سردار جعفری کی نظم نگاری کے دو تیور ہیں، ایک Prosaic یعنی نثری اور دوسرا اس کے بالکل برعکس انتہائی شاعرانہ، دلکش اور والہانہ، میرا ذاتی خیال ہے کہ جب وہ محسوس کرتے کہ انہیں صرف پیغام دینا ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں، تو وہ اپنے منصب سے نیچے اتر جاتے تھے۔ شاید یہ ترقی پسندی کی وہ دین ہے جس میں اس بات پر کبھی زور دیا گیا تھا کہ شاعری پروپیگنڈے کا بھی نام ہے، ایک آلہ ہے، ایک ہتھیار ہے۔ لیکن جب انہیں اس امر کا احساس ہو جاتا کہ ان تمام چیزوں پر فضیلت رکھنے والی چیز Poetic Sensibility اور اس کا اظہار ہے تو وہ اردو کے اہم ترین نظم نگاروں کے شانہ بشانہ ہی نہیں بلکہ کہیں کہیں آگے نکلتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ خواہ وہ فیض ہی کیوں نہ ہوں۔
اردو ادب کی تاریخ میں بیسویں صدی اہم تبدیلیوں کی صدی رہی۔ اس صدی کی چوتھی دہائی میں ترقی پسند تحریک نے اردو ادب پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ جس کی وجہہ سے ادب شاہی سر پرستی سے نکل کر عوام کی دہلیز پر آ گیا۔ اس تحریک نے پہلے ادیبوں اور شعراء کے ذہنوں پر اثر کیا اور ادباء و شعراء نے ادبی اصناف میں طبع آزمائی کے ذریعے عوام کے دلوں پر اثر کیا۔ ترقی پسندوں نے ادب کو افسانہ، آزاد نظم اور رپورتاژ نگاری کے فن سے ہمکنار کیا وہیں ناول نگاری کو بھی بام عروج پر پہنچا دیا۔ ترقی پسند تحریک کے پیش نظر ان کے نظریات کو پیش کرنا تھا۔
ترقی پسند تحریک اردو ادب کیلئے ایک نئی تحریک تھی جو بیسویں صدی کے چوتھے دہے میں وجود میں آئی، اس تحریک کا آغاز دراصل1917ء کے روسی انقلاب سے ہوا۔ روسی انقلاب کے اثرات ساری دنیا پر مرتب ہوئے۔ ہندوستان پر بھی اس واقعہ کے گہرے اثرات پڑے اور ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں تیزی آئی۔ سیاسی کشمکش کی بدولت نوجوان طبقے میں اشتراکی رجحانات کو فروغ حاصل ہوا۔ شعراء اور ادباء لینن اور کارل مارکس کے نظریات سے متاثر ہوئے۔ جولائی 1935ء میں پیرس میں دنیا بھرکے ادیبوں کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی۔ لندن میں مقیم ہندوستانی ادیبوں سجاد ظہیر اور ملک راج آنند نے س کانفرنس میں ہندوستان کی نمائندگی کی۔ سجاد ظہیر اور ملک راج آنند نے چند دنوں بعد کچھ ہندوستانی طلبا ء جو لندن میں مقیم تھے ان کو ساتھ لیکر۔ ’’انجمن ترقی پسند مصنفین‘‘ کا قیام عمل میں لایا۔ اس ہندوستانی انجمن کا پہلا جلسہ لندن میں منعقد ہوا۔ انجمن کا صدر ملک راج آنند کو بنایا گیا۔ انجمن ترقی پسند مصنفین جو ترقی پسند تحریک کے نام سے مشہور ہوئی، جس کے قیام کا مقصد فن اور ادب کو رجعت پرستوں سے آزادی دلانا، ادب کو عوام کے قریب لانا، ادب کے ذریعہ سماجی مسائل کو پیش کرنا، نا انصافیوں کے خلاف آواز بلند کرنا اور واقعیت اور حقیقت نگاری پر زور دینا تھا۔ ترقی پسند تحریک کے ان مقاصد کو لوگوں نے پسند کیا اور اس تحریک کا خیر مقدم کیا۔ اس تحریک کو منشی پریم چندجیسے نامور ادیب و مشہور افسانہ نگار کی سرپرستی حاصل تھی ساتھ ہی علامہ اقبال اور ڈاکٹر مولوی عبدالحق نے بھی اس تحریک کی حمایت کی اس تحریک سے اتفاق رکھنے والوں میں منشی پریم چند، جوش ملیح آبادی، ڈاکٹر عابد حسین، نیاز فتح پوری، قاضی عبدالغفار، فراق گورکھپوری، مجنوں گورکھپوری، علی عباس حسینی، سردارجعفری، جاں نثار اختر، مجاز، حیات اللہ انصاری اور خواجہ احمد عباس کے نام قابل شامل ہیں۔
اردو ادب میں ناول نگاری کا آغاز ڈپٹی نذیر احمد سے ہوتا ہے۔ اس صنف کو آگے بڑھانے والوں میں پنڈت رتن ناتھ سر شار، عبدالحلیم شرر، سجاد حسین، راشد الخیری، مرزا ہادی رسواشامل ہیں۔ منشی پریم چند نے اپنے ناولوں میں ملکی مسائل خصوصاًََ دیہاتی زندگی کے مسائل کو اپنے ناولوں کا موضوع بنایا ان کے اہم ناولوں میں بیوہ، بازار حسن، نرملا، میدان عمل، گؤدان، اور توشۂ عافیت شامل ہیں۔ ترقی پسند ادیبوں نے ناول نگاری کے ذریعے عصر حاضر کے مسائل کو زندگی کی حقیقتوں کا ترجمان بنایا۔ ترقی پسند تحریک سے تعلق رکھنے والے ادیب سجاد ظہیر نے اپنے ناول’’ لندن کی ایک رات‘‘ میں اس صنف کو نئی ٹکنیک سے ہمکنار کیا اور ادب میں شعور کی رو کی ٹکنیک کو پیش کیا۔ ادب کے اس میدان میں خواتین نے بھی اپنی صلاحیتوں کو منوایا ہے۔ عصمت چغتائی نے ’’ضدی‘‘ اور ’’ٹیڑھی لکیر‘‘ جیسے شہکار ناول لکھے۔ اور خواتین پر ہونے والے ظلم و ستم کو پیش کیا۔ کرشن چندر نے مختصر افسانوں میں اپنے فن کا لوہا منوانے کے ساتھ ساتھ اپنے شہکار ناول شکست، جب کھیت جاگے لکھ کر ناول کے فن کو فروغ بخشا۔ سماج کے طبقات کی زندگی اور مسائل کو اجاگر کیا۔ عزیز احمد بھی ترقی پسند تحریک کا حصہ تھے انہوں نے ’’ایسی بلندی ایسی پستی، گریز، شبنم، آگ اور ہوس جیسے بہترین ناول لکھا اور ادب کی خدمت کی۔ قرۃالعین حیدر نے اپنے ناولوں ’’میرے بھی صنم خانے، سفینۂدل، آخری شب کے ہم سفر، آگ کا دریا کے ذریعے اردو کے صف اول اور نامور ناول نگاروں میں اپنا مقام بنا لیا۔
پروفیسر مجید بیدار ترقی پسند ناول نگاروں سے متعلق اپنے خیالات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے۔
’’ترقی پسند ناول نگاروں نے ہر قسم کی حقیقتوں کو ناول میں پیش کیا ناول شکست، (کرشن چندر)، ٹیڑھی لکیر(عصمت چغتائی)، گریز، (عزیز احمد)، لندن کی ایک رات، (سجاد ظہیر )کے ناولوں نے ادب میں اہم مقام حاصل کیاجس کے بعد قرۃالعین حیدر کے ناول ’’آگ کا دریا‘‘، ’’میرے بھی صنم خانے‘‘ کو شہرت حاصل ہوئی۔‘‘‘(اردو کی شعری و نثری اصناف، ص135)
بقول قمر رئیس کے ناول کا فن زندگی کی تخیلی کی تشکیل نو کا فن ہے۔ اس فن کو ترقی پسند تحریک کے زیر اثر ناول نگاروں نے ناول میں برتا۔ سجاد ظہیر نے اپنے ناولوں میں الفاظ کے تخلیقی استعمال کا اعلی نمونہ پیش کیا۔ تو عصمت چغتائی نے اپنے ناولوں میں عصری بصیرت بہتر طریقے سے استعمال میں لایا، ان کے ناولوں میں انہوں نے اپنے تجربات اور مشاہدات کو منفرد اسلوب میں پیش کیا۔ عزیز احمد کا اسلوب نگارش بھی بہت خوب تھا انہوں نے اپنے ناولوں میں بے باکی اور زندگی کی موثر ترجمانی کی ہے۔ کرشن چندر کے ناولوں میں ان کا اسلوب اپنی رنگینی، شادابی اور شاعرانہ مزاجی کے لیے مشہور ہے۔ عصمت چغتائی کا اسلوب اپنی شوخی کی وجہہ سے انفرادیت رکھتا ہے۔ حیات اللہ انصاری نے اپنے ناولوں میں ہندوستانی عوام اور ان کی آزادی کی کوششوں کو بڑے ہی مفکرانہ اور دانشورانہ انداز میں رقم کیا ہے۔ خواجہ احمد عباس نے بھی حیات اللہ انصاری کی طرح ہندوستانی عوام اور ان کی آزادی کی جستجو کو قلم بند کیا ہے۔
نور الدین محمد نے اپنے مضمون میں ترقی پسند تحریک کے اردو ناول نگاری پر مرتب اثرات سے متعلق بیان کرتے ہوئے لکھا ہے۔
’’بیسویں صدی کے سماجی وسیاسی حالات اردو ناول کو بھی فروغ دینے کا باعث بنے۔ ہندستان کی بدلتی ہوئی سماجی و معاشرتی زندگی اور نئی پرانی قدروں کے تصادم نیز ترقی پسند تحریک نے اردو شاعری اور افسانے کے بعد سب سے زیادہ اثر اردو ناول پر ہی ڈالا۔ ا س طرح ناول کے فن کے لیے ایک نیا راستہ ہموار ہوا اور اب ناول محض اصلاح، مذاق، دل بہلاؤ اور مثالی زندگی کی تلاش یا خیالی پلاؤ اور تصنع سے نکل کر اس حقیقی اور عملی زندگی کی طرف قدم رکھا جس کی جھلک پریم چند نے دکھا ئی تھی۔ ترقی پسند ادیبوں نے تازہ ترین مسائل کوساتھ لے کر سماجی حقیقت نگاری کی بنیادوں پر سوالات کے نئے نئے گو شے اجاگر کیے، آئین نو اور طرز کہن کی کشمکش کا خوبصورت علاج و معالجہ کیا اور اس طرح اردو ناول حقیقت کی ایک نئی دنیا میں داخل ہوا جو پریم چند کی دنیا کا اگلا قدم تھا۔ (اردو ناول نگاری ایک مطالعہ، ہماری ویب ڈاٹ کام)
ترقی پسند ادیبوں ناول نگاری میں زندگی کی حقیقتوں کو اپنا موضوع بنایا ان کے دل میں قوم کا درد تھا جو کچھ وہ دیکھتے اور اس کو محسوس کرتے اس کو ناول کے سانچے میں ڈھال دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ادیبوں کی ناولوں میں صداقت کو پہلو نمایاں نظر آتا ہے۔ ان کے ناول میں صرف اقربا پروری قدیم عقائد اور زمانے سے چلی آنے والی رسم و رواج کی کشمکش اور پیچیدگی ہی نہیں بلکہ آزادی، انصاف اور انسان دوستی کے نئے ادارے، نئی دنیا کی تلاش اور نئے خوابوں کی تعبیر بھی نظر آتی ہے۔
ڈاکٹر سیّد محمد یحییٰ صبا ناول کا ارتقاء اور ترقی پسند تحریک سے متعلق رقم طراز ہیں۔
’’ ترقی پسند تحریک کے ادیبوں نے مارکسزم اور موجودہ سائنس اور سماجی علوم کی روشنی میں اپنا اظہار خیال کیا۔ ان لوگوں کا مقصد سماجی اصلاح تھا اور اس کام کو ان لوگوں نے ایک جذبہ امید اور پروگرام کے تحت بخوبی انجام دیا۔ اس کا پرچار ان لوگوں نے اردو ادب میں افسانہ لکھ کر کیا یہی وجہ ہے کہ شروع ہی سے ترقی پسند تحریک کا رویہ زندگی کے بارے میں صداقت پر مبنی تھے۔ سجاد ظہیر، کرشن چندر، عصمت چغتائی عزیز احمد اس زمانہ کے ناول نگار تھے۔ ان بزرگوں میں سوچنے سمجھنے اور اظہار خیال کا انداز جداگانہ تھا۔ یہ لوگ درمیانی طبقہ کے لوگ تھے قدامت پرستی رسم رواج اور اخلاقی بندھنوں کی چہار دیواری میں قید تھا جس کا مستقبل تاریک ہی تاریک نظر آ رہا تھا جس کا احساس ان لوگوں کو شدت سے تھا کہ یہ طبقہ برباد ہونے جا رہا ہے۔ یہ طبقہ اپنے قدیم رواج کی ڈوری میں جکڑا ہوا شاید ہمیشہ رہ جائے اور اس کا پھر بہت برا ہو جائے آخر کار انہوں نے اس طبقہ کے لوگوں کو تعلیم کی دعوت دی انسانیت اور جدید و قدیم کے موضوع پر نہایت ہی خلوص و محبت کے ساتھ تبلیغ کی۔ یہ تبلیغ ان لوگوں نے تحریری اور تقریری دونوں طرح سے کی۔ ان لوگوں نے جدید سائنس کی روشنی میں اچھے مواد اور فن کی کسوٹی پر ناول نگاری کر کے متوسط طبقہ کے لوگوں کو بیدار کیا جیسا کہ سجاد ظہیر نئے ناول ’’لندن کی ایک رات‘‘ میں اپنا دانشورانہ جذبات و احساسات اور داخلی اظہار خیال کی تکنیک سے تخلیقی حسن کو پیرا ہن بخشا یہ ناول سجاد ظہیر کی وہ نثری کاوش ہے جو 1938ء سے اب تک مسلسل شائع ہو تی رہی ہے ناولٹ کے متن اور مواد کی اہمیت کی پیش نظر تنقیدی ایڈیشن بھی سامنے آتے رہے ہیں۔ یہ ناول اردو میں فنی نقط نظر سے جدید ناول کی خشت اول ہے۔ لندن کی ایک رات ترقی پسند ادب کا ابتدائی نمونہ ہے۔ (اردو ناول کا ارتقاء، اردو کی برقی کتابیں )
بہر حال اس بات سے انکار نہیں کے ترقی پسند تحریک نے اردو ادب پر بہت گہرے اثرات مرتب کئے ہیں خصوص ادب میں زندگی کی حقیقتوں کو بیان کرنا اور عام انسانوں کے مسائل، خواتین کے خلاف ظلم و ستم نا انصافی، دیہاتیوں کا استحصال یہ ایسے مسائل تھے جن کو پیش کرنا نہایت ضروری تھا۔ تاکہ عوام میں شعور کو بیدار کیا جائے ان کے معمولات زندگی کو تبدیل کیا جائے استعماری قوت کے خلاف ان کو متحد کیا جائے تاکہ وہ جدو جہد کریں اور اپنے حق کو حاصل کریں۔
ڈاکٹر قمر رئیس ترقی پسند ناول نگاروں کے تجربات سے متعلق لکھا ہے:
’’عام بیانیہ اور حقیقت پسندانہ روایت سے ہٹ کر بھی ترقی پسند ادیبوں نے ناول کے میدان میں اہم تجربے کیے ہیں خواجہ احمد عباس نے اپنے ناولٹ’’سیاہ سورج سفید سایے‘‘‘میں اشتراکی جمہوریت کے راستے پر گامزن نو آزاد ملکوں کے خلاف سامراجی طاقتوں کی گھناؤنی سازشوں کو بے نقاب کیا ہے۔ کرشن چندر کے نیم تمثیلی قصے اور فنطاسیے بھی عصر حاضر کے تضادات کے گہرے شعور کی غمازی کرتے ہیں‘‘‘(ترقی پسند تحریک اور اردو ناول، تنقید تناظر، ص 171)
ناول نگاری کا فن بیسویں صدی میں کافی ترقی حاصل کیا جس کی وجہہ صرف اور صرف ترقی پسند تحریک تھی اس تحریک کے ذریعے اس سے وابستہ ادباء نے ٹکنیک اور اظہار کے تجربات کیے جس کے نتیجے کے طور پر اردو شعر و ادب کی مختلف شعری و نثری اصناف میں وسعت پیدا ہوئی، تازگی اور رنگا رنگی آئی۔ دراصل یہ سب حقیقت نگاری کی وجہ سے ممکن ہو پایا اردو ناول مجموعی طور پر ترقی پسند نظریہ ادب اور زندگی سے بہت زیادہ قریب رہا۔
٭٭٭