چڑیوں کے ساتھ ۔۔۔ مینا اگروال/ اعجاز عبید

 

رسم الخط کی تبدیلی/ترجمہ: اعجاز عبید

_______________________________

 

 

1

_______________________________

 

گھر کا سونا آنگن

اور اکیلی بیٹھی میں

بکھرے ہیں سوال ہی سوال

جن میں الجھا

میرا من اور تن !

اچانک چھوٹی سی گوریّا پھدکتی ہوئی آئی

نہ تو وہ جھجکی، اور نہ شرمائی،

آ کر بیٹھ گئی پاس رکھے البم پر

شاید دے رہی تھی سہارا

اداس من کو !

میں نے البم اٹھائی

اور پلٹنے لگی دھندلے ماضی کو

کھولتی رہی ورق ورق

ڈوبتی رہی پرانی یادوں میں !

مجھے یاد آئیں اپنی دادی

جن کی شخصیت تھی سیدھا سادہ

پر ڈسپلن تھا سخت

ان کے ہاتھوں میں رہتی تھی

ہماری من کی پتنگ کی ڈور

جن کے راج میں

لڑکیوں کو نہیں تھی

پڑھنے لکھنے کی یا پھر کھیلنے کی آزادی

جب بھی پڑھتے لکھتے دیکھتیں

پاس آتیں اور سمجھاتیں

’’اپنے ان انمول لمحوں کو مت کرو بیکار

کیونکہ زیادہ پڑھنے لکھنے کا

بیٹی کی زندگی میں نہیں ہے کوئی معنی،

اور پھر پڑھ لکھ کر

ولایت تو جائے گی نہیں

گھر میں ہی بیٹھ کر

بس روٹیاں پکائے گی!‘‘

لیکن میں چپکے چپکے

چھپ چھپ کر پڑھتی رہی

آگے بڑھتی رہی

اور ایک دن چلی گئی

دور دراز ممالک کے سفر پر

دادی آج نہیں ہیں

پر سن رہی ہوں گی میری باتیں

وہ اپنی تیز نگاہ سے

دیکھ رہی ہوں گی میری سوغاتیں !

چڑیا اڑی اور

بیٹھ گئی منڈیر پر

دینے لگی دانا

اپنے ننھے ننھے بچوں کو !

 

 

2

_______________________________

 

البم کا دوسرا پنا پلٹا

یاد آیا دادی کا غصہ

اور چشمے سے جھانکتیں

دادی کی بڑی بڑی آنکھیں

لڑکیوں کا آرام سے لیٹنا

یا کتاب لے کر بیٹھنا

ان کو پسند نہیں تھا

یہ سب دیکھ کر

انہیں بہت غصّہ آتا تھا !

پنکھا بند تاکہ ہم

پسینے میں نہائیں

بجلی بند تاکہ ہم

کتاب میں نہ جھانک پائیں !

اس وقت

ان کے سخت گیرسلوک سے

نا قابلِ برداشت تکلیف ہوتی!

ٹوٹے پیڑ کی طرح بے سہارا مَیں

جھر جھر بہتے آنسؤں سے ہی

من کی پیڑا دھو لیتی !

پر آج سوچتی ہوں کہ اس سمے

دادی کی ڈانٹ اور سختی

اگر صحیح نہ ہوتی تو

آج نہیں مل پاتی اتنی پختہ بنیاد

کہ سسرال آ کر جھیل پاتی آفتوں کو

دادی نہیں ہیں

پر ان کی موجودگی آج بھی بھِگوتی ہے تن من

انکی سنجیدہ آواز گونجتی ہے گھر آنگن میں

من کرتا ہے سلام بار بار

ان کے اصولوں کو

کیونکہ بنایا ہے انہوں نے

موم سے تن من کو فولادی

کہ چل سکوں کانٹوں پر بھی بغیر ڈگمگائے

ڈھو سکوں پتھر جیسے رشتوں کو مضبوطی سے

اور زندگی کی راہ میں

مضبوطی سے کھڑے ہو کر

اگر لڑنا بھی پڑے تو لڑ سکوں

لڑائی اپنی شناخت کی !

 

 

3

_______________________________

 

گوریا پھر سے اڑ گئی

آکاش کی اور بادلوں سے باتیں کرنے

خیالوں کی رو ٹوٹی

البم کا تیسرا پنا کھولا

ڈوب گئی پرانی نرم

معصوم یادوں میں !

جب میں صرف ساڑھے سات سال کی تھی

ماں گئی تھیں یاترا پر

یاترا تھی بڑی لمبی اور کٹھن

وداع کے وقت بھجن اور منگل گیتوں سے

بھیگا پر اداس ماحول

سہما سہما سا گھر کا آنگن

سونی گھر کی ڈیوڑھی

دادی کے منہ سے

دعاؤں کی لگاتار بہتی دھارا

آکھوں سے چھلکتے آنسو

بھائی بہنوں کی ماں کو دیکھتیں اداس،خاموش اور پر نم آنکھیں

کہہ رہی تھیں

اپنی ہی بولی میں کچھ کچھ !

ماں کی آنکھوں نے پڑھا ہمارے من کو

پاس آ کر سہلایا، دلارا

جاتے وقت ماں نے دیا

مجھے اور میری بڑی بہن کو

آٹھ آنے کا ایک ایک سکہ

اور میوے سے بھرا

ہرے رنگ کا ٹین کا چھوٹا ڈبہ ،

میوے کے ساتھ ساتھ

بھرا تھا جس میں

ماں کا پیار دلار

اور ماں کی انگنت یادیں!

ایک ریشمی رومال

جس میں بندھا تھا ڈبہ

اس پر چھَپا ہوا تھا

سن انیس سو اڑتیس کے بارہ مہینوں کا کلینڈر !

ڈبہ اور رومال

میرے انمول خزانے میں آج بھی ہیں محفوظ!

آج بھی ماں کے الفاظ

گونج رہے ہیں کانوں میں ۔۔۔۔

‘ بیٹی ! جب من چاہے

دونوں بہنیں میوہ کھا لینا

پیسوں سے کچھ لے لینا

پر ہاں ! دادی کو مت بتانا،

کسی کو پریشان بھی مت کرنا،

میں جلدی ہی یاترا سے آ جاؤں گی!’

سوا سال کی میری چھوٹی بہن گئی تھی

ماں کے ساتھ یاترا پر

میرا من بھی ڈولا ساتھ جانے کو

پر مجھے چھوڑ کر چلی گئیں ماں !

جانے کے بعد

کبھی لوٹ کر نہیں آئیں

اڑ گئیں ہریل طوطے کی طرح،

ظالم نصیب نے

چھین لیا ماں کا دلار،

کر دیا بن ماں کے یتیم!

آج جب بھی آتی ہے

ماں کی یاد

ڈبڈباتی ہیں آنکھیں

ڈگمگاتے ہیں قدم

لڑکھڑاتا ہے من

لیکن ماں کے دیئے

میوہ کے ڈبے کی ہریالی

کر دیتی ہے من کو ہرا،

اور جب بھی کھولتی ہوں اسے

تو یادوں کے بادل

اڑنے لگتے ہیں میرے ارد گرد

وہ تھپتھپاتے ہیں مجھے

دکھاتے ہیں راہ

جگاتے ہیں ہمت

مشکلوں میں جینے کی !

جب دیکھتی ہوں رومال

تو ماں کی میٹھی میٹھی یادیں لگتی ہیں گدگدانے

وقت کی مار جھیلتے جھیلتے ہو گئے ہیں

رومال میں انگنت چھید

میں ان چھوٹے چھوٹے چھیدوں سے

نہیں رسنے دیتی ہوں

ریت بنی اپنی معصوم یادوں کو

اور پھر رکھ لیتی ہوں سہیج کر

اپنے من کی الماری میں!

 

 

4

_______________________________

 

البم کے اگلے پنے پر

میں ہوں اور میرے بڑے بھائی

پھر من لوٹ گیا

ماضی کی تنگ پگڈنڈیوں پر

یاد آئی بھائی کی

جو سخت ڈسپلن والے تھے

بات بات پر ڈانٹنا مارنا

یا پھر دھتکارنا

اس میں نہیں تھا

ان کا کوئی دوش

یہ تو تھا شائد

اس زمانے کے

سماجی نظام کا کھوٹ،

جو بیٹے اور بیٹی میں

رکھتی تھی تفریق کی نظر

دادی کے لاڑ پیار نے

بنا دیا تھا بھائیوں کو

کچھ ایسا ہی!

ہر مشکل کی حالت کا

ہمت سے مقابلہ کرنا

عادت بن گئی تھی ہماری !

ہم نے سمجھایا من کو

کہ ہر سخت مشکل کا

ہمت سے کریں مقابلہ

اور نہ ٹوٹنے دیں خود کو !

 

5

_______________________________

 

اگلا پنا پلٹا

دیکھا، گھونگھٹ نکالے

دلہن بنی نادان سی

نازک سی

میں آئی ہوں سسرال

جہاں مجھے جاننا تھا سب کو

من میں تھی ایک آس

بننے کی ایک آدرش ! کیں کوششیں

سہا بھی سب کچھ

جٹی رہی پڑھائی میں

جھاڑو پونچھا، کپڑے دھونا، کھانا بنانا،

کوئلے توڑ کر انگیٹھی سلگانا

چولہے میں روٹی سیکنا

بڑوں کی سیوا کرنا

ساتھ میں پڑھائی کی سیڑھیاں چڑھنا !

سب کچھ کیا پتہ نہیں سب کو

مطمئن کر پائی یا نہیں

سسرال میں سبھی کو دے پائی

مسرت یا نہیں ؟

آج بھی یہ سوال من میں کوندھتا ہے !

 

 

6

_______________________________

 

البم کے آگے کے پنے پر

بیٹیوں کی تصویریں تھیں

جو بول رہی تھیں خاموشی سے

سن رہی تھیں من کی باتیں

ان کی مسکراہٹ

گھول رہی تھی مصری سی من میں !

میٹھے دنوں کی میٹھی مٹھاس

آج بھی دیتی ہے تشنگی کا احساس

میں خود بھی پڑھتی رہی

اور بیٹیوں کو بھی پڑھاتی رہی

جتنا جانتی تھی اس سے کہیں زیادہ

سکھانے کی کوشش کرتی رہی،

محدود سادھنوں میں بھی

بانٹتی رہی سکھ کی خوشبو،

بیٹیوں کے من میں

بھرتی رہی نئی آس،

نئی خوشیاں اور نیا وشواس !

کہیں ان سے من کی باتیں

ان کی بھی سنیں،

دونوں کی دھوم دھام سے شادی بھی کر دی !

بیٹیوں کی وداع کے بعد

رہ گئی اکیلی

جب بھی ہوتی تھوڑا اداس

بیٹیاں سمجھاتیں ۔۔۔

’ماں ! کہاں ہو تم اکیلی، تمہارے ساتھ ہے

تمہاری قلم سہیلی !’

تب سے اب تک

تنہائی کی رات ہو

یا پھر اوب بھرا دن،

گرم دوپہری ہو یا ہو سرمئی شام،

یا پھر تڑپتی اندھیاری رات

بنا لیتی ہوں میں قلم کو

اپنی پیاری سکھی!

کرتی ہوں اس سے لگاتار باتیں

کیونکہ بیٹیوں کی طرح ہی

قلم بھی دیتا ہے ٹھنڈک

بھر دیتا ہے سونا پن!

بیٹیوں کے مدھر بول کی طرح

دیتا ہے سہارا ٹوٹے من کو،

سمیٹ دیتا ہے بکھرے جیون کو،

شانت کرتا ہے

من میں اٹھنے والے طوفاں کو!

آج بھی جب کبھی سنتی ہوں کوئی سخت بول

ٹوٹ جاتی ہوں پوری طرح

من ہونے لگتا ہے تار تار

آنکھیں روتی ہیں زار زار

من کو بٹورتی ہوں،

سنبھالتی ہوں اور پھر

اٹھا لیتی ہوں قلم

یاد آتے ہیں دادی کے

کٹھور پر اپنائیت بھرے لفظ

پھر سوچتی ہوں اور سمجھاتی ہوں خود کو

سیکھو سہنا ،

متھنا سیکھو اپنے اندر

پر کبھی کبھی

من ٹوٹتا ہے اتنا

کہ سنتا ہی نہیں کوئی بات

یاد آتی ہیں بیٹیاں

ان کی ہی مانتا ہے من !

سمجھاتی ہیں وہ ہی، دلارتی ہیں وہ ہی ،

ٹوٹے،کھوئے سونےمن کو

اور تنہا تن کو !

گوریا جو دیکھ رہی تھی ٹک ٹک

پھدک رہی تھی ادھر ادھر

پھر سے اڑ کر بیٹھ گئی

پیڑ کی ہری ڈال پر،

پھدک رہی تھی

ایک ڈال سے دوسری ڈال پر

کبھی اٹھاتی تنکا

جوڑتی اپنے گھر میں ایک اینٹ اور !

اس طرح وہ ہو جاتی مست اور مصروف!

ماں کی خوشبو پاکر

بچے لگتے چہچہانے،

چڑیا انہیں چگاتی دانا،

بچوں کے ساتھ ساتھ

جھوم جھوم اٹھتی، جیسے کہہ رہی ہو سیکھو جھیلنا

وقت کی مار کو،

سیکھو مسکرانا

اداس زندگی میں بھی!

آنسوؤں سے کہتی ہوں بار بار مت کرو

اپنے آپ کو ریت،

تھامے رہو آشا کی ڈور،

کبھی گیلے نہ ہوں

نینوں کے کنارے

اگر بھگونا ہی ہے

تو بھگوؤ اپنے اندرون کے ان احساسات کو

جو ہیں کٹھور،

جو پڑے ہیں دبے کچلے

کسی کونے میں،

احساسات کو بھگو کر

کر دو سب کو احساسات سے پُر

بس پکڑے رہو زندگی کا کنارا!

جب بھی ہوتی ہوں اداس

یا ہوتی ہوں اکیلی ،

بلا لیتی ہوں اپنی سکھی کو

کیونکہ اس کا وجود

سہلاتا ہے بکھرے من کو !

پھر میں ہو کر بے خوف

پھیلا کر احساسات کے پنکھ

اڑتی ہوں اونچے اونچے

کلپنا کے آکاش میں،

اور اڑتی ہی رہتی ہوں چڑیوں کے ساتھ ساتھ !

٭٭٭

 

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے