اشفاق احمد ورک بطور خاکہ نگار ۔۔۔ صبا رؤف

اردو میں خاکہ نگاری کا با قاعدہ آغاز فرحت اللہ بیگ کی تحریر ’’نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی‘‘ سے تسلیم کیا جاتا ہے۔ اگرچہ محمد حسین آزاد نے بھی اپنی کتاب ’’آب حیات‘‘ میں مختلف شعراء کے حلیے، ان کے لباس اور بات چیت کے انداز کو تفصیل سے بیان کر کے ان کی چلتی پھرتی تصویر دکھانے کی کوشش کی تھی مگر یہ تصویریں دھندلی اور نامکمل نظر آتی تھیں۔ لہذا اردو خاکہ نگاری کی عمارت میں پہلی اینٹ فرحت اللہ بیگ نے لگائی تھی۔ اس کے بعد اردو خاکہ نگاری کی روایت کے باغ پر نظر دوڑائی جائے تو بہت سے خوش نما پھول کھلے نظر آتے ہیں۔ ان میں چند نامور خاکہ نگاروں میں مولوی عبد الحق، چراغ حسن حسرت، رشید احمد صدیقی، محمد شفیع، رئیس احمد جعفری، عصمت چغتائی، سعادت حسن منٹو، شوکت تھانوی، سید ضمیر جعفری، ممتاز مفتی، شاہد احمد دہلوی، عطاء الحق قاسمی، احمد بشیر، ضیاء ساجد، ڈاکٹر یونس بٹ اور اعجاز رضوی شامل ہیں۔
نئے ابھرتے خاکہ نگاروں میں ایک معتبر نام اشفاق احمد ورک کا ہے۔ اشفاق احمد ورک نے مزاحیہ مضمون ’’صنف نازک‘‘ سے ادبی سفر کا آغاز کیا جو شگفتہ مضامین ’’چلتی کا نام‘‘ اور ’’آج جمعرات ہے‘‘ کا ارتقائی سفر طے کرتے ہوئے ’’قلمی دشمنی‘‘ پر منتج ہوا۔ اشفاق کے خاکوں پر مبنی پہلی تصنیف ’’قلمی دشمنی‘‘ کے دلچسپ عنوان سے ۱۹۹۲ء میں منظر عام پر آئی۔ جس کو ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی ملی۔ اس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انتہائی قلیل مدت میں چار دفعہ شائع ہو چکی ہے۔ شگفتہ خاکوں پر مبنی دوسری تصنیف ’’ذاتیات‘‘ ۱۹۹۷ء میں منصہ شہود پر آئی۔ اشفاق احمد کے تخلیقی سفر کی تا حال آخری کڑی ’’خاکہ مستی‘‘ ہے جو ۲۰۰۹ء میں کتاب سرائے لاہور سے شائع ہوئی۔ ’’خاکہ مستی‘‘ میں کرداری اور شخصی دونوں قسم کے خاکے شامل ہیں۔ ان کی چوتھی خود نوشت خاکوں پر مبنی کتاب ’’خود ستائیاں‘‘ ہے جو ۲۰۰۴ء میں بیت الحکمت، لاہور سے شائع ہوئی۔ اشفاق احمد ورک نے اس کی تحقیق و ترتیب کے ذریعے اردو ادب کو خوبصورت تحفہ عطا کیا ہے۔ اشفاق بنیادی طور پر بطور مزاح نگار کے ادبی دنیا میں وارد ہوئے کیوں کہ وہ مزاح کی طرف فطری رجحان رکھتے ہیں اور مزاح کے اظہار کے لیے انہوں نے خاکہ کی صنف کو اپنایا۔ اس سلسلے میں اپنی کتاب ’’اردو نثرمیں طنز و مزاح‘‘ میں لکھتے ہیں کہ بعض لوگ مزاح کو خاکے کا لازمہ سمجھتے ہیں لیکن ہمارے بیشتر ناقدین اس نکتے پر متفق ہیں کہ مزاح خاکہ نگاری کا باقاعدہ حصہ نہیں ہے۔ لیکن اگر خاکے میں سلیقے کے ساتھ مزاح کا تڑکا لگایا جائے تو وہ عموماً اسے چار چاند لگانے میں بقیہ تمام حربوں کی نسبت زیادہ معاون ثابت ہوتا ہے۔ مزاح ویسے تو کسی بھی صنف کا اٹوٹ انگ نہیں ہوتا، اسے کسی بھی صنف میں ذائقے کی خاطر شامل کیا جاتا ہے۔ لیکن اردو ادب کی تاریخ شاہد ہے کہ مضمون اور خاکے کی آب و ہوا اسے ہمیشہ راس آئی ہے اور پھر اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اردو خاکے کا خمیر ہی مزاح کی سرزمین سے اٹھا ہے۔ اشفاق نے اس رائے کے پیش نظر خاکہ نگاری میں مزاح کی چاشنی پیدا کی ہے اور یہی اشفاق کے خاکوں کی انفرادیت ہے جو انہیں دیگر خاکہ نگاروں سے ممیز کرتی ہے۔
اشفاق احمد ورک کے خاکوں کا جائزہ لیا جائے تو سب سے پہلے خاکوں کے لیے منتخب شخصیات کی طرف دھیان جاتا ہے تو ہے۔ اشفاق نے اکثر خاکے اورینٹل کالج لاہور کے اساتذہ اور طلبہ کے لکھے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مصنف کو خاکے لکھنے کی تحریک یونیورسٹی کے زمانہ سے ہوئی، جہاں ان کے اردگرد بے تکلف دوستوں اور قابل اساتذہ کا جھرمٹ تھا۔ اشفاق کی شخصیت پر اورینٹل کالج کے ماحول نے بڑے گہرے اثرات مرتب کیے۔ اورینٹل کالج کا سحر ان کی تحریروں سے نمایاں ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ کچھ ناقدین نے شخصیات کے اس انتخاب پر اعتراض بھی کیا ہے کہ اشفاق نے بڑی شخصیات کے منافع بخش خاکے لکھنے کی بجائے عام لوگوں کے خاکے لکھ کر خسارے کا کاروبار کیا ہے تو اس اعتراض کے جواب میں اشفاق نے ممتاز مفتی کا جملہ نقل کیا ہے۔ ممتاز مفتی نے یہ جملہ اشفاق کے اپنے دوستوں کے تحریر کر دہ خاکے پڑھنے کے بعد کہا تھا کہ ورک تمہارے دوستوں کے خاکے پڑھ کر جی چاہتا ہے کاش ! میں تمھارا دوست ہوتا۔ پھر ایسا بھی نہیں کہ اشفاق نے محض اساتذہ اور دوستوں کے خاکے لکھے ہیں بلکہ کئی نامور شخصیات جنھوں نے اپنے اپنے میدان میں، فن میں کمال عروج حاصل کیا تھا ان کے خاکے بھی لکھے ہیں۔ جن میں زیبا بختیار، مادھوری ڈکشٹ، نوشی گیلانی، عطاء الحق قاسمی، احمد ندیم قاسمی، مشتاق احمد یوسفی، اور مرزا اسد اللہ خان غالبؔ شامل ہیں۔ ان معروف و مقبول شخصیات کے علاوہ چند نئے ابھرتے ہوئے شعراء، مزاح نگار اور ادیبوں کے خاکے بھی لکھے ہیں، جیسے حنیف صوفی، خرم عباس ورک اور سعود عثمانی وغیرہ شامل ہیں۔
ایک اچھا مزاح نگار دوسروں کے ساتھ اپنے اوپر ہنسنے کا حوصلہ بھی رکھتا ہے۔ اشفاق نے بھی ’’خود ستائی‘‘ اور ’’کثرت نفسی‘‘ کے عنوان سے اپنے دو خاکے لکھے ہیں۔ جو ان کی کتاب ’’قلمی دشمنی‘‘ اور ’’ذاتیات‘‘ میں بالترتیب شامل ہیں۔ اشفاق نے اپنا خاکہ لکھتے ہوئے کسی رو رعایت سے کام نہیں لیا بلکہ بہت بے باکانہ انداز میں اپنا کچا چٹھا کھول کر بیان کیا ہے اور سراپا نگاری میں چہرے کے خد و خال اور وضع قطع کی تفصیل بتانے کی بجائے انوکھے انداز میں خود پر ہنسنے اور دوسروں کو ہنسانے کا موقع فراہم کیا ہے، لکھتے ہیں:
’’خاکے میں عام طور پر یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ شکل ایسی ہے شکل ویسی ہے بس آپ سمجھ لیجیے کہ ایسی ویسی ہے۔ بعض اوقات تو اسے شکل کہتے ہوئے بھی اپنی بات پہ دروغ مصلحت آمیز کا گماں ہوتا ہے۔ جب بھی آئینہ دیکھتا ہوں تو اللہ تعالیٰ کی بے نیازی پر جو یقین ہے وہ اور بھی راسخ ہو جاتا ہے۔ عقل اتنی نہیں کہ اس پہ پردہ یا پتھر پڑنے کا خدشہ ہو۔ ہیئت ایسی کہ اکیلے میں سینما سے انگریزی فلم کا ٹکٹ نہیں ملتا۔ کہیں جا رہا ہوں تو لگتا ہے بھیجا جا رہا ہوں۔ مونچھیں کٹوا کے آج بھی کسی اخبار میں تصویر بھجوا دوں تو وہ بخوشی بچوں والے ایڈیشن میں شامل کر لیں۔‘‘ [۱]
خاکے کا ایک اہم عنصر غیر جانبداری کا ہوتا ہے کہ خاکہ نگار غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے شخصیت کے ظاہری و باطنی اوصاف کو پیش کرنا چاہیے۔ اگرچہ موضوع شخصیت سے ہمدردی اور پیار کا رشتہ ہونا بھی ضروری خیال کیا جاتا ہے مگر شخصیت کے اخلاقی و کرداری اوصاف کو اپنی پسند اور نا پسند کے مطابق بیان نہیں کرنا چاہیے۔ اشفاق نے اس عنصر کو بہت عمدہ طریقے سے نبھایا ہے۔ انھوں نے نہ تو کسی شخصیت کو فرشتہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور نہ ہی کسی کو شیطان۔ ان کی تحریروں میں بے تکلفی اور اپنائیت کی پھوار واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے۔ جیسے رفیع الدین ہاشمی کے خاکے میں ان سے گھر میں ملاقات کا احوال کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
’’گھر کا ماحول اتنا پر سکون اور فضا پر اس قدر سکوت طاری ہوتا ہے جیسے ابھی ابھی مرنے کے بعد کیا ہو گا پڑھ کے بیٹھے ہوں۔
ان کا گھر بچوں اور کتابوں سے بھرا ہوا ہے۔ لیکن خاموشی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ کتابیں کون سی ہیں اور بچے
کون سے۔ ان کے بچوں کو دیکھ کو لگتا ہی نہیں کہ ہم مائیکل جیکسن اور میڈونا کے دور میں جی رہے ہیں۔ وہ آج بھی سر پر ٹوپیاں پہنے ابا حضور اور آداب عرض کے اندازمیں ملتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ابھی تک ’’بنات النعش‘‘ اور ’’مراۃ العروس‘‘ کا زمانہ ہے۔‘‘[۲]
اشفاق احمد ورک کے خاکوں میں مزاح اور شگفتہ بیانی کا سامان وافر ہے۔ لیکن کسی بھی شخصیت کے عیب و ہنر کو یوں پیش نہیں کیا جو اس کی دل آزاری کا سبب بنے اور نہ ہی کسی شخصیت کا خاکہ مدحیہ مضمون بنتا نظر آتا ہے۔ البتہ کچھ خاکے ایسے ہیں جن میں شخصیت کا بیان کم اور ان کے فن پر تنقید زیادہ کی گئی ہے مثال کے طور پر پروین شاکر اور مشتاق احمد یوسفی کے خاکوں میں یہ صورت نظر آتی ہے۔ اسی طرح عطا الحق قاسمی کا خاکہ عقیدت کے رنگ میں ڈوبا ہوا نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر بشیر سیفی اپنے مضمون فن خاکہ نگاری میں لکھتے ہیں:
’’ہمارے ہاں ادیبوں اور شاعروں کے خاکے لکھتے وقت ان کے فنی مقام و مرتبہ پر بھی اظہار رائے کیا جاتا ہے۔ جس سے خاکہ تنقیدی رنگ اختیار کر لیتا ہے۔ حالاں کہ خاکے کا مقصد ادیب اور شاعر کو نہیں بلکہ اس کے اندر چھپے ہوئے انسان کو پیش کرنا ہوتا ہے۔‘‘[۳]
خاکے میں موضوع شخصیت کی عکاسی مختلف واقعات سے کی جاتی ہے۔ خاکہ نگار واقعات کے حسن انتخاب سے صاحب خاکہ کی
شخصیت کی صیحح معنوں میں جلوہ نمائی کر سکتا ہے۔ اشفاق احمد ورک نے اپنے خاکوں میں واقعات کا انتخاب اس عمدگی سے کیا ہے کہ شخصیت نکھر کر سامنے آ جاتی ہے۔
خاکے کا ایک جزو حلیہ نگاری و سراپا نگاری ہے۔ قدیم خاکہ نگاروں نے اس جزو کو اپنے خاکوں میں بڑی اہمیت دی تھی مگرجدید خاکہ نگاروں نے حلیہ نگاری پر کوئی توجہ نہیں دی۔ لیکن اشفاق کے خاکوں میں قدیم اور جدید خاکوں کا امتزاج ملتا ہے۔ ان کے خاکوں میں ظاہری و باطنی اوصاف ایک ساتھ یکساں طور پر کھلتے چلے جاتے ہیں۔ اشفاق احمد ورک نے محض شخصیات کے خاکے نہیں لکھے بلکہ فرضی کرداروں اور معاشرتی رویوں کے خاکے بھی لکھے ہیں۔ اشفاق نے دیگر مزاح نگاروں امتیاز علی تاج کے چچا چھکن اور رتن نا تھ سرشار کے خوجی کی طرح دو مزاحیہ کردار بھی متعارف کروائے ہیں جو مصنف کے ذہن کی اختراع ہیں، مضحکہ خیز عادات و اطوار پر مبنی یہ دوکردار حکیم جی اور لالہ بسمل کے ہیں۔ جو اپنی بوالعجبیوں اور مضحکہ خیز عادتوں سے مزاح کی صورتحال میں اضافہ کرتے ہیں۔ اور معاشرتی رویوں پر مبنی فرضی و کرداری خاکے حقیقت میں ہماری معاشرتی، معاشی اور مذہبی نا ہمواریوں کے عکاس ہیں۔ معاشرے میں موجود مذہبی انتشار اور سیاسی گراوٹ بھی ان کرداروں کے مکالموں سے سامنے آتی ہے۔ ان کرداری خاکوں میں ’’عام آدمی‘‘ ’’گنہگار‘‘ اور ’’دہشت گرد‘‘ بہترین کرداری خاکے ہیں۔ خاکہ ’’دہشت گرد‘‘ کے کردار رحمت علی کے مکالمہ کی ایک مثال ملاحظہ ہو:
’’باؤ جی آپ کے اسلامی ملک میں یہ تماشا بہت عرصے سے دیکھ رہا ہوں کہ بندہ دو وقت کی روٹی سے تنگ ہو جائے۔ گھر میں بیٹھے بیٹھے جوان بیٹیوں کے سر میں آٹا اگ آئے۔ بچے فیس، کتابوں اور یونیفارم کی عدم دستیابی کی بنا پر تعلیم ادھوری چھوڑ دیں۔ کوئی علاج کی قلت اور مہنگائی کی وجہ سے دم توڑ جائے۔ کوئی شریف آدمی تھانہ، کچہری اور عدالت کے چکر لگا لگا کے شہید ہو جائے کوئی تن تنہا پنکھے سے لٹک جائے۔ ٹرین کے نیچے سر دے دے، خود پہ پٹرول چھڑک لے، چولھا پھٹ جائے، پتنگ کی ڈور سے ذبح ہو جائے۔ گڑھے میں گر کے لاش گل سڑ جائے، کوئی پوچھنے والا نہیں لیکن وہی غریب مسکین جونہی کسی مسجد، مندر یا مدرسے میں کسی بم کا نشانہ بنتا ہے۔ آٹھ آٹھ لاکھ میں بکنے لگتا ہے۔ اخبارات میں ٹی وی پہ تصاویر مفت میں چھپ جاتی ہیں۔ میرے گھر والے ہر روز دعا مانگتے ہیں کہ میں ایسے کسی حادثے میں کام آ جاؤں، لیکن غربت میں ایسی دعائیں کہاں قبول ہوتی ہیں۔‘‘[۴]
رحمت علی کی یہ خواہش ہمارے سیاستدانوں کی بد نیتی، لالچ طمع، کمزور انتظامی پولیسی اور نام نہاد قانون سازوں کے منہ پر طمانچہ ہے جہاں ایک شخص ایسی موت کی خواہش کرتا ہے جس کے بدلے میں اس کے گھر والوں کو چند پیسے مل سکیں۔ یہاں ایک ایسے معاشرے کی تصویر مرتسم ہوتی ہے جہاں زندگی ارزاں ہو گئی ہے اور موت نجات کا استعارہ بن گئی ہے۔
کرداری خاکوں کے علاوہ اشفاق نے اردو کی مایہ ناز شخصیات کے خاکے ان کی تحریروں سے یوں ترتیب دئیے ہیں کہ وہ ان شخصیات کے آپ بیتی کے درجے پہ فائز نظر آتے ہیں۔ یہ خاکے ان کی کتاب ’’خود ستائیاں‘‘ میں ملتے ہیں۔ اس میں کل ستائیس خاکے ہیں۔ یہ تمام خاکے اردو کے نامور ادیبوں کے ہیں۔ اس میں شامل شخصیات میں سر فہرست غزل اسداللہ خان غالبؔ ہیں دیگر شخصیات میں اشفاق احمد، ابن انشاء، مشتاق احمد یوسفی، شاہد احمد دہلوی، سعادت حسن منٹو، ممتاز مفتی، قرۃ العین حیدر، عطاء الحق قاسمی، یونس بٹ اور دیگر شامل ہیں۔ ان تمام شخصیات کے خاکے جوں کے توں ان مصنفین کی کتب، خطوط، آپ بیتیوں اور کالموں سے ترتیب دئیے گئے ہیں۔ ادیبوں کی تحریروں میں سے ان کی شخصیت کے کٹے پھٹے ٹکڑوں کو ایک خاص ترتیب سے تدوین کرنا نہایت محنت اور عرق ریزی کا کام ہے۔ اشفاق کے اس کام کی جتنی داد دی جائے وہ کم ہے۔ انھوں نے اردو ادب کے درخشندہ ستاروں کے نادر و نایاب خاکے تیار کر کے قابل تحسین کام سر انجام دیا ہے۔ اشفاق احمد ورک کے خاکوں کا اسلوب شگفتہ اور دلکش ہے۔ ان کی زبان و بیان میں طلسم کاری ہے۔ اپنے خاکوں میں مزاح پیدا کرنے کے لئے جن فنی حربوں کو برؤئے کار لایا گیا ہے ان میں رعایت لفظی، تحریف نگاری، اردو اور فارسی محاورات و اشعار میں تبدیلی (پیروڈی)، فقرہ سنجی، لطائف و رموز، مبالغہ آمیزی اور اردو، پنجابی و انگریزی کی تراکیب کا استعمال وغیرہ شامل ہیں۔ ڈاکٹر اشفاق کا سب سے توانا حربہ لفظی بازیگری کا ہے۔ اس اعتبار سے انھیں لسانی مزاح نگار کہا جا سکتا ہے۔ انھیں لفظیات اور مستعمل تراکیب سے کھیلنے کا فن خوب آتا ہے۔ عنوانات سے لے کر مشمولات تک انھوں نے کہیں نہ کہیں لفظوں کی صوتیات سے چھیڑ چھاڑ کی ہے اور کہیں ان کی صوتی حالتوں میں تصرف کیا ہے۔ مثال کے طور پر نوشی گیلانی کے خاکے کا عنوان ’’یس شی گیلانی‘‘ اور سجاد باقر رضوی کے خاکے کا نام ’’باقردار‘‘ لکھا ہے۔ اشفاق لفظوں کے ہیر پھیر سے مزاح پیدا کرنے کے ہنر سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ایک ماہر کرتب باز کی طرح کبھی الفاظ و محاورات کا الٹ پھیر، کبھی الفاظ کی تکرار، کبھی لفظوں کو تروڑ مروڑ کر کبھی لفظ کا نقطہ آگے، اوپر یا نیچے کر کے اور کبھی الفاظ کے انوکھے اور عجیب وغریب استعمال سے دلچسپ صورتحال سے قاری کو دو چار کر دیتے ہیں۔ محاورہ و روزمرہ کے بر محل اور برجستہ استعمال کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
’’وہ جب سے مسلمان ہوا ہے اس کی آنتیں قل ھو اللہ پڑھتی ہیں۔‘‘[۵]
’’منے !زیادہ دودھ نہ پیا کرو، تمھارا خون سفید ہو جائے گا۔‘‘[۶]
الفاظ کے ہیر پھیر اور متضاد الفاظ سے خود ساختہ مزاح کی ایک مثال مندرجہ ذیل ہے:
’’ہم دونوں ایک ہی کشتی کے سوار تھے لہذا ڈوبتے کو دوسرے ڈوبتے کا سہارا۔‘‘[۷]
ادبی تحریر میں تشبیہات و استعارات کا بر محل استعمال اس کے حسن کو چار چاند لگا دیتا ہے۔ اشفاق نے بھی انوکھی تشبیہات استعمال کر کے مزاح کی چاشنی میں مزید اضافہ کیا ہے مثال ملاحظہ ہو:
’’پچھلے دنوں ایک اچھے بھلے دوست اچانک انار کلی میں مل گئے۔ سر کے بال اور ڈاڑھی ملکی کرپشن اور جوانوں کے حوصلوں کی طرح بڑھے ہوئے تھے۔‘‘[۸]
علاوہ ازیں ان کے ہاں پھبتیاں بھی ملتی ہیں اور رموز و لطائف بھی۔ اشفاق کی تحریروں میں گہرے مشاہدے اور مطالعہ کی آمیزش ملتی ہے وہ بڑی ذہانت اور چابک دستی سے فقرہ تراشتے ہیں اور بیچوں بیچ اسے الٹ کر ایک نئی اور متضاد صورت حال سے لطف دوبالا کر دیتے ہیں۔
اشفاق احمد ورک کا مزاح خاکہ نگاری سے خاص مناسبت رکھتا ہے۔ انھوں نے خاکے میں مزاح کی چاشنی سے انفرادیت پیدا کی ہے۔ مزاح نگاری اور خاکہ نویسی دونوں اصناف یوں تو ہم آمیزی کا مزاج رکھتی ہیں لیکن بالعموم دیکھا گیا ہے کہ ایسے خاکے جو مزاح کے رنگ میں لکھے گئے ہوں مزاح پیدا کر سکیں یا نہ کر سکیں، خاکے بہر حال نہیں رہتے۔ چناں چہ قاری ایسی تحریروں سے نہ مزاح حاصل کر سکتا ہے اور نہ شخصی خاکوں کا سا حظ اٹھا سکتا ہے لیکن اشفاق نے مزاح اور خاکے کے درست تناسب کو اپنی تحریروں میں ملحوظ رکھا ہے۔ ان کے خاکے پڑھتے ہوئے ہم نہ صرف مذکورہ شخص سے متعارف ہوتے ہیں بلکہ مزاح کا عنصر دلچسپی اور بے تکلفی کا اضافہ کر دیتا ہے۔ یوں اشفاق کا خاکہ اپنے قارئین کے لیے شخصی دوستی کی راہ ہموار کرتا نظر آتا ہے۔
مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اشفاق احمد ورک نے خاکہ نگاری کی صنف میں نئے امکانات پیدا کیے ہیں۔ خاکہ نگار نے شخصیات کے ظاہری اور باطنی اوصاف کو اپنے مخصوص ظریفانہ اسلوب میں قارئین کے سامنے یوں پیش کر دیا ہے کہ موضوع شخصیات سے اجنبیت ہونے کے باوجود قاری کی دلچسپی اور تجسس قائم رہتا ہے۔ اس لیے اشفاق احمد ورک کے خاکے خاکہ نگاری کی روایت میں قابل قدر اضافہ ہیں۔ اور بلا شک و شبہ اشفاق کو ان کے شگفتہ اسلوب، غیر جانبدارانہ رویہ اور اختصار کی خوبی کے باعث اہم خاکہ نگار گردانا جا سکتا ہے۔
٭٭

حوالہ جات

۱) اشفاق احمد ورک، ڈاکٹر ’’قلمی دشمنی‘‘ لاہور: بیت الحکمت، ۲۰۱۴ء، ص: ۳۹۴
۲) اشفاق احمد ورک، ڈاکٹر ’’قلمی دشمنی‘‘ ایضاً، ص: ۹۳
۳) بشیر سیفی ’’اردو خاکہ نگاری: فن تنقید‘‘ راولپنڈی: شاخسانہ پبلشرز، ۱۹۹۰ء، ص: ۳۵
۴) اشفاق احمد ورک، ڈاکٹر ’’خاکہ مستی‘‘ لاہور: کتاب سرائے۔ ۲۰۰۹ء، ص: ۹۰
۵) اشفاق احمد ورک، ڈاکٹر ’’قلمی دشمنی‘‘ ایضاً، ص: ۳۱
۶) اشفاق احمد ورک، ڈاکٹر ’’قلمی دشمنی‘‘ ایضاً، ص: ۳۱
۷) اشفاق احمد ورک، ڈاکٹر ’’قلمی دشمنی‘‘ ایضاً، ص: ۴۶
۸) اشفاق احمد ورک، ڈاکٹر ’’قلمی دشمنی‘‘ ایضاً، ص: ۲۴
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے