صبح کی اولین ساعتوں میں علی گڑھ سے برادرم ڈاکٹر راحت ابرار نے یہ دردناک اطلاع دی کہ مشہور صحافی، مترجم اور افسانہ نگار مظفرحسین سید گزشتہ رات انتقال کر گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
ادبی حلقوں میں شارق ادیب کے نام سے معروف مظفرحسین سید بہت عرصے سے بیمار تھے اور کافی دنوں سے ان کا کوئی اتہ پتہ نہیں تھا۔ انھوں نے مارہرہ شریف میں آخری سانس لی، جہاں ممتاز فکشن نگار سید محمد اشرف انھیں علاج کے لیے اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
مارہرہ شریف سے ان کا پرانا رشتہ تھا۔ مظفرحسین سید کی پیدائش میرے وطن مراد آباد میں ہوئی تھی، لیکن وہ بچپن ہی میں اپنے والد ین کے ساتھ مارہرہ چلے گئے تھے، جہاں ان کے والد کو ایک اسکول میں ملازمت مل گئی تھی۔
مظفرحسین سید نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے 1974 میں اردو میں ایم اے کیا۔ طالب علمی کے زمانے میں وہ سلیمان ہال میں رہتے تھے۔ ان کی شخصیت اور کردار و عمل پر علی گڑھ کی پوری چھاپ تھی اور اس میں رچے بسے تھے۔ علی گڑھ مسلم یوینورسٹی کے اقلیتی کردار کی تحریک میں شامل تمام ہی طلباء لیڈروں سے ان کے قریبی مراسم تھے۔ انھوں نے ’علی گڑھ مسلم ٹائمز‘ کی ادارت کے فرائض بھی انجام دئیے۔ یونیورسٹی سے فراغت کے بعد وہ ایک سرکاری اسکول میں استاد بھی ہو گئے تھے، لیکن اپنی سیلانی طبیعت کی وجہ سے وہ کہیں بھی زیادہ دنوں تک ٹھہر نہیں سکے۔ نوکری چھوڑ کر دہلی آ گئے اور یہاں روزنامہ ’قومی آواز‘ سے بطور سب ایڈیٹر وابستہ ہو گئے۔ انھیں تحریر پر عبور حاصل تھا اور اسی مہارت سے وہ انگریزی سے اردو میں ترجمہ بھی کرتے تھے۔ ’قومی آواز‘ سے علیحدگی کے بعد انھوں نے مشہور وکیل اور سیاست داں ڈی ڈی ٹھاکر کی سرپرستی میں ’حال ہند‘ کے نام سے ایک معیاری ماہنامہ جاری کیا تھا جس کے لیے انھوں نے مجھ سے کئی مضمون لکھوائے۔
90 کی دہائی کے وسط میں مجھے انھیں قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقعہ ملا۔ وہ اور میں دونوں ہی کوچہ چیلان کی ایک بلڈنگ میں پڑوسی تھے۔ ان کی شادی قایم گنج میں ہوئی تھی اور وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ یہاں رہتے تھے۔ انھیں لذیذ کھانوں کا بہت شوق تھا اور صبح سے دوپہر تک اس کی تیاری میں اپنی اہلیہ کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ بعد کو جب ان کی اہلیہ کا انتقال ہوا تو انھوں نے دوسری شادی نہیں کی اور مجرد زندگی گزاری۔
انھوں نے کئی برس پہلے دریا گنج علاقہ میں ایک ٹیم بنا کر ترجمہ کا کام شروع کیا تھا۔ وہ اردو سے انگریزی، انگریزی سے اردو اور عربی وغیرہ کا ترجمہ بڑی مہارت سے کیا کرتے تھے۔ ان کی زندگی کا ایک کمزور پہلو فضول خرچی تھا جس کے مضر اثرات سے وہ تمام عمر جوجھتے رہے، لیکن انھوں نے شاہ خرچی نہیں چھوڑی۔ ہمیشہ آمدنی سے کہیں زیادہ خرچ کرتے تھے۔ اس عادت نے انھیں بلا کا مقروض بنا دیا تھا۔
میری ان سے آخری ملاقات مارچ 2018 میں پٹنہ میں اردو صحافت سیمینار میں ہوئی تھی، جس کا انعقاد اردو ڈائرکٹوریٹ نے کیا تھا۔ ہم لوگ تین دن پٹنہ کے ہوٹل پناش میں مقیم رہے۔ یہاں انھیں دیکھ کر مجھے دھچکا سا لگا، کیونکہ ان کی صحت خراب ہو چکی تھی اور وہ اٹھنے بیٹھنے کے لیے بھی ایک معاون کے محتاج تھے، لیکن اس حالت میں بھی کھانے پینے کا شوق برقرار تھا۔ ان کے آخری ایام کی یہ تصویر بہت کچھ بیان کرتی ہے۔ ان کی عمر 70 سال سے کچھ زیادہ تھی، لیکن وہ خرابی صحت کی وجہ سے 90 سال کے لگتے تھے۔ ان کا انتقال اردو صحافت اور ادب کا بڑا نقصان ہے۔ زبان و بیان پر ایسا عبور رکھنے والے ماہرین فن اب خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ وہ غیر معمولی علمی، ادبی اور لسانی صلاحیتوں سے آراستہ تھے۔ اگر وہ استقامت اور میانہ روی سے زندگی گزارتے تو بہت آگے جا سکتے تھے۔ مگر خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔
٭٭٭