راجندر سنگھ بیدی کا ایک اَفسانہ ہے "بھولا” اِس میں بیوہ ہو جانے والی مایا کو اپنے بھائی کا استقبال کرنا ہے لہذا وہ چھاچھ کی کھٹاس کو دور کرنے کے لیے مکھن کو کنویں کے صاف پانی سے کئی بار دھوتی ہے۔ ننھے بھولے کو بھی اپنے ماموں کا انتظار ہے۔ ننھا بھولا، جو ماں سے گیتا محض اس لیے سنتا تھا کہ اسے کہانیاں سننے کا چسکا تھا۔ اسی شوق کے کارن وہ اپنے دادا کے پیٹ پر چڑھ کر بیٹھ جاتا اور یہ بھی نہ دیکھتا، دن ہے یا رات کہ اسے ہر حال میں کہانی سننا ہوتی تھی۔ دادا رات کو کہانی سنانا پسند کرتے تھے مگر اس رات یوں ہوا کہ دن بھر کے تھکے ہوئے دادا آسمان کے جنوبی گوشے میں روشن ہو کر مدھم ہو جانے والے ستارے کو دیکھتے ہوئے سو گئے۔ اٹھے تو بھولے سے شرمندہ تھے۔ اسی احساس کے زیر اثر دوپہر میں کہانی سنانے کا وعدہ کر لیا مگر دوپہر کو بھی فرصت نہ نکال پائے تو حیلہ کیا :
"بھولے میرے بچے….دن کو کہانی سنانے سے مسافر راستہ بھول جاتے ہیں ”
تاہم انہیں کہانی سنانا ہی پڑی۔
بھولے نے کہانی سنی اور اس کا ماموں راستہ بھول گیا۔ کہانی کے آخر میں یوں ہوتا ہے کہ بھولے ہوئے ماموں کو راستہ دکھانے کے لیے بھولا خود روشنی لے کر پہنچ جاتا ہے۔
اُردو افسانے کا قصہ بھی لگ بھگ ایسا ہی ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ کہانی تب ہی سنائی جا سکتی تھی جب نانیوں، دادیوں یا پھر داداؤں اور ناناؤں کو فرصت ملا کرتی تھی تاہم یوں ہے کہ اس زمانے میں کہانی سنانے کو بہرحال فرصت نکل ہی آیا کرتی تھے۔ دن کو سو طرح کے کرنے کے کام تھے، ایسے میں کہانی کے التوا کا یہی حیلہ کافی جانا گیا، دوپہر میں کہانی سناؤ تو مسافر راستہ بھول جاتے ہیں۔ مگر بعد میں یوں ہوا کہ کہانی سنانے والوں پر مصروفیت پل پڑی۔ کہانی سننے کے دیوانے فرصت کے لمحات کے انتظار میں اوب گئے تو خود روشنی اٹھا کر نکل کھڑے ہوئے۔
وہ جنہوں نے خود ہی روشنی اٹھا کر نکل کھڑے ہونے کو مناسب جانا، بعد والے لوگ تھے۔ کہانی کی تاہنگ نے کچھ اور طول کھینچا تو ایک چراغ ہتھیلی پر تھا، دوسرا بنیرے پر اور باقی گلی میں، یوں کہ روشنی کی قطار بنتی گئی، گلی کے بعد کھیتوں کے بیچ پگڈنڈی اور پھر وہاں بھی جہاں کوئی راستہ نہیں تھا مگر روشنی کی لکیر تھی کہ ادھر سے بھی گزرتی چلی جاتی تھی وہاں تک، جہاں کہانی مسافر کی طرح اوبڑ کھابڑ فروعی راستوں میں بھٹکتی پھرتی تھی۔ اب جو وہ پلٹے تو عجب تماشہ دیکھا کہ سارے چراغ بجلی کے قمقمے بن چکے تھے۔ دن رات کی تمیز ختم ہوتی تھی۔ اتنی چکا چوند میں کہانی کتنا بھٹک سکتی تھی سو وہ داستان اور قصے سے نکلی اور اُردو افسانے کی روشن گلیوں میں ٹھنک ٹھنک چلنے لگی۔ مگر انتظار حسین کی محسوسات نے شروع ہی سے کچھ ایسا چلن اپنایا رکھا ہے کہ کہانی کی ابتداء کا سوچتے ہی لمبی اور کالی رات یادوں کے دریچے پر دستک دینے لگتی ہے۔ دہکتا ہوا الاؤ ہے، الاؤ کے گرد بیٹھے ہوئے لوگ ہیں۔ رات بھیگتی رہتی اور کہانی چلتی رہتی۔ انتظار حسین کا کہنا ہے:
” قدیم زمانے کے الاؤ سے لے کر میری نانی کی انگیٹھی تک کہانی کی تاریخ اسی طرح چلی ہے۔”
(انتظار حسین/ادب اور سماعی روایت)
انیسویں صدی کے دلی اور لکھنو میں گلاب اور کیوڑے سے مہکتی محفلوں میں سنائی جانے والی کہانیوں پر جھومتے زمانے کو انتظار حسین نے فکشن کی سمعی روایت کی آخری بہار کا زمانہ کہا کہ اس کے ساتھ وہ زمانہ آلگا تھا جب کہانی کہنے کے بجائے لکھنے کا چلن زور پکڑنے لگا تھا۔ پرنٹنگ پریس نے کہانی لکھنے کی روایت کو بڑھاوا دیا۔ انتظار حسین کے ہاں فکشن کی بہار کا جو تصور ہے وہ شمس الرحمن فاروقی کے ہاں سرے سے فکشن ہے ہی نہیں۔ دیکھئے اس تضاد نے مُعامِلہ کتنا دلچسپ کر دیا ہے۔ فاروقی کا بیان ہو بہو نقل کیے دیتا ہوں :
” فکشن کے بارے میں سب سے آسان بات یہ ہے کہ فکشن ان تمام طرح کے افسانوں سے الگ ہوتا ہے جن کا تعلق کم و بیش زبانی بیان سے ہے۔ لہذا داستان، عوامی کہانیاں، Fables، بچوں کی کہانیاں، Fairy Tales، یہ فکشن نہیں ہیں۔ محض اس وجہ سے نہیں کہ اصلاً ان کا تعلق زبانی بیان سے ہے، کیوں کہ بہت سی داستانیں وغیرہ لکھی بھی گئی ہیں، یا انہیں زبانی سن کر لکھا جا سکتا ہے، بلکہ اس وجہ سے زبانی بیان کی تیکنیک، اس کے فنی تقاضے اور ایک حد تک اس کی جمالیات، جس طرح کی ہوتی ہے، وہ ان تحریروں میں نظر نہیں آتی جنہیں ناول یا اَفسانہ کہا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اُردو، ہندی کے وہ قصے کہانیاں جو داستانی طرز کے ہیں، اگرچہ وہ کبھی سنائے نہیں گئے بلکہ چھپ کر مقبول ہوئے، مثلاً حاتم طائی، چار درویش، طوطا مینا وغیرہ، وہ بھی فکشن نہیں ہیں۔ تمثیل یعنی Allegory بھی فکشن نہیں ہے۔”
(شمس الرحمن فاروقی/افسانے میں کہانی پن کا مسئلہ)
انتظار اور فاروقی کے بیانات کی گونج کے میں، میں ۱۵۵۰ء کو مالا بار کے ساحل پر لگنے والے اس پرتگالی جہاز کو دیکھتا ہوں جو پہلی پار پرنٹنگ پریس کی مشینیں اور دوسرا سامان لے کر پہنچا تھا اور اس کے بعد۱۸۰۳ء تک قائم ہونے والے ان کئی چھاپہ خانوں سمیت فورٹ ولیم کالج کے اس پرنٹنگ پریس میں بھی جھانک آتا ہوں جس میں پہلی بار اُردو ٹائپ کی سہولت بہم کی گئی تھی تو کچھ سمجھ نہیں آتا کہ پرنٹنگ پریس کو فکشن کی خوش بختی کا استعارہ کہوں یا سمعی روایت پر شب خون مارنے والوں کا ہر کارہ۔
انتظار نے صاف صاف لفظوں میں کہہ دیا ہے :
” اور اب میری سمجھ میں آ رہا ہے کہ اُس زمانے سے اس زمانے تک آتے آتے کہانی کے ساتھ واردات کیا گزری ہے۔ اس کے دو بڑے دشمن پیدا ہو گئے۔ بجلی کی روشنی اور پرنٹنگ پریس۔ بجلی کی روشنی نے رات سے اس کا بھید بھرا اندھیرا چھین لیا ہے جس میں کہانی اپنا جادو جگاتی تھی …. کہانی آگے کہی جاتی تھی، اب لکھی جاتی ہے۔ پہلے سمندر تھی۔ اب جوئے کم آب ہے۔ آگے دن میں کہانی سنانے پر مسافر راستہ بھولتے تھے۔ اب خود کہانی راستہ بھول گئی ہے۔”
(انتظار حسین/ادب اور سماعی روایت)
مگر صاحب اس کا کیا کیا جائے کہ فاروقی کا اصرار ہے:
"فکشن وہ تحریر ہے جس میں زبانی بیان کا عنصر یا تو بالکل نہ ہو یا بہت کم ہو”
(شمس الرحمن فاروقی/افسانے میں کہانی پن کا مسئلہ)
انتظار اور فاروقی نے ہمیں جس مخمصے میں ڈال دیا ہے اس سے سہولت سے کیوں کر نکلا جا سکتا ہے؟ انتظار کی بات مانو تو اُردو افسانے کے ارتقاء اور شناخت کی مکمل صدی کا قصہ حرف غلط لگتا ہے اور فاروقی کے اس کہے پر اعتبار کرو جو اوپر درج کر آیا ہوں تو جس برتے پر انتظار نے بعد کے زمانے کی کہانی کو جوئے کم آب کہا وہ سمندر، اور جسے سمندر جانا وہ فکشن کے باب میں سوکھی ہوئی نالی بھی نہیں رہتا۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ محض دو انتہاؤں پر سوچتے رہنے اور ذرا مختلف بات کہنے کے شوق کا شاخسانہ ہے۔ عجب بات ہے صاحب، چونکنا لازم ہوا، مختلف بات ہے جی، متوجہ تو ہونا پڑے گا، متوجہ ہوئے تو الجھنا مقدر ہوا…. مگر صورت واقعہ یہ ہے کہ یہ صورت واقعہ نہیں ہے۔
انتظار نے ادب کی جس سمعی روایت کے دشمن کے طور پر بجلی کی روشنی اور پرنٹنگ پریس کو قرار دیا ہے وہ کم از کم اُردو کے معاملے میں تو حلق سے اترتی ہی نہیں ہے۔ دیکھئے، جب ہم اُردو فکشن کی بات کر رہے ہیں تو یہ بات کسے معلوم نہیں کہ اُردو یونہی ہوا میں پیدا نہیں ہو گئی تھی۔ نہ ہی کسی صحیفے کی زبان ہو کر اوپر سے اتری اور ہم اس سے وابستہ ہو گئے۔ اُردو اسی سرزمین سے پھوٹی اور یہیں اس نے نمو پائی اور عین ایسے لوگوں کے بیچ شباہت بنائی جو پہلے سے قدیم زبانوں کے وارث چلے آتے تھے۔ یہ قدیم زبانیں اتنی بانجھ بھی نہیں تھیں کہ ان میں سرے سے کہانی اور قصے کی کوئی روایت ہی موجود نہ ہو۔ جب پہلے سے سب کچھ تھا تو پھر یکسر اس سے انکار ممکن ہی نہیں ہے۔ دیکھئے ایک ہزار قبل مسیح پہلے لکھی گئی لگ بھگ ان سو کہانیوں کو کس کھاتے میں ڈالا جائے گا جو تمثیل کی صورت ہیں اور جو ویدی ادب کے طور پر پہچانی جاتی ہیں یا پھر وہ جاتک کہانیاں جو گوتم بدھ نے پانچ سو قبل مسیح پہلے بیان کی تھیں کیا بعد میں آنے والی زبان کی روح میں نہ اتر سکی تھیں۔ اپنشد، پنج تنتر اور پرہت کتھا ہو یا کتھا سرت ساگر، جس کے بارے میں انتظار کا کہنا ہے کہ اس کی کہانیاں تو پہلے عالم بالا میں سنائی گئی تھیں، شو جی سنایا کرتے تھے، پاربتی سنا کرتی تھیں اور جو بعد میں راجہ کو سنانے کے لیے قلمبند ہو گئیں تو کیا اس سے نئی اُردو کہانی یکسر نابلد رہی اور یہ سب کچھ اس کی روایت کا حصہ نہیں ہو سکا ہے۔ میں اسے اس لیے نہیں مان سکتا کہ میں نے کہانیوں کو ایک زمانے سے دوسرے زمانے میں اور ایک زبان سے کئی زبانوں میں منتقل ہوتے پایا ہے۔ وہ کہانیاں جو سنسکرت اور دوسری ذیلی زبانوں کے سرمائے کے طور پر پہچانی جاتی ہیں ان سے ملتی جلتی کہانیوں کا سراغ اور زبانوں میں بھی ملتا ہے۔ وہ جو کہا جاتا ہے کہ حکیم برزویہ ۵۵۰ء میں ایران سے ہندوستان آیا اور لوٹتے ہوئے کرتک اور دمنک کا قصہ ساتھ لے گیا تھا تویوں ہے صاحب، کہ ایسے واقعے تو دنیا کے ہر گوشے میں ہوئے ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ اس طرح کے لین دین کا امکان اردو افسانے کی بات ہوتے ہی ممکن کیوں نہیں رہتا۔ مان لینا چاہیے کہ اُردو کہانی کسی آہنی چاردیواری میں محبوس ہو کر پروان نہیں چڑھی اس نے بھی ان سے اثر قبول کیا ہے مگر سوچ میں رخنے تب پڑتے ہیں جب ہم مغرب سے مستعار لی ہوئی افسانے کی تیکنیک کے واقعے کو بیان کرتے ہوئے زبان اور تخلیقی اظہار کے اندر بھید کی صورت حلول کر جانے والی اس اپنی روایت کی طرف پشت کر کے کھڑے ہو جاتے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ عین آغاز میں نہ سہی آگے چل کر فکشن کی روایت میں اسی زبانی روایت نے افسانے کے لیے زبان کے داخلی پیٹرن میں عجب طرح کے بھیدوں کی گنجائشیں رکھ دیں ہیں۔
صاحب ایک غلط بات انتہائی اصرار سے بار بار دہرائی جاتی ہے کہ جی کہانی تو بعد میں آئی، شاعری پہلے سے موجود تھی اور اسی سانس میں یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ دیکھئے جی شاعری میں شروع ہی سے قصہ اور کہانی بھی موجود رہا ہے۔ اب اگر ادب کی سمعی روایت کا موضوع چل نکلا ہے تو مجھے اس غلط فہمی کے باب میں کہنے دیجئے کہ شاعری کا جھنڈا اونچا دکھانے کے لیے اس طرح کی باتیں عموماً اس لیے گوارا کر لی جاتی رہی ہیں کہ شاعری کی لکھی ہوئی تاریخ قدرے پرانی ہے۔ تاہم کہانی کی سمعی روایت کو انسان جتنا قدیم تسلیم کر لینے میں کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہیے اور یہ بھی مان لیا جانا چاہیے کہ کہانی کی اسی مستحکم سمعی روایت نے شاعری کے اندر کہانی کہنے کو رواج دیا تھا۔ جس نے اپنا بھیتر روشن کرنے کو آگ مستعار لی آپ اسی کو گھر کی مالکن کہتے ہیں تو تعجب ہوتا ہے۔
خیر یہ تو جملہ معترضہ ہوا، ہاں بات فکشن کی روایت کی ہو رہی تھی اور ظاہر ہے میں جس روایت کی بات کر رہا ہوں نہ تو وہ مغربی افسانے کی روایت ہے اور نہ صرف و محض پریم چند اور ان کے فوراً بعد کے افسانے کی بیانیہ روایت جس کی شان، بقول فاروقی واقعات کی کثرت میں ہے۔ بلکہ میں تو اس روایت کی بات کر رہا ہوں جس کے اجزاء کو سہولت سے الگ الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا خارج ہمیں بہکاتا ہے کہ یہ روایت سات سمندر پار سے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ آئی مگر اس کا بھیتر کہانی کے اس بھید کے مقابل لا کھڑا کرتا ہے جس سے مغرب کا اَفسانہ کنی کاٹ کر نکلتا رہا ہے۔ مجھے یوں لگتا ہے میں نے اپنی بات قبل از وقت کہہ دی کہ ابھی تو بہت سی دھند چھٹنا باقی ہے۔
جی صاحب، پہلے تو مجھے یہ کہنا ہے کہ جس زبانی روایت کو فاروقی فکشن کی ذیل میں نہیں لاتے اور انتظار جسے فکشن کا "ذیلدار” گردانتے ہیں اس میں موجود محض "جگمگاتی بصیرتیں "ہی فکشن نہیں ہیں۔ اور یہ جو بجلی کے بلب اور ٹیوب کی روشنی میں بیٹھ کر بعد کے زمانے میں اَفسانہ لکھا گیا ہے، اور پکی روشنائی سے جسے چھاپہ خانے گزشتہ ایک صدی سے بھی زائد عرصے سے مسلسل چھاپ رہے ہیں، تو یوں نہیں ہے کہ ان کی کہانیوں میں بصیرتوں کا کال پڑ گیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ فکشن نے بعد کے زمانے میں قصے اور داستان کی ہیئت کے بجائے مغرب سے آنے والی افسانے کی ہیئت کو ترجیح دی، ضرور دی، مگر تخلیقی تجربے کے دوران اپنے لہو کا حصہ بننے والی اپنی روایت کو اندر ہی اندر اپنا کام مکمل کرنے دیا۔ میں تو اس باب میں اُردو کے ان ابتدائی منظوم قصوں کا احسان بھی مانتا ہوں جو طبع زاد نہ سہی لیکن اس اپنی زمین سے اگے تھے یا پھر اس فضا میں نمو کی صلاحیت رکھتے تھے جس میں اُردو بن رہی تھی۔ یہ قصے ہندی کے ہوں یا عربی اور فارسی کے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ طوطی نامہ کی کہانیاں ہوں یا ہشت اشت کے قصے یا پھر ملک محمد جائسی کی پدماوت میں غلام علی کے اضافے۔ اسی طرح حاتم طائی، چہار درویش، لیلی مجنوں، کلیلہ و دمنہ سے کسی نہ کسی صورت کہانیاں نکل کر فکشن کی نئی ہیئت میں ایک حرکی قوت کے طور پر ظہور کرتی رہی ہیں۔ ملا وجہی کا نثری قصہ سب رس ہو یا میر تقی میر کی مثنوی شعلہ عشق، جسے مرزا رفع سودا نے نثر میں ڈھالا تھا، یقین کیجئے، جب میں یہ کہتا ہوں کہ اُردو افسانے کی ابتدا میں مغربی افسانے کا حصہ ہے تو اس وقت یہ سب میری نظروں سے اوجھل نہیں ہوتے۔ ہمارے افسانے کی عمارت کی اٹھان چاہے مغرب کی مرہون منت رہی مگر تخلیقی عمل کے دوران اس کی روح میں یہیں کی خوشبو رچی بسی رہی۔ ہماری کہانی اس باب میں فورٹ ولیم کالج کے منشیوں کے کام سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہے نہ ڈاکٹر گل کرسٹ کی خدمات کو پس پشت ڈالتی ہے مگر یوں ہے کہ اُردو افسانے کو جس طرح کی چست قبا چاہیے تھی وہ داستان کے پاس تھی نہ یہ قصے کوئی صورت سجھا پائے تھے۔ غالب نے نثرکی زبان چست کی، انگریزی تعلیم کے فروغ نے مغربی فکشن کی طرف راغب کیا۔ تعلیمی ضرورتوں کے پیش نظر کہانی نے کچھ ڈھنگ بدلا۔ یہیں ان چھاپہ خانوں کا تذکرہ بھی آتا ہے جو اخبارات ا ور دوسرے جرائد چھاپتے تھے اور جن کے پیٹ بھرنے کو پہلے پہل ناول قسطوں میں چھاپے گئے۔ ساتھ ہی ساتھ ترجمہ کیے ہوئے افسانے کام آئے اور طبع زاد افسانے کے لیے فضا تیار ہو گئی۔
صاحب، اُردو افسانے کی تاریخ لکھنے والے جس ترتیب سے واقعات لکھتے آئے ہیں اس پر ایمان لائیں تو اس سے یہ نتیجہ تو کم از کم ضرور نکلتا ہے کہ سماج جس جانب سفر کر رہا تھا کہانی اس سے کنارا نہیں کر گئی تھی۔ جی وہ اس سے الگ تھلگ ہو کر بیٹھ گئی تھی نہ آنکھیں بند کر کے اپنی دھن میں مگن تھی۔ اور ہاں وہ اگر الاؤ کے گرد ہی پھیرے ڈالتی رہتی تو بلب کی روشنی میں بیٹھنے والے اس کے چہرے کو دیکھ بھی نہ پاتے، پرنٹنگ پریس کا رخ نہ کرتی اور فقط چاندنی راتوں میں چاندنیاں بچھنے کی منتظر رہتی یا ان نانیوں اور دادیوں کی اور ہی دیکھتی رہتی جو ماضی کا چرخہ کاتتے کاتتے خود بھی ماضی کا قصہ اور حصہ ہو گئی ہیں تو آنے والے زمانوں میں کہانی کا قصہ بھی نانی دادی کا چرخہ ہو جاتا (یاد رہے” پنجابی میں نانی کا چرخہ باقاعدہ ایک محاورہ ہے )۔
تاہم میں سمجھتا ہوں کہ انتظار حسین نے یہ جو بجلی کے بلب اور پرنٹنگ پریس کو کہانی کے دو بڑے دشمن کہا ہے تو اس کے وہ معنی ہو ہی نہیں سکتے جس کی طرف فوری طور پر دھیان چلا جاتا ہے۔ مجھے یوں لگنے لگا ہے جیسے یہاں انتظار نے لگ بھگ وہی بات کہہ دی ہے جو ڈبلیو بی ییٹس نے ٹنڈل اور ہکسلے کو ناپسندیدہ کرنے کے باب میں کہی تھی، یہی کہ انہوں نے اس سے اس کے بچپن کا معصوم مذہب چھین لیا تھا۔ مجھے تو کسی نئی، بنیادی یا پھر عظیم حقیقت/ سچائی کو سمجھنے کے لیے انتظار کا اپنی کہانیوں میں بار بار ماضی میں لوٹ جانا بھی کئی مقامات پر یوں بامعنی لگا ہے جیسے رلکے نے عربوں کے جاہلی دور کی شاعری میں سے ایک بھید کو تلاش کر لیا تھا۔یوں دیکھا جائے تو انتظار حسین کے کہے کے دو معنی نکل سکتے ہیں :
۱…. سمعی روایت کو نئی ایجادات نے ختم کر ڈالا ہے۔ اس نے انسانی مزاج کو اتنا متلون مزاج بنا دیا ہے کہ و ہ جم کر اور بیٹھ کر کہانی سن ہی نہیں سکتا لہذا قصے اور داستان کی روایت متروک ہوئی اور اس کے ساتھ ہی کہانی کی روایت میں رخنے پڑ گئے ہیں۔
یا پھر
۲…. مغرب سے آنے والی فکشن کی نئی اصناف (اَفسانہ اور ناول) نے سمعی روایت میں کہانی لکھنے کی تیکنیک کو روک دیا ہے جب کہ نئی کہانی لکھی ہی سمعی تیکنیک میں جا سکتی ہے۔اسے ترک کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ کہانی رستہ بھول گئی ہے
جی، یہ جو میں نے انتظار حسین کے ہاں سے اوپر والے دو سوالات اپنے حسن ظن کے برتے پر تراش لیے ہیں تو اس کا سبب یہ ہے کہ میں ان خوش گمان لوگوں میں سے ہوں جو کسی بھی تہذیبی رخنے کی وجہ سے تخلیقی افراد کے ہاں مستقل تخلیقی انجماد کی بابت سوچ ہی نہیں سکتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ انتہائی ناموافق حالات میں بھی سچے تخلیق کاروں کی ایک قلیل تعداد بہر حال موجود رہتی ہے اور وہ اپنے وجود کی سچائیوں کے سا تھ اپنے تخلیقی عمل سے جڑی رہتی ہے۔ میرے ہاں ایک اور خرابی بھی ہے میں شمس الرحمن فاروقی کی طرح شاعری ہی کو محض اور صرف تخلیقی سرگرمی مان کر اور جان کر الگ نہیں ہو جاتا کہ میں نثر میں تخلیق کے امکانات کا ایسا سمندر دیکھتا ہوں جس کا کوئی کنارہ نہیں ہے۔ کہانی بھی تخلیق ہی کی ایک اکائی ہے اور اس کی صرف وہ صورت ہو ہی نہیں سکتی تھی جو انتظار کی اس محبوب سمعی روایت کے آئینے میں دکھائی جا رہی ہے۔ اور ہاں یہیں میں ریکارڈ پر لاتا چلوں کہ یہ سمعی روایت انتظار تک اور ہم تک محض نانیوں اور دادیوں کے ذریعے نہیں پہنچی تھی اس کا بیشتر حصہ ان مردود چھاپہ خانوں سے چھپ کر ہی ایک زمانے میں توجہ حاصل کر پایا تھا۔ میں اُس زمانے کو کھینچ کھانچ کر انتظار کے اپنے زمانے سے جوڑ دیتا ہوں جس کے دندانے اس زمانے سے کے دندانوں کے اندر دھنسے ہوئے ہیں جس میں کہانی نے اپنی جون بدل لی ہے۔
روشن بلب کے نیچے لکھی گئی اور چھاپہ خانوں سے چھپ کر ہم تک پہنچنے والی انتظار کی اپنی کہانی کا یہ قرینہ رہا ہے کہ یہ دونوں زمانوں میں سانس لیتی ہے۔ یہ ماضی کی بھول بھلیاں میں ہمیں ڈال کر الگ نہیں ہو جاتی، وہاں سے نکلنے میں مدد بھی دیتی ہے یوں جیسے آریادنی شہزادی نے یونانی اسطورائی ہیرو تھیسیوس کی مدد کی تھی۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ جب تھیسیوس ایک خطرناک بھول بھلیاں میں داخل ہو گیا تھا تو اسی شہزادی نے دھاگے کا ایک گولا اسے تھما دیا تھا۔ اس گولے کی مدد سے وہ بھول بھلیاں سے نکل آیا تھا۔ مان لیا جانا چاہیے صاحب کہ انتظار کے سوا داستان، قصے اور لوک کہانیوں کی تیکنیک سے جڑ کر جس نے نئی کہانی لکھنی چاہی اس کے ہاتھ آریادنی شہزادی والا دھاگے کا گولا نہ آ سکا جو اسے اس بھول بھلیاں سے باہر نکال لاتا حتی کہ وہ زمانہ آگیا جس کے آشوب کو اس سارے عہد پر پھیلا کر بتایا جا رہا ہے جس میں کہانی کہی نہیں جاتی لکھی جاتی ہے۔ جی میری مراد اس آشوب سے ہے جو ہمارے ہاں علامت اور تجرید کے نام پر ایک وبا کی صورت پھوٹا، یوں کہ اچھے برے کی تمیز مٹ گئی اور کچھ وقت کے لیے ان رنگ رنگ کے کنکوؤں سے سارا آسمان اَٹ گیا۔مگر یاد رکھا جانا چاہیئے کہ اس میں بہت سارا مال بھرتی کا سہی، سارے کو گٹھڑی میں باندھ کر دریا برد نہیں کیا جا سکتا۔ اس زمانے کا ایک احسان تو ماننا ہی چاہیے کہ اس نے کہانی پر کچھ اور امکانات کھول دیئے۔اور اب جب کہ کم از کم دو سطحوں پر مربوط کہانی لکھی جا رہی ہے تو میں اسے گزشتہ عہد کے تمام کامیاب اور ناکام تجربوں کے ساتھ جوڑ کر اور جڑ کر ہی دیکھنے کی درخواست کروں گا کہ انصاف کا یہی قرینہ ہے۔
اب رہی یہ خوش فہمی کہ کہانی لکھی ہی سمعی تیکنیک میں جا سکتی ہے تو یوں ہے صاحب کہ جب تک میں انتظار کی” زرد کتا” اور "آخری آدمی” جیسی کہانیوں کے طلسم کدے میں رہتا ہوں تو ایسا ہی گمان باندھتا ہوں مگر اس سے نکلتے ہی ساری” خوش فہمی،، کے غبارے کی ہوا بھی نکل جاتی ہے میں نے اگر ایسا کہا ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ میرے سامنے بلب کی روشنی اور پرنٹنگ پریس جیسے "دشمنوں ” کو” دوست” جان کر لکھی گئی کہانیوں کی ایک لمبی قطار ہے جس میں زندگی کے بھید بھاؤ بھی ہیں اور عصری حسیت بھی۔ ان کہانیوں میں کچلنے اور روند ڈالنے والی زندگی سے منھ موڑ کر کسی اڑن کھٹولے میں بیٹھنے اور پرستان جا نکلنے کا رویہ ہے نہ ان کہانیوں کے کردار ان مہمات پر(چاہے ہمیں کچھ سجھانے کو ہی سہی) نکل کھڑے ہوتے ہیں جن کا تصور ہی محال ہے اور کہیں کہیں تو مضحکہ خیز ہو جاتا ہے۔
یہاں یہ سوال بنتا ہے کہ آخر کب تک آپ محض سمعی روایت کی محبت میں ان ساری کہانیوں کو رد کرتے رہیں گے جو ایک مستحکم روایت بنا چکی ہیں۔ مغربی روایت کی تیکنیک کو اپنا کر اپنی زمین اور اپنی تہذیبی مظاہر سے جڑ کر کہانی لکھنے کی جو طرح اُردو میں پڑ چکی ہے اس میں سمعی روایت کے تیکنیکی حوالے ملیں نہ ملیں کہانی اپنی نزاکتوں کے ساتھ ملتی ہے اور ضرور ملتی ہے۔ اب ایسے اُردو افسانے قطار اندر قطار مجھے لبھانے لگے ہیں جن میں کہانی اپنے بھید پوری نزاکتوں کے ساتھ سنبھالے ہوئے ہے۔ لیجئے جیسے جیسے مجھے یاد آ رہے ہیں ویسے ویسے لکھے جا رہا ہوں۔ پریم چند کی "کفن” کرشن چندر کی "بالکونی” راجندر سنگھ بیدی کی "لاجونتی” عصمت چغتائی کی "لحاف” سعادت حسن منٹو کی "سوگندھی” قرۃ العین حیدر کی” فوٹو گرافر” احمد ندیم قاسمی کی ’کنجری” ممتاز مفتی کی ” آپا” عزیز احمد کی "تصور شیخ ” احمد علی کی” قید خانہ” غلام عباس کی "آنندی” حسن عسکری کی "پھسلن” اشفاق احمد کی "ہے گھوڑا” محمد خالد اختر کی ” لالٹین” ڈاکٹر سلیم اختر کی ” تیرہواں برج” بانو قدسیہ کی” کلو” زاہدہ حنا کی "راہ میں اجل ہے” عرش صدیقی کی”باہر کفن سے پاؤں ” مسعود مفتی کی” تشنگی” انور خان کی "فن کاری” غیاث احمد گدی کی "تج دو تج دو” نیر مسعود کی” طاؤس چمن کی مینا ” مسعود اشعر کی” میں نے جواب نہیں دیا” انور سجاد کی”گائے” سراج منیر کی ” نالۂ نَے” بلراج ورما”پر کٹے پرندے” کنور سین کی "گلیڈی ایٹر” یونس جاوید کی”اناج کی خوشبو” سریندر پرکاش کی "بجوکا” جوگندر پال کی” جادو” سلام بن رزاق کی” معبر” ساجد رشید کی”ہانکا” خالدہ حسین کی "سلسلہ ” سلام بن رزاق کی ” انجام کار” محمد سلیم الرحمٰن کی” نیند کا بچپن،، اسد محمد خان کی” موتبر کی باڑی” منشا یاد کی "پانی میں گھرا ہوا پانی” احمد ہمیش کی "مکھی” رشید امجد کی” بگل والا” رحمان مذنب’ کی’ پتلی جان” شمس الرحمن فاروقی کی” سوار” مُشَرّف احمد کی "پس مرگ” صدیق عالم "فور سیپس” نعیم آروی کی "گم شدہ جزیرہ” اقبال مجید کی ” پوشاک” مرزا حامد بیگ کی "گناہ کی مزدوری” محمود واجد کی ” خوشبو کا لمحہ” احمد جاوید کی "بھیڑیا” آصف فرخی کی”دیمک” نیلوفر اقبال کی "برف” سید محمد اشرف کی "لکڑ بھگا ہنسا” احمد داؤد کی "شہید” نگہت سلیم کی”جشنِ مرگ” طاہرہ اقبال کی "دیسوں میں ” امجد طفیل کی "مچھلیاں شکار کرتی ہیں ” انور زاہدی کی”پھپھوندی” جمیل احمد عدیل کی "رتن مالا اور کاتب کلام” عاصم بٹ کی "انتظار” فاروق سرور کی ” گنجی چڑیا” فرحت پروین کی "منجمد” علی امام نقوی کی ” ڈونگر باڑی کے گدھ” خالد جاوید کی "تفریح کی ایک دوپہر” مبین مرزا کی "قید سے بھاگتے ہوئے ” صغیر ملال کی "آبادی” اے خیام کی”خالی ہاتھ” وقار بن الٰہی کی "اترنا دریا میں ” شفق کی ” نیلا خوف” گلزار کی ” خوف” حامد سراج کی "ڈنگ” شوکت حیات کی "گنبد کے کبوتر ” انور قمر کی ” میرا باپ صندوق میں سوتا ہے ” عامر فراز کی "پرانا شہر” مُشَرّف عالم ذوقی کی "فزکس، کیمسٹری، الجبرا” حفیظ خان کی ” یہ جو عورت ہے” عطیہ سید کی "شہر ہول” نیلم بشیر احمد کی "گلابوں والی گلی” غافر شہزاد کی "خوابوں کی گرہ میں پڑی لڑکی” رفاقت حیات کی "چریا ملک” شمیم منظر کی” مسدود راستہ” اور ….اور …. کہئے بھلا ان جیسی ان گنت کہانیوں کو پڑھنے کے بعد بھی آپ کہہ سکتے ہیں کہ سمعی روایت کے رکنے سے کہانی گم ہو گئی ہے۔
تو یوں ہے صاحب کہ کہانی لکھے جانے کی روایت پر اس طرح کے نشتر چلانے سے وہ منظر نامہ قطعاً نہیں بن سکتا جو آپ بنانا چاہتے ہیں۔ خود کو افسانے کی نئی تیکنیک سے الگ رکھنے اور اس کی مستحکم ہو جانے والی روایت سے آنکھیں بند کر کے گزرنے کا آپ کو حق ہے سو اس حق کو استعمال کیجئے اور جیسی من میں آئے ویسی کہانی لکھیے مگر اس سے ایسے نتائج اخذ مت کیجئے جو سارا منظر نامہ ہی دھندلا کر رکھ دے۔
٭٭٭