زندگی سوختہ تارِ آزار پر
رقص کرتی ہوئی
ایک مرد قلندر کی درگاہ پر ٹوٹ کر گر پڑی
آنسوؤں نے صداقت کے نوحے پڑھے
روشنی کی قطار میں اماوس شبی
دف بجاتے ہوئے شور کرنے لگیں
شور سناہٹوں کے جگر چیرنے پر کمر بستہ ہونے لگا
رسم راز و نیازِ مزار
اک بلند احمریں چیخ سے گونج اٹھی تو پھر
زندگی اپنے ہی آپ میں معتکف
تارِ انفاس پر نغمہ بننے لگی
مرشدی مرشدی مرشدی مرشدی
مجھ پہ لطف و کرم کی نظر کیجیے
دفعتاً اک ہیولیٰ مکانِ لحد سے اُٹھا
اور بکھری ہوئی زندگی کو محبت سے آواز دی
زندگی
زندگی سر اٹھاتی ہے چاروں طرف
سب مناجاتیوں کے سلگتے بدن سر جھکائے ہوئے
پھول کی پتیوں سے جبینوں کو آلودہ کرتے ملے …
زندگی نے تحیّر میں ڈوبے ہوئے
خالی خالی سوالی نگاہوں کے دامان کو
اس ہیولے کی جانب اس آواز کی سمت پھیلا دیا
مرشدی مرشدی
ایک اسم ایک اسم
اب ہیولیٰ نہ تھا صرف آواز تھی
’’مصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام‘‘
جاروب کشِ صحنِ طیبہ
۔۔۔
حاشیہ: مصرع از احمد رضا خاں بریلوی
٭٭٭