مشتاق احمد یوسفی ۔۔۔ مجتبیٰ حسین

صاحبو! ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ لندن میں ہمیں یہاں کی تاریخی عمارتوں کو دیکھنے کے علاوہ مشتاق احمد یوسفی کو بھی دیکھنا تھا۔ سو انہیں بھی دیکھ لیا۔ ہماری اور آپ ہی کی طرح کے آدمی ہیں اور کوئی خاص بات نہیں۔ ہم تو انہیں ٹرافلگاراسکوائر اور برٹش میوزیم کو دیکھنے سے پہلے دیکھنا چاہتے تھے۔ ہماری اس عجلت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اُن کی تحریروں سے ہم نے یہ اندازہ قائم کیا تھا کہ یہ لندن کی سب سے قدیم عمارت ہیں۔ مگر جب انہیں دیکھ لیا تو احساس ہوا کہ بگ بین اُن سے یقیناً پرانی ہے بلکہ اُن سے دو ایک ملاقاتوں میں تو خود ہم بھی اُن سے پُرانے لگے۔ جو لوگ مشتاق احمد یوسفی سے ملنے کے خواہشمند ہیں انہیں ہم آگاہ کئے دیتے ہیں کہ ان کے لکھے پر بالکل نہ جائیں۔ یہ ان مزاح نگاروں میں سے ہیں جن کے قول و فعل پر کبھی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ اُن کی ’’ زر گذشت ‘‘، ’’ خاکم بدہن ‘‘ اور ’’ چراغ تلے ‘‘ کو پڑھ کر ہم نے اپنے تئیں یہ سوچ رکھا تھا کہ یہ عمارت تو اب کھنڈر بن گئی ہو گی۔ سوچا تھا کہ ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کریں گے جو ہم عموماً تاریخی عمارتوں کے ساتھ کرتے آئے ہیں، یعنی ہاتھ لگائے بغیر دور سے دیکھ لیا۔ کچھ طرز تعمیر کی تعریف کی، کچھ بچے کھُچے آثار اور نقش و نگار کو دیکھ کر اصل عمارت کی عظمت کا نقش ذہن میں تازہ کر لیا۔ ایک فوٹو کھینچ لیا۔ کوئی محافظ نہ دیکھ رہا ہو تو عمارت پر اپنا نام بھی کندہ کر دیا۔ اللہ اللہ خیر صلاً۔ بہت ہوا تو جاتے جاتے عمارت پر حسرت کی نظر ڈالتے ہوئے یہ مصرعہ جڑ دیا۔

آثار کہہ رہے ہیں عمارت عظیم تھی

ان کی تحریروں میں ان کی انوکھی انوکھی بیماریوں کا حال پڑھ رکھا تھا بلکہ ہمیں یہ بھی گمان تھا کہ موصوف تصنیف و تالیف کا بیشتر کام اسپتال میں انجام دیتے ہیں۔ اُن کی تقلید میں ایک بار ہم بھی بڑی کوشش اور جستجو کے بعد بیمار پڑ کر اسپتال گئے تھے کہ وہاں جا کر مزاح نگاری کریں گے۔ مزاح نگاری ہم سے نہ ہوئی۔ ہوتی بھی کیسے جب کہ ڈاکٹروں نے ہمیں مزاح نگاری کرنے سے منع کیا تھا۔ اس لئے نہیں کہ ڈاکٹروں کو ہماری صحت کی پرواہ تھی بلکہ اس لئے کہ ڈاکٹروں کو اصل میں ہمارے قارئین کی صحت کی زیادہ فکر تھی۔ ہم نے ڈاکٹروں کو بہتیرا سمجھایا کہ بھیا ہماری بیماری تو صرف ایک بہانہ ہے ورنہ ہم تو آپ کے اسپتال میں مزاح نگاری کرنے آئے ہیں۔ سنا ہے جو مزاح نگاری اسپتال میں ہوتی ہے وہ کہیں اور نہیں ہوتی۔ ہماری اس بات کو سُن کر کچھ ڈاکٹروں نے ہمیں امراض دماغی کے اسپتال میں منتقل کرنے کی تجویز بھی پیش کی تھی۔ جب ڈاکٹر ہمارے اصل مرض کو سمجھنے سے قاصر رہے تو مشتاق احمد یوسفی کی بھی مثال پیش کی کہ ہمارے حسابوں موصوف کا بیشتر ادب عالیہ اسپتال میں ہی پیدا ہوا ہے اور اندیشہ ہے کہ آگے بھی وہیں پیدا ہوتا رہے گا۔ سو ہمیں بھی اسپتال میں صحت مند ادب اور غیر صحت مند بچے پیدا کرنے کی اجازت دیجئے۔ مگر مشکل یہ پیش آئی کہ مشتاق احمد یوسفی کے بعد اُردو مزاح نگاری نے تو بہت ترقی کر لی ہے لیکن علم طب نے ابھی اتنی ترقی نہیں کی ہے کہ ڈاکٹر لوگ ہماری بات کا مطلب سمجھتے۔ لہذا طب کے ڈاکٹروں نے ہمیں استپال سے اور ادب کے ڈاکٹروں نے ہمیں ادب سے ڈسچارج کر دیا۔ اس پس منظر کے ساتھ ہم مشتاق احمد یوسفی سے ملنے گئے تو ہم نے اُن کی تحریروں کو کم اور اُن کی بیماریوں کو زیادہ اپنے پیش نظر رکھا تھا بلکہ سچی بات تو ہے کہ اُن کے بے لوث بہی خواہ ہونے کے ناطے دہلی سے چلتے وقت ایک طبیب حاذق سے اُن کی بعض ’’مطبوعہ بیماریوں‘‘ کے علاج کے لئے کچھ غیر مطبوعہ نسخے بھی حاصل کئے تھے۔ ان نسخوں کو ہم نے کس مشکل سے حاصل کیا تھا اس کا حال آپ کو کیا بتائیں۔ ہم نے حکیم صاحب مذکور کو یوسفی کی کتابیں دے کر کہا تھا کہ اُن کی کتابوں میں مندرجہ بیماریوں کا حال احوال آپ پڑھیں۔ مرض کی تشخیص کریں اور کچھ نسخے، جو بقول آپ کے تیربہدف ہوتے ہیں، تجویز کریں۔ ہم لندن جا رہے ہیں تو یوسفی صاحب کو دے آئیں گے کہ اُردو ادب اور مشاق احمد یوسفی دونوں کا بھلا ہو۔ اس کے بعد حکیم صاحب کے پاس ہم جب بھی مشتاق احمد یوسفی کے لئے مدعودہ نسخے حاصل کرنے کے لئے گئے تو موصوف کا حال ہی جداگانہ تھا۔ بات کم کرتے تھے اورہنستے زیادہ تھے۔ ایک مرتبہ کہنے لگے۔ ’’مجھے برسوں سے قبض کی شکایت تھی۔ چراغ تلے کو پڑھنے کے بعد یہ جاتی رہی۔‘‘ ہم نے جی ہی جی میں کہا۔ چراغ تلے اندھیرا اسی کو کہتے ہیں۔ دوسری بار گئے تو اُن کی ہنسی کا والیوم کچھ زیادہ ہی بڑھا ہوا تھا۔ ہم نے موعودہ نسخہ مانگا تو ٹھٹھا مار کر بولے ’’ ابھی تو یوسفی کی بیماریوں سے لطف اندوز ہو رہا ہوں۔ ماشاء اللہ خاصی دلچسپ، شگفتہ اور صحت مند بیماریاں ہیں۔ ابھی تشخیص کی نوبت نہیں آئی۔ تمہیں تو بہت دنوں بعد لندن جانا ہے۔ اطمینان سے نسخے لے لینا اور ہاں خاکم بدہن میں نے پڑھ لی ہے۔ بڑی مفّرح کتاب ہے۔ برسوں سے بلڈ پریشر بڑھا ہوا تھا وہ خاکم بدہن کے استعمال سے معتدل ہو گیا۔ ہم نے کہا ’’ بھلے ہی اپنا نسخہ نہ دیجئے خاکم بدہن کا نسخہ تو واپس فرما دیجئے۔ ‘‘

بولے ’’ ایک مریض کو ناشتے سے پہلے پڑھنے کو دیا ہے۔ ‘‘

’’ اور چراغ تلے کا نسخہ؟ ‘‘ ہم نے پوچھا۔

بولے ’’ایک اور مریض کو رات کو دودھ پینے کے بعد اور سونے سے پہلے پڑھنے کے لئے دیا ہے۔‘‘

ہم تیسری مرتبہ پھر حکیم صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے تو تازہ تازہ غسل سے فارغ ہو کر بیٹھے تھے۔ چہرے پر بشاشت، شرارت اور حرارت تینوں کے ملے جُلے آثار نمایاں تھے۔ ہم نے تاڑ لیا کہ موصوف یوسفی کی ’’زرگزشت‘‘ اور اپنی ’’زن گزشت‘‘ دونوں کو ٹھکانے لگا کے بیٹھے ہیں۔ ہمیں دیکھتے ہی اپنے مطب کے ایک گوشے میں لے گئے اور رازدارانہ لہجہ میں کہا ’’ بھیا ! تمہارے پاس یوسفی کی اور کتنی کتابیں ہیں۔ سبحان اللہ ! کیا مقوی کتابیں ہیں۔ ‘‘ پھر آنکھ مار کر بولے۔ ’’ پہلے تو میں اپنے طور پر ان کتابوں کا مطالعہ کر رہا تھا۔ اب تمہاری بھابی کے حکم کی تعمیل میں پڑھ رہا ہوں۔ بخدا کوئی ان کتابوں کو ڈھنگ سے پڑھ لے تو ’’اشتہاری بیماریوں‘‘ سے ہمیشہ کے لئے نجات حاصل ہو جائے۔ میاں ! لندن میں اگر یوسفی سے واقعی تمہاری ملاقات ہو تو یہ ضرور پوچھتے آنا کہ انہوں نے اپنی رائج الوقت بیماریوں کو کب، کہاں اور کیسے حاصل کیا تھا۔ میں بھی ان بیماریوں میں مبتلا ہونا چاہتا ہوں۔ بیماریوں کے ملنے کا پتہ ضرور لیتے آنا۔ بھولنا مت۔ میں نے کئی اور مریضوں کو بہ رضا و رغبت ان بیماریوں میں مبتلا ہونے کیلئے آمادہ کر رکھا ہے۔ ‘‘

غرض مشتاق احمد یوسفی سے ملنے سے پہلے اُن کے تعلق سے ہمارا ذہنی پس منظر یہ تھا۔ لندن پہنچتے ہی افتخار عارف سے کہا ’’بھیا! بھلے ہی ہمارے اعزاز میں اُردو مرکز کاجلسہ نہ کراؤ۔ جلسوں سے ہم یوں بھی دور بھاگتے ہیں، مگر مشتاق احمد یوسفی سے ہماری ملاقات تو کراؤ۔ ہم انہیں دیکھنا چاہتے ہیں اور موقع ملے تو مزاج پرسی بھی کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

افتخار عارف نے کہا ’سو تو ہو جائے گی۔ فکر نہ کرو۔ ‘‘

ہم نے پوچھا۔ ’’ ان دنوں یوسفی صاحب کہاں قیام کرتے ہیں۔ گھر پر رہتے ہیں یا حسب دستور اسپتال میں داخل ہیں۔ ‘‘

افتخار عارف بولے ’’ نہیں بھیا ! اس وقت تو اپنے دفتر میں فرائض منصبی سے عہدہ برا ہو رہے ہوں گے۔ کہو تو فون پر ابھی تمہاری بات کرائے دیتے ہیں۔ ‘‘

ہم نے افتخار عارف کو ٹوکتے ہوئے کہا ’’ یار ! تاریخی عمارتوں سے اس طرح فون پر بات نہیں کرتے۔ ہم خود انہیں دیکھنے چلیں گے۔ تم اُن سے ملاقات کا وقت طے کر لینا۔ ‘‘

ہمیں لندن آئے ہوئے چوتھا دن تھا۔ پچھلی رات ساقی فاروقی کے ساتھ گذری تھی لہذا صبح میں جلدی بیدار ہونا قانوناً اور عملاً ممنوع تھا۔ ابھی ہم بستر ہی میں تھے کہ افتخار عارف کا فون آیا۔ ’’ یوسفی صاحب نے کل تمہیں اپنے گھر کھانے پر بلایا ہے۔ کل کی شام خالی رکھو۔ ‘‘

ہم نے حیرت سے پوچھا ’’ کیا یوسفی صاحب بھی ہمارے ساتھ کھانا کھائیں گے ؟ ‘‘

افتخار عارف نے کہا۔ ’’ جان من ! تم بھی عجیب بکری ہو۔ دعوت اُن کے گھر پر ہو رہی ہے۔ وہ ہمارے ساتھ کھانا نہیں کھائیں گے تو کیا تمہیں اچھوتوں کی طرح الگ بٹھا کر کھلائیں گے۔ ‘‘

ہم نے کہا ’’ نہیں یار ! بات ایسی نہیں ہے۔ یوسفی صاحب غالباً پرہیزی کھانا کھاتے ہیں۔ ان کے السروں کا حال ہم نے پڑھا ہے۔ خدانخواستہ ہماری وجہ سے بد پرہیزی ہو جائے اور وہ اسپتال جا کر کہیں مزاح کی ایک اور کتاب نہ لکھ ڈالیں۔ ‘‘

افتخار عارف نے کہا۔ ’’ تمہیں شاید نہیں معلوم کہ وہ بد پرہیزی سے پرہیز نہیں کرتے۔ ‘‘

افتخار عارف کے فون کے بعد ہم بستر سے اُٹھنے کی سوچ ہی رہے تھے کہ گھنٹی پھر بجی۔

ریسیوراُٹھایا تو آواز آئی۔ ‘’ میں مشتاق احمد یوسفی بول رہا ہوں۔ کیا مجتبیٰ حسین تشریف رکھتے ہیں؟ ‘‘

ہم نے اچانک اپنی آواز کو بدل کر کہا۔ ’’ جی ہاں تشریف رکھتے ہیں مگر دوسرے کمرے میں تشریف رکھتے ہیں۔ ابھی انہیں بلائے دیتے ہیں۔ آپ انتظار کریں۔‘‘ ہم نے بستر سے اُٹھ کر ایک بھرپور انگڑائی لی۔ سرکو زور سے جھٹکا۔ گلے کو صاف کیا۔ قمیض کے بٹن ٹھیک سے لگائے اور اپنی اصلی آواز میں بولے۔ ’’ السلام وعلیکم یوسفی صاحب! ہم تو آپ کی آواز سننے کو ترس گئے تھے۔ لندن آئے چار دن ہو گئے مگر اب تک آپ کے دیدار نہ ہو سکے۔ آپ کو دیکھنے اور آپ سے ملنے کا بڑا اشتیاق ہے …‘‘

بولے ’’یہ اشتیاق یک طرفہ نہیں دو طرفہ ہے۔ میں بھی آپ سے ملنے کا مشتاق ہوں۔‘‘

ہم نے کہا ’’آپ تو صرف مشتاق ہیں۔ میں تو سراسر مشتاق احمد یوسفی ہوں۔‘‘

آخر کو اپنے محبوب ادیب سے پہلی بار بات ہو رہی تھی۔ سو ہم نے ٹیلی فونی بات چیت کو بھی ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا اور لگے اُن کی تحریروں کی تعریف کرنے۔ بولے ’’ یہ باتیں تو بعد میں ہوں گی۔ اس وقت میں نے آپ کو یہ بتانے کے لئے فون کیا ہے کہ کل رات کا کھانا آپ ہمارے گھر کھائیں گے۔ ‘‘

فون کا ریسیور رکھنے کے بعد ہمیں ۱۹۶۲ء کی سردیوں کے وہ دن یاد آ گئے جب حیدرآباد میں مشتاق احمد یوسفی کی پہلی کتاب ’’چراغ تلے‘‘ کا ایک نسخہ ایک حیدرآبادی خاتون کے پاس نہ جانے کہاں سے آ گیا تھا۔ اس نسخے کے حصول کی خاطر ہر کوئی ان خاتون سے نہ صرف قریب بلکہ ’’عنقریب‘‘ ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔ ہم نے بھی موصوفہ سے قریب ہونا چاہا مگر قریب ہونے والوں کی قطار اتنی لمبی تھی کہ مایوس ہو کر لوٹ آئے۔ دروغ بر گردنِ راوی ایک مرحلہ پر موصوفہ کو یہ خوش فہمی بھی ہو گئی تھی کہ اُن کے اطراف لوگوں کا یہ بھیڑ بھّڑکا اُن کے حسنِ جہاں سوز کے سبب سے ہے۔ یہ سراسر اُن کا حُسن زن نہیں حسن ظن تھا۔ ہم زندگی بھر دیکھنے والوں کی نظر دیکھنے کا کاروبار کرتے رہے۔ لہذا موصوفہ کو زحمت دیئے بغیر سلیمان اریب مرحوم سے کہ موصوفہ کے حلقہ بگوشوں میں تھے اور یہ کہ ’’چراغ تلے‘‘ کا نسخہ ایک دن کیلئے ان کے قبضۂ قدرت میں آ گیا تھا ہم نے یہ نسخہ بالجبر حاصل کیا اور راتوں رات اپنے ٹائپسٹ سے اس کی تین کاپیاں ٹائپ کروا لیں۔ ہم نے مشتاق احمد یوسفی کی ’’چراغ تلے‘‘ کو اسی ٹائپ شدہ حالت میں پڑھا تھا۔ ٹائپ کی بے شمار غلطیوں کے باوجود ہمیں یہ کتاب بے حد پسند آئی تھی۔ انہی دنوں کی بات ہے ہم نے یوسفی کے تئیں اپنی عقیدت کے جوش میں یہ بھی لکھ دیا کہ ’’یوسفی کو پڑھ کر آپ پطرس اور رشید احمد صدیقی کو الگ الگ پڑھنے کی زحمت سے بچ جاتے ہیں۔‘‘ ادب کے کچھ ڈاکٹروں کو یہ بات ناگوار گذری تھی مگر ہم اب بھی اپنی رائے پر قائم ہیں۔ چنانچہ جب ہمارا جی رشید احمد صدیقی کو پڑھنے کو چاہتا ہے تو مشتاق احمد یوسفی کو پڑھ لیتے ہیں۔ پطرس کو پڑھنے کو جی مچلے تو مشتاق احمد یوسفی کو پڑھ لیتے ہیں۔ حد تو یہ کہ اگر کبھی مشتاق احمد یوسفی کو پڑھنے کو دل چاہے تب بھی مشتاق احمد یوسفی ہی کو پڑھ لیتے ہیں۔

غرض دوسری شام کو مرکزی لندن کے ایک خوبصورت فلیٹ میں ہم مشتاق احمد یوسفی سے ملے۔ ماشاء اللہ اتنے صحت مند نظر آئے کہ اُن کی مزاج پرسی کرنے کی ہمت نہیں پڑی۔ سجا سجایا خوبصورت، وسیع اور کشادہ فلیٹ ہے ’’زرگزشت‘‘ والے مشتاق احمد یوسفی جو اینڈرسن کے حضور میں جاتے ہوئے اپنی پتلون کے پیوند کو فائل سے ڈھک لیتے تھے، ’’ چراغ تلے‘‘ والے مشتاق احمد یوسفی جن کی عینک لگا کر بچے اندھے بھنیسے کا کھیل کھیلا کرتے تھے اور خان سیف الملوک کی سائیکل کے کیریر پر بیٹھ کر جانے والے مشتاق احمد یوسفی ہمیں اس فلیٹ میں نہیں ملے۔ ’’زرگزشت‘‘ میں اُن کے حالات زندگی اچھے نہیں تھے۔ اب ’’حالت زندگی‘‘ اچھی ہے۔ اصل اہمیت حالات کی نہیں حالت کی ہوتی ہے۔ بہت تپاک سے ملے۔ مرنجان مرنج، کم آمیز، کم گو اور اپنے آپ میں سمائے ہوئے۔ اس رات اُن کی کم گوئی ایک وجہ غالباً یہ بھی رہی ہو کہ محترمہ ماہ طلعت عابدی اور افتخار عارف کی نوک جھونک کچھ اس زور و شور سے جاری تھی کہ اچھا خاصا زود گو آدمی بھی خودبخود کم گو بن جائے۔ یوں بھی یوسفی اپنی کم آمیزی اور گوشہ نشینی کے لئے خاصے بدنام ہیں۔ گوشہ نشینی کا یہ عالم ہے کہ رسالوں میں اپنی تصویر تک نہیں چھپواتے کہ کہیں کس نامحرم کی نظر اُن پر نہ پڑ جائے۔ سال میں ایک بار کسی ادبی محفل میں شرکت کرتے ہیں۔ ہمارے لندن پہنچنے سے پہلے شرکت کرنے کا اپنا یہ محدود کوٹہ ختم کر چکے تھے۔ ہم نے انہیں ہندوستان آنے کی دعوت دی۔ اس سال اکتوبر یا نومبر میں ہندوستان آنے کا وعدہ ہم سے کر چکے ہیں مگر شرط وہی ہے کہ جلسہ ایک ہی ہو گا۔ دوسرا جلسہ کروانا ہو تو اگلے سال پھر ہندوستان بلائیے۔ ہم نے اُن کی شرط مان لی ہے اور وعدہ کر لیا ہے کہ ان کا ایک جلسہ حیدرآباد میں ہو گا۔ البتہ دوسرے شہروں میں صرف جلوس نکلیں گے۔ ہم نے اتنا قانون تو پڑھا ہی ہے کہ قانون کی خلاف ورزی کر سکیں۔ ہم نے اُن سے یہ وعدہ افتخار عارف، نقی تنویر، رضا حسن عابدی اور ڈاکٹر ضیاء الدین شکیب کی موجودگی میں لیا ہے۔ اب آپ کو بھی گواہوں میں شامل کر لیتے ہیں۔

ہم نے یوسفی سے کہا۔ ’’ زرگزشت‘‘ کے بعد آپ کی کوئی تصنیف نہیں آئی۔ اب تو آپ کے حالات زندگی ’’زرگزشت‘‘ سے آگے نکل گئے ہیں۔ لہذا اب ’’زرگزشت‘‘ کو بھی آگے بڑھنا چاہئے۔ بولے۔ ’’میری ایک کتاب آ رہی ہے، مگر کب آئے گی، میں خود نہیں جانتا۔ سنا ہے کہ کتابت ہو رہی ہے۔ ایک نہ ایک دن چھپ کر آ جائے گی۔‘‘ یوسفی جس اہتمام سے لکھتے ہیں اور جس اہتمام سے اپنی کتابیں چھپواتے ہیں، یہ انہی کا حصہ ہے۔

ہم سے بولے ’’آپ جس طرح لکھتے ہیں اور جتنا لکھتے ہیں یہ بڑی ہمت کا کام ہے۔‘‘

ہم نے کہا ’’یوسفی صاحب! سچ پوچھئے تو ہم جس طرح لکھتے ہیں اور جتنا لکھتے ہیں اس کے لئے ہمت کی نہیں دیدہ دلیری اور سینہ زوری کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگرچہ اب ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہمیں لکھنا بالکل نہیں آتا مگر کیا کریں، اپنے ملک میں مشہور جو ہو گئے ہیں۔ لوگ زبردستی لکھواتے ہیں۔‘‘

افتخار عارف نے کہا۔ ’’یوسفی صاحب! اپنے معیار کے معاملے میں اتنے سخت واقع ہوئے ہیں کہ ایک بار انہوں نے اپنا ایک مضمون ایک رسالہ کو بغرض اشاعت روانہ کیا۔ رسالہ چھپ کر آ گیا تو یوسفی صاحب کو احساس ہوا کہ مضمون اُن کے معیار پر پورا نہیں اُتر رہا ہے۔ لہذا بازار گئے۔ رسالہ کی ساری کاپیاں خریدیں اور انہیں خود اپنے ہاتھوں نذر آتش کر دیا۔ ‘‘

ہم نے کہا۔ ’’ یار افتخار ! یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ معیار کے معاملہ میں ہمارا بھی یہی حال ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جن رسالوں میں ہمارے مضامین چھپتے ہیں انہیں ہم خود نہیں جلاتے بلکہ ہمارے پڑھنے والے جلا  دیتے ہیں۔ بات تو ایک ہی ہوئی۔ ‘‘

معیار کی مماثلت سے ہٹ کر ایک اور معاملہ میں بھی یوسفی ہم سے مشابہ نظر آئے۔ یعنی ہماری طرح اُن میں بھی یہ اچھی عادت ہے کہ کسی کے خط کا جواب نہیں دیتے۔ سنا ہے کہ ایک محقق ان پر ریسرچ کر رہے ہیں۔ وہ صاحب یوسفی سے اُن کے حالات زندگی مانگتے ہیں، یہ انہیں نہیں دیتے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اب ان محقق صاحب نے یوسفی کو دھمکی دی ہے کہ اگر اندرون ایک ماہ وہ اپنے حالات انہیں روانہ نہ کریں گے تو وہ فلاں صاحب (جن کا نام ہم ظاہر کرنا نہیں چاہتے) کے حالات زندگی کو یوسفی سے منسوب کر دیں گے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔

یوسفی سے اس رات بہت سی باتیں ہوئی۔ ہم نے پوچھا۔ ’’یوسفیؔ صاحب! آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں فوجی مزاح نگاروں کی بہتات ہے۔ ہر فوجی بندوق اُٹھائے، سنگین تانے مزاح کے میدان میں گھس آتا ہے اور مورچہ سنبھال لیتا ہے۔ کرنل شفیقؔ الرحمن، کرنل محمدؔ خاں، میجر صدیق سالکؔ اور میجر ضمیرؔ جعفری کتنے نام گنائیں۔ ہمیں تو آپ کے اور مشفق خواجہ کے سوائے کوئی سویلین مزاح نگار نظر نہیں آتا۔‘‘

مشتاق احمد یوسفی نے ہمارے اس سوال کے جواب میں کہا ’’چلئے کھانا لگ گیا ہے کہیں ٹھنڈا نہ ہو جائے۔‘‘

اسی طرح کا ایک اور سوال پوچھا تو بولے ’’چلئے آئس کریم لگ گئی ہے۔ کہیں گرم نہ ہو جائے۔‘‘ غرض ایسی ہی دلچسپ دلچسپ اور شگفتہ شگفتہ باتیں ہوتی رہیں۔

جب مغرب میں مزاح نگاری کا ذکر آیا تو بولے ’’جارج میکش کا کہنا ہے کہ مغرب میں مزاح کب کا مر چکا ہے اور میں اس کی رائے سے متفق ہوں۔‘‘

ہم نے کہا۔ ’’یوسفی صاحب! سچ تو یہ ہے کہ مشرق میں بھی مزاح مر رہا ہے، لیکن آپ اسے مرنے نہیں دے رہے ہیں حالانکہ ہمارے کئی مزاح نگار اُسے ایڑیاں رگڑا رگڑا کر مارنا چاہتے ہیں۔ ‘‘

ہمارے اس تبصرے پر بولے۔ ’’لیجئے چائے آ گئی ہے۔ چائے پیجئے۔‘‘

صاحبو! تو یہ حال احوال ہے مشتاق احمد یوسفی سے ہماری ملاقات کا اب آگے سن کر کیا کیجئے گا۔ باقی ملاقات بھی ایسی ہی ہوئی۔ تاہم اس ملاقات کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کی غرض سے اتنا اور عرض کرتے چلیں کہ جب ہم جانے لگے تو یوسفی دروازے تک ہمیں چھوڑنے آئے۔ ہمارا اوور کوٹ ہینگر سے اُتارا اور ہمیں پہنانے لگے۔ ہم نے نا نا کی مگر نہ مانے۔ نتیجہ میں ہمارا ہاتھ اُن کے ٹیلیفون کے ریسیور سے ٹکرایا جو دیوار سے لٹک رہا تھا۔ ریسیور نیچے گرا تو ہم نے معذرت کی۔ اس پر بولے ’’ارے نہیں ! اس میں معذرت کی کیا بات ہے۔‘‘

ہم نے جو بات یوسفی کو نہیں بتائی وہ اب آپ کو بتائے دیتے ہیں کہ ہم نے جان بوجھ کر ان کے ٹیلیفون کے ریسیور کو گرایا تھا تاکہ وہ اس بہانے ہمیں یاد رکھ سکیں۔ ورنہ ہمیں یاد رکھنے کی اُن کے پاس کوئی معقول وجہ بھی تو نہ رہ جاتی۔ اُن کے گھر سے باہر نکل آئے تو لندن کی سڑکوں پر بوندا باندی ہو رہی تھی اور ہلکی سی دھند پھیل رہی تھی۔ ہمیں نہ جانے کیوں اصغرؔ گونڈوی کا ایک گم نام شعر یاد آ گیا جسے ہم نے زمانہ طالب علمی میں پڑھا تھا۔ آپ بھی سُن لیجئے …

اصغرؔ سے ملے لیکن اصغرؔ کو نہیں دیکھا

اشعار میں سنتے ہیں کچھ کچھ وہ نمایاں ہے

٭٭٭

تشکر: روزنامہ ’سیاست‘، حیدر آباد، ۲۴ جون ۲۰۱۸ء

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے