غزل ۔۔۔ عارف امام

 

 

               عارف امام

 

اپنے لہو سے غسل بہ ہر گام دیتا ہوں

لے دشتِ بے نسب، میں تجھے نام دیتا ہوں

 

اے حرفِ سرخ، میرے سخن کا طواف کر

تجھ کو سفید جامہِ احرام دیتا ہوں

ِ

لشکر کا ہے قصور نہ شمشیر کا گناہ

خود کو ہی اپنے قتل کا الزام دیتا ہوں

 

نیزے سے تُو نے جیتا تھا دریا کا معرکہ

جا، آج تیرے ہاتھ میں صمصام دیتا ہوں

 

اچھا ہوا جو سر مرا لٹکا دیا گیا

میں آخری گواہی سر عام دیتا ہوں

 

کب سے دھڑک رہا ہے مسلسل اے میرے دل

کچھ دیر تجھ کو مہلتِ آرام دیتا ہوں

 

سب کو پلائے جاتا ہے اپنی نہیں خبر

اے میکدے ٹھہر، تجھے اک جام دیتا ہوں

 

میں بھی ہوں اپنے وقت سے کچھ آگے نعرہ زن

میں بھی اذانِ صبح سرِ شام دیتا ہوں

 

دیکھا جو اُس نے سینہِ زخمی تو یوں کہا

تجھ کو ہوائے سبز کا انعام دیتا ہوں

 

چپکے سے میرے کان میں ہاتف نے کہہ دیا

میں اس غزل کو رتبۂ الہام دیتا ہوں

٭٭٭

 

 

عالمِ خواب میں ہوں ، خواب عجب دیکھتا ہوں

جو دکھائی نہیں دیتا ہے وہ سب دیکھتا ہوں

 

تیرے چہرے میں نظر آیا کسی کا چہرہ

تیرے چہرے کو بصد حدِ ادب دیکھتا ہوں

 

یہ جو دنیا مجھے بے رنگ نظر آتی ہے

جیسے سب دیکھتے ہیں ، ویسے میں کب دیکھتا ہوں

 

بدنِ دہر ہوا مائلِ عریانی تو کیا

اس کو پہلے کبھی دیکھا تھا نہ اب دیکھتا ہوں

 

ہو چکیں بند بظاہر مری آنکھیں لیکن

جو کبھی دیکھ نہ پایا تھا وہ اب دیکھتا ہوں

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے