احتشام اختر کی شعری خدمات۔ ایک (جائز) جائزہ
اعجاز عبید
عزیز دوست احتشام اختر کے توسط سے ہی انجم آفاق کی یہ کتاب ‘احتشام اختر کی شعری خدمات۔ ایک جائزہ’ نظر نواز ہوئی اور بہت شوق سے کچھ گھنٹوں میں ہی ختم کر دی۔ دلچسپی کی اصل وجہ، جھوٹ کیوں بولوں ، اس شخصیت سے تعلقِ خاطر ہے جن پر یہ کتاب لکھی گئی ہے۔ لیکن محض موضوع کتاب شخصیت سے یہ دیرینہ تعلق اس کتاب کی اہمیت کو گھٹاتا نہیں ہے۔ اس کتاب کی اپنی اہمیت یوں بھی کہی جا سکتی ہے کہ احتشام اختر کی پیاری، پیار کرنے والی، اور پیار کۓ جانے والی شخصیت کے کئی پہلوؤں سے میں بھی اسی کتاب سے واقف ہوا۔ اس لحاظ سے مصنفہ کی یہ پہلی کوشش پوری طرح کامیاب ہے۔
احتشام نے جب یہ اطلاع دی کہ وہ کتاب ڈاک سے بھیج رہے ہیں تو پہلے میں یہی سمجھا کہ ان کا چوتھا مجموعہ کلام چھپ گیا ہے۔ اور اس لۓ میں خوش تھا کہ میری ذاتی لائبریری میں ان کی پہلی کتاب ‘راکھ’ کے بعد کا کوئی مجموعہ میرے پاس نہیں۔ احتشام نے فون پر بھی یہ واضح نہیں کیا تھا کہ وہ کیا کتاب بھجوا رہے ہیں۔لیکن اب یہ کتاب ہاتھ میں آئی تو پہلے تو مایوسی ہوئی کہ یہ احتشام ‘کی’ نہیں ، احتشام ‘پر’ کتاب ہے۔ پھر مایوسی کی ایک وجہ یہ بھی لگی کہ ایک دم خیال آیا کہ کیا احتشام اختر بھی ان اس بھیڑ میں شامل ہو گئے ہیں جو اپنا نام روشن کرنے کے لۓ دوسروں سے اپنے بارے میں لکھواتے ہیں اور اس کے لۓ دامے درمے سخنے ہر ممکن اور نا ممکن (ہم جیسے لوگوں کے لۓ) تعاون دیتے ہیں۔ اس وقتی دھکے سے سنبھلا تو دیکھا کہ کتاب موڈرن پبلشنگ ہاؤس دہلی نے چھاپی ہے جو ایسا ادارہ ہے جو اچھی معیاری کتابیں شائع کرنے کے لۓ مشہور ہے۔ اور مزید جب یہ علم ہوا کہ یہ اجمیر یونیورسٹی کے اردو میں ایم فل کی ڈگری کی تکمیل کے لۓ لکھے گۓ مقالے کا کتابی روپ ہے تو اس تکلیف دہ احساس کو احساس مسرت نے دور دھکیل دیا۔ اس میں کون شک کر سکتا ہے کہ راجستھان کا جدید ادبی منظر نامہ مخمور سعیدی، ممتاز راشد، عقیل شاداب اور احتشام اختر کے ذکر کے بغیر نا مکمل ہے۔ مزید یہ کہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے لۓ مقامی ادیبوں اور شعراء پر تحقیق کرنے کا ایک خوش آئند رواج چل نکلا ہے۔ اس لۓ احتشام اختر پر یہ تھیسس اس سلسلے کا ایک نہایت مناسب قدم ہے۔ مزید خوشی یہ ہوئی (ان سے تعلق خاطر کی بنا پر) کہ احتشام اس معاملے میں راجستھان کے دوسرے اہم شعراء سے سبقت لے گۓ۔ یہ کتاب اگر چہ ان کا اپنا ا کارنامہ تو نہیں ہے ، مگر ان کی اس خوش نصیبی پر میں انھیں مبارک باد دیتا ہوں۔ اور جس کا کارنامہ ہے ، یعنی مصنفہ انجم آفاق، ان کو بھی نہ صرف مبارک باد دیتا ہوں کہ انھوں نے احتشام اختر پر یہ تحقیق کی بلکہ اردو ادب کے تحقیقی اور تنقیدی کارواں میں شامل ہونے پر خوش آمدید کہتا ہوں۔
اس کتاب نے پہلے تو علی گڑھ کی بہت سی یادیں تازہ کر دیں ، وہاں ہم دونوں کے مشترکہ قیام کے دوران ساتھ گزرے لمحے ، ان کی زبان اور ان کے مستی بھرے لب و لہجے میں سنی غزلیں یاد آ گئیں ؎ ‘میں اگر دشت نہ ہوتا تو سمندر ہوتا’، ‘میرے ہی بدن کے لۓ تلوار بھی ہو گی’ اور ‘شوخ گفتار ہوئی چلبلے مکتوب ہوۓ’ والی غزلیں۔ علی گڑھ کے ذکر نے میری یادوں کا خاکستر بھی کافی کرید دیا۔ مرحوم آل احمدسرور صاحب مجھ پر بھی کافی زور دیتے رہے کہ میں بی ایس سی کے بعد اردو میں ایم اے کروں لیکن میں نے کافی سوچ بچار کے بعد جیالوجی میں ایم ایس سی کرنے کا ہی فیصلہ کیا۔ لیکن احتشام کو انھوں نے علی گڑھ بلوا کر اگر یہ کہنا مبالغہ ہو کہ ان کی زندگی سنوار دی، تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ہیرے کو تراش ضرور ملی۔ ان کی شخصیت، ادبی قد و قامت بلکہ ادبی پہچان کے لۓ علی گڑھ کا رول کافی اہم رہا۔ اور یہ احتشام اختر خود مانتے بھی ہیں۔ اس لۓ اس کتاب کا وہ حصہ اور دل چسپی سے پڑھا۔ایک بیانی غلط فہمی کا بھی ازالہ کرتا چلوں۔ ذکر ہے کہ "اعجاز عبید،شہاب عراقی اور مرزا خلیل نے تو بعد میں شعر گوئی ترک کر دی۔۔۔” اس سلسلے میں یہ اضافہ کروں کہ شہاب عراقی تو واقعی تائب ہو گۓ، مرزا خلیل اب تحقیق اور لسانیات کے میدان میں سر گرم ہیں اور سر سید اور لسانیات پر اتھارٹی مانے جاتے ہیں ، اور اپنے بارے میں یہ ‘اپ ڈیٹ’ کہ چھٹتی نہیں ہے مونہہ سے۔۔۔۔اگرچہ چھپنا چھپانا عرصے تک موقوف رہا، پچھلے پانچ چھ سال سے برادرم مصحف اقبال توصیفی کی تحریک پر ‘سب رس’، شعر و حکمت’ میں ضرور تخلیقات شائع ہوئی ہیں مگر حال کے عرصے میں انٹر نیٹ پر کافی معروف ہوں اور خاص کر اردو کمپیوٹنگ کے سلسلے میں میرا ذکر ضروری مانا جاتا ہے۔ خیر، اپنی خود سرائی کا ذکر اس لۓ کرنا پڑا صحیح صورت حال نذر ناظرین کر دوں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آۓ۔
کتاب کے پہلے دو سوانحی ابواب نے مجھے بھی کئی نئی معلومات دیں ، ان کے خاندانی پس منظر سے واقف کرایا۔ سچ کہنے کا حق دیں تو کہوں کہ یہ انجم آفاق کا کارنامہ نہیں ہے۔ یہ ساری معلومات تو انھیں خود احتشام نے ہی بہم کی ہوں گی، صرف انھیں مصنفہ نے اپنی سلیس اور عموماً غلطیوں سے پاک زبان میں الفاظ کی صورت دی ہے۔ آخری باب بھی محض احتشام کی شاعری کا انتخاب ہے۔ انجم کا اصل کارنامہ درمیانی تین باب ہیں ، بالترتیب احتشام کی غزل، نظم اور راجستھان کے ادبی ماحول میں احتشام کے مقام کے بارے میں۔ اور ان ابواب سے ہی انجم آفاق کی تنقیدی بصیرت کا پتہ چلتا ہے۔ کہیں کہیں بات دہرائی گئی ہے اور کہیں کہیں موضوع سے ہٹ کر بات کی گئی ہے اور اس باعث ہی پتہ چلتا ہے کہ یہ طالب علمانہ کوشش ہے جیسا کہ خود مصنفہ نے اعتراف کیا ہے اور ان کے استاد نے بھی اپنے دیباچے میں نشان دہی کی ہے۔ اس سے قطع نظر انجم کی نگاہ دور جاتی ہے ، اس کے ثبوت بھی ملتے ہیں۔ مثلاً احتشام کی شاعری میں (ان کی صحبت میں کافی سننے کے با وجود بھی) مجھے ‘طنز کی کاٹ’ کا اب تک قطعی احساس نہیں تھا۔ میرے ان مشاہدات کی بنا پر مجھے یقین ہے کہ انجم آفاق محض راجستھان کے ادبی پس منظر تک محدود نہ رہیں گی اور عالمی اردو ادب پر اپنی دروں بیں نگاہیں ڈالتی رہیں گی۔ میری تمام تر نیک خواہشات ان کے ساتھ ہیں۔
کتاب کے سر ورق پر احتشام اختر کی وہ تصویر ہے جس میں وہ وزیر اعلیٰ راجستھان سے بسمل سعیدی اوارڈ حاصل کر رہے ہیں ّاگر چہ اس کے کیپشن میں یہ درج نہیں کہ کیا ایوارڈ دیا جا رہا ہے )، پشت پر بھی تین تصویریں ہیں ، دو میں احتشام مائک ہر دکھائی دیتے ہیں تو تیسری میں اپنی اہلیہ، صاحب زادی اور مصنفہ انجم آفاق کے ساتھ۔ پہلے فلیپ پر مصنفہ کے بارے میں تحریر ہے تو اندرونی کور کے فلیپ پر پبلشر پریم گوپال متل کی راۓ۔ دیباچہ مصنفہ کے استاد اور گائڈ پروفیسر فیروز احمد نے لکھا ہے۔ 144 صفحات کی اس خوبصورت کتاب کی قیمت ۱۵۰ روپۓ ہے جو مناسب ہے۔ کتاب موڈرن پبلشنگ ہاؤس، ۹، گولا مارکیٹ، دریا گنج ، دہلی 110002سے حاصل کی جا سکتی ہے۔
٭٭٭
کاپی لیفٹ، حوالے کے ساتھ نقل کی مکمل اجازت ہے
ای بک: اعجاز عبید