جمیل الدین عالی :ایک روشن دماغ تھا نہ رہا۔۔۔ غلام شبیر رانا

   ایک بے خوف صدا خاموش ہو گئی۔ حریتِ فکر کے ایک مجاہد نے ترکِ رفاقت کی۔ ہماری بزمِ وفا اور محفلِ ادب میں موجود عالمی شہرت کے حامل ما یہ ناز پا کستانی ادیب۔ نابغۂ روزگار دانش ور۔ صحافی۔ ڈرامہ نگار۔ ما ہر لسانیات۔ نقاد۔ مورخ۔ محقق۔ لغت نویس۔ معمارِ علم و ادب۔ مضمون نگار۔ نغمہ نگار۔ کالم نگار۔ ماہر علم بشر یا ت اور انسانی حقو ق کے نڈر محافظ جمیل الدین عالی نے عدم کی بے کراں وادیوں کی جا نب کوچ کے لیے رخت سفر باندھ لیا۔ وہ کچھ عرصے سے عارضہ قلب میں مبتلا تھے اور کراچی کے ایک نجی شفا خانے میں زیرِ علاج تھے لیکن معالجین کی سب تدبیریں اُلٹی ہو گئیں اور دوا نے کچھ کام نہ کیا اور بالآخر بیماریِ دِل نے ان کی زندگی کی شمع گُل کر دی۔ 20جنوری1925 کو دہلی میں امیر الدین احمد خان اور سیدہ جمیلہ بیگم کے گھر جو آفتاب علم و ادب طلوع ہوا وہ 23نومبر2015 کو کراچی میں ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ آرمی قبرستان کراچی کی زمین نے ادبیاتِ عالم کے اِس آسمان کو قیامت تک کے لیے اپنے دامن میں چھپا لیا۔ اجل کے بے رحم ہاتھوں نے وہ آواز دائمی خاموشیوں کی بھینٹ چڑھا دی جو جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنے کی تاب و تواں رکھتی تھی۔ وہ دبنگ لہجہ اور نوائے دل کُشا جس نے مسلسل آٹھ عشروں تک سعیِ پیہم کو شعار بناتے ہوئے حریت فکر و عمل کا علم بلند رکھا۔ حریت ضمیر سے جینے کی راہ دکھا ئی۔ وطن۔ اہلِ وطن اور ملت اسلامیہ کی حیاتِ دوام کی دعا اور سدا ’’ جیوے پا کستا ن ‘‘ کی ابد آشنا تمناؤں سے دلوں کو مرکزِ مہر و وفا کیا اس کو سننے کے لیے کان ترس جائیں گے لیکن اب یہ آواز کبھی سنائی نہ دے گی۔ جمیل الدین عالی نے حب الوطنی علم دوستی اور انسانیت نوازی کی ایسی درخشاں مثال پیش کی جو تا ابد لائقِ تقلید سمجھی جائے گی۔

جمیل الدین عالی کی رحلت سے عالمی ادبیات کا ایک درخشاں عہد اپنے اختتام کو پہنچا۔ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کی ایک عظیم روایت ختم ہو گئی۔ فنونِ لطیفہ سے دلچسپی رکھنے والے نوجوان ادیب اور تخلیق کار اپنے مونس و غم خوار خضرِ راہ سے محروم ہو گئے۔ آلامِ روز گار کے پاٹوں میں پسنے والے مفلس۔ نادار اور بے بس تخلیق کاروں کا مسیحا زینہ ٔ ہستی سے اُتر گیا۔ آہ!پاکستانی زبانوں کے ادب کی ترویج و اشاعت کا عہد زریں اپنے اختتام کو پہنچا۔ پاکستان کے قومی تشخص کی علامت اور انسانیت کے وقار اور سر بلندی کا مظہر نادر و نایاب کوہ پیکر ادیب رخصت ہو گیا۔ اس یگانۂ روز گا ر فاضل سے ہم محروم ہو گئے جس کا وجود طلوعِ صبحِ بہاراں کی نوید تھا اور جس نے آٹھ عشروں تک اپنے بصیرت افروز خیالات اور فکر پرور رہنمائی سے ذہن و ذکاوت کو مہمیز کر کے تعمیرِ وطن کی راہ ہموار کر دی۔ پاکستانی ادبیات اور انسانیت کے وقار کے ہمالہ کی ایک سر بہ فلک چوٹی طوفانِ اجل کے مہیب اور لرزہ خیز بگولوں کی زد میں آ کر زمیں بوس ہو گئی۔ آزادی کے بعد سے لمحۂ موجود تک پاکستان کی تاریخ کے جُملہ نشیب و فرا زکا چشم دید گواہ داغِ مفارقت دے گیا۔ دنیا بھر کے سفر کر نے کے بعد چار دلچسپ سفر ناموں سے اردو ادب کی ثروت میں اضافہ کرنے والا مسافر راہِ جہاں سے گزر گیا۔ سلطانیِ جمہور کے استحکام کی خاطر آمریت کے تراشے ہوئے بُتوں کو تیشۂ حرف سے پاش پاش کرنے والا حریتِ فکر و عمل کا مجاہد اب کہاں ملے گا؟ روزنامہ ’’جنگ ‘‘ میں شائع ہونے والے اپنے اخباری کالم ’’نقار خانے میں ‘‘ کے عنوان سے مضامین لکھ کرسماجی اور معاشرتی زندگی کے مسائل کے نباض کی حیثیت سے اُنھوں نے جس خلوص اور درد مندی کے ساتھ اصلاحِ احوال کی سعی کی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ مُلکوں مُلکوں ڈھونڈنے سے بھی ایسے نایاب لوگ نہ ملیں گے۔

ایسی ہوائے ستم چلی جس کے تند و تیز بگولے پیمانِ وفا کے ہنگامے۔ ایثار۔ درد مندی۔ خلوص۔ مروّت۔ بے باک صداقت اور بے لوث محبت کی داستا نیں اڑا لے گئے۔ قلم و قرطاس کو تز کیۂ نفس کا وسیلہ بنا کر خون دل میں اُنگلیاں ڈبو کر حرف صداقت پر مبنی لکھی گئی سب داستا نیں تا ر یخ کے طوماروں میں دب گئیں۔ جب تک دنیا باقی رہے گی جمیل الد ین عالی کے لفظ زندہ رہیں گے اور دیس کی فضاؤں میں بکھری اُن کی عطر بیز یادوں کی مہک سے قریۂ جاں معطر رہے گا۔ الفاظ میرا ساتھ نہیں دے رہے کہ کیا کہوں اور کیسے لکھوں۔ سچ تو یہ ہے کہ آج روشن خیال۔ با کردار۔ با وقار اور حریتِ ضمیر سے جینے کے لیے اسوۂ شبیرؓ کو اپنانے والے جری تخلیق کاروں کا میرِ کارواں راہیِ ملکِ عدم ہو گیا ہے۔ پاکستانی زبانوں کے ادب کاہنستا بولتا چمن جان لیوا سکوت اور مہیب سناٹوں کی بھینٹ چڑ ھ گیا ہے۔ معاشرتی زندگی میں خوف۔ دہشت اور جبر کی بھیانک تاریک اور مسموم فضا میں بھی حوصلے اور اُمید کا دامن تھام کر طلوعِ صبحِ بہاراں کی نوید سنانے والا جمیل الدین عالی جیسارجائیت پسند دانش ور اب ہمیں کبھی نصیب نہ ہو گا۔ الفاظ کے دھنک رنگوں کی باتیں۔ پر لطف جملوں کے تکلم کے سلسلے۔ شگفتہ مزاجی کی مظہر گل افشانیِ گفتار کی بہار۔ زندگی کی حقیقی معنویت کی تفہیم کے مقاصد سے مزین دِل کش اور منفرد اسلوب۔ تعمیر وطن کے بلند آہنگ عزائم۔ عملی زندگی میں قناعت و استغنا کے ڈھنگ۔ ہر لمحہ اور ہر گام اہلِ وطن کے سنگ رہتے ہوئے پاکستانی کویتا سنانے والا صابر و شاکر ادیب کیا گیا کہ بہار کے دن ہی روٹھ گئے اور سب حقائق خیال و خواب اور سراب بن گئے۔

بارہ سال کی عمر میں جمیل الدین عالی کے سر سے باپ کا سایہ اُٹھ گیا اُن کی والدہ نے مشیتِ ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے بیوگی کی چادر اوڑھ لی اور اپنے بھائی سید ناصر مجید سے مل کر اپنے یتیم اور ہو نہار بچے کی تعلیم و تربیت پر اپنی توجہ مرکوز کر دی۔ جمیل الدین عالی کی نصابی تعلیم کے لیے گھر پر معلم کا انتظام کیا گیا۔ اس کے بعد جمیل الدین عالی کو براہ راست پانچویں جماعت میں اینگلو عریبک ثانوی مدرسہ دریا گنج دہلی میں داخلہ مِل گیا۔ جمیل الدین عالی کو اپنی والدہ اور اپنے ماموں سے بہت محبت تھی۔ شوہر کی وفات کے بعد آمدنی بہت ہی کم رہ گئی جب کہ بیٹے کی تعلیم اور دیگر ضروریات کے اخراجات بڑھنے لگے۔ آزمائش کی اس گھڑی میں ان کی صابر و شاکر والدہ نے اپنے کم سِن بچے کے روشن مستقبل اور گھر کے اخراجات پورے کرنے کی خاطر اپنے زیورات فروخت کر دئیے۔ کالج میں انھیں اچھا تعلیمی ماحول ملا جہاں علی سردار جعفری۔ اختر الایمان اور حبیب جالب سے ان کا رابطہ رہا۔ 1944میں جمیل الدین عالی نے اینگلو عریبک کالج سے بی۔ اے کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد انھوں نے ایم۔ اے معاشیات میں داخلہ لیا لیکن 30۔ ستمبر 1944کو ان کی شادی ہو گئی اس کے بعد تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو گیا اور روزگار کے حصول کے لیے دوڑ دھوپ شروع ہو گئی۔ جلد ہی انھیں دہلی کے محکمہ ٹرانسپورٹ میں اسسٹنٹ کی حیثیت سے ملازمت مِل گئی۔ شادی کے لیے جمیل الدین عالی کی نگاہِ انتخاب طیبہ بیگم پر پڑی جو عمر میں ان سے سات برس بڑی تھیں۔ جمیل الدین عالی کی پسند پر سب گھر والے بے حد خوش تھے۔ یہ شادی بہت کامیاب رہی اور میاں بیوی نے باہمی اعتماد سے اپنے گھر کو جنت کا نمونہ بنا دیا۔ ان کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں جو عملی زندگی میں فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔

ایک زیرک۔ فعال۔ جری اور مستعد تخلیق کار کی حیثیت سے جمیل الدین عالی نے ہر صنفِ ادب میں اپنی تخلیقی فعالیت کا لوہا منوایا۔ ان کی مضبوط اور مستحکم شخصیت کا سیارہ تخلیقی افق پر جس مدار میں ضو فشاں رہا اس کا محور سدا پاکستان ہی رہا۔ ان کی ہر صدا دلوں کی دھڑکنوں سے ہم آہنگ ہو جاتی اور ان کی تخلیقات پڑھ کر قارئین کے دِلوں کے تار بجنے لگتے اوراس نتیجے پر پہنچتے کہ زندہ ہے پاکستان تو ہم سب زندہ ہیں۔ پا کستان ہی ہمیشہ ان کا پیغام رہا وہ یہی چاہتے تھے کہ ہر پاکستانی کی زبان پر وطن وطن ہو۔ وہ اللہ کریم کا شکر ادا کرتے جس نے اتنے بڑی جیون ساگر میں بر صغیر کی ملت اسلامیہ کو پاکستان عطا کیا۔ ان کے اسلوب سے صاف ظاہر ہے کہ پاکستان ہی ان کی پہچان ہے اور وہ اس کا بر ملا اظہار کرتے ہیں :

یہ پاک سر زمیں ہے

یہ پا ک سر زمیں ہے

میں جتنی بار گاؤں یہ بول تا زہ تر ہیں

میں جتنی بار سوچوں یہ میرے راہبر ہیں

ہاں مجھ کو یہ یقیں ہے

یہ پا ک سر زمیں ہے

جمیل الدین عالی نے فروغِ علم و ادب کے لیے انتھک جد و جہد کی۔ انجمن ترقیِ اردو۔ اردو یونیورسٹی اور پاکستان رائٹرز گِلڈ کے لیے ان کی خدمات کا ایک عالم معترف تھا۔ وہ باسٹھ برس تک انجمن ترقیِ اردو سے وابستہ رہے مگر اپنی خدمات کا کوئی معاو ضہ کبھی قبول نہ کیا۔ مختلف ادبی تنظیموں کی تشکیل۔ ادیبوں کی فلاح و بہبود کے منصوبوں۔ علمی و ادبی کتب کی اشاعت۔ عصری آگہی کو پروان چڑھانا۔ لفظ کی حرمت کو ملحوظ رکھنا۔ جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے حق و صداقت کا علم بلند رکھنا۔ افکارِ تازہ کی مشعل تھام کر جہانِ تازہ کی جانب سر گرم سفر رہنا۔ عجز و انکسار۔ خلوص و دردمندی۔ ایثار و وفا کو زادِ راہ بنانا ہمیشہ ان کا مطمح نظر رہا۔ اجل کے بے رحم ہاتھوں نے وہ ساز توڑ دیا جس کے تار سامعین کے دلوں کی دھڑکن سے ہم آہنگ ہو کر سدایہی لے سناتے :

جیوے پا کستان جیوے پاکستان

من پنچھی جب پنکھ ہلائے کیا کیا سُر بکھرائے

سننے والے سنیں تو اُن میں ایک ہی دھُن لہرائے

پاکستان پاکستان جیوے پاکستان

جیوے جیوے جیوے پاکستان

جھیل گئے دُکھ جھیلنے والے اب ہے کام ہمارا

ایک رکھیں گے ایک رہے گا ایک ہے نام ہمارا

پاکستان پاکستان جیوے پاکستان

جیوے جیوے جیوے پاکستان

بکھرے ہوؤں کو بچھڑے ہوؤں کو اِک مرکز پہ لایا

کتنے ستاروں کے جھُرمٹ میں سورج بن کر آیا

پاکستان پاکستان جیوے پاکستان

جیوے جیوے جیوے پاکستان

لیکن موت کو کیا معلوم کہ ساز ٹوٹ جانے کے بعد اسی کی مدھر دھنیں ہر طرف فضاؤں میں بکھر جاتی ہیں۔ اس مردِ خود آگاہ نے عزت نفس۔ خودی اور خود آگہی کو اس قدر موثر۔ منضبط اور بیدار رکھا کہ لوحِ جہاں پر ان کا دوام ثبت ہو گیا اور شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں بلند مقام ان کا مقدر بن گیا۔

جمیل الدین عالی وطن کی محبت سے سرشار ہو کر جو ملی نغمے لکھے ان کا اعزازیہ کبھی قبول نہ کیا۔ ان کے لکھے ہوئے جو ملی نغمے بہت مقبول ہوئے وہ درج ذیل ہیں :

۱۔ ہم مصطفویؐ۔ مصطفویؐ۔ مصطفویؐ ہیں۔ (اسلامی کا نفرنس ۱۹۷۴کا سرکاری نغمہ)

۲۔ اے وطن کے سجیلے جوانو میرے نغمے تمھارے لیے ہیں (گلو کارہ :نور جہاں )

۳۔ جیوے جیوے پاکستان(۱۹۷۱)   (گلو کارہ :شہناز بیگم۔ موسیقی : سہیل رانا)

۴۔ میرا انعام پاکستان۔ میرا پیغام پاکستان۔(گلو کار :احمد رشدی۔ موسیقی :لال محمد اقبال)

   ۵۔ اب یہ اندازِ انجمن ہو گا

ہر زباں پر وطن وطن ہو گا

۶۔ جو نام وہی پیغام پاکستان۔ پاکستان

۷۔ اتنے بڑے جیون ساگر میں تو نے پاکستان دیا

   ہُو اللہ ہُو اللہ (گلو کار :الن فقیر)

۸۔ یہ کو یتا پاکستانی ہے

   ۹۔ اے دیس کی ہواؤ۔ خوشبو میں بس کے جاؤ

۱۰۔ ہم مائیں۔ ہم بہنیں۔ ہم بیٹیاں

   ۱۱۔ میں چھوٹا سا اِک لڑکا ہوں پر کام کروں گا بڑے بڑے(یہ جمیل الدین عالی کا پہلا ملی نغمہ ہے جو انھوں نے ۱۹۵۹ میں لکھا۔ )

   ۱۲۔ جب ہم نے خدا کا نام لیا

اس نے ہمیں اک انعام دیا

میرا انعام پاکستان

میرا پیغام پاکستان

محبت امن ہے اور اس کا ہے پیغام پاکستان

پاکستان۔ ۔ ۔ پاکستان

خدا کی خاص رحمت ہے

   بزرگوں کی بشارت ہے

   کئی نسلوں کی قربانی

کئی نسلوں کی محنت ہے

   اثاثہ ہے جیالوں کا

   شہیدوں کی امانت ہے

تعاون ہی تعاون ہے

   محبت ہی محبت ہے

   جبھی تاریخ نے رکھا ہے اس کا نام پاکستان

پا کستان۔ ۔ ۔ پاکستان ( ۱۴۔ اگست ۱۹۹۷۔ گلو کار :نصرت فتح علی خان۔ موسیقی:نیاز احمد)

یہاں یہ امر قابلِ ذِکر ہے کہ جمیل الدین عالی کو موسیقی سے گہری دلچسپی تھی۔ اپنے لکھے ہوئے ملی نغموں کے لیے گلوکار اور موسیقار کے انتخاب میں ان کی مشاورت کو پیش کار بالعموم قدر کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے۔ ان کے ملی نغموں کی مقبولیت ان کی حب الوطنی کی دلیل ہے۔ وہ دِل کی گہرائیوں میں اُتر کر ملی نغمے لکھتے اور یہ نغمے سامعین کے دِل میں اُتر جاتے تھے۔

   بر عظیم پاک و ہند کے ادب میں دوہے کی صنف کے ارتقا پر نظر ڈالنے سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ دوہے کے سوتے اس خطے کی تہذیبی اور ثقافتی اقدار و روایات سے پھُوٹے ہیں۔ بر عظیم میں دوہے کے ابتدائی نقوش کا تعلق پانچویں اور چھٹی صدی عیسوی سے ہے۔ یہی وہ زمانہ ہے جب مقامی بولیوں اور پراکرت میں مقامی شعرا نے دوہے کو اظہار و ابلاغ کا وسیلہ بنایا۔ فطرت خود بہ خود لالے کی حنا بندی میں مصروف رہی اور مقامی شعرا نے تزکیۂ نفس کے لیے دوہے کو ایک مؤثر اور مقبول ترین لوک صنف شعر کے طور پر اپنا لیا۔ یہاں تک کہ نویں صدی عیسوی میں اپ بھرنش کے متعدد اہم تخلیق کاروں نے دوہے کو ایک با ضابطہ صنف شاعری کی حیثیت سے متعارف کرایا اور اس میں تخلیقِ فن کے اصول و قواعد پر توجہ دی۔ تاریخی اعتبار سے یہ بات مسلمہ ہے کہ بہ حیثیت ایک مقبول صنفِ شاعری دوہے کو بر عظیم کی کئی زبانوں کے تخلیق کاروں نے اپنایا اور ان کے اسلوب کی عوامی سطح پر وسیع پیمانے پر پذیرائی بھی ہوئی۔ جن مقامی زبانوں میں قدیم دوہے لکھے گئے اُن میں پنجابی۔ سندھی۔ برج بھاشا۔ مگدھی اور اودھی قابلِ ذکر ہیں۔ ہندوستانی لسانیات اور اصنافِ ادب کے ارتقا میں دلچسپی رکھنے والے قارئین کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جس قدر قدیم یہاں کی تہذیب ہے اُسی قدر قدیم یہاں کے ادب کی روایات ہیں۔ مورخین اور ماہرین علمِ بشریات کی متفقہ رائے ہے کہ اقوامِ عالم کے تخت و کُلاہ و تاج کے سب سلسلے سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑوں کی زد میں آ کر خس و خاشاک کے مانند بہہ جاتے ہیں لیکن تہذیب اس ہونی سے محفوظ رہتی ہے۔ ادیب جب قلم تھام کر پرورشِ لوح و قلم میں مصروف ہوتا ہے تو وہ یدِ بیضا کا معجزہ دکھاتا ہے اور اپنی تخلیقی فعالیت کے اعجاز سے یہ بیش بہا تہذیبی میراث نئی نسل کو منتقل کر کے تاریخ کے مسلسل عمل کے وسیلے سے تاریخی تسلسل کو بر قرار رکھتا ہے۔ تہذیبی اور ثقافتی ورثے کی بقا سخت محنت اور انتھک جد و جہد کی متقاضی ہے۔ جو قوم اپنی تہذیبی میراث کو عزیز رکھتی ہے وہ خود اپنی نظروں میں معزز و مفتخر ہو جاتی ہے۔ اپنی مٹی سے محبت اور اپنی تہذیب کی حفاظت کسی بھی زندہ قوم کا امتیازی وصف قرار دیا جاتا ہے۔ تہذیبی میراث کی نسلِ نو کو منتقلی وقت کا اہم ترین تقاضا سمجھا جاتا ہے۔ وہ قومیں بد قسمت خیال کی جاتی ہیں جو اپنی تہذیب و ثقافت اور تمدن و معاشرت کے بارے میں مُجر مانہ تغافل کا شکار ہو کر دُوسری اقوام کی تہذیب کی بھونڈی نقالی میں مصروف ہو جاتی ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اگر بد قسمتی سے کسی قوم کی تہذیب کے تحفظ اور اِسے نئی نسل تک منتقل کرنے کی مہلک غلطی ہو جائے۔ بے حسی کے باعث قوم کے دل سے احساسِ زیاں عنقا ہو جائے اور مسلسل سو برس تک بھی اس المیے کی جانب توجہ نہ دی جائے تو تہذیبی انہدام کے باعث وہ قوم پتھر کے زمانے کے ماحول میں پہنچ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں زیرک تخلیق کار ان اقدار و روایات کے تحفظ پر اپنی توجہ مرکوز رکھتے چلے آئے ہیں جن کا تعلق تہذیبی بقا اور اس کے تسلسل سے ہے۔ تاریخِ ادب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’دوہا ‘‘ایک ایسی صنف شاعری ہے جس نے بر عظیم کی تہذیب میں نمو پائی اور اس کے دامن میں گُزشتہ صدیوں کی تاریخ اور تہذیبی ارتقا کے جُملہ حقائق سمٹ آئے ہیں۔ جمیل الدین عالی نے صنف دوہا نگاری کو تاریخی اور تہذیبی تسلسل کی ایک علامت قرار دیا۔ اسے وہ ایک ایسے نفسیاتی کُل سے تعبیر کیا کرتے تھے جس سے لا شعور کی تاب و تواں کے سوتے پھُو ٹتے ہیں۔ ان کے دوہے بہت مقبول ہوئے اس پر مستزاد ان کا ترنم جو سونے پر سہاگے کی حیثیت رکھتا تھا۔

   اُردو زبان میں دوہا نگاری کے ابتدائی آثار تیرہ سو سو برس قبل بھی پائے جاتے تھے۔ جب پُوری دُنیا آفتابِ اِسلام کی ضیا پاشیوں سے بُقعۂ نُور ہو گئی تو اس خطے میں بھی فکر و نظر کا ایک انقلاب بر پا ہو گیا۔ ہر قسم کے نسلی۔ علاقائی اور لسانی امتیازات کو بیخ و بن سے اُکھاڑ پھینکنے کے قابلِ قدرسلسلے کا آغاز ہو گیا۔ اس عہد آفریں انقلاب کے بعد افکارِ تازہ کی مشعل تھامے یہاں کے تخلیق کاروں نے جہانِ تازہ کی جستجو کو اپنا مطمحِ نظر بنا لیا۔ اُردو میں دوہے کے ارتقا میں اس خطے میں اسلام کے ابد آشنا پیغام کو سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ جہاں تک شاعری میں تزکیہ ٔ نفس کی شعوری یا غیر شعوری کوشش کا تعلق ہے اِس کی اولین صورت دوہے میں دکھائی دیتی ہے۔ وقت گُزرنے کے ساتھ ساتھ دوہا نگاروں نے اس صنف میں وہ گُل ہائے رنگ رنگ پیش کیے جن کے اعجاز سے دوہا واقعیت۔ حقیقت۔ مقصدیت اور سبق آموز نصیحت کے روپ میں قلب و نظر کی تسخیر میں اہم کردار ادا کرنے کے قابل ہو گیا۔ دوہے کی صنف کو خونِ دِل سے سینچ کر پروان چڑھانے والے تخلیق کاروں میں بہت سے نام شامل ہیں۔ ان میں سے کچھ مقبول مسلمان دوہا نگاروں کے نام درجِ ذیل ہیں :

امیر خسرو (۱۲۵۳تا۱۳۲۵)۔ بابا فرید الدین مسعود گنج شکر (۱۱۷۳تا ۱۲۶۶)۔ سید عبداللہ بلھے شاہ (۱۶۸۰تا۱۷۵۷)۔ عبدالرحیم خانِ خاناں (۱۵۵۶تا۱۶۲۸)۔ ملک محمد جائسی (۱۴۷۷تا۱۵۴۲)۔ بہادر شاہ ظفر (۱۷۷۵تا ۱۸۶۲)

   دوہا نگاری کے فروغ میں متعدد ہندو شعرا نے بھی اہم کر دار ادا کیا۔ جس طرح زندگی اپنے لیے لائحۂ عمل کا انتخاب خود ہی کر لیتی ہے بالکل اُسی طر ح اصنافِ ادب بھی اپنے لیے موضوع اور اظہار کے مواقع تلاش کر لیتی ہیں اس میں مسلک یا عقیدے کی طرف سے کوئی قدغن نہیں۔ تاہم ہندو شعرا نے بالعموم اپنے دھرم اور ہندی معاشرت کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ جن قدیم ہندو شعرا نے دوہے کو اظہار و ابلاغ کا وسیلہ بنایا ان میں سے چند نام درجِ ذیل ہیں :

   کبیر داس (۱۴۴۰تا۱۵۱۸)۔ سنت کوی سورداس (۱۴۷۸تا۱۵۸۴)۔ تُلسی داس (۱۴۹۷تا۱۶۳۲)بہاری لال (۱۵۹۵تا۱۶۶۳)

۱۸۵۷کی ناکام جنگ آزادی کے بعد جب تاجر کے روپ میں آنے والے انگریز اپنے مکر کی چالوں سے تاج ور بن بیٹھے تو اس خطے کی تہذیب و ثقافت بھی اس سانحے سے متاثر ہوئی۔ زندگی کے ہر شعبے پر اس سانحے کے مسموم اثرات مرتب ہوئے۔ یورپی تہذیب کے غلبے کے باعث مقامی تہذیب کے ارتقا کی رفتار قدرے سست پڑ گئی۔ نوے سالہ غلامی کے دور میں اس خطے کے باشندوں پر جو کوہِ سِتم ٹوٹا اس نے تو محکوم قوم کی امیدوں کی فصل غارت کر دی اور ان کی محنت اکارت چلی گئی۔ جب لوگ پرا گندہ روزی اور پراگندہ دِل ہوں تو کہاں کے دوہے۔ کہاں کی رباعی اور کہاں کی غزل۔ سب کچھ پس منظر میں چلا جاتا ہے۔ دوسری اصنافِ سخن نے تو اس جان کنی کے عالم میں بھی اپنا ارتقائی سفر جاری رکھا لیکن دوہا ادیبوں کی تخلیقی توجہ سے محروم رہا۔ جب آزادی کی صبحِ درخشاں طلوع ہوئی تو یورپی پیرِتسمہ پا اور بیرونی طفیلی اپنی دُکان بڑھا گئے۔ اس کے بعد اس خطے میں دوہے کو بھی نئے سرے سے پنپنے کا موقع ملا۔ دوہا نگاروں نے اپنے موثر اسلوب کے ذریعے زندگی کے تمام موسموں کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ صرف دو مصرعوں میں قاری کو قطرے میں دجلہ اور جزو میں کُل کا منظر دکھا کر ان شاعروں نے قلب و نظر کو مسخر کر لیا۔ ان کے اسلوب میں جذبات۔ احساسات اور تخیل کی ندرت اور پاکیزگی کا جادو سر چڑھ کر بو لتا ہے۔ دوہا نگاروں نے بالعموم حُسن کی تجریدی کیفیت کی لفظی مرقع نگاری پر توجہ مرکوز رکھی ہے۔ ان کے اسلوب میں دو پہلو قابل توجہ ہیں ایک تو روحانیت کا عکاس ہے اور دوسرا مادیت کا پر تو لیے ہوئے ہے۔ مادہ پرستی ایک تخلیق کار کو رومانیت کی وادی میں مستانہ وار گھومنے پر مائل کرتی ہے جب کہ روحانیت کے زیرِ اثر تخلیق کار ما بعد الطبیعات اور مافوق الفطرت عناصر میں گہری دلچسپی لینے لگتا ہے۔ دوہا نگاروں کے اسلوب میں ان دونوں کیفیات کا امتزاج دھنک رنگ منظرنامہ پیش کرتا ہے۔ پاکستان اور بھارت میں دوہا نگاری کے اسلوب میں ایک واضح فرق دکھائی دیتا ہے۔ پاکستانی دوہا نگاروں نے سرسی چھند کو اپنایا ہے جب کہ بھارت میں دوہا چھند کی مقبولیت میں اضافہ مسلسل ہو رہا ہے۔ بھارت میں دوہا لکھنے والے شعرا نے پاکستانی شعرا سے الگ ایک نئی طرز ادا کو اپنایا ہے۔ آزادی کے بعد پاکستان میں جن شعرا نے دوہا نگاری پر توجہ دیتے ہوئے اس صنف شعر کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ان میں سے کچھ ممتاز شعرا کے نام درجِ ذیل ہیں :

احمد حسن مجاہد۔ الیاس عشقی۔ الطاف پرواز۔ امین خیال۔ بشیر منذر۔ تاج سعید۔ تاج قائم خانی۔ جلال میرزا خانی۔ جمال پانی پتی۔ جمیل الدین عالی۔ جمیل عظیم آبادی۔ دِل محمد خواجہ۔ ذکیہ غزل۔ رشید قیصرانی۔ رئیس احمد رئیس۔ شاعر صدیقی۔ شاہد جمیل۔ شمیم انجم وارثی۔ صہبا اختر۔ صابر آفاقی۔ طاہر سعید ہارون ڈاکٹر۔ عبدالعزیز خالد۔ عرش صدیقی۔ ع۔ س۔ مسلم۔ فراز حامدی۔ قتیل شفائی۔ کشور ناہید۔ مشتاق عاجز۔ مناظر عاشق ہر گانوی۔ نذیر فتح پوری۔ وحید قریشی ڈاکٹر۔ اس وقت اُردو زبان کے متعدد شعرا دوہے کے فروغ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد وطنِ عزیز میں دوہے میں ادیبوں اور قارئین کی دلچسپی جمیل الدین عالی کی مساعی کی مرہونِ منت ہے۔ ان کی اس خدمت کو تاریخِ ادب میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

   جمیل الدین عالی نے تخلیقی فعالیت میں متنوع فنی تجربوں کو ہمیشہ پیش نظر رکھا۔ وہ تخلیقِ فن کے لمحوں میں ان متنوع فنی تجربوں کے اعجاز سے تخلیقِ ادب کے متعدد نئے امکانات تک رسائی حا صل کر نے میں کام یاب رہے۔ تخلیقِ ادب میں یکسا نیت اور جمود کا خاتمہ کر نے اور تاریخ۔ تہذیب اور ثقافت میں دلچسپی پیدا کرنے کے سلسلے میں ان فنی تجربوں نے اہم کردار ادا کیا۔ ان کی دوہا نگاری کے پس منظر میں بھی فنی تجربوں سے ان کی دلچسپی کار فرما رہی ہے۔ ستمبر1944 میں جمیل الد ین عالی نے میر ا جی (محمد ثنا اللہ ڈار )کو دہلی میں اپنے دوہے سنائے۔ یہیں سے جمیل الدین عالی کی دوہا نگاری کا آغاز ہوتا ہے۔ میرا جی تخلیقِ ادب میں نئے تجربات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ انھوں نے جمیل الدین عالی کے دوہے پسند کیے اور دوہا نگاری کے بارے میں اپنے اس تاثر سے بھی جمیل الد ین عالی کو آگاہ کیا کہ دوہا نگاری غزل گو ئی سے زیادہ ارتکاز توجہ اور فنی ریاضت کی متقاضی ہے۔ بادی النظر میں یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ جہاں غزل میں بالعموم معنی آفرینی ہی تخلیق کا ر کا مطمح نظر رہتا ہے۔ وہاں دوہے میں تخلیق کار ایک عجیب مرحلے سے گزرتا ہے۔ تخلیقِ فن کے لمحوں میں دوہا نگار قلبی سوز۔ روحانی وجد اور جذبات و احسا سا ت کی تمازت کو الفا ظ کے قالب میں ڈھال کر پتھروں کو بھی موم کر دیتا ہے۔ اپنی دوہا نگاری میں جمیل الدین عالی نے کسی قدیم دوہا نگار کے اسلوب کی تقلید نہیں کی۔ ان کا منفر د اسلوب ہی ان کی پہچان بن گیا۔

ساجن ہم سے مِلے بھی لیکن ایسے مِلے کہ ہائے

جیسے سُو کھے کھیت سے بادل بِن برسے اُڑ جائے

بیتے دِنوں کی یاد ہے کِسی ناگن کی پھُنکار

پہلا وار ہے زہر بھرا اور دُوجا امرت دھار

یہ ہر سُندر نار کو تکنا یہ جھُک جھُک پرنام

عالی تُو تو گیانی دھیانی یہاں تیرا کیا کام

عالی اب کے کٹھن پڑا دیوالی کا تہوار

ہم تو گئے تھے چھیلا بن کر بھیّا کہہ گئی نار

اس عالمِ آب و گِل میں فر د کی زندگی جوئے شِیر و تیشہ و سنگِ گراں ہی تو ہے جہاں سعیِ پیہم کے بغیرکسی جوہر کے کھلنے کی توقع ہی عبث ہے۔ جمیل الدین عالی کی دوہا نگاری کا بہ نظر غائر جائزہ لینے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ انھوں نے سراپا نگاری۔ حسن و رومان۔ معاملہ بندی۔ پیار و محبت کے عہد و پیمان جیسے فرسودہ اور پامال موضوعات سے اپنے قلم کو آلودہ نہیں ہونے دیا بل کہ زندگی کے تُند و تلخ حقائق پر توجہ مرکوز رکھی ہے۔ انھوں نے زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کرنے کی خاطر جو مساعی کی ہیں ان کا ایک عالم معترف ہے۔ ان کی شاعری قارئین کے ذہن و ذکاوت کو صیقل کے کے فکر و نظر کو مہمیز کرنے میں بے حد ممد و معاون ثابت ہوتی ہے۔ زندگی میں بلا شبہ رومانی مزاج رکھنے والے افراد عشق و محبت کے نتیجے میں ملنے والے ہجر و فراق کے صدموں سے بھی دو چار ہوتے ہیں لیکن جمیل الدین عالی نے ان دکھوں کے مسموم اثرات سے نجات حاصل کرنے کے لیے ان کا انسلاک زندگی کے دیگر مسائل سے نہایت خوش اسلوبی سے کیا ہے۔ عشق کے صدموں سے کہیں بڑھ کر انھیں دُکھی انسانیت کے مصائب و آلام کے بارے میں تشویش و اضطراب ہے۔ وطن اور اہلِ وطن کے ساتھ قلبی وابستگی اور والہانہ محبت ان کے دوہوں کا نمایاں وصف ہے۔

جمیل الدین عالی کو اس بات پر حیرت تھی کہ آزادی کے بعد پاکستان میں دوہا نگاری جیسی قدیم صنف شاعری پر تخلیق کاروں نے بالعموم زیادہ توجہ نہیں دی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ رہی ہے کہ اکثر شعرا نے غزل کو اظہار و ابلاغ کا موثر ترین وسیلہ سمجھتے ہوئے محض غزل گوئی پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔ اپنی کوششوں سے جمیل الدین عالی نئی نسل کے ذوقِ سلیم سے متمتع تخلیق کاروں کو دوہا نگاری کی طرف مائل کرنے میں بڑی حد تک کام یاب ہو گئے۔ اُردو زبان کے جن ممتاز شاعروں اور دوہا نگاروں نے لفظ کی حرمت کو ملحوظ رکھتے ہوئے حرفِ صداقت کو زندگی کی تمام نسبتوں کا اہم ترین حوالہ اور ربطِ باہمی کا موثر ترین وسیلہ سمجھا۔ اُنھوں نے دوہے کو اجتماعی بھلائی کی ندا کے طور پر اپنے اسلوب میں جگہ دی۔ جمیل الدین عالی کی اس طرزِ فغاں کو بہت پذیرائی ملی اور پاکستان میں دوہا نگاری نے اب ایک مضبوط اور مستحکم روایت کی صورت اختیار کر لی ہے۔ آلامِ روزگار کو حرف حرف بیان کرنے والے شعرا نے اپنی دوہا نگاری کی دھاک بٹھا دی اور اُن کے دوہوں کے مجموعے شائع ہوئے۔ جنھیں اُردو زبان و ادب سے دلچسپی رکھنے والے با ذوق قارئین نے بے حد سراہا۔ یہ اِس صنف شاعری کی مقبولیت کی دلیل ہے۔ جِن شعرا کے دوہوں کے مجموعے شائع ہو چُکے ہیں اُن میں خواجہ دِل محمد۔ جمیل الدین عالی۔ اِلیاس عشقی۔ پرتو روہیلہ۔ جمیل عظیم آبادی۔ رشید قیصرانی۔ تاج قائم خانی۔ طاہر سعید ہارون اور مشتاق عاجز شامل ہیں۔ اُردو زبان میں دوہے کے ارتقا پر تحقیقی کام کا جو معیار ڈاکٹر عرش صدیقی نے پیش کیا اس کے اعجاز سے اس صنف شاعری کو تاریخی تناظر میں دیکھنے میں بہت مدد ملی۔ ڈاکٹر عرش صدیقی کا عالمانہ تحقیقی مقالہ ’’پاکستان میں اُردو دوہے کا ارتقا‘‘ جو ۱۹۹۱میں شائع ہوا اصنافِ ادب کے ارتقا کے موضوع پر تحقیق کا وقیع نمونہ ہے۔ اس گراں قدر تحقیقی مقالے میں دوہے میں طبع آزمائی کرنے والے اُن تمام ممتاز پاکستانی شعرا کے اسلوب کا تجزیاتی مطالعہ شامل کیا گیا ہے جنھوں نے قیام پاکستان کے بعد گزشتہ نصف صدی کے عرصے میں اس صنفِ شاعری کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر عرش صدیقی خود بھی دوہے لکھتے تھے اس لیے اس تحقیقی مقالے میں ان کے اپنے دوہے بھی شامل ہیں۔ دوہے کے ارتقا سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے اس تحقیقی مقالے کا مطالعہ بہت افادیت کا حامل ہے۔ اس تحقیقی مقالے میں جمیل الدین عالی کے اسلوب کا تفصیل جائزہ لیا گیا ہے اور اُردو دوہے کے فروغ میں ان کی خدمات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اردو زبان میں جب بھی دوہا نگاری کے ارتقا کی تاریخ لکھی جائے گی بیسویں صدی کے دوہا نگاروں میں جمیل الدین عالی کا نام نمایاں رہے گا۔ ذیل میں ان کے چند دوہے پیش کیے جا رہے ہیں :

   کیا جانے یہ پریت کی آگ بھی کیا کیا اور جلائے

عالی جیسا مہا کوی بھی بابُو جی کہلائے

   با بُو گیری کرتے ہو گئے عالی کو دو سال

   مُرجھایا وہ پھُول سا چہرہ بھُورے پڑ گئے بال

   دھیرے دھیرے کمر کی سختی کُرسی نے لی چاٹ

   چُپکے چُپکے من کی شکتی افسر نے دی کاٹ

کس کو خبر یہ ہنس مُکھ عالی کیا کیا چھُپ کر روئے

   جیسا ساتھی من ڈھونڈے تھا ویسا مِلا نہ کوئے

گھنی گھنی یہ پلکیں تیری یہ گرماتا رُوپ

   تُو ہی بتا او نار میں تجھ کو چھاؤں کہوں یا دھُوپ

   میٹھی میٹھی کسک تھی دِل میں نا کوئی غم نہ سوگ

   دو ہی دِن کے بعد مگر یہ پریت تو بن گئی روگ

عجز وانکسار۔ خلوص و مروّت اور انسانی ہمدردی کے جذبات جمیل الدین عالی کے روح اور قلب کی گہرائیوں میں سما گئے تھے۔ ان کے معجز نما اثر سے اُن کے منفرد اور دل کش اسلوب میں وسعتِ نظر۔ رواداری۔ صبر واستغنا اور وسیع المشربی کی شان پیدا ہوئی۔ یہ ایک لرزہ خیز اور اعصاب شکن حقیقت ہے کہ اس بے حس معاشرے میں فسطائی جبر کا شکار اور آلامِ روزگار کے مسموم بگولوں کی زد میں آنے کے بعد ستم کشِ سفر رہنے والی مظلوم اور بے بس و لاچار انسانیت نے اپنی ورق ورق زیست کی دھجیوں کو قبائے حزن و الم میں ڈھانپ رکھا ہے۔ سیلِ زماں کے تھپیڑے سہتی اور جان لیوا سناٹے۔ بھیانک تیرگی اور یاس و ہراس کے عالم میں حالات کی زد میں آنے والی انسانیت کو جمیل الدین عالی نے اپنی تحریروں کے ذریعے طلوعِ صبحِ بہاراں کی نوید سنائی ہے۔ کٹھن حالات میں بھی حوصلے اور اُمید کی شمع فروزاں رکھناسدا ان کا شیوہ رہا۔ ان کی تحریروں میں مو جو د جدید حسی رو کی ضیا پاشیاں سفاک ظلمتوں کو کافور کر کے عصری آگہی کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ان کی تخلیقات معاصر عالمی ادبیات کے تیزی سے بدلتے ہوئے رجحانات کی تفہیم میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ ارضی و ثقافتی حوالے سے وہ سوہنی دھرتی کی رومانی تلمیحات کے بر محل استعمال سے اپنے اسلوب کے حسن کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔ معاشرتی اور سماجی زندگی کی نا ہمواریوں۔ تضادات اور کجیوں کے ہمدردانہ شعور کو رو بہ عمل لاتے ہوئے اُنھوں نے جس فنی مہارت سے اپنی گل افشانی ٔ گفتار سے کیف و مستی کا سماں باندھا ہے وہ ان کی انفرادیت کی دلیل ہے۔ اپنی شگفتہ مزاجی اور فن کارانہ اُپج سے انھوں نے اپنی شاعری کو ساحری میں بدل دیا ہے۔ اپنی شاعری کے وسیلے سے وہ قارئین کو نہ صرف زندگی کی رعنائیوں کے بارے میں آگہی عطا کرتے ہیں بل کہ زندگی کے تلخ حقائق اور ان سے عہدہ برآ ہونے کے اسرار و رموزسے بھی آگا ہ کرتے ہیں :

گزر گیا ہے جو وقت اُس میں جا کے دیکھتے ہیں

طرح قبول غزل آزما کے دیکھتے ہیں

جن اہلِ درد کو پنجابیوں نے لُوٹ لیا

اُنھیں یہ سسی پُنوں سُنا کے دیکھتے ہیں

اپنے سفر ناموں میں جمیل الدین عالی نے قارئین کو پوری دنیا کی سیر کرائی ہے۔ ان کے درجِ ذیل سفر نامے قارئین میں بہت مقبول ہوئے :

   ۱۔ دنیا میرے آگے۔ پہلی اشاعت ۱۹۷۵ ۔ دوسری اشاعت ۱۹۸۴

   اس سفر نامے میں جمیل الدین عالی نے دنیا کے جن ممالک کی سیاحت کی ان میں ایران۔ عراق۔ لبنان۔ مصر۔ بھارت۔ روس۔ فرانس اور برطانیہ شامل ہیں۔

۲۔ تماشا میرے آگے۔ یہ سفر نامہ ۱۹۸۵ میں منظر عام پر آیا۔

یہ سفر نامہ جرمنی۔ ہالینڈ۔ اٹلی۔ سوئٹزر لینڈ اور امریکہ کی سیاحت کی روداد پر مشتمل ہے۔

ابتدا میں یہ دونوں سفر نامے روزنامہ جنگ کراچی کی ہفتہ وار اشاعت ’’سنڈے میگزین ‘‘میں قسط وار شائع ہوئے۔ اخبار میں سفر ناموں کی اشاعت کا سلسلہ چار سال (۱۹۶۳ تا ۱۹۶۶)جاری رہا۔ قارئین کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے ان سفر ناموں کو بعد میں کتابی صورت میں شائع کیا گیا۔ اب تک ان سفر ناموں کے کئی ایڈیشن شائع ہو چُکے ہیں۔

۳۔ آئس لینڈ: پہلی اشاعت دسمبر ۲۰۰۱

اردو زبان میں آئس لینڈ کے بارے میں یہ پہلا سفر نامہ ہے۔

دنیا کے مختلف مقامات کے بارے میں خوب صورت الفاظ کے بر محل استعمال سے جمیل الدین عالی نے جو لفظی مرقع نگاری کی ہے اس کے اعجاز سے قاری چشمِ تصور سے وہ تمام مقامات دیکھ لیتا ہے جن کا احوال ان سفر ناموں میں بیان کیا گیا ہے۔ تخلیق کار کے ذہن اور روح کے جملہ تاثرات اسے ان مقامات تک پہنچا دیتے ہیں اور وہ ان کی سیر سے خوب حظ اُٹھاتا ہے۔ جمیل الدین عالی نے اپنے نہایت منفرد اور دل کش تجربات۔ مشاہدات اور جذبات و احساسات کو اس حسین اور دل کش انداز میں اپنے سفر ناموں میں پیش کیا ہے کہ قاری ان کے سحر میں کھو جاتا ہے۔ ان کی تحریر کا اہم وصف یہ ہے کہ وہ اپنے سفر ناموں میں حسین لفظی مرقع نگاری سے صرف اہم مقامات کا حقیقی منظر نامہ ہی نہیں دکھاتے بل کہ ان تمام مقامات کا تاریخی پس منظر بھی ان کا اہم موضوع بن جاتا ہے۔ اقوام و ملل کے عروج و زوال پر ان کی گہری نظر رہتی ہے۔ وہ اس تاریخی صداقت کی طرف متوجہ کرتے ہیں کہ سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑوں میں اقوام اور ملل کا کروفر۔ رعب و دبدبہ اور جاہ و جلال تو خس و خاشاک کے مانند بہہ جاتا ہے مگر تہذیب پر آنچ نہیں آتی۔ آج کوئی بھی قصرِ فریدوں یا درِ کسریٰ پر صدا نہیں کرتا۔ ہر شخص جانتا ہے کہ ان بوسیدہ کھنڈرات کی اب کوئی حیثیت ہی نہیں۔ جمیل الدین عالی اپنی تہذیبی میراث کی اہمیت کو اُجاگر کرنے کی مقدور بھر سعی کرتے ہیں۔ مشرقی تہذیب کو سمے کے سم اور طوفانِ مغرب کے مہیب بگولوں نے جو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے اسے دیکھ کر جمیل الدین عالی بہت دِل گرفتہ رہے۔ مغرب اور مشرق کے تہذیبی۔ ثقافتی۔ معاشی۔ سماجی اور معاشرتی زندگی کے تضادات۔ اختلافات۔ بے اعتدالیوں اور کجیوں کو دیکھ کر وہ اپنے رنج و کرب کا بر ملا اظہار کرتے ہیں۔ یورپ کی طاقت ور اقوام کی شقاوت آمیز نا انصافیوں کے باعث مشرق کی پس ماندہ اور کم زور اقوام پر جو کوہِ ستم ٹوٹا ہے اس کی وجہ سے اہلِ مشرق کی زندگی کی تمام رُتیں ہی بے ثمر ہو کر رہ گئی ہیں۔ وہ اس جانب متوجہ کرتے ہیں کہ مشرق کے مکینوں کو مغرب کی بھونڈی نقالی کے بجائے اپنی مٹی پر چلنے کا قرینہ سیکھنا چاہیے۔ جب تک وہ ا حساسِ کم تری سے نجات حاصل نہیں کریں گے وہ دنیا میں عزت اور وقار کی زندگی بسر نہیں کر سکیں گے۔ عالمی تاریخ کے مختلف سانحات اور تلمیحات کے حوالے سے جمیل الدین عالی کے سفرناموں کا ایک ایک لفظ گنجینۂ معانی کا طلسم ثابت ہوتا ہے۔ اپنے فہم و ادراک کو رو بہ عمل لاتے ہوئے انھوں نے اپنے سفر ناموں میں اصلاح اور مقصدیت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کی تجسیم اس مؤثر انداز میں کی ہے کہ قاری فکر و خیال اور حیرت و استعجاب کی نئی دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔ ان کے سفرنامے ’’تماشا میرے آگے ‘‘ سے ایک اقتباس صعوبتوں کے سفر میں رہنے والے مظلوم انسانوں کے لیے قابلِ غور ہے :

   ’’دنیا بھر نے سمجھ لیا ہے کہ نیرو ختم ہو گیا تو اِس کے ساتھ بانسری بھی ختم ہو گئی۔ حالانکہ میں اس بانسری اس گٹار کی آواز برابرسُن رہا ہوں۔ سبھی کانوں والے سُن رہے ہیں اور نہ جانے کب تک سُنتے رہیں گے۔ میں پُوری ذمہ داری کے ساتھ گواہی دیتا ہوں کہ میں نے مشرق۔ مغرب۔ شمال جنوب یعنی دنیا کی چار سمتوں میں شعلے بھڑکتے دیکھے اور نیرو کی بانسری بھی سُنی اور گٹار بھی سُنا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ شعلے آج بھی زندہ ہیں وہ بانسری آج بھی بج رہی ہے۔ اس گٹار کی دِل خراش آواز آج بھی چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے۔ نیرو مر گیا۔ ختم ہو گیا مگر اس کی بانسری زندہ اس کا گٹار زندہ ہے۔ اس کے لگائے ہوئے شعلے بھڑکے جا رہے ہیں اور نہ جانے کب بجھیں گے۔ ‘‘

قلبی اور جذباتی سکون کے حصول کے لیے جمیل الدین عالی نے قلم و قرطاس کا بھر پور استعمال کیا۔ وہ سات عشروں تک برابر پرورشِ لوح و قلم میں مصروف رہے۔ ان کے گیت جہاں ان کے تزکیۂ نفس کی ایک صور ت بن گئے وہاں قارئین کے لیے یہ ذہنی سکون اور مُسرت کے حصول کا ایک منبع ثابت ہوئے۔ زندگی کی درخشاں اقدار و روایات سے انھیں والہانہ محبت تھی۔ ان کے گیتوں میں خلوص۔ مروّت۔ ایثار۔ وفا۔ حسن و جمال۔ پیمانِ وفا اور کتابِ زیست کے سب ابواب کا احوال سمٹ آیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے وہ اپنی شاعری بالخصوص گیتوں کے ذریعے زندگی کی حیات آفریں اقدار کے تحفظ اور انسانیت کے وقار اور سر بُلندی کو یقینی بنانے کی آرزو لیے برابر آگے بڑھنے کا درس دیتے ہیں۔ ان کے گیتوں میں زندگی کی تمام رعنائیاں دھنک رنگ مناظر اور جہد و عمل کی راہیں سامنے لاتی ہیں۔ فکری تنوع۔ موضوعات کی جدت۔ خیال کی تازگی اور نُدرت نے ان گیتوں کی جاذبیت۔ حُسن اور دل کشی کو چار چاند لگا دئیے ہیں۔ ان کے اسلوب میں ان کا تخیل ان کے شعور سے ہم آہنگ ہو کر فکر و خیال کے نئے آفاق تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ رسیلے گیتوں کی مد بھری تان سننے کا شوق انھیں گیت نگاری پر مائل کرتا ہے۔ گیت نگاری میں ان کا ذوقِ سلیم قاری کو رنگ۔ خوشبو۔ حسن۔ رومان اور وفا کے سب روح پرور ہنگاموں سے روشناس کراتا ہے۔ یہ گیت محبت کا ایسا اثاثہ ہیں جو مہیب سناٹوں اور بھیانک تاریکیوں میں طوع صبحِ بہاراں کے بعد گلشنِ ہستی میں کِھلنے والے گُل ہائے رنگ رنگ کی نوید سناتے ہیں۔ ان رسیلے گیتوں کی مہک کائنات کی وسیع فضاؤں میں بکھرے سیکڑوں مناظر کا احاطہ کرتی ہے اور قاری کو وادیِ خیال کے حسیں مناظر دیکھنے پر مائل کرتی ہے۔ ان گیتوں میں پایا جانے والا رجائیت کا عنصر قاری کے لیے حیات بخش ثابت ہوتا ہے :

گیت

   کوئی آئے گا کوئی آئے گا

آدرشوں کا خوں پیتے ہیں

ہم اسی سہارے جیتے ہیں

   کوئی اپنی پھلواری کو بھی

مہکائے گا

کوئی آئے گا

   اپنے شعری اسلوب کو جمیل الدین عالی نے قلب اور روح کی ا تھاہ گہرائیوں میں اُتر جانے والی اثر آفرینی سے مزین کیا ہے۔ ان کی شاعری سوچ کے نئے در وا کرتی چلی جاتی ہے۔ ان کے اسلوب کی انفرادیت کا راز ندرت بیاں۔ سادگی۔ پاکیزگی اور سہل ممتنع میں پوشیدہ ہے۔ تخلیقِ فن کے لمحوں میں وہ خون بن کر رگِ سنگ میں اُترنے کی جو سعی کرتے ہیں اس کے اعجاز سے وہ قاری کو اپنے تجربات میں شامل کر لیتے ہیں۔ اپنے جذبات۔ احساسات اور ادراک کی صلاحیتوں کو رو بہ عمل لاتے ہوئے انھوں نے اپنے اسلوب کو داخلی اور خارجی وسعت کے اعتبار سے ایک محیطِ بے کراں کا روپ عطا کیا ہے۔ اس میں تنوع اور ندرت کے عناصر نے اسے افلاک اور آفاق کے حقائق کا آئینہ دار بنا دیا ہے۔

کیوں بُجھ گئے ہو آتشِ پنہاں کو کیا ہوا

   عالی تمھارے سوزِ دِل و جاں کو کیا ہوا

   ہے کیوں قبائے زر سے مکلف تمام جسم

اس افتخارِ چاک گریباں کو کیا ہوا

وہ شہرتِ جنونِ گُل و غنچہ کیا ہوئی

   اس وحشت خراب گلستان کو کیا ہوا

کیوں آ گیا ہے ضبط و سلیقہ خطاب میں

   اس شدتِ خلوصِ فراواں کو کیا ہوا

کیوں ہو چلے ہو شیفتۂ جلوت و جلوس

آشفتگیِ طبع گریزاں کو کیا ہوا

کیوں عمر بھر کے دوست نہیں اب شریکِ حال

اس احترامِ خاطر یاراں کو کیا ہوا

   کوئی نہیں کہ ہو اِس دشت میں مِرا دم ساز

ہر ایک سمت سے آئی ہے اپنی ہی آواز

کبھی تو ہو گی ملاقات اے چمن آرا

کہ میں بھی ہوں تری خوشبو کی طرح آوارہ

   قحط الرجال کے موجودہ دور میں معاشرتی زندگی میں ہوسِ زر اور مفاد پرستی نے حدِ نگاہ تک اجنبیت کی بسا ط پھیلا رکھی ہے۔ جمیل الدین عالی بے لوث محبت سے دلوں کو مسخر کرنے کا راز جانتے تھے۔ ایثار۔ خلوص اور دردمندی ان کے امتیازی اوصاف تھے۔ عجز و انکسار کا پیکر بن کر وہ سب ملنے والوں کی راہ میں دیدہ و دِل فرشِ راہ کر دیتے۔ وہ کسی کے لیے اجنبی نہ تھے اس لیے ایک نرم خُو اور صلح جُو میزبان کی حیثیت سے ہر شخص سے اخلاق اور اخلاص سے پیش آنا سدا ان کا شیوہ رہا۔ انجمن ترقیِ اُردوسے وابستہ ہونے کے بعدپاکستان کی قومی زبان اردو کے فروغ اور دنیا بھر میں اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے انھوں نے اپنی زندگی وقف کر رکھی تھی۔ دنیا کی بڑی زبانوں سے تراجم کے ذریعے علوم و فنون کی اُردو زبان میں منتقلی کی خاطر انھوں نے جو شبانہ روز محنت کی وہ قومی زبان اور قومی تشخص کے ساتھ عشق کی حدوں کو پہنچے ہوئے ان کے اشتیاق اور منفرد و بے کنار جذبۂ حب الوطنی کا منھ بولتا ثبوت ہے۔ انجمن ترقیِ اردو کے لیے ان کی اعزازی خدمات چھے عشروں پر محیط ہیں۔ اس دوران انھوں نے کسی قسم کی مراعات یا کوئی معاوضہ قبول نہ کیا۔ ہوسِ زر نے نوعِ انساں کواس قدر منتشر کر دیا ہے کہ معاشرتی زندگی سے مروّت۔ اخوّت اور ایثار عنقا ہے۔ معاشرتی زندگی سے وفا کے اُٹھ جانے سے ہر دردمند کا دِل بیٹھ گیا ہے۔ ایسا محسوس ہو تا ہے کہ فطرت کے حسین مناظر کی رنگینیاں۔ شادابیاں اور رعنائیاں ہوا و ہوس کی مسموم فضا میں ماند پڑنے لگی ہیں۔ جمیل الدین عالی نے آزمائش کی ہر گھڑی میں ہوس سے دامن بچا کر رخِ وفا فروزاں رکھنے پر اصرار کیا۔ وہ مایوسی۔ بے یقینی اور بے عملی کے سخت خلاف تھے۔ عملی زندگی میں انھوں نے زندہ تمناؤں کی مشعل سرِ طاقِ جاں فروزاں رکھنے کی راہ دکھائی۔ اپنی انا اور عزتِ نفس انھیں دل و جاں سے عزیز تھی۔ جمیل الدین عالی نے ’’نقار خانے ‘‘ کے عنوان سے جو کالم تحریر کیے وہ با ذوق قارئین نے بہت پسند کیے۔ وہ زندگی بھر خونِ دِل میں اُنگلیاں ڈبو کر قوم کے مقدر کی لکیروں کو اُجالنے اور خوف و دہشت کی فضا میں یاس و ہراس کے باعث الجھے ہوئے معاملات کو سنبھالنے کے نسخہ ہائے وفا تحریر کرتے رہے۔ اللہ کریم نے انھیں ایک مضبوط و مستحکم شخصیت سے نوازا تھا۔ زندگی بسر کرنے کے لیے انھوں نے جو اصول و ضوابط متعین کیے ان کی بالا دستی کے لیے وہ ہر قربانی دینے پر آمادہ رہتے تھے۔ ان کی ساری زندگی ارفع اصولوں اور واضح دستور العمل کے مدار میں گزری۔ یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ اپنی عزتِ نفس کو ملحوظ رکھنے والا حریتِ فکر کا ایسا مجاہد جبر کے سامنے کبھی سِپر انداز نہیں ہو سکتا۔

   پاکستانی زبانوں کے ادیبوں کے حقوق کا تحفظ۔ مستحق ادیبوں کے لیے مراعات کا حصول اور ان کے مفادات کا خیال اور ان کی محنت کے اعتراف میں انعامات اور سپاس گزاری کے اہتمام میں انھوں نے ہمیشہ گہری دلچسپی لی۔ انھوں نے مقتدر حلقوں کے ساتھ معتبر ربط سے ادیبوں کے لیے ان کے شایانِ شان متعدد گراں قدر انعامات عطا کرنے کے فقید المثال سلسلے کا آغاز کیا۔ ان انعامات اور اعزازات کے حصول سے اپنی ذات کو الگ رکھا۔ وہ زندگی بھر ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے تخلیقی کاموں میں مصروف رہے۔ انھوں نے ادیبوں کے لیے درج ذیل انعامات کا اہتمام کیا :

   ۱۔ آدم جی ادبی انعام   (۱۹۶۰)

   ۲۔ داؤد ادبی انعام (۱۹۶۲)

۳۔ نیشنل بنک ادبی انعام (۱۹۶۳)

   ۴۔ حبیب بنک ادبی انعام   (۱۹۶۴)

۵۔ یونائیٹد بنک ادبی انعام (۱۹۶۵)

۶۔ پاکستان رائٹر ز گِلڈ ادبی انعام(۱۹۶۶)

   ۷۔ ARYگولڈ ادبی انعام ۔ دس ہزار ڈالر (۲۰۰۰)

سال 2001میں اے آر وائی انتظامیہ کے اصرار پر جمیل الدین عالی نے ان کا مقرر کردہ انعام وصول کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی اور یہ انعام وصول کر لیا۔ ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہنے کی ایسی کوئی نظیر دنیا میں ماضی یا حال کہیں موجود نہیں۔ نمود و نمائش۔ جاہ و منصب اور زر و مال کی ہوس سے گریزاں رہنے والا ایسا نادر و نایاب ا دیب مستقبل بعید میں بھی ملکوں ملکوں ڈھونڈنے سے کہیں نہ ملے گا۔ تاریخ ہر دور میں ان کے نام کی تعظیم کرے گی۔ جمیل الدین عالی کی تصانیف درج ذیل ہیں :

   ۱۔ اے میرے دشتِ سخن

۲۔ غزلیں دوہے گیت

۳۔ جیوے جیوے پاکستان

۴۔ لاحاصل

۵۔ دوہے

۶۔ حرفے

   سفرنامے

۱۔ دنیا مرے آگے

۲۔ تماشا مرے آگے

۳۔ آئس لینڈ

   انجمن ترقیِ اردو کے ساتھ باسٹھ سال کی اعزازی وابستگی کے دوران جمیل الدین عالی نے نئے خیالات۔ نئے موضوعات۔ نئے اسالیب اور نئی تکنیک کی حوصلہ افزائی کو نصب العین بنایا۔ شعبہ نشر و اشاعت اور اردو ڈکشنری بورڈ میں ان کی مشاورت بہت افادیت کی حامل ثابت ہوئی۔ وہ ایسے حساس۔ زیرک۔ فعال اور مستعد تخلیق کار تھے جن کی فہم و فراست اور فکر و تدبر جہاں قومی تشخص اور حب الوطنی کا مظہر ہے وہاں اس کے معجز نما اثر سے قارئین کے دلوں میں تعمیر وطن کا ایک ولولۂ تازہ پیدا ہوتا ہے۔ تخلیقِ فن کے لمحوں میں وہ کسی مصلحت کے قائل نہ تھے۔ ان کی تخلیقی جبلت ان کی گُل افشانیِ گفتار میں اس دل کش انداز میں جلوہ گر ہوتی ہے کہ ان کی حق گوئی اور بے باکی قاری کو مسحور کر دیتی ہے۔

یہ عمر بھر کے رشتے جو ٹُوٹ جاتے ہیں

   گِلہ ہی کیا کہ ظالم ہے وقت کا دھارا

   سُو کھ چلے وہ غنچے جن سے کیا کیا پھُول اُبھرتے تھے

   اب بھی نہ اُن کی پیاس بُجھی تو گھر جنگل ہو جائے گا

تُجھے تو کیسے بتاؤں کہ خود بھی یاد نہیں

   کہاں کہاں کی ترے غم نے خاک چھنوائی

دِلِ آشفتہ پہ اِلزام کئی یاد آئے

جب ترا ذکر چھڑا نام کئی یاد آئے

   ذہن تمام بے بسی روح تمام تشنگی

   سویہ ہے اپنی زندگی جس کے تھے اتنے انتظام

   ہزار خشک رہا اپنی زندگی کا چمن

تری بہار کو لیکن کبھی خزاں نہ کہا

   مُسرتیں جو ملیں تیرے لطفِ پیہم سے

   مچل رہی ہیں کسی جورِ ناگہاں کے لیے

جمیل الدین عالی کی علمی۔ ادبی اور قومی خدمات کے اعتراف میں اُ نھیں درج ذیل اعزازات سے نوازا گیا:

۱۔ سنت کبیر ایوارڈ دہلی   1989

۲۔ اردو اکیڈمی کینیڈا ایوارڈ 1990

۳۔ صدارتی ایوارڈ برائے حسنِ کار کردگی (حکو متِ پاکستان) 1991

   ۴۔ ڈی۔ لِٹ (جامعہ کراچی) 1991

۵۔ ہلالِ امتیاز (حکومتِ پاکستان) 1998

   ۶۔ کمالِ فن ایوارڈ (اکادمی ادبیاتِ پاکستان) 2007

۷۔ نشانِ سپاس پاک امریکن الائنس 2007

   ۸۔ ڈی۔ لِٹ دادا بھائی انسٹی ٹیوٹ 2008 (*)

( *   روزنامہ ایکسپریس۔ لاہور۔ 24نومبر 2015   صفحہ 18۔ )

اپنی عملی زندگی کا آغاز برطانوی دور میں محکمہ ٹرانسپورٹ حکومتِ ہند میں اسسٹنٹ کی حیثیت سے کیا۔ پاکستان ہجرت کے بعد وزارت تجارت حکومت پاکستان میں 1947میں اسسٹنٹ کے طور پران کا تقرر ہو گیا۔ اسی دوران انھوں نے 1951میں سی ایس ایس کا مقابلے کا امتحان پاس کیا اور انکم ٹیکس میں افسر ہو گئے۔ سرکاری ملازمت کے مختلف عہدوں پر فائز رہنے کے بعد 1988میں ریٹائر ہوئے۔ اس کے بعد ان کی زندگی تصنیف و تالیف میں گزری۔ جمیل الدین عالی نے قومی زندگی کے نشیب و فراز کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔ پاکستان کی سیاست میں انھوں نے گہری دلچسپی لی اور سات مارچ 1977کو پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پرسید منور حسن کے مقابلے میں قومی اسمبلی کی نشست پر کراچی سے انتخابات میں حصہ لیا لیکن وہ کام یاب نہ ہو سکے۔ اس کے بعد وہ متحدہ قومی موو منٹ کے تعاون سے مارچ1997 میں چھے سال کے لیے پاکستان سینٹ کے رکن منتخب ہوئے۔

جمیل الدین عالی کی ادبی نثر اور شاعری میں اصلاح اور مقصدیت کی جو شان ہے وہ ہر اعتبار سے لائق تقلید سمجھی جاتی ہے۔ ان کی تخلیقی فعالیت کا مقصد حب الوطنی اور قومی تعمیر و ترقی کے جذبات کو مہمیز کرنا تھا۔ انھوں نے جس موضوع پر بھی قلم اُٹھایا اس کی توضیح و تصریح کی مقدور بھر کوشش کی۔ زندگی بھر حق گوئی اور بے باکی ان کا مسلک رہا۔ الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنے کے وہ سخت خلاف تھے۔ ان کے اسلوب میں مضمون آفرینی کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا۔ جمیل الدین عالی کی وفات کے بعد لفظ ہونٹوں پر پتھرا گئے ہیں۔ ایسا دانش ور کہاں سے لائیں جسے جمیل الدین عالی جیسا کہا جا سکے۔ صدمے کی اس کیفیت میں کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا لکھا جائے۔ عبدا لمجید سالک کے یہ اشعار میرے جذبات حزیں کے ترجمان ہیں :

چراغِ زندگی ہو گا فروزاں ہم نہیں ہوں گے

چمن میں آئے گی فصلِ بہاراں ہم نہیں ہوں گے

ہمارے ڈُوبنے کے بعد اُبھریں گے نئے تارے

جبینِ دہر پر چھٹکے گی افشاں ہم نہیں ہوں گے

ہمارے دور میں ڈالیں خِرد نے اُلجھنیں لاکھوں

جنوں کی مشکلیں جب ہوں گی آساں ہم نہیں ہوں گے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے