصرہ ہے:
’’دیکھیے عقیدۂ حلول کی کس قسم کے اسرار و رموز سے وکالت فرما رہے ہیں؟‘‘۔
حلّاج کے متعلق ابنِ عربی نے اپنی ’’فتوحات مکیہ‘‘ میں ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ مشہور بزرگ شیخ ابو عمر و بن عثمان مکی، حلّاج کے سامنے سے گزرے اور پوچھا کیا لکھ رہے ہو؟ حلّاج نے جواب دیا ’’قرآن کا جواب لکھ رہا ہوں‘‘ یہ سُن کر ابو عمر و بن عثمان نے بد دعا کی اور انھی کی بددعا کا نتیجہ تھا کہ حلّاج قتل کر دیا گیا۔
حلّاج کے متعلق امام ابن تیمیہؒ اور حافظ ابن قیمؒ دونوں نے صاف لکھا کہ وہ کافر تھا اور اس کے تعلق سے علماء کا فیصلہ (قتل) بالکل ٹھیک تھا‘‘۔
(شریعت و طریقت صفحہ 78)
اقبال کے قریبی دوست سید سلیمان ندوی نے رسالہ معارف جلد 2 شمارہ 4 میں حسین بن منصور حلّاج کے بارے میں معلومات دیں کہ وہ شعبدہ باز، ہاتھوں کے کھیل میں بہت چالاک اور مشاق تھا۔ مضمون میں انھوں نے ابن سعد قرطبی، بغداد کے مشہور سیاح ابن موقل، مسعودی، ابن جوزی، ابن اثیر کی کتابوں کے حوالے بھی دیئے۔ سید سلیمان ندوی نے اپنے مطالعے کے نچوڑ کے طور پر یہ بھی پیش کیا کہ منصور حلّاج یہ کہتا تھا کہ ’’خدا مجھ میں حلول کیا ہے اور میں بالکل خدا ہی ہوں‘‘۔
ابن اثیر کے حوالے سے یہ بھی لکھتے ہیں کہ خلیفہ مقتدر باللہ نے منصور اور اس کے چیلوں کا معاملہ حامد بن عباس کے سپرد کر دیا۔ حامد بن عباس نے منصور حلّاج کی کتاب علمائے وقت کے سامنے پیش کر کے اس کے قتل کا فتویٰ حاصل کیا۔ حلّاج نے جس میں لکھا تھا:
’’اگر کوئی شخص حج نہ کر سکے تو ایک صاف ستھری کوٹھری کو لیپ پوت کر حج کے ارکان اس کے سامنے ادا کرے۔ پھر تین یتیموں کو بلوا کر انھیں عمدہ کھانا کھلائے، عمدہ کپڑے پہنائے اور سات سات درہم ان کے حوالے کر دے تو اس کو حج کا ثواب مل جائے گا۔‘‘
حامد بن عباس نے جب یہ فقرے قاضی القضاۃ کو سنائے تو اس نے حلّاج سے پوچھا کہ اس کا ماخذ کیا ہے؟ حلّاج نے حسن بصری کی کتاب ’’الاخلاص، کتاب السنہ‘‘ کا حوالہ دیا۔ حلّاج کی یہ کذب بیانی سن کر قاضی القضاۃ غضب ناک ہو گیا کیوں کہ وہ کتاب مذکورہ پڑھ چکا تھا اور اس میں ایسی کوئی بات نہ تھی۔ بالآخر قاضی القضاۃ نے لکھ دیا کہ ایسے شخص (منصور) کا خون حلال ہے۔ اس تحریر پر کئی علماء نے دستخط کر دیئے چنانچہ حلّاج ارتداد اور زندقہ کی سزا میں پہلے قتل کیا گیا، پھر جلایا گیا اور اس کی راکھ کو دریا برد کر دیا گیا۔ (بحوالہ ’’شریعت و طریقت‘‘۔ مولانا عبدالرحمن کیلانی۔ مکتبہ السلام لاہور)
اقبال کے ایک غالی معتقد محمد بدیع الزماں ریٹائرڈ ایڈیشنل مجسٹریٹ پٹنہ نے ماہ نامہ ’’دار العلوم‘‘ دیوبند کے خصوصی شمارے بابت اپریل مئی جون 1993 میں شائع شدہ ایک مضمون ’’صوفیت‘‘ کے حوالے سے حلّاج کے تعلق سے بیان کیا کہ حلّاج پر کفر کا فتویٰ لگایا گیا۔ اُن پر چار ایسے زبردست الزامات تھے جن کی صفائی منصور (پیش) نہ کر سکے۔
۱۔ ان کا تعلق باطنیہ نواز ایک مشہور شیعہ فرقہ قرامطہ سے تھا۔
۲۔ ان کی زبان سے اکثر انا الحق نکلتا تھا جس کے ظاہری معنی ہیں کہ میں خدا ہوں۔
۳۔ ان کے معتقدین ان کو خدا سمجھتے تھے اور اس پر وہ خاموش رہتے تھے۔
۴۔ حج کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ ایسا فرض نہیں ہے جس کو ادا کرنا ضروری ہے۔
یہاں ’’انا الحق‘‘ کے باطنی معنی بھلا کیا ہو سکتے ہیں۔ اور حج تو اسلام کا اہم رکن ہے اس کو فرض نہ سمجھنے والے کے تعلق سے نرم گوشہ کیا معنی؟ اسی کتاب میں ڈاکٹر یوسف (حسین) خان کی کتاب ’’حافظ اور اقبال‘‘ کے حوالے سے یہ اقتباس بھی ہے:
’’اقبال نے حلّاج کو اثبات ذات کا علم بردار خیال کیا۔ ظاہر پرست علماء نے اس کی عظمت کو نہیں پہچانا۔۔۔ اقبال کہتا ہے کہ یہ غلط بینی تھی کہ ظاہر پرست علماء نے حلّاج کے حقیقی روحانی محرکات کا صحیح اندازہ نہیں کیا۔۔۔ مولانا روم کا بھی یہی خیال ہے کہ حلّاج نے راز کی بات ایسوں سے کہہ دی جو اس کے اہل نہ تھے۔ حلّاج نے احتیاط سے کام نہیں لیا۔ روحانی اسرار و رموز ہر کس و ناکس نہیں سمجھ سکتا۔ حلّاج کی خودی اس قدر قوی اور توانا تھی کہ وہ اظہار کے لیے بے تاب ہو گئی اور وہ اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکا۔ با ایں ہمہ یہ قصور ایسا نہ تھا کہ اُسے سولی کی سزا دی جاتی۔۔۔‘‘۔
اس طرح خواص ہی حلّاج کے تعلق سے نرم رویہ رکھتے ہیں تو عوام تو بہ درجۂ اولی اُسے ہیرو ماننے میں گویا حق بجانب ہیں۔
فرید الدین عطار نے حلّاج کو عاشقوں کا سردار کہا ہے:
لیکن اندر قمار خانۂ عشق
بہ زمنصور کس نہ باخت قمار
گویا کون ہے جو اس قمار خانے میں حلّاج کا حریف ہو سکتا ہے۔
حافظ شیرازی بھی حلّاج کے تعلق سے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں:
گفت آں یار کزد گشت سرِ دار بلند
جرمش ایں بود کہ اسرار ہو یدامی کرد
دوسری جگہ (حافظ نے) کہا ہے کہ عشق کے اسرار سولی پر بیان کیے جاتے ہیں۔ ان کی نسبت شافعی سے کچھ دریافت کرنا بے سود ہے۔ امام شافعی سے مراد اہل شریعت ہیں (جو دین کے معاملے میں بہت سخت ہیں اور کسی فقہی گنجائش کو راہ نہیں دیتے)۔
حلّاج بر سر دار این نکتہ خوش سراید
از شافعی نہ پرسید امثال ایں مسائل
علامہ اقبال کے پاس بھی صوفیہ سے بے حد عقیدت پائی جاتی ہے۔ شیخ احمد سرہندی کے مزار پر تو وہ اپنے دس سالہ بیٹے جاوید کے ساتھ جا کر اپنی منت پوری کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔
ان کے علاوہ نظام الدین اولیا سے اقبال کی عقیدت کا ثبوت ان کی نظم ’’التجائے مسافر‘‘ آج بھی ان کی درگاہ میں آویزاں ہے۔ حضرت جنید، بسطامی، خواجہ اجمیری، علی ہجویری وغیرہ بزرگان دین سے بھی اقبال بڑی عقیدت رکھتے ہیں۔ انھوں نے ’’حلّاج کو بھی خودی کا زبردست مبلغ اور علم بردار قرار دیا۔ اقبال نے دوسرے صوفیہ کی طرح حلّاج کو روحانیت کا ہیرو مانا ہے‘‘ (محمد بدیع الزماں۔ اقبال کی جغرافیائی۔ اور شخصیتوں سے منسوب اصطلاحات 1995)
(ناشر دانش بک ڈپو۔ ٹانڈہ۔ امبیڈکر نگر یوپی)
بال جبریل (غزل دوم میں اقبال کہتے ہیں:
رقابت علم و عرفاں میں غلط بینی ہے منبر کی
کہ وہ حلّاج کی سولی کو سمجھا ہے رقیب اپنا
اس شعر کی تشریح فرماتے ہوئے محمد بدیع الزماں بھی اقبال کی ہم نوائی یوں کرتے ہیں:
’’اقبال کا کہنا ہے کہ اہل منبر علماء نے اپنی غلط بینی کی وجہ سے حلّاج کے حقیقی روحانی محرکات کا صحیح اندازہ نہیں کیا اور انھوں نے ’’انا الحق‘‘ کے کلمے سے وہی معنی مراد لیے جو لفظوں سے ظاہر ہوتے ہیں۔ بعد ازاں بعض بزرگوں نے منصور کے اس قول کی تاویل کی اور ان کو اہل اللہ میں شمار کیا مثلاً شیخ اکبر ابن عربی، مولانا روم ہندوستان میں حضرت خواجہ باقی باللہ، حضرت مجد الف ثانی سرہندی وغیرہ۔
علامہ اقبال نے اپنے آپ کو حَلاج کی روایت کو آگے بڑھانے والے کے روپ میں پیش کیا ہے۔ ملاحظہ ہو ’’ضربِ کلیم‘‘ کے دو شعر جن پر عنوان ہی ’’اقبال‘‘ ہے اور رومی و سنائی کو بھی گواہی میں پیش کیا ہے۔
فردوس میں رومیؔ سے یہ کہتا تھا سنائی
مشرق میں ابھی تک ہے وہی کاسہ وہی آش
حَلاج کی لیکن یہ روایت ہے کے آخر
اک مرد قلندر نے کیا راز خودی فاش
اقبال نے یہ مکالمہ جنت الفردوس میں رومی و سنائی کو پہنچا کر دونوں کے مابین کروایا ہے کہ مشرق میں میں وہی کاسہ لیسی ہے اور وہی معمولی سا شوربہ اس کا نصیب ہے جب کہ حلّاج کی روایت کو اک مرد قلندر یعنی اقبال نے آگے بڑھا کر خودی کا راز فاش کر دیا۔
وہ تو اللہ کا شکر ہے کہ سر براہ مملکت یا ارباب اقتدار کے ہاتھوں اقبال کا وہ حشر نہیں ہوا جو حلّاج کا ہوا۔
حلّاج کے ’’انا الحق‘‘ کے نعرے سے استفادہ کرتے ہوئے اقبال نوجوان سے خطاب کرتے ہوئے اسے بھی للکارتے ہوئے ترغیب دلاتے ہیں:
’’قم باذن اللہ‘‘۔
جہاں اگرچہ دگر گوں ہے، قم باذن اللہ
وہی زمیں وہی گردوں ہے، قم باذن اللہ
کیا نوائے انا الحق کو آتشیں جس نے
تری رگوں میں وہی خوں ہے، قم باذن اللہ
انا الحق کی پکار میں جس نے آگ بھر دی تھی وہی خوں (اے نوجوان ) تیری رگوں میں بھی ہے تو بھی اللہ کے نام پر اٹھ۔ بیدار ہو۔ بیداری کی ترغیب اچھی تو ہے مگر انا الحق کے حوالے سے قم باذن اللہ کی للکار کو نوجوان بھی کہیں خدائی کی دعویداری کا پروانہ نہ سمجھ لیں۔ مجاہدانہ جذبات اور مجذوبانہ حالات میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔
بانگ درا کی ایک غزل میں بھی اقبال نے جذب و مستی کی ایسی ہی کیفیت کا انجام دکھا دیا ہے۔
منصور کو ہوا لبِ گویا پیام موت
اب کیا کسی کے عشق کا دعویٰ کرے کوئی
گویا اقبال بھی اپنے پیش روؤں کی طرح یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ خدائی کا دعویٰ تو خیر ٹھیک ہے مگر اس کا اظہار نہیں کرنا چاہئے تھا مگر وہ دعویٰ ہی کیا جو لب اظہار تک نہ پہنچے۔ اقبال اور وہ صوفیہ جو یہ سمجھتے تھے کہ حلّاج کو اپنی خودی کو فاش نہیں کرنا چاہئے تھا گویا انھیں کتمان حق سے کام لے کر تقیہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
علامہ اقبال کا مشہور شاہ کار ’’جاوید نامہ‘‘ ہے جس میں وہ زندہ رود کی صورت اپنے مرشد معنوی رومیؔ کو اپنا رہبر بنا کر آسمانوں کی سیر کرتے ہیں فلک قمر، فلک عطارد، فلکِ زہرہ، فلک مریخ، فلکِ مشتری، فلکِ زحل پر کئی مشاہیر سے اقبال کی ملاقاتیں ہوتی ہیں جن سے اقبال کا مکالمہ بھی ہوتا ہے۔ اگر وہ شاعر بھی ہیں تو اقبال نے ان کے اشعار بڑے سلیقے سے اپنے جاوید نامہ میں جڑ دیئے ہیں۔
فی الحال ہم فلکِ مشتری کی سیر اقبال کے ساتھ کرنا چاہیں گے۔ جہاں بقول اقبال۔ حلّاج، مرزا غالب اور قرۃ العین طاہرہ کی ارواح جلیلہ نے بہشت کو خیرباد کر کے گردشِ جاودانی اختیار کی یعنی سیر دوام کو جنت پر فوقیت دی۔ ہم اپنے موضوع کے مطابق حلّاج سے اقبال کی عقیدت سے واسطہ رکھیں گے۔
اقبال صوفی حلّاج سے سوال کرتے ہیں:
ازمقام مومناں دوری چرا؟
یعنی از فردوس مہجوری چرا؟
مومنوں کی منزل سے تمہاری دوری یعنی جنت الفردوس سے مہجوری و محرومی کا سبب کیا ہے؟
حلّاج جواب میں جو کچھ کہتا ہے وہ در اصل اس کے جذبات کی ترجمانی ہے جو اقبال کر رہے ہیں۔
مرد آزادے کہ داند خوب و زشت
می نگنجد روحِ او اندر بہشت
جنت ملّا مے و حور و غلام
جنت آزاد گاں سیر دوام
جنتِ ملا خورو خواب و سرود
جنتِ عاشق تماشائے وجود
اچھے برے کی تمیز رکھنے والے آزادہ رو کی روح بھلا، بہشت میں کیسے قید رہے گی۔ ملا کی جنت شراب، حور و غلمان سے عبارت ہے۔ جب کہ آزاد بندوں کی جنت تو سیر دوام (گھومنا پھرنا ہے)۔ ملا کی جنت تو کھانے سونے اور خوش نوائی میں مست رہنے کا نام ہے جب کہ عاشقوں کی جنت تو وجود کا تماشا ہے۔ تماشائے وجود سے مراد دیدار وجود ہے۔ اس کے بعد علم اور عشق کے تعلق سے فلسفیانہ نکات کا اظہار ہے۔
زندہ رود حلّاج سے سوال کرتا ہے؟
گردش تقدیر مرگ و زندگیست
کس نداند گردش تقدیر چیست؟
گردش تقدیر موت و حیات سے عبارت ہے مگر خود گردشِ تقدیر آخر ہے کیا؟
یہاں حلّاج جواب میں جبر و قدر پر روشنی ڈالتے ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ کیجئے:
ہرکہ از تقدیر دارد سازو برگ
لرزد از نیروئے او ابلیس و مرگ
جبر دین مرد صاحب ہمت است
جبرِ مرداں از کمال قوت است
کار مردان است تسلیم و رضا
بر ضعیفاں راست ناید ایں قبا
جسے تقدیر کا ساز و سامان مل گیا اس سے ابلیس اور موت بھی گھبراتے ہیں صاحب ہمت کا دین جبر ہے اور مردوں کا جبر بجائے خود کمال قوت ہے۔ مردوں کا شیوہ تو تسلیم و رضا ہونا چاہئیے یہ قبا کم زوروں کے بدن پر زیب نہیں دیتی۔
زندہ رود آگے حلّاج سے وضاحت طلب کرتے ہوئے ہمدردانہ لہجہ اختیار کرتا ہے۔
کم نگاہاں فتنہ ہا انگیختند
بندۂ حق را بدار آو یختند
آشکار ابر تو پنہان وجود
باز گو آخر گناہ تو چہ بود؟
اقبال بہ صورت زندہ رود فرماتے ہیں کہ کم نگاہوں نے فتنہ پیدا کیا اور تجھ جیسے بندۂ حق کو سولی پر لٹکا دیا آخر تجھ پر کیا راز آشکار ہوا اور بتا تو سہی کہ تیرا گناہ کیا تھا؟۔ اب حلّاج وضاحت پیش کرتا ہے (صرف تین شعر دیکھیے)
بود اندر سینۂ من بانگِ صور
ملتے دیدم کہ دارد قصد گور
من زِ نورونار او دادم خبر
بندۂ محرم۔ گناہِ من نگر
آنچہ من کردم تو ہم کر دی بترس
محشرے بر مردہ آور دی بترس
ایک صور میرے سینے میں گونجتا رہا مگر قوم و ملت مجھے درگور کرنے پر اتاؤلی ہوئی ہے۔ میں نے تو اس کے نور و نار کی خبر دی میں اسی آگہی کا گناہ گار ہوں پھر اقبال کو حلّاج متنبہ کرتے ہیں کہ میں نے جو کیا ہے وہ تم بھی قوم و ملت کو بیدار کرنے کے لیے کر رہے ہو مگر ذرا چوکنا ہو جاؤ کہ کہیں تمھارا بھی وہی حشر نہ ہو جو میرا ہوا ہے۔
فلکِ مشتری پر حلّاج سے اقبال کا مکالمہ اس کے لیے نہ صرف نرم گوشے کا بلکہ اس کی ہم نوائی کا بھی غماز ہے جو ’’جاوید نامہ‘‘ میں اس کی شمولیت ہی سے مترشح ہے۔ حلّاج کے ساتھ جاوید نامہ میں مزید مکالمہ کرتے ہوئے اقبال اور بھی سوالات کرتے دکھائی دیتے ہیں جن کا حلّاج معقول جواب دیتے جاتے ہیں جیسے عشق کیا چیز ہے، دیدارِ خدائے نہ سپہر کیسے ممکن ہے؟ دنیا پر نقش حق کس طرح ڈالا جائے؟
اقبال بہ صورتِ زندہ رود حسین ابن منصور حلاجؔ سے کچھ اور سوالات کرتے ہیں جیسے
از تو پُر سم گرچہ پُر سیدن خطاست
سرّ آں جو ہر کہ نامش مصطفیٰ است
آدمے یا جو ہرے اندر وجود
آں کہ آید گا ہے گاہے در وجود
پوچھنا خطا کے مترادف ہے پھر بھی سوال ہے کہ اُس جو ہر کا آخر راز کیا ہے جو حضرت مصطفیٰ کے نام سے وابستہ ہے آیا وہ اپنے آپ میں آدمی ہیں یا جوہر ہیں جو گاہے گاہے نمو پاتا ہے؟۔ اس کے جواب میں منصور حلاج کہتا ہے:
پیش او گیتی جبیں فرسودہ است
خویش را خود عبدہٗ فرمودہ است
عبدہٗ از فہم تو بالا تر است
زاں کہ او ہم آدم و ہم جو ہر است
(یعنی ہر چند کہ وہ اپنے آپ کو عبدہٗ (اللہ کا بندہ) کہتے ہیں مگر دنیا ان کے آگے ماتھا ٹیکتی ہے اس طرح ان کا خود کو عبدہٗ کہنا سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ آدم بھی ہیں اور جوہر بھی ہیں)
عبد دیگر۔ عبدہٗ چیز دگر
ما سراپا انتظار او منتظر
(یہاں سورۃ کہف کی آیات رہنمائی کرتی ہیں کہ قرآن کہتا ہے قُلْ انّمَا اَنَا بَشَرمِثْکُمْ یُوحَی اِلیہ اَنّمَا اِلھَکُمْ اِلَہ وَاحِد۔ آپﷺ اعلان فرما دیجئے کہ میں بھی تمھاری ہی طرح ایک بشر ہوں البتہ میری امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اِلَہ واحد کی طرف سے مجھ پر وحی اترتی ہے۔ )
آگے منصور حلاج کی زبانی جو شعر کہلوایا گیا ہے وہ لولاک لما خلقت الا فلاک کا ترجمان ہے جو صحاح ستہ تو کجا حدیث کے کسی ذخیرے میں نہیں مگر علما ء و شعرا کی زبان پر چڑھا ہوا ہے۔
عبدہٗ دہراست و دہر از عبدہٗ ست
ماہمہ رنگیم اُو بے رنگ و بوست
عبدہٗ با ابتد۔ بے انتہا است
عبدہٗ راصبح و شام ما کجاست
یہاں دوسرے شعر میں اس عام خیال کی طرف اشارہ ہے کہ آپﷺ تو اس وقت سے ہیں جب آدم ابھی آب و گل کی منزلیں طے کر رہے تھے۔ آگے منصور کہتا ہے
کس زِ سِرّ عبدہٗ آگاہ نیست
عبدہٗ جُز سرّ الا اللہ نیست
لا الہ تیغ و دمِ اُو عبدہٗ
فاش تر خواہی بگو ہو عبدہٗ
کوئی آپﷺ کی بندگی کے راز سے آگاہ نہیں کہ آپ تو الا اللہ کے راز سے ہٹ کر کچھ اور نہیں۔ کلمۂ لا الہ کو اگر تلوار سمجھیں تو اس کی دھار آپﷺ ہیں۔ تو اس راز کو فاش ہی کرنا چاہے تو انھیں اللہ ہو کہو۔ اگلے شعر میں بظاہر عجز سے کام لیتا ہے مگر آیت کی غلط تاویل کرتا ہے:
مدعا پیدا نگر دد زیں دوبیت
تا نہ بینی از مقام ما رمیت
قرآن مجید کی آٹھویں سورۃ انفال کی آیت نمبر 18 کی شان نزول یہ ہے کہ جنگ بدر کے موقع پر رسول اکرمﷺ نے مٹھی بھر ریت کافروں کی طرف پھونکی جو ان کے قتل و غارت گری کا سبب بنی۔ آیت ہے: فَلَم تقتلو ہم و لکنّ اللہ قتلھم و ما رمیت اِذ رمیت ولکن اللہ رمی و لیبلی المومنین منہ، بلاء حسنا۔ ان اللہ سمیع علیم۔
(ترجمہ: پس حقیقت یہ ہے کہ تم نے انھیں قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے قتل کیا۔ تو نے ریت نہیں پھینکی بلکہ اللہ نے پھینکی تاکہ اللہ مومنوں کو کامیابی دے۔ یقیناً وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ )
یہاں منصور حلاج کہتا ہے دو شعر میں میرا مدعا تو نہیں پائے گا جب تک کہ تو ’’مقام مار میت‘‘ کی معرفت نہ رکھتا ہو۔ عام صوفیہ کی طرح وہ بھی یہ کہنا چاہتا ہے کہ بظاہر آپ عبدہٗ ہیں مگر خدا بھی آپ میں حلول کر گیا کہ اللہ ہی تو کہہ رہا ہے، قتل کرنے والے اور مٹھی بھر ریت پھینکنے والے آپ کی صورت میں ہم ہی تو ہیں۔ نعوذ باللہ۔ اس طرح وہ اپنے ’’انا الحق‘‘ ہونے اور کہنے کا جواز پیدا کرنا چاہتا ہے کہ خدا اُس میں بھی تو حلول کر سکتا ہے۔
جب کہ آیت کا منشا یہ ہے کہ اللہ کے 1000 نافرمان بندوں کی آنکھوں میں خاک ڈالنے والے، قتل کرنے والے اور آپ کو اور 313 مومنوں کو کامیابی دلانے والے ہم ہیں۔ فتح کا سہرا مومن اپنے سرنہ باندھیں بلکہ اللہ کا شکر ادا کریں کہ اللہ کی مدد کے بغیر یہ معرکہ سر نہ ہوتا۔
زندہ رود کا سوال ہے:
معرفت را انتہا نابو دن است
زندگی اندر فنا آسودن است؟
(کیا زندگی کو آسودگی فنا میں ملتی ہے، کیا نہ ہونا ہی معرفت کی انتہا ہے؟)
اس کے جواب میں منصور حلاج عدم کے بجائے وجود کی اہمیت دکھاتے ہوئے کہتا ہے:
سکریا راں از تہی پیمانگیست
نیستی از معرفت بیگا نگیست
اے کہ جوئی درفنا مقصود را
در نمی یابد عدم موجود را
(نیستی تو عرفان سے نا آگہی ہے فنا میں تو مقصود کیا ڈھونڈتا ہے کہ عدم تو موجود کو چھو بھی نہیں سکتا)
ایک اور سوال زندہ رود اس ذات کے بارے میں پوچھتا جو خود کو خاک زادوں سے بہتر شمار کرتی ہے۔ حالانکہ خاک کا پیکر معراج سے سرفراز کیا گیا ہے۔
آنکہ خود را بہتر از آدم شمرُد
در خُم و جامش نہ مئے باقی نہ دُرد
مشت خاک پا بگردوں آشنا ست
آتش آں بے سر و ساماں کجاست؟
اس سوال پر منصور حلاج ابلیس کی بزرگی و برتری کے گن گانے لگتا ہے:
کم بگو از خواجۂ اہلِ فراق
تشنہ کام و از ازل خونیں ایاق
ماجہول او عارف بوو نبود
کفر او ایں راز را برما کشود
زاں کہ او درعشق و خدمت اقدم است
آدم از اسرار او نامحرم است
چاک کن پیراہن تقلید را
تا بیا موزی از و توحید را
خواجۂ اہل فراق یعنی ابلیس کے بارے میں نہ پوچھ کہ ہم ہی جاہل ہیں۔ اس کے کفر سے پتہ چلا کہ وہ تو بڑا عارف (پہنچا ہوا) ہے۔ اس کے عشق اور اسرار سے ابھی انسان ناواقف ہے۔ تقلید کی روِش چھوڑ اور اس سے توحید سیکھ۔
اقبال اب حلّاج سے کچھ دیر اور رکنے کو کہتے ہیں تو حلّاج کہتا ہے۔
بامقامے در نمی ساز یم وبس
ما سراپا ذوق پر وازیم و بس
یعنی ہم کو کہیں مقام کرنا نہیں بھاتا ہم تو سراپا ذوقِ پرواز کے مارے ہوئے ہیں۔
مختصر یہ کہ دیگر صوفیہ کی طرح حلّاج بھی اقبال کا ہیرو ہے۔ اس عقیدت کا بین ثبوت یہ بھی ہے کہ حلّاج کی تصنیف ’’طواسین‘‘ کی اتباع میں اقبال نے بھی جاوید نامہ میں ذیلی، عنوانات طاسین گوتم، طاسینِ زرتشت، طاسینِ مسیح، طاسین محمد وغیرہ قائم کیے۔
علامہ اقبال کی منصور حلاج سے عقیدت کا ایک اور ثبوت محمد اکرام چغتائی کے مضمون کے حوالے سے پیش ہے:
’’اسلام شناسوں میں فرانس کے کیتھولک لوئی ما سینیوں (Louis Massignon 1962-1885) کا اسم گرامی ہے جو پچاس برس کے لگ بھگ معروف صوفی حلاج، ان کے حالات زندگی اور نو دریافت شدہ تالیفات پر لکھتا رہا۔ ایام جوانی میں ان کی بظاہر گم شدہ ’’کتاب الطواسین‘‘کا خطی نسخہ دریافت کیا جو 1913 میں شائع ہو کر علمی دنیا کے سامنے آیا۔ جوں ہی اس کی اشاعت کی خبر علامہ اقبال تک پہنچی تو انہوں نے یورپ میں مقیم اپنے بعض احباب کے تعاون سے فی الفور اس کا ایک نسخہ منگوایا جس کے مطالعے سے ان کے حلاج کے بارے میں عمومی روایتی تصورات میں خاصی تبدیلیاں رو نما ہوئیں۔ اقبال کا پیرس میں اس سے ملاقات کا یہی پس منظر تھا۔ ماسینون کے مقالۂ خصوصی برائے ڈاکٹریٹ کا موضوع حلاج ہی تھا جو ان کے سن وفات 922ء کے ہزار سال مکمل ہونے پر اشاعت پذیر ہوا (بزبان فرانسیسی) دو جلد 1922ء)‘‘ (’’اقبال اور جرمنی‘‘۔ محمد اکرام چغتائی، ماہ نامہ الحمرا، مئی 2019)
٭٭
ماخذ:
۱۔ شریعت و طریقت۔ عبد الرحمٰن کیلانی۔ مکتبہ السلام وسن پورہ۔ لاہور پاکستان۔ طبع اول 1988
۲۔ جاوید نامہ۔ (مکمل منظوم اردو ترجمہ) سید احمد ایثار۔ ایثار پبلیشنگ ہاؤز ٹرسٹ بنگلور 2003
۳۔ اقبال کی جغرافیائی اور شخصیتوں سے منسوب اصطلاحات۔ محمد بدیع الزماں پٹنہ۔ دانش بک ڈپو۔ ٹانڈہ یوپی 1995
٭٭٭

2 thoughts on “اقبال اور منصور حلّاج۔۔۔ ڈاکٹر رؤف خیر

  • دوسری بات یہ کہ اس آیت کی طرح صوفیا کے اور اقبال کے کس قول سے آپ نے "حلول” کا معنی اخذ کیا۔
    نعوذبااللہ کوئی مسلمان ایسا عقیدہ رکھ ہی نہیں سکتا۔
    یہ فورم تفصیل کا نہیں ہے اس لئے میں پوری زمہ داری کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ اقبال یا روم دونوں حلول کے قائل نہیں ہیں۔
    اب ایک مسلمان کی گواہی اگر کافی ہو تو آپ کو غور کرنا چاہئے کہ اگر حلول نہیں ہے تو کیا ہے؟
    اگر آپ نے کبھی کسی کو ٹوٹ کے چاہا ہے تو اس وقت کو یاد کیجئے اور سوچئے کہ آپ نے عشق میں جو کام کیئے کیوں کیئے؟ یہ ایسی دوئی ہے جس میں نظر تو عاشق آتا ہے مگر اس کے افعال اپنے معشوق کے زیر اثر ہوتے ہیں۔
    اگر عشق اللہ سے ہو اور انسانی افعال پہ اللہ کی محبت اثر انداز ہوتے ہوتے اتنی شدید ہو جائے کہ بظاہر بندہ نظر آنے والا اللہ کی شدید محبت کے اثر سے لمحہ بھر بھی نہ نکل سکے تو اس کا ہر فعل اللہ کے زیر اثر ہو گا اور یہی اللہ کی چاہت بھی ہے۔ سورۃ البقرہ آیت 165
    وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ
    ایمان والے اللہ سے شدید محبت کرتے ہیں۔

    دوسرا حوالہ حدیث کا ہے جو طویل ہے جس میں اللہ نے فرمایا کہ میں اس کی بصارت و سماعت بن جاتا ہوں۔

    یہاں ایک بات مذید سمجھنے کی ہے کہ محبت وہی ہے جس میں محبوب کے سوا کچھ یاد نہ رہے۔ کپڑے محبوب کی پسند کے جوتے محبوب کی پسند کے۔ چلنا پھرنا محبوب کی پسند کا۔ تو یہاں اپنی مرضی کرنے والا رہا ہی کہاں۔

    ان سب باتوں میں حلول کہاں ہے۔ عاشق بھی ہے اور معشوق بھی اثر بھی ہے موثر بھی۔ جب ہیں ہی دو تو یہ حلول کا الزام، چہ معنی دارد؟

  • محترم و مکرم
    السلام و علیکم و رحمتہ اللہ

    اگر تو آپ فیصلہ کر چکے کہ آپ کا علم حاصل کرنا تمام ہوا تو پھر اس تبصرے کو اگنور فرمائیں اور اگر میری طرح طالب علم ہیں تو بات کی جا سکتی ہے۔

    ایک آیت سورۃ الانفال آیت 18 جو آپ نے پیش کی اس کا ترجمہ مکمل لکھنا چاہیئے تھا۔

    جو تم نے پھینکی
    وہ تم نے نہیں پھینکی
    بلکہ اللہ نے پھینکی

    والسلام

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے