اسکول ماسٹر کا خواب ۔۔۔ مشتاق احمد یوسفی

 

آبِ گم سے انتخاب

 

 

فیوڈل فینٹسی

 

ہر شخص کے ذہن میں عیش و فراغت کا ایک نقشہ رہتا ہے جو دراصل چربہ ہوتا ہے اس ٹھاٹ باٹ کا جو دوسروں کے حصے میں آیا ہے۔ لیکن جو دکھ آدمی سہتا ہے، وہ تنہا اس کا اپنا ہوتا ہے۔ بلا شرکت غیرے۔ بالکل نجی، بالکل انوکھا۔ ہڈیوں کو پگھلا دینے والی جس آگ سے وہ گزرتا ہے اس کا کون اندازہ کرسکتا ہے۔ آتش دوزخ میں یہ گرمی کہاں۔ جیسا داڑھ کا درد مجھے ہو رہا ہے ویسا کسی اور کو نہ کبھی ہوا، نہ ہو گا۔ اس کے برعکس، ٹھاٹ باٹ کا بلُو پرنٹ ہمیشہ دوسروں سے چُرایا ہوا ہوتا ہے۔ بشارت کے ذہن میں عیش و تنعم کا جو صد رنگ و ہزار پیوند نقشہ تھا وہ بڑی بوڑھیوں کی اس رنگا رنگ رلّی کی مانند تھا جو وہ مختلف رنگ کی کترنوں کو جوڑ جوڑ کر بناتی ہیں۔ اس میں اس وقت کا جاگیردارانہ طنطنہ اور ٹھاٹ، بگڑے رئیسوں کا تیہا اورٹھسا، مڈل کلاس دکھاوا، قصباتی اِتروناپن، ملازمت پیشہ نفاست، سادہ دلی اور ندیدہ پن۔ سب بری طرح سے گڈمڈ ہو گئے تھے۔ انھی کا بیاں ہے کہ بچپن میں میری سب سے بڑی تمنّا یہ تھی کہ تختی پھینک پھانک، قاعدہ پھاڑ پھوڑ کر مداری بن جاؤں، شہر شہر ڈگڈگی بجاتا، بندر، بھالو، جھمورا نچاتا اور "بچہ لّوگ” سے تالی بجواتا پھروں۔ جب ذرا عقل آئی، مطلب یہ کہ بد اور بد تر کی تمیز پیدا ہوئی تو مداری کی جگہ اسکول ماسٹر نے لے لی۔ اور جب موضع دھیرج گنج میں سچ مچ ماسٹربن گیا تو میرے نزدیک انتہائے عیاشی یہ تھی کہ مکھن زین کی پتلون، دو گھوڑا بوسکی کی قمیض، ڈبل قفوں میں سونے کے چھٹانک چھٹانک بھر کے بٹن، نیا سولا ہیٹ جس پر میل خورا غلاف نہ چڑھا ہو اور پیٹنٹ لیدر کے پمپ شوز پہن کر اسکول جاؤں اور اپنی غزلیات پڑھاؤں۔ سفید سلک کی اچکن جس میں بدری کے کام والے بٹن نرخرے تک لگے ہوں۔ جیب میں گنگا جمنی کام کی پانوں کی ڈبیا۔ سر پر سفید کمخواب کی رام پوری ٹوپی۔ ترچھی، مگر ذرا شریفانہ زاویے سے۔ لیکن ایسا بھی نہیں کہ نرے شریف ہی ہو کے رہ جائیں۔ چھوٹی بوٹی کی چکن کا سفید کرتا جو موسم کی رعایت سے عطرِ حنا یا خس میں بسا ہو۔ چوڑی دار پاجامے میں خوبرو دو شیزہ کے ہاتھ کا بُنا ہوا سفید ریشمی ازار بند۔ سفید نری کا سلیم شاہی جوتا۔ پیروں پر ڈالنے کے لئے اٹالین کمبل جو فٹن میں جتے ہوئے سفید گھوڑے کی دُم اور دُور مار بول و براز سے پاجامے کو محفوظ رکھے۔ فٹن کے پچھلے پائیدان پر "ہٹو! بچو!” کرتا اور اس پر لٹکنے کی کوشش کرنے والے بچّوں کو چابک مارتا ہوا سائیس، جس کی کمر پر زردوزی کے کام کی پیٹی اور ٹخنے سے گھٹنے تک خاکی نمدے کی نواری پٹیاں بندھی ہوں۔ بچہ اب سیانا ہو گیا تھا۔ بچپن رخصت ہو گیا، پر بچپنا نہیں گیا۔

بچّہ اپنے کھیل میں جیسی سنجیدگی اور ہمہ تن محویت اور خود فراموشی دکھاتا ہے، بڑوں کے کسی مشن اور مہم میں اس کا عشر عشیر بھی نظر نہیں آتا۔ اس میں شک نہیں کہ دنیا کا بڑے سے بڑا فلسفی بھی کسی کھیل میں منہمک بچّے سے زیادہ سنجیدہ نہیں ہو سکتا۔ کھلونا ٹوٹنے پر بچّے نے روتے روتے اچانک روشنی کی طرف دیکھا تھا تو آنسو میں دھنک جھلمل جھلمل کرنے لگی تھی۔ پھر وہ سبکیاں لیتے لیتے سو گیا تھا۔ وہی کھلونا بڑھاپے میں کسی جادو کے زور سے اس کے سامنے لا کر رکھ دیا جائے تو وہ بھونچکا رہ جائے گا کہ ا کے ٹوٹنے پر بھی بھلا کوئی اسطرح جی جان سے روتا ہے۔ یہی حال ان کھلونوں کا ہو تا ہے جن سے آدمی زندگی بھر کھیلتا رہتا ہے۔ ہاں، عمر کے ساتھ ساتھ یہ بھی بدلتے اور بڑے ہوتے رہتے ہیں۔ کچھ کھلونے خود بخود ٹوٹ جاتے ہیں۔ کچھ کو دوسرے توڑ دیتے ہیں۔ کچھ کھلونے پروموٹ ہو کر دیوتا بن جاتے ہیں اور کچھ دیویاں دل سے اترنے کے بعد  گودڑ بھری گڑیاں نکلتی ہیں۔ پھر ایک ابھاگن گھڑی ایسی آتی ہے جب وہ ان سب کو توڑ دیتا ہے۔ اس گھڑی وہ خود بھی ٹوٹ جاتا ہے۔

 

تراشیدم، پرستیدم، شکستم

 

آج ان طفلانہ تمناؤں پر خود ان کو ہنسی آتی ہے۔ مگر یہ اس وقت کی حقیقت تھی۔ بچّے کے لیے اس کے کھلونے سے زیادہ ٹھوس اور اصل حقیقت ساری کائنات میں کوئی نہیں ہو سکتی۔ جب خواب۔ خواہ وہ خوابِ نیم شبی ہو یا خوابِ بیداری۔ دیکھا جا رہا ہوتا ہے تو وہی اور صرف وہی اس لمحے کی واحد حاضر و موجود حقیقت ہوتی ہے۔ یہ ٹوٹا کھلونا، یہ آنسوؤں میں بھیگی پتنگ اور الجھی ہوئی ڈور جس پر ابھی اتنی مار کٹائی ہوئی، یہ جلتا بجھتا جگنو، یہ تنا ہوا غبارہ جو اگلے لمحے ربر کے گِلگِلے ٹکڑوں میں تبدیل ہو جائے گا، میری ہتھیلی پر سرسراتی یہ مخملی بیر بہوٹی، آواز کی رفتار سے بھی تیز چلنے والی یہ ماچس کی ڈبیوں کی ریل گاڑی، یہ صابن کا بُلبُلا جس میں میرا سانس تھرّا رہا ہے، دھنک پر یہ پریوں کا رتھ جسے تتلیاں کھینچ رہی ہیں ۔ اس پل اس آن بس یہی حقیقت ہے ۔

اور یہ عالم تمام وہم و طلسم و مجاز

 

کچھ قوسِ قزح سے رنگ لیا، کچھ نور چُرایا تاروں سے

 

یہ قصہ کھلونا ٹوٹنے سے پہلے کا ہے۔

وہ اس زمانے میں نئے نئے اسکول ماسٹر مقرر ہوئے تھے اور سیاہ فٹن ان کی تمناؤں کی معراج تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ اس یونیفارم یعنی سفید اچکن سفید جوتے سفید کرتے پاجامے اور سفید اِزاربند وغیرہ کی کھکھیڑ فقط خود کو سفید گھوڑے سے میچ کرنے کے لیے تھی، ورنہ اس بطخا بھیس پر کوئی بطخ ہی فریفتہ ہو سکتی تھی۔ انھیں چوڑی دار سے بھی سخت چِڑ تھی۔ صرف خوبرو دوشیزہ کے ہاتھ کے بُنے ہوئے سفید ازاربند کو استعمال کرنے کی خاطر یہ ستار کا غلاف ٹانگوں پر چڑھانا پڑا۔ اس ہوائی قلعہ کی ہر اینٹ فیوڈل گارے سے بنی تھی جو بورژوا خوابوں سے گندھا تھا۔ اتنا ہی نہیں کہ ہر اینٹ کا سائز اور رنگ مختلف تھا، ہر ایک پر ان کی اُبھرواں شبیہ بھی بنی تھی۔ کچھ اینٹیں گول بھی تھیں، باریک سے باریک جزئیات، یہاں تک کہ اس حدِ ادب کا بھی تعین کر دیا تھا کہ ان کے حضور سفید گھوڑے کی دم کتنی ڈگری کے زاوئے تک اُٹھ سکتی ہے۔ اور ان کی سواری بادِ بہاری کے "روٹ” پر کس کس جھروکے کی چق کے پیچھے کس کلائی میں کس رنگ کی چوڑیاں چھنک رہی ہیں۔ کس کی ہتھیلی پر ان کا نام (مع بی اے کی ڈگری) مہندی سے لکھا ہے۔ اور کس کس کی سُرمگیں آنکھیں چلمن سے لگی راہ تَک رہی ہیں اور تیلیوں کو بار بار انگلیوں سے چوڑا کر کر کے دیکھ رہی ہیں کہ کب انقلابی شہزادہ یہ دعوت دیتا ہوا آتا ہے کہ

تم پرچم لہرانا ساتھی، میں بربط پر گاؤں گا

یہاں اتنا عرض کرتا چلوں کہ اس سے زیادہ محفوظ تقسیمِ کار اور کیا ہو گی کہ گھمسان کے رن میں پرچم تو محبوب اٹھائے اٹھائے کٹتا مرتا پھرے اور خود شاعر دور کسی مرمریں مینار میں بیٹھا ایک متروک اور دقیانوسی ساز پر ویسا ہی کلام یعنی خود اپنا کلام گا رہا ہو۔ نثر میں اسی سچویشن کو دوسرے کو سولی پر چڑھ جانے کی تلقین اور رام بھلی کرنے والی کہاوت میں ذرا زیادہ پھوہڑ ایمانداری سے بیان کیا گیا ہے۔ لیجیے، مطلعے میں ہی سخن گسترانہ بات آ پڑی۔ ورنہ کہنا صرف اتنا تھا کہ مزے کی بات یہ تھی کہ اس سوتے جاگتے خواب کے دوران، بشارت نے خود کو اسکول ماسٹر ہی کے "رول” میں دیکھا۔ منصب بدلنے کی خواب میں بھی جراَت نہ ہوئی۔ شاید اس لئے بھی کہ فٹن اور ریشمی اِزاربند سے صرف اسکول ماسٹروں پر ہی رعب پڑ سکتا تھا۔ زمیں داروں اور جاگیرداروں کے لئے یہ چیزیں کیا حیثیت رکھتی تھیں۔ انھیں اپنی پیٹھ پر بیس برس بعد  بھی اس آتشیں لکیر کی جلن محسوس ہوتی تھی جو چابک لگنے سے اس وقت اُپڑی تھی جب محلّے کے لونڈوں کے ساتھ شور مچاتے، چابک کھاتے وہ ایک رئیس کی سفید گھوڑے والی فٹن کا پیچھا کر رہے تھے۔

 

چوراہے بلکہ شش و پنج راہے پر

 

شعر و شاعری چھوڑ کر اسکول ماسٹری اختیار کی۔ اسکول ماسٹری کو دَھتا بتا کر دکانداری کی۔ اور آخر کار دکان بیچ کھوچ کر کراچی آ گئے۔ جہاں ہرچند رائے روڈ پر دوبارہ عمارتی لکڑی کا کاروبار شروع کیا۔ نیا ملک۔ بدلا بدلا سا رہن سہن۔ ایک نئی اور مصروف دنیا میں قدم رکھا۔ مگر اس سفید گھوڑے اور فٹن والی فینٹسی نے پیچھا نہیں چھوڑا۔ خوابِ نیم روز (day۔dreaming) اور فینٹسی سے دو ہی صورتوں میں چھٹکارا مل سکتا ہے۔ اوّل، جب وہ فینٹسی نہ رہے، حقیقت بن جائے۔ دوم، انسان کسی چوراہے بلکہ شش و پنج راہے پر اپنے سوتے جاگتے ہمزاد سے سارے خواب بخشوا کر رخصت چاہے۔

Heart۔breaker, dream۔maker, thank you for the dream!

اور اس کھُونٹ نکل جائے جہاں سے کوئی نہیں لَوٹا۔ یعنی گھر گرہستی کی طرف۔ لیکن بشارت کو اس سے بھی افاقہ نہیں ہوا۔ وہ بھرا پُرا گھر اونے پونے بیچ کر اپنے حسابوں لٹے پٹے آیے تھے۔ پاکستان میں ایک دو سال میں  ہی اللہ نے ایسا فضل کیا کہ کانپور ہیچ معلوم ہونے لگا۔ سارے ارمان پورے ہو گئے۔ مطلب یہ کہ گھر اشیائے غیر ضروری سے اٹا اٹ بھر گیا۔ بس ایک کمی تھی:

سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے گھوڑے کے سوا

اب وہ چاہتے تو نئی نہ سہی سیکنڈ ہینڈ کار بآسانی خرید سکتے تھے۔ جتنی رقم میں آج کل چار ٹائر آتے ہیں، اس سے کم میں اس زمانے میں کار مل جاتی تھی۔ لیکن کار میں انہیں وہ رئیسانہ ٹھاٹ اور زمیں دارانہ ٹھسا نظر نہیں آتا تھا جو فٹن اور بگھی میں ہوتا ہے۔ گھوڑے کی بات ہی کچھ اور ہے۔

 

گھوڑے کی ساتھ شجاعت بھی گئی

 

مرزا عبد الودود بیگ کہتے ہیں کہ آدمی جب بالکل جذباتی ہو جائے تو اس سے کوئی عقل کی بات کہنا ایسا ہی ہے جیسے بگولے میں بیج بونا۔ چنانچہ بشارت کو اس شوقِ فضول سے باز رکھنے کے بجائے انہوں نے اُلٹا خوب چڑھایا۔ ایک دن آگ کو پٹرول سے بجھاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جب سے گھوڑا رخصت ہوا، دنیا سے شجاعت و سرفروشی، جاں بازی و دلاوری کی ریت بھی اٹھ گئی۔ جانوروں میں کتا اور گھوڑا انسان کے سب سے پہلے اور پکے رفیق ہیں جنہوں نے اس کی خاطر ہمیشہ کے لیئے جنگل چھوڑا۔ کتا تو خیر اپنے کتے پن کی وجہ سے چمٹا رہا۔ لیکن انسان نے گھوڑے کے ساتھ بیوفائی کی۔ گھوڑے کے جانے سے انسانی تہزیب کا ایک ساونتی باب ختم ہوتا ہے۔ وہ باب جب سورما اپنے دشمن کو للکار کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لڑتے تھے۔ موت ایک نیزے کی دوری پر ہوتی تھی اور یہ نیزہ دونوں کے ہاتھ میں ہوتا تھا۔ موت کا ذائقہ اجنبی سہی لیکن مرنے والا اور مارنے والا دونوں ایک دوسرے کا چہرہ پہچان سکتے تھے۔ غافل سوتے ہوئے۔ بے چہرہ شہروں پر مشروم بادل کی اوٹ سے آگ اور ایٹمی موت نہیں برستی تھی۔ گھوڑا صرف اس وقت بزدل ہو جاتا ہے جب اس کا سوار بزدل ہو۔ بہادر گھوڑے کی ٹاپ کے ساتھ دل دھک دھک کرتے اور اور دھرتی تھراتی تھی۔ پیچھے دوڑتے ہوئے بگولے، سموں سے اڑتی ہوئی چنگاریاں، نیزوں کی اَنی پر کرن کرن بکھرتے سورج اور سانسوں کی ہانپتی آندھیاں کوسوں دور سے شہ سواروں کی یلغار کا اعلان کر دیتی تھیں۔ گھوڑوں کے ایک ساتھ دوڑنے کی آواز سے آج بھی لہو میں ہزاروں سال پرانی وحشتوں کے الاؤ بھڑک اٹھتے ہیں۔

لیکن مرزا ذرا ٹھہرو۔ اپنے توسنِ خطابت کو لگام دو۔ یہ کس گھوڑے کا ذکر کر رہے ہو؟ تانگے کے گھوڑے کا؟

 

گل جی کے گھوڑے

 

لیکن یہ ہم بھی تسلیم کرتے ہیں کہ گھوڑے کے بغیر طالع آزمائی، ملک گیری، شجاعت اور "شولری” کے عہد کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ "گھوڑے کی کاٹھی ہی ہمارا راج سنگھاسن ہے۔ ” گائیکواڑوں کو اپنے قدیم شاہی "ماٹو” پر بڑا ناز تھا۔ یورپ کو تاخت و تاراج کرنے والے ہُن شہ سواروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کبھی گھوڑے سے نہیں اترتے تھے۔ اس کی پیٹھ پر  ہی سوتے، سستاتے، کھاتے، شراب نوشی اور خرید و فروخت کرتے۔ یہاں تک کے حوائج ضروری سے فارغ ہوتے۔ انگلینڈ میں اسٹب نامی ایک آرٹسٹ گزرا ہے جو صرف اعلیٰ نسل کے گھوڑے پینٹ کرتا تھا۔ یورپ میں گھوڑوں۔ کتوں اور رائلٹی کی حد تک ولدیت اور شجرہ نسب اب بھی تھوڑے بہت معنی رکھتے ہیں۔ گھوڑے کو برہنہ ماڈلوں پر ترجیح دینے کی وجہ ہمیں تو بظاہر یہی معلوم ہوتی ہے کہ عورت کی دُم نہیں ہوتی۔

اس میں یہ عافیت بھی تھی کہ گھوڑا کبھی یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ تصویر اصل کے مطابق نہ ہو۔ بہتر ہو۔ ہم پاکستان کے ممتاز اور نامور آرٹسٹ گل جی کے گیارہ سال دیوار بیچ پڑوسی رہ چکے ہیں۔ انہیں بہت قریب سے پینٹ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ وہ صرف رات کو، اور وہ بھی بارہ بجے کے بعد  پینٹ کرتے ہیں ۔ کافی عرصے تک ہم یہی سمجھتے رہے کہ شاید انہیں رات میں بہتر دکھائی دیتا ہے۔ لیکن جب سے ہم نے السر کی تکلیف کے سبب رات کو لکھنا پڑھنا شروع کیا، ہمسائے کے بارے میں بد گمانی سے کام لینا چھوڑ دیا۔

 

کیا تجھ کو خبر کون کہاں جھوم رہا ہے

 

انھیں بھی گھوڑوں سے بے انتہا شغف ہے۔ ان کی تصویریں بنا کر لاکھوں کماتے ہیں۔ سنا ہے ایک دفعہ کسی نے ( ہم نے نہیں ) مذاق میں کہہ دیا کہ جتنے کی آپ ایک گھوڑے کی تصویر بیچتے ہیں، اس میں تو تین زندہ گھوڑے بآسانی آ سکتے ہیں۔ اتنا تو ہم نے بھی دیکھا اس کے بعد  وہ کینوس پر کم از کم تین گھوڑے بنانے لگے۔ یہ بھی دیکھا کہ جتنے پیار، تفصیل وار مو شماری اور انسپریشن سے وہ گھوڑے کی دم بناتے ہیں، اس کا سوواں حصہ بھی گھوڑے اور سوار پر صرف نہیں کرتے۔ صرف گھوڑے ہی کی نہیں سوار کی بھی ساری پرسنلٹی کھینچ کر دُم میں آ جاتی ہے۔ چنانچہ ہر دُم منفرد، البیلی اور انمول ہوتی ہے۔ دل کی بات پوچھیئے تو وہ فقط دم ہی بنانا چاہتے ہیں۔ باقی ماندہ گھوڑا انہیں فقط دُم کو اٹکانے کے لئیے طوعاً و کرہاً بنانا پڑتا ہے۔ کبھی کسی وی آئی پی خاتون کی پورٹریٹ خاص توجہ سے بہت ہی خوب صورت بنانی مقصود ہوتی تو اس کے بالوں کی پونی ٹیل بطور خاص ایسی بناتے کہ کوئی گھوڑا دیکھ لے تو بے قرار ہو ہو جائے۔

 

افضل ترین دُم

 

لیکن اونٹ کی دُم سے مادہ کو رجھانا تو درکنار، کسی بھی معقول یا نا معقول جذبے کا انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ اس کو تو ٹھیک سے لٹکنا بھی نہیں آتا۔ سچ پوچھیے تو دُم تو بس مور، برڈ آف پیراڈائز اور کیسینو کی Bunnies کی ہوتی ہے۔ آخر الذکر ہمیں اس لیے بھی اچھی لگتی ہے کہ وہ ان کی اپنی نہیں ہوتی، اور اس کا مقصد آدمی کے اندر سوئے ہوئے اور ہارنے والے خرگوش کو گد گدا جگانا ہوتا ہے۔ برڈ آف پیراڈائز چکور کے برابر ہوتا ہے۔ لیکن نر کی دُم، خدا جھوٹ نہ بلوائے، پندرہ پندرہ فٹ لمبی ہوتی ہے۔ اگر بہت سے نر اونچے اونچے درختوں پر اپنی متعلقہ دُمیں لٹکائے امیدوارِ کرم بیٹھے ہوں تو مادہ ان کی شوہرانہ اہلیت جانچنے کے لیے وہی پیمانہ استعمال کرتی ہے جس سے اگلے زمانے میں علما و فضلا کا علم ناپا جاتا تھا۔ مطلب یہ کہ فقط معلقات یعنی ڈاڑھی، شملہ اور دُم کی لمبائی پر فیصلے کا انحصار۔ جس کی دُم سب سے لمبی ہو، مادہ اسی کے پرلے سرے پر لگی ہوئی منّی سی چونچ میں اپنی چونچ ڈال دیتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سب سے با مقصد دُم بچھو کی ہوتی ہے۔ سانپ کا زہر کچلی میں اور بچھو کا دُم میں ہوتا ہے۔ بھڑ کا زہر ڈنک میں اور پاگل کتے کا زبان میں۔ انسان واحد حیوان ہے جو اپنا زہر دل میں رکھتا ہے۔ لکھتے لکھتے یوں ہی خیال آیا کہ ہم بچھو ہوتے تو کس کس کو کاٹتے۔ اپنے نا پسندیدہ اشخاص کی فہرست کو دیکھتے ہوئے کہنا پڑتا ہے کہ ایک زندگی تو اس مشن کے لیے بالکل نا کافی ہوتی۔ لیکن یہاں تک نوبت ہی نہ آتی، اس لیے کہ ہمارے معتوبین کی فہرست میں سب سے پہلا نام تو ہمارا اپنا ہی ہے۔ رہی سانپ کی دُم، تو وہ ہمیں پسند تو نہیں fascinate (لبھاتی) ضرور ہے۔ اس میں وہی خوبی پائی جاتی ہے جو ہماری پیشانی میں ہے۔ کوئی نہیں بتا سکتا کہ وہ کہاں سے شروع ہوتی ہے۔ پھن کو چھوڑ کر ہمیں تو سارا سانپ دُم ہی دُم معلوم ہوتا ہے۔ لیکن سب سے اعلیٰ و افضل وہ دُم قرار پائے گی جو جھڑ چکی ہے، اس لیے کہ اس حادثے کے بعد  ہی اشرف المخلوقات اور خلیفۃ الارض کا درجہ ملا ہے۔

 

ہماری سواری: کیلے کا چھلکا

 

فٹن اور گھوڑے سے بشارت کی شیفتگی کا ذکر کرتے کرتے ہم کہاں آ نکلے۔ مرشدی و آقائی مرزا عبدالودود بیگ نے ایک دفعہ بڑے تجربے کی بات کہی۔ فرمایا” جب آدمی کیلے کے چھلکے پر پھسل جائے تو پھر رکنے، بریک لگانے کی کوشش ہرگز نہیں کرنی چاہیے۔ کیونکہ اس سے اور زیادہ چوٹ آئے گی۔ بس آرام سے پھسلتے رہنا چاہیے اور پھسلنے کو انجوائے کرنا چاہیے۔ بقول تمہارے استاد ذوق کے، تم بھی چلے چلو یہ جہاں تک چلی چلے۔ کیلے کا چھلکا جب تھک جائے گا تو خود بخود رک جائے گا۔ ” Just relax ” لہٰذا قدم ہی نہیں، قلم یا نگاہِ تصوّر بھی پھسل جائے تو ہم اسی اصول پر عمل کرتے ہیں۔ بلکہ صاف صاف کیوں نہ اقرار کر لیں کہ زندگی کے طویل سفر میں کیلے کا چھلکا ہی ہماری واحد سواری رہا ہے۔ یہ جو کبھی کبھی ہماری چال میں جوانوں کی سی تیزی اور چلت پھرت آ جاتی ہے تو یہ اسی کے طفیل ہے۔ ایک دفعہ رپٹ جائیں تو پھر یہ قلم چال جو بھی کنویں جھنکوائے اور جن گلیوں گلیاروں میں لے جائے وہاں بے ارادہ لیکن بَرغبت جاتے ہیں۔ قلم کو روکنے تھامنے کی ذرا کوشش نہیں کرتے۔ اور جب بیروں کی پوٹ پھٹ کر کاغذ پر بکھر جاتی ہے تو ہماری مثال اس بچّے کی سی ہوتی ہے جس کی ٹھساٹس بھری ہوئی جیب کے تمام رازوں کو کوئی اچانک نکال کر سب کے سامنے میز پر لگا دے۔ زیادہ خفت بڑوں کو ہوتی ہے کہ انہیں اپنا بھُولا بسرا بچپن اور اپنی موجودہ میز کی درازیں یاد آ جاتی ہیں۔ جس دن بچّے کی جیب سے فضول چیزوں کے بجائے پیسے برآمد ہوں تو سمجھ لینا چاہیے کہ اب اسے بے فکری کی نیند کبھی نصیب نہیں ہو گی۔

 

ریس کورس سے تانگے تک

 

جیسے جیسے بزنس میں منافع بڑھتا گیا، فٹن کی خواہش بھی شدید تر ہوتی گئی۔ بشارت مہینوں گھوڑے کی تلاش میں سرگرداں رہے۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے گھوڑے کے بغیر ان کے  سارے کام بند ہیں۔ اور بادشاہ رچرڈ سوم کی طرح وہ ہر چیز گھوڑے کی خاطر تج دینے کے لئے تیار ہیں :

"A horse! a horse! my kingdom for a horse”

ان کے پڑوسی چودھری کرم الٰہی نے مشورہ دیا کہ ضلع سرگودھا کے پولیس اسٹڈ فارم سے رجوع کیجئے۔ وہاں پولیس کی نگرانی میں ‘تھارو بریڈ‘ اور اعلیٰ ذات کے گھوڑوں سے افزائشِ نسل کروائی جاتی ہے۔ گھوڑے کا باپ خالص اور اصیل ہو تو بیٹا لامحالہ اسی پر پڑے گا۔ مثل ہے کہ باپ پر پُوت، پتا پر گھوڑا، بہت نہیں تو تھوڑا تھوڑا۔ مگر بشارت کہنے لگے کہ” میرا دل نہیں ٹھکتا۔ بات یہ ہے کہ جس گھوڑے کی پیدائش میں پولیس کا حمل دخل ہو، وہ گھوڑا خالص ہو ہی نہیں سکتا۔ وہ گھوڑا پولیس پر پڑے گا۔ ”

گھوڑے کے بارے میں یہ گفتگو سن کر پروفیسر قاضی عبد القدوس ایم اے ۔بی ٹی نے وہ مشہور شعر پڑھا اور حسبِ معمول بے محل پڑھا، جس میں دیدہ ور کی ولادت سے رونما ہونے والی پیچیدگیوں کے ڈر سے نرگس ہزاروں سال روتی ہے۔ مرزا کہتے ہیں کہ پروفیسر قاضی عبد القدوس اپنی دانست میں کوئی بہت ہی دانائی کی بات کہنے کے لئے اگر بیچ میں بولیں تو بیوقوف معلوم ہوتے ہیں۔ اگر نہ بولیں تو اپنے چہرے کے نارمل ایکسپریشن کے سبب اور زیادہ بیوقوف لگتے ہیں۔ گویا:

گویم مہمل وگرنہ گویم مہمل

پوفیسر مذکور کے نارمل ایکسپریشن سے مراد چہرے پر وہ رنگ ہیں جو اس وقت آتے اور جاتے ہیں جب کسی کی زپ اَدھ بیچ میں اٹک جاتی ہے۔

خدا خدا کر کے ایک گھوڑا پسند آیا جو ایک اسٹیل ری رولنگ مل کے سیٹھ کا تھا۔ تین چار دفعہ اسے دیکھنے گئے اور ہر دفعہ پہلے سے زیادہ مطمئن لوٹے۔ اس کا سفید رنگ ایسا بھایا کہ اٹھتے بیٹھتے اسی کے چرچے، اسی کے قصیدے۔ ہم نے ایک دفعہ پوچھا "پچ کلیان ہے؟” حقارت آمیز انداز سے ہنسے۔ فرمایا "پچ کلیان تو بھینس بھی ہو سکتی ہے۔ فقط چہرہ اور ہاتھ پیرسفید ہونے سے گھوڑے کی دُم میں سُرخاب کا پر نہیں لگ جاتا۔ گھوڑا وہ جو آٹھوں گانٹھ کمیت ہو۔ چاروں ٹخنوں اور چاروں گھٹنوں کے جوڑ مضبوط ہونے چاہئیں۔ یہ بھاڑے کا ٹٹّو نہیں، ریس کا خاندانی گھوڑا ہے۔ ” یہ گھوڑا ان کے اعصاب پر اس بُری طرح سوار تھا کہ اب اسے ان پر سے کوئی گھوڑی ہی اتار سکتی تھی۔ سیٹھ نے انھیں ایسوسی ایٹڈ پرنٹرز میں طبع شدہ کراچی ریس کلب کا وہ کتابچہ بھی دکھایا جو اس ریس سے متعلق تھا جس میں اس گھوڑے نے حصّہ لیا اور اوّل آیا تھا۔ اس میں اس کی تصویر اور تمام کوائف مع شجرۂ نسب درج تھے۔ نام White Rose ولد Wild Oats ولد Old Devil۔ جب سے یہ اعلیٰ نسل کا گھوڑا دیکھا، انھوں نے اپنے ذاتی بزرگوں پر فخر کرنا چھوڑ دیا۔ ان کے بیان کے مطابق اس کے دادا نے ممبئی میں تین ریسیں جیتیں۔ چوتھی میں دوڑتے ہوئے ہارٹ فیل ہو گیا۔ اس کی دادی بڑی نرچگ تھی۔ اپنے زمانے کے نامی گرامی ولایتی گھوڑوں سے اس کا تعلق رہ چکا تھا۔ اس کے دامنِ عصمت سے تمسّک و تمتّع کی بدولت چھ نرینہ اولادیں ہوئیں۔ ہر ایک اپنے متعلقہ باپ پڑی۔ سیٹھ سے پہلے وہائٹ روز ایک بگڑے ریئس کی ملکیت تھا جو باتھ آئی لینڈ میں ایک کوٹھی "ونڈر لینڈ” نام کی اپنی اینگلو انڈین بیوی ایلس کے لئے بنوا رہا تھا۔ ری رولنگ مِل سے جو سَریا وہ خرید کر لے گیا تھا اس کی رقم کئی مہینے سے اس کے نام کھڑی تھی۔ ریس اور سٹے میں دِوالا نکلنے کے سبب ونڈرلینڈ ‌کی‌ تعمیر ‌رک ‌‌‌‌‌‌‌گئی اور‌‌‌‌ایلس ‌اسے ‌حیرت زدہ چھوڑ کر ملتان کے ایک زمیں دار کے ساتھ یورپ کی سیر کو چلی گئی۔ سیٹھ کو ایک دن جیسے ہی خبر ملی کہ ایک قرض خواہ اپنے واجبات کے عوض پلاٹ پر پڑی ہوئی سیمنٹ کی بوریاں اور سَریا اٹھوا کے لے گیا، اس نے اپنے منیجر کو پانچ لٹھ بند چوکیداروں کی نفری ساتھ لے کر باتھ آئی لینڈ بھیجا کہ بھاگتے بھوت کی جو چیز بھی ہاتھ لگے، کھسوٹ لائیں۔ لہٰذا وہ یہ گھوڑا اصطبل سے کھول لائے۔ وہیں ایک سیامی بلی نظر آ گئی۔ سو اسے بھی بوری میں بھر کے لے آئے۔ گھوڑے کی ٹریجڈی کو پوری طرح ذہن نشین کرانے کے لئے بشارت نے ضمناً ہم سے ہمدردی کا اظہار کیا۔ فرمایا "یہ گھوڑا تانگے میں جتنے کے لئے تھوڑا ہی پیدا ہوا تھا۔ سیٹھ نے بڑی زیادتی کی، مگر قسمت کی بات ہے۔ صاحب تین سال پہلے کون کہہ سکتا تھا کہ آپ یوں بینک میں جوت دیے جائیں گے۔ کہاں ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی کرسی اور کہاں بینک کا چار فٹ اونچا اسٹول!”

 

شاہی سواری

 

انہیں اس گھوڑے سے پہلی نظر میں محبت ہو گئی۔ اور محبت اندھی ہوتی ہے، خواہ گھوڑے سے ہی کیوں نہ ہو۔ انہیں یہ تک سجھائی نہ دیا کہ گھوڑے کی مدح میں اساتذہ کے جو اشعار وہ اوٹ پٹانگ پڑھتے پھرتے تھے، ان کا تعلق تانگے کے گھوڑے سے نہیں تھا۔ یہ مان لینے میں چنداں مضائقہ نہیں کہ گھوڑا شاہی سواری ہے۔ رعبِ شاہی اور شوکتِ شاہانہ کا تصور گھوڑے کے بغیر ادھورا بلکہ بالکل آدھا رہ جاتا ہے۔ بادشاہ کے قد میں گھوڑے کے قد کا اضافہ کیا جائے تب کہیں وہ قدِ آدم نظر آتا ہے۔

لیکن ذرا غور سے دیکھا جائے تو شاہی سواری میں گھوڑا دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ اس لیے کہ بادشاہوں اور مطلق العنان حکمرانوں کی مستقل اور دلپسند سواری در حقیقت رعایا ہوتی ہے۔ یہ ایک دفعہ اس پر سواری گانٹھ لیں تو پھر انھیں سامنے کوئی کنواں، کھائی، باڑھ اور رکاوٹ دکھائی نہیں دیتی۔ جوشِ شہ زوری و شہ سواری میں نوشتۂ دیوار والی دیوار بھی پھلانگ جاتے ہیں۔ یہ نوشتۂ دیوار اس وقت تک نہیں پڑھ سکتے جب تک وہ Braille میں نہ لکھا ہو۔ جسے وہ اپنا دربار سمجھتے ہیں، وہ دراصل ان کا محاصرہ ہوتا ہے۔ جو انہیں یہ سمجھنے سے قاصر رکھتا ہے کہ جس منہ زور سر شور گھوڑے کو صرف ہنہنانے کی اجازت دے کر بآسانی آگے سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے، اسے وہ پیچھے سے قابو کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مطلب یہ کہ لگام کے بجائے دُم مڑوڑتا ہے۔ مگر اس بظاہر مسکیں سواری کا اعتبار نہیں کہ یہ ابلق لقاسد ایک چال نہیں چلتی:

اکثر یہ بد رکاب بنی اور بگڑ گئی

 

غُربا کشتن روزِ اوّل

 

لیکن جو حکمراں ہوشیار، مردم شناس اور رموز و مصلحتِ مملکت سے آشنا ہوتے ہیں، وہ پہلے ہی دن غریبوں کی سرکوبی کر کے خواص کو عبرت دلاتے ہیں :

غُربا کشتن روزِ اوّل

ویسے خواص اور عمائد کو کسی تنبیہ اور آنکس کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جو بھی ان پر سونے کی عماری، چاندی کی گھنٹیاں، زربفت کی جھول اور تمغوں کی مالا ڈال دے، اسی کا نشان ہاتھی بننے کے لئے کمربستہ رہتے ہیں۔ پہلے کمربستہ و دست و پا بستہ۔ پھر لب بستہ۔ اور آخر میں فقط بستہ بردار۔

چار دن کی زندگی ملی تھی۔ سو دو آرزوئے حضوری میں کٹ گئے، دو جی حضوری میں۔

 

ہمارا کجاوہ

 

ہم نے ایک دن گھوڑوں کی جناب میں کچھ گستاخی تو بشارت بھنّا گئے۔ ہم نے برسبیلِ تضحیک ایک تاریخی حوالہ دیا تھا کہ جب منگول ہزاروں کے غول بنا کر گھوڑوں پر نکلتے تو بدبو کے ایسے بھبھکے اٹھتے تھے کہ بیس میل دور سے پتہ چل جاتا تھا۔ ارشاد فرمایا، معاف کیجیے، آپ نے راجھستان میں، جہاں آپ نے جوانی گنوائی، اونٹ ہی اونٹ دیکھے، جن کی پیٹھ پر کلف دار راجپوتی صافے، چڑھواں داڑھیاں اور دس فٹ لمبی نال والی توڑے دار بندوقیں سجی ہوتی تھیں۔ اور نیچے کندھے پہ رکھی لاٹھی کے سِرے پر تیل پلائے ہوئے کچے چمڑے کے جُوتے لٹکائے، اردلی میں ننگے پیر جاٹ۔ گھوڑا تو آپ نے پاکستان میں آن کر دیکھا ہے۔ میاں احسان الٰہی گواہ ہیں، انھی کے سامنے آپ نے ان ٹھاکر صاحب کا قصّہ سنایا تھا جو مہاراجا کی شترنال پلٹن میں رسال دار تھے۔ جب ریٹائر ہو کر اپنے آبائی قصبے ۔کیا نام تھا اس کا۔ اودے پور توراواٹی پہنچے تو اپنی گڑھی میں ملاقاتیوں کے لئے دس بارہ مونڈھے ڈلوا دیے اور اپنے لئے سرکاری اونٹ جنگ بہادر کا پرانا کجاوہ۔ اسی پر اپنی پلٹن کا شنگرفی رنگ کا صافہ باندھے، سینے پر تمغے سجائے صبح سے شام تک بیٹھے ہلتے رہتے۔ ایک دن ہل ہل کر جنگ بہادر کے کارنامے بیان کر رہے تھے اور میڈل جھن جھن کر رہے تھے کہ دل کا دورہ پڑا۔ کجاوے پر ہی طائرِ روح قفسِ عنصری سے پرواز کر کے اپنے عمودی سفر پر روانہ ہو گیا۔ دمِ واپسیں لبوں پر مسکراہٹ اور جنگ بہادر کا نام۔ معاف کیجیے، یہ سب آپ ہی کے لیے ہوئے اسنیپ شاٹس ہیں۔ بندہ پرور! آپ بھی تو اپنے کجاوے سے نیچے نہیں اُترتے۔ نہ اُتریں مگر یہ کجاوہ خاکسار کی پیٹھ پر رکھا ہوا ہے۔ صاحب، آپ گھوڑے کی قدر کیا جانیں۔ آپ تو یہ بھی نہیں بتا سکتے کہ سمندِ سیاہ زانو کس چڑیا کا نام ہے۔ خچر کا ‘کراس‘ کیسے ہوتا ہے؟ کھریرا کس شکل کا ہوتا ہے؟ کنوتیاں کہاں ہوتی ہیں؟ بیل کے آر کہاں چبھوئی جاتی ہے؟ چلغوزہ کس زبان کا لفظ ہے؟

آخری دو سوال کلیدی اور فیصلہ کن تھے۔ اس لیے کہ ان سے پتا چلتا تھا کہ بحث کس نازک مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ یہ کج بحثی ہمیں اس لیے اور بھی ناگوار گزری کہ ہمیں ایک بھی سوال کا جواب نہیں آتا تھا۔ وہ "اوکھے ” نہیں طبعاً بہت دھیمے اور میٹھے آدمی ہیں۔ لیکن جب وہ اسطرح پٹڑی سے اتر جائیں تو ہمیں دور تک کچے میں کھدیڑتے، گھسیٹتے لے جاتے ہیں۔ کہنے لگے ” جو شخص گھوڑے پر نہیں بیٹھا، وہ کبھی سیر چشم، غیوّر اور شیر دلیر نہیں ہو سکتا”۔ ٹھیک ہی کہتے ہوں گے۔ اس لیے کہ وہ خود بھی کبھی گھوڑے پر نہیں بیٹھے تھے۔

 

جنازے سے دُور رکھنا

 

انھیں ایک عرصے سے زندگی میں جو روحانی خلا محسوس ہو رہا تھا، وہ اس گھوڑے نے پر کر دیا۔ انہیں بڑی حیرت ہوتی تھی کہ اس کے بغیر اب تک کیسے بلکہ کاہے کو جی رہے تھے !

I wonder by my troth what thou and I did till we loved____Donne

اس گھوڑے سے ان کی شیفتگی اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ فٹن کا خیال چھوڑ کر سیٹھ کا تانگا بھی ساڑھے چار سو روپے میں خرید لیا، حالانکہ انھیں بالکل پسند نہیں تھا۔ بہت بڑا اور گنوارو تھا۔ لیکن کیا کیا جائے سارے کراچی میں ایک بھی فٹن نہیں تھی۔ سیٹھ گھوڑا اور تانگا ساتھ بیچنا چاہتا تھا۔ یہی نہیں اس نے دانے کی دو بوریوں، گھاس کے پانچ پولوں، گھوڑے کے فریم کیے ہوئے فوٹو، ہاضمے کے نمک، دوا اور تیل پلانے کی نال، کھریرے اور توبڑے کی قیمت ساڑھے انتیس روپے علیحدہ سے دھروا لی۔ وہ اس دھاندلی کو "پیکج ڈیل” کہتا تھا۔ گھوڑے کے بھی منہ مانگے دام دینے پڑے۔ گھوڑا اگر اپنے منہ سے دام مانگ سکتا تو یقیناً سیٹھ کے مانگے ہوئے داموں یعنی نو سو روپے سے کم ہی ہوتے۔ گھوڑے کی خاطر بشارت کو سیٹھ کا تکیہ کلام "کیا؟” اور "سالا” بھی برداشت کرنا پڑا۔ چکتا حساب کر کے جب انھوں نے لگام اپنے ہاتھ میں لی اور یہ یقین ہو گیا کہ اب دنیا کی کوئی طاقت ان سے ان کے خواب کی تعبیر نہیں چھیں سکتی تو انہوں نے سیٹھ سے پوچھا کہ آپ نے اتنا اچھا گھوڑا کیوں بیچ دیا؟ کوئی عیب ہے؟ اس نے جواب دیا "دو مہینے پہلے کی بات ہے، میں تانگے میں لارنس روڈ سے لی مارکیٹ جا رہا تھا۔ میونسپل ورک شاپ کے سامنے پہنچا ہوں گا کہ سامنے سے ایک سالا جنازہ آتا دکھلائی پڑا۔ کیا؟ کسی پولیس افسر کا تھا۔ گھوڑا آل آف اے سڈن بدک گیا۔ پر کندھا دینے والے اس سے بھی زیادہ بدکے۔ بے فضول ڈر کے بھاگ کھڑے ہوئے۔ کیا؟ بیچ سڑک کے جنازے کی مٹی خراب ہوئی۔ ہم سالا اُلو کی موافق بیٹھا دیکھتا پڑا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، بیکار بندھا کھا رہا ہے۔ دل سے اتر گیا۔ کیا؟ ویسے عیب کوئی نہیں۔ بس جنازے سے دور رکھنا اچھا۔ سلامالیکم”

"آپ نے یہ پہلے کیوں نہیں بتایا؟”

"تم نے پہلے کیوں نہیں پوچھا؟ سلامالیکم”

 

جگ میں چلے پَون کی چال

 

انہوں نے ایک کوچوان رحیم بخش نامی ملازم رکھ لی۔ تنخواہ منہ مانگی، یعنی پنتالیس روپے اور کھانا کپڑا۔ گھوڑا انہوں نے صرف رنگ، دانت اور گھنیری دُم دیکھ کر خریدا تھا۔ اور وہ ان حصوں سے اتنے مطمئن تھے کہ باقی ماندہ گھوڑے کی جانچ پڑتال ضروری نہیں سمجھی۔ کوچوان بھی کچھ اسی طرح رکھا۔ یعنی صرف زبان پر ریجھ کر۔ باتیں بنانے میں طاق تھا۔ گھوڑے جیسا چہرہ۔ ہنستا تو معلوم ہوتا گھوڑا ہنہنا رہا ہے۔ تیس سال سے گھوڑوں کی صحبت میں رہتے رہتے ان کی تمام عادتیں، عیب اور بدبوئیں اپنا لی تھیں۔ گھوڑے کی اگر دو ٹانگیں ہوتیں تو یقیناً اسیطرح چلتا، بچوں کو اکثر اپنا بایاں کان ہلا کر دکھاتا۔ فٹ بال کو ایڑی سے دولتی مارکر پیچھے کی طرف گول کرتا تو بچّے خوشی سے تالیاں بجاتے۔ گھوڑے کے چنے کی چوری کرتا تھا۔ بشارت کہتے تھے”‌یہ‌منحوس چوری چھپے گھاس بھی کھاتا ہے، ورنہ ایک گھوڑا اتنی گھاس کھا ہی نہیں سکتا۔ جبھی تو اس کے بال ابھی تک کالے ہیں۔ دیکھتے نہیں حرام خور تین عورتیں کر چکا ہے !”موضوع کچھ بھی ہو تمام تر گفتگو سائیسی اصطلاحوں میں کرتا اور رات کو چابک لے کر سوتا۔ دو میل کے دائرے میں کہیں بھی گھوڑا یا گھوڑی ہو، وہ فوراً بُو پا لیتا اور اس کے نتھنے پھڑکنے لگتے۔ راستے میں کوئی خوبصورت گھوڑی نظر آ جائے تو وہیں رک جاتا اور آنکھ مار کے تانگے والے سے اس کی عمر پوچھتا۔ پھر اپنے گھوڑے کا چرمی چشم بند اٹھا تے ہوئے کہتا”پیارے ! تو بھی جلوہ دیکھ لے۔ کیا یاد کرے گا!”اور پنکج ملک کی آواز، اپنی لے اور گھوڑے کی ٹاپ کی تال پر”جگ میں چلے پون کی چال”گاتا ہوا آگے بڑھ جاتا۔ مرزا کہتے تھے یہ شخص پچھلے جنم میں گھوڑا تھا اور اگلے جنم میں بھی گھوڑا ہی ہو گا۔ یہ سعادت صرف مہاتماؤں اور رشیوں منیوں کو ہی حاصل ہوتی ہے کہ جو وہ پچھلے جنم میں تھے، اگلے میں بھی وہی ہوں۔ ورنہ ہما شما کی تو ایک ہی دفعہ میں جون پلٹ جاتی ہے۔

 

دست بدیوار واں گیا

 

گھوڑے تانگے کا افتتاح کہیے، مہورت کہیے، breaking ۔ in کہیے ۔۔۔ اس کی رسم بشارت کے والد نے انجام دی۔ ستر کے پیٹے بلکہ لپیٹے میں آنے کے بعد  مستقل بیمار رہنے لگے تھے۔ کراچی آنے کے بعد  انھوں نے بہت ہاتھ پاؤں مارے، لیکن نہ کوئی مکان اور جائداد الاٹ کرا سکے، نہ کوئی ڈھنگ کی بزنس شروع کر پائے۔ بنیادی طور پر وہ بہت سیدھے آدمی تھے۔ بدلے ہوئے حالات میں بھی وہ اپنے بندھے ٹکے اصولوں اور آؤٹ آف ڈیٹ طرزِ زندگی میں تبدیلی پیدا کرنے کو سراسر بدمعاشی گر دانتے تھے۔ چنانچہ ناکامی سے دل گرفتہ یا شرمسار ہونے کی بجائے ایک گونہ افتخار اور طمانیت محسوس کرتے۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو زندگی میں ناکام ہونے کو اپنی نیکی اور راست بازی کی سب سے روشن دلیل سمجھتے تھے۔ بے حد حساس، کم آمیز اور خود دار انسان تھے۔ کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا تھا۔ پامسٹ کے سامنے بھی نہیں۔ اب یہ بھی کیا۔ خوشامد سے کبھی زبان کو آلودہ نہیں کیا تھا۔ یہ قسم بھی ٹوٹی مگر کار بر آری نہ ہونا تھی، نہ ہوئی۔ بقول مرزا عبد الودود بیگ، جب غیّور اور با اصول آدمی حتی المقدور دھکے کھانے کے بعد  ” ڈی موریلائز” ہو کر کامیاب لوگوں کے ہتھکنڈے اپنانے کی بھونڈی کوشش کرتا ہے تو رہی سہی بات اور بگڑ جاتی ہے۔ یکایک ان پر فالج کا حملہ ہوا جسم کا بایاں حصہ مفلوج ہو گیا۔ ذیابطیس، الرجی، پارکنسن کا عارضہ اور اللہ جانے کیا کیا لاحق ہو گیا۔ کچھ نے کہا ان کی مجروح انّا نے بیماریوں میں پناہ تلاش کر لی ہے۔ خود تندرست نہیں ہونا چاہتے کہ پھر کوئی ترس نہیں کھائے گا۔ اب انہیں اپنی ناکامیوں کا ملال نہیں تھا جتنا کہ عمر بھر کی وضع داری ہاتھ سے چھوٹنے کا قلق۔ لوگ آ آ کر انہیں حوصلہ دلاتے اور کامیاب ہونے کی ترکیبیں سجھاتے تو ان کے آنسو رواں ہو جاتے۔

تم تو کرو ہو صاحبی بندے میں کچھ رہا نہیں

(میر کی مراد صاحبی سے "صاحب پن” نہیں بلکہ ناز و غمزہ اور تغافلِ معشوقانہ ہے۔ )

سُبکی، بے وقری اور ذلت کی سب سے ذلیل صورت یہ ہے کہ آدمی کود اپنی نظر میں بے وقعت و بے توقیر ہو جائے۔ سو وہ اس جہنم سے گزرے :

جانا نہ تھا جہاں سو بار واں گیا

ضعفِ قویٰ سے دست بدیوار واں گیا

محتاج ہو کے ناں کا طلب گار واں گیا

چارہ نہ دیکھا مضطر و لاچار واں گیا

اس جانِ ناتواں پہ کیا صبر اختیار

در پر ہر اک دنّی کے سماجت مِری گئی

نا لائقوں سے ملتے لیاقت مِری گئی

کیا مفت ہائے شانِ شرافت مِری گئی

ایسا پھرایا اس نے کہ طاقت مِری گئی

مشہور شہر اب ہوں سبک سار و بے وقار

بشارت بیان کرتے ہیں کہ”باوا جب دست بد دیوار، والا مصرع پڑھتے تو ہَوا میں دائیں ہاتھ سے دیوار پکڑ پکڑ کر چلنے کی تصویر سی کھینچ دیتے۔ بایاں بے جان ہاتھ لٹکا الگ اپنی با تصویر کہانی سناتا۔ لیکن بے کسی اور بے بسی کی تصویر کھینچنے کے لیے انھیں کچھ زیادہ کاوش کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ وہ ساری عمر داغ کی غزلوں پر سر دھنا کیے۔ انھوں نے کبھی کسی طوائف کو فانی یا میر کی غزل گاتے نہیں سنا۔ دراصل ان دنوں محفلِ رقص و سرود میں کسی شعلہ رو، شعلہ گُلو سے فانی یا میر کی غزل گوانا ایسا ہی تھا جیسے شراب میں برابر کا نیبو کا رس نچوڑ کر پینا پلانا! گستاخی معاف۔ ایسی مرد افگن پینے کے بعد  تو آدمی صرف طبلہ بجانے کے قابل رہ جئے گا! تو صاحب، باوا ساری عمر فانی اور میر سے نفور رہے۔ اب جو پناہ ملی تو انھیں کے ابیات میں ملی۔ وہ قوی اور بہادر آدمی تھے۔ میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ کبھی ان کو روتے ہوئے دیکھوں گا۔ مگر دیکھا۔ ان آنکھوں سے اکثر۔ ”

کراچی میں ان کا آدھا وقت تو یارانِ رفتہ کی یاد میں گزرتا تھا۔ بقیہ آدھا یارانِ از کارِ رفتہ ضائع کر دیتے تھے۔

 

الٰہ دین ہشتم

 

بزرگوار کے امراض نہ صرف متعدد تھے، بلکہ متعدّی بھی۔ ان میں سب سے موذی مرض بڑھاپا تھا۔ ان کا ایک داماد ولایت سے سرجری میں تازہ تازہ ایف آر سی ایس کر کے آیا تھا۔ اس نے اپنی سسرال میں کسی کا اپنڈکس سلامت نہ چھوڑا۔ کسی کی آنکھ میں بھی تکلیف ہوتی تو اس کا اپنڈکس نکال دیتا تھا۔ حیرت اس پر ہوتی کہ آنکھ کی تکلیف جاتی رہتی تھی۔ بزرگوار حالاں کہ تمام عمر دردِ شکم میں مبتلا رہے، لیکن اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر حلفیہ کہتے تھے کہ میں نے آج تک کسی ڈاکٹر کو اپنے اپنڈکس پر ہاتھ نہیں ڈالنے دیا۔ ایک مدت سے صاحبِ فراش تھے لیکن ان کی معذوری ابھی نا مکمل تھی۔ مطلب یہ کہ سہارے سے چل پھر سکتے تھے۔ انھوں نے رسمِ افتتاح اس طرح ادا کی کہ اپنے کمرے کے دروازے میں جس سے نکلے انہیں کئی مہینے ہو گئے تھے، ایک سرخ ربن بندھوا کر اپنے ڈانواں ڈول ہاتھ سے قینچی سے کاٹی۔ تالی بجانے والے بچوں میں لڈو تقسیم کرنے کے بعد  دو رکعت نمازِ شکرانہ ادا کی۔ پھر گھوڑے کو اپنے ہاتھ سے گیندے کا ہار پہنایا۔ اس کی پیشانی پر ایک بڑی سی بھونری تھی۔ زعفران میں انگلی ڈبو کر اس پر، اللہ، لکھا اور کچھ پڑھ کر دَم کیا۔ چاروں سموں اور دونوں پہیوں پر شگون کے لیے سیندور لگا کر دعا دی کہ جیتے رہو سدا سرپٹ چلتے رہو۔ رحیم بخش کوچوان کا منہ کھلوا کر اس میں سالم لڈو فٹ کیا۔ خود ورقِ نقرہ میں لپٹی ہوئی گلوری کلے میں دبائی۔ پرانی کشمیری شال اوڑھ لپیٹ کر تانگے کی پچھلی سیٹ پر بیٹھے اور اگلی سیٹ پر اپنا بیس سال پرانا ہارمونیم رکھوا کر اس کی مرمت کرانے ماسٹر باقر علی کی دکان روانہ ہو گئے۔

گھوڑے کا نام بدل کر بزرگوار نے بلبن رکھا۔ کوچوان سے کہا ہمیں تمہارا نام رحیم بخش بالکل پسند نہیں۔ ہم تمہیں الٰہ دین کہ کر پکاریں گے۔ جب سے ان کا حافظہ خراب ہوا تھا وہ ہر نوکر کو الہ دین کہ کر بلاتے تھے یہ الہ دین ہشتم تھا۔ اس کا پیش رَو الہ دین ہفتم کثیر العیال تھا۔ حقہ کی تمباکو اور روٹیوں کی چوری میں نکالا گیا۔ گرم روٹیاں پیٹ پر باندھ کر لے جا رہا تھا۔ چال سے پکڑا گیا۔ بزرگوار موجودہ الہ دین یعنی رحیم بخش کو عام طور پر الہ دین ہی کہتے تھے۔ البتہ کوئی خاص کام مثلاً پیر دبوانے ہوں یا بے وقت چلم بھروانی ہو یا محض پیار اور شفقت جتانی ہو تو الہ دین میاں کہ کر پکارتے۔ لیکن گالی دینی ہو تو اصل نام لے کر گالی دیتے تھے۔

 

ہاف ماسٹ چابک

 

دوسرے دن سے تانگا صبح بچّوں کو اسکول لے جانے لگا۔ اس کے بعد  بشارت کو دکان چھوڑنے جاتا۔ تین دن یہی معمول رہا۔ چوتھے دن کوچوان بچوں کو اسکول چھوڑ کر واپس آیا تو بیحد پریشان تھا۔ گھوڑا پھاٹک سے باندھ کر سیدھا بشارت کے پاس آیا۔ ہاتھ میں چابک اس طرح اٹھائے ہوئے تھا جیسے زمانہ قدیم میں عَلم بردار جَنگی عَلم لے کر چلتا تھا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے، جس طرح نیویارک کے اسٹیچو آف لبرٹی نے اپنے ہاتھ کو آخری سنٹی میٹر تک اونچا کر کے مشعلِ آزادی بلند کر رکھی ہے۔ آگے چل کر معلوم ہوا کوئی بجوگ پڑ جائے یا منحوس خبر سنانی ہو تو وہ اسی طرح چابک کا عَلم بلند کر کے آتا تھا۔ چابک کو عمودی حالت میں دیکھ کر بشارت ایسے سراسیمہ ہوتے جیسے ہیملٹ ghost دیکھ کر ہوتا تھا۔

Here it cometh, my lord

بشارت کے قریب آ کر اس نے چابک کو”ہاف ماسٹ”کیا اور پندرہ روپے طلب کیے۔ کہنے لگا "اسکول کی گلی کے نکڑ پہ اچانک چالان ہو گیا۔ گھوڑے کے بائیں پاؤں میں لنگ ہے! اسکول سے نکلا ہی تھا کہ، بے رحمی والوں[1] نے دھر لیا۔ بڑی منتوں سے پندرہ روپے دے کر گھوڑا چھڑایا ہے۔ ورنہ اس کے ساتھ سرکار بھی بے فضول کھچے کھچے پھرتے۔ میری آنکھوں کے سامنے، بے رحمی والے، ایک گدھا گاڑی کے مالک و ہنکال کے تھانے لے گئے۔ اس کے گدھے کا لنگ تو اپنے گھوڑے کا پاسنگ بھی نہیں۔” کوچوان نے گدھے کے خفیف سے لنگ کا ذکر اتنی حقارت سے کیا اور اپنے گھوڑے کے لنگ کی شدّت اور برتری بیان کرنے میں اتنے فخر اور غلو سے کام لیا کہ بشارت نے غصّے سے کانپتے ہوئے ہاتھ سے پندرہ روپے دے کر اسے خاموش کیا۔

 

شیر کی نیت اور بکری کی عقل میں فتور

 

اسی وقت ایک سلوتری کو بلا کر گھوڑے کو دکھایا۔ اس نے بائیں نلی ہاتھ سے سونتی تو گھوڑا چمکا۔ تشخیص ہوئی کہ پرانا لنگ ہے۔ سارا گھپلا اب کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگا۔ غالباً کیا یقیناً، اسی وجہ سے گھوڑا ریس سے ڈِس کوالی فائی ہوا ہو گا۔ ایسے گھوڑے کو تو اسی وقت گولی ماردی جاتی ہے جو اس کے حق میں تانگے میں ذلیل و خوار ہونے سے بدرجہا بہتر ہوتی ہے۔ تاہم سلوتری نے امید دلائی کہ لنگ اس صورت میں دور ہو سکتا ہے کہ چھ مہینے تک حواصل کے تیل کی مالش کرائیں۔ مالش کی اجرت پانچ روپے یومیہ! یعنی ڈیڑھ سو روپے ماہوار۔ چھ مہینے کے نو سو روپے ہوئے۔ نو سو کا گھوڑا، نو سو کی مالش۔ گویا ٹاٹ کی گدڑی میں کمخواب کا پیوند! ابھی کچھ دن ہوئے انہوں نے اپنے والد کی مالش اور پیر دبانے کے لیے ایک شخص کو اسّی روپے ماہوار پر رکھا تھا۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ان کی کمائی کا نصف حصہ تو انکم ٹیکس والے دھروا لیں گے اور ایک تہائی چمپی مالش والے کھا جائیں گے۔ حلال کی کمائی کے بارے انھوں نے کبھی نہیں سنا تھا کہ وہ اس تناسب سے غیر مستحقین میں تقسیم ہوتی ہے۔ چار بجے تانگا جتوا کر سیٹھ سے نمٹنے کے لیے روانہ ہو گئے۔ تانگے میں بیٹھنے سے پہلے انھوں نے گہرے رنگ کی دھوپ کی عینک لگا لی، تاکہ سخت بات کہنے میں حجاب محسوس نہ ہو اور چہرہ پر ایک پُراَسرار خونخواری کا ایکسپریشن آ جائے۔ آدھا راستہ ہی طے کیا ہو گا کہ ایک شخص نے بم[2] پکڑ کر تانگا روک لیا۔ کہنے لگا، آپ کا گھوڑا بری طرح لنگڑا رہا ہے۔ چالان ہو گا۔ بشارت ہک دک رہ گئے۔ معلوم ہوا”بے رحمی والے”آج کل بہت سختی کر رہے ہیں۔ ہر موڑ پر ایک انسپکٹر گھات میں کھڑا ہے۔ قدم قدم پر بات بے بات چالان ہو رہا ہے۔ وہ کسی طرح نہ مانا تو بشارت نے قانونی موشگافی کی، آج صبح ہی اس کا چالان ہو چکا ہے۔ سات گھنٹے میں ایک ہی جرم میں دو چالان نہیں ہو سکتے۔ انسپکٹر نے یہ بات بھی فردِ جرم میں ٹانک لی اور کہا کہ اس سے تو جرم کی نوعیت اور سنگین ہو گئی ہے۔ کوئی جائے فرار نظر نہ آئی تو بشارت نے کہا "اچھا بابا! تمھی سچے سہی۔ دس روپے پہ معاملہ رفع دفع کرو۔ برانڈ  نیو گھوڑا ہے۔ خریدے ہوئے تیسرا دن ہے۔” یہ سنتے ہی وہ شخص تو آگ بگولا ہو گیا۔ کہنے لگا۔ "بڑے صاب گاگلز کے باوجود آپ بھلے آدمی معلوم ہوتے ہیں۔ مگر آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ پیسے سے لنگڑا گھوڑا تو خرید سکتے ہیں۔ آدمی نہیں خرید سکتے۔” چالان ہو گیا۔

اسٹیل ری رولنگ مل پہنچے تو سیٹھ گھر جانے کی تیاری کر رہا تھا۔ آج اس کے یہاں ایک بزرگ کی نیاز میں ڈیڑھ دو سو فقیروں کو پلاؤ کھلایا جا رہا تھا۔ اس کا عقیدہ تھا کہ اس سے مہینے بھر کی کمائی پاک ہو جاتی ہے۔ اور یہ laundering (شست و شو) کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔ ایک بینک میں پندرہ بیس برس تک یہ دستور رہا کہ ہر برانچ میں روزانہ جتنے نئے اکاؤنٹ کھلتے شام کو اتنے ہی فقیر کھلائے جاتے۔ یہ معلوم نہ ہو سکا کہ یہ کھانا اکاؤنٹ کھلنے کی خوشی میں کھلایا جاتا تھا یا سودی کاروبار میں بڑھوتری کا کفارہ تھا۔ ہمیں ایک مرتبہ ملتان جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں اس دن بنک کے مالکان میں سے ایک بہت سینئر سیٹھ انسپکشن پر آئے ہوئے تھے۔ شام کو برانچ میں مساوات کا یہ ایمان افروز منظر دیکھ کر ہماری خوشی کی انتہا نہ رہی کہ سیٹھ صاحب پندرہ بیس فقیروں کیساتھ زمین پر اکڑوں بیٹھے پلاؤ کھا رہے ہیں اور فرداً فرداً ہر فقیر اور اس کے اہل و عیال کی عدم خیریت کی تفصیلات دریافت کر رہے ہیں۔ لیکن مرزا عبد الودود بیگ کو غبارے پنکچر کرنے کی بڑی بری عادت ہے۔ انھوں نے یہ کہ کر ہماری ساری خوشی کر کری کر دی کہ جب شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ سے پانی پینے لگیں تو سمجھ لو کہ شیر کی نیت اور بکری کی عقل میں فتور ہے۔ محمود و ایاز کا ایک ہی صف میں بیٹھ کر پلاؤ کھانا بھی”آڈٹ اینڈ انسپکشن”کا حصہ ہے۔ سیٹھ صاحب دراصل یہ تحقیق کرنا چاہتے ہیں کہ کھانے والے اصلی فقیر ہیں یا منیجر نے اپنے یاروں، رشتے داروں کی پنگت[3] بٹھا دی ہے۔

ہم کہاں سے کہاں آ گئے۔ ذکر اسٹیل مل والے سیٹھ کا تھا جو سات آٹھ سال سے کالے دھن کو ماہ بماہ نیاز فاتحہ کے لوبان کی دھونی سے پاک اور”وہائٹ”کرتا رہتا تھا۔ نئی جادوئی چھڑی[4] ایجاد ہونے میں ابھی کافی دیر تھی کہ ہمارے ذہین اور طبّاع وزیرِ خالی خزانہ اور ماہرینِ اقتصادیات تو اس زمانے میں میٹرک کے امتحان کی تیاری میں لگے ہوں گے۔ لہٰذا سیاہ کو سفید کرنے کا شعبدہ ہنوز پیر فقیر، چوسرباز، سفلی عمال اور باورچی خانے پر سفیدی کرنے والے انجام دیتے تھے۔

 

مہاتما بدھ بہاری تھے !

 

سیٹھ نے گھوڑے کے لنگ سے قطعی لا علمی کا اظہار کیا۔ الٹا سر ہو گیا کہ”تم گھوڑے کو دیکھنے ہاف ڈزن ٹائم تو آئے ہو گے۔ گھوڑا تلک تم کو پچھاننے لگا تھا۔ دس دفعہ گھوڑے کے دانت گنے۔ کیا؟ تم ایک دفعہ اس کے لیے نان خطائی بھی لائے تم نے ہم کو یہاں تلک بولا کہ گھوڑا نو ہاتھ لمبا ہے۔ اس سمے تمہیں یہ نو گزا دکھلائی پڑتا تھا۔ آج چار پانچ دن بعد  گھوڑے کے گاگلز خود پہن کے بہتان طوفان لگانے آئے ہو۔ کیا؟تین دن میں تو قبر میں مردے کا بھی حساب کتاب بروبر خلاص ہو جاتا ہے۔ اس ٹیم تم کو مال میں یہ ڈیفکٹ دکھلائی نئیں پڑا۔ تانگے میں جوت کر غریب خانے لے گئے تب بھی نجر نئیں آیا‘‘۔ بشارت سیٹھ کے سامنے اپنے گھر کو اتنی دفعہ غریب خانہ کہہ چکے تھے کہ وہ یہ سمجھا کہ یہ ان کے گھر کا نام ہے۔

بشارت نے کچھ کہنا چاہا تو قطع کلام کرتے ہوئے بولا”ارے بابا! گھوڑے کا کوئی پارٹ کوئی پُرزہ ایسا نہیں جس پہ تم نے دس دس دفعہ ہاتھ نئیں پھیرا ہو۔ کیا؟ تم بزنس مین ہو کے ایسا کچی بات منہ سے نکالیں گا تو ہم کدھر کو جائیں گا؟ بولو نی! ہلکٹ مانس (گھٹیا آدمی) کے موافق بات نئیں کرو۔ کیا؟”سیٹھ بری الذمہ ہو گیا۔

بشارت نے زچ ہو کر کہا”حد تو یہ کہ سودا کرنے سے پہلے یہ بھی نہ بتایا کہ گھوڑا جنازہ الٹ چکا ہے۔ آپ خود کو مسلمان اور پاکستانی کہتے ہیں !”

(سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے) "تو کیا تم کو بدھسٹ دکھلائی پڑتا ہوں؟ ہم نے جوناگڑھ کاٹھیاواڑ سے مائی گریٹ کیا ہے۔ کیا؟ اپنے پاس بروبر سندھ کا ڈومیسائل ہے۔ مہاتما بدھ تو بہاری تھا! (اپنے منہ میں پان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) میرے منہ میں رزق ہے۔ تم بھی بچوں کی قسم کھا کر بولو۔ جب تم نے پوچھا گھوڑا کائے کو بیچ رہے ہو، ہم نے بھی پھی الپھور (فی الفور) بول دیا۔ سودا پکا کرنے سے پہلے پوچھتے تو ہم پہلے بول دیتے۔ تم لکڑی بیچتے ہو۔ تو کیا گراہک کو لکڑی کی ہر گانٹھ، ہر داغ پر انگلی رکھ رکھ کے بتاتے ہو کہ پہلے اسے دیکھو؟ ہم سالا اپنا بنج بیوپار کرے کہ تمھارے کو گھوڑے کی بیا گراپھی (بایو گرافی) بتائے۔ فادر میرے کو ہمیش بولتا تھا کہ گراہک 420 ہو تو پہلے دیکھو بھالو۔ پھر سودے کے ٹیم بولو کم تولو زیادہ۔ پر تمھارے اوپر تو کھولو، ابھی کھولو! کی دھن سوار تھی۔ تمھارے منہ میں پیسے بج رہے تھے۔ گجراتی میں کہاوت ہے کہ پیسا تو شیرنی کا دودھ ہے ! اسے حاصل کرنا اور ہجم کرنا دونوں بروبر مسکل ہیں۔ پر تم تو سالا شیر کو ہی دوہنا مانگتا ہے۔ ہم کروڑوں کا بزنس کریلا ہے۔ آج تلک زبان دے کر نئیں پھریلا۔ اچھا! تم قرآن اٹھا کے بول دو کہ تم گھوڑا خریدتے ٹیم پئے لا (پئے ہوئے ) تھا تو ہم فوراً ایک ایک پائی ریپھنڈ (رفنڈ) کر دیں گا۔”

بشارت نے گڑگڑاتے ہوئے درخواست کی”سیٹھ، سو ڈیڑھ سو کم میں گھوڑا واپس لے لو۔ میں عیال دار آدمی ہوں۔ تا عمر احسان مند رہوں گا۔”

سیٹھ آپے سے باہر ہو گیا۔” ارے بابا خچر کے موافق ہم سے اڑی نئیں کرو۔ ہم سے ایک دم کڑک اردو میں ڈائیلاگ مت بولو۔ تم پھلم کے ولین کے موافق گاگلز لگا کے ادھر کائے کو تڑی دیتا پڑا ہے۔ بھائی صاحب! تم پرھیلا مانس ہو۔ کوئی پھَڈے باز موالی، ملباری نئیں جو شریپھوں سے دادا گیری کرے، تم نے سائن بورڈ نئیں پڑھا۔ بابا! یہ ری رولنگ مل ہے۔ اشٹیل ری رولنگ مل۔ ادھر گھوڑوں کا دھندا نئیں ہوتا۔ کیا؟ کل کو تم بولیں گا کہ تانگہ بھی واپس لے لو۔ ہم سالا اکھا (تمام) عمر ادھر بیٹھا گھوڑے تانگے کا دھندا کریں گا تو ہمارا فیملی پریوار کیا گھر میں بیٹھا قوالی کریں گا؟ بھائی صاحب! اپن کا گھر تو گھر ہستیوں کا گھر ہے۔ کسی بجرگ کا مزار نئیں کہ بائی لوگ گج گج بھر لمبے بال کھول کے دھمال ڈال دیں۔ دَھمادَھم مست کلندر!”

بشارت نے تانگا اسٹیل ری رولنگ مل کے باہر کھڑا کر دیا۔ اور خود ایک تھڑے پر پیر لٹکائے انتظار کرنے لگے کہ اندھیرا ذرا گہرا ہو جائے تو واپس جائیں تاکہ نو گھنٹے میں تیسری مرتبہ چالان نہ ہو۔ غصے سے ابھی تک ان کے کان کی لَویں تپ رہی تھیں اور حلق میں کیکٹس اگ رہے تھے۔ بلبن گولڈ مہر کے پیڑ سے بندھا سر جھکائے کھڑا تھا۔ انھوں نے پان کی دکان سے ایک لیمونڈ کی گولی والی بوتل خریدی۔ اور ایک ہی گھونٹ میں انھیں اندازہ ہو گیا کہ ان کے انتظار میں یہ بوتل کئی مہینوں سے دھوپ میں تپ رہی تھی۔ پھر یک لخت یاد آیا کہ اس افراتفری میں آج دوپہر بلبن کو چارہ اور پانی بھی نہیں ملا۔ انھوں نے بوتل ریت پر انڈیل دی اور گاگلز بھی اتار دیے۔

 

"باوجود دھر لیا”

 

تانگا لشتم پشتم چلتا رہا۔ رحیم بخش اس کے بعد  تین چار دفعہ اور دھر لیا گیا۔ لیکن بات سات آٹھ روپے پر ٹل گئی۔ دس پندرہ دن کا بھلاوہ دے کر ایک دن پھر چابک بلند کیے آیا۔ کہنے لگا”سرکار! باوجود دھر لیا۔ ہر چند  کہ آج میرے پاس نانواں (روپیہ) نہیں تھا، مگر بہت منہ پھاڑ ریا ہے۔ پچیس مانگتا ہے۔ چنانچہ تانگا اس کے پاس گروی رکھ کے آریا ہوں۔ اگرچہ بچے تانگے میں بمعہ گھوڑے کے ہیں۔ آپ ہر دفعہ سمجھتے ہیں کہ رحیم بخش ڈریامہ کھیل ریا ہے۔ چنانچہ خود چل کے چھڑا لیجیے۔ اگرچہ زحمت۔۔۔۔۔” بشارت اس وقت اکڑوں بیٹھے ایک دغیلے تختے کی گرہ کا معائنہ کر رہے تھے۔ یک لخت بھڑک کے اٹھ کھڑے ہوئے۔ اور تو کسی پر بس چلا نہیں، بری خبر لانے والے کے ہاتھ سے چابک چھین کر اسے تڑ سے زمین پر مارتے ہوئے کہنے لگے "ہر چند  کے بچے ! اگر تو نے آئندہ میرے سامنے باوجود، اگرچہ اور چنانچہ کیا تو اسی چابک سے چمڑی ادھیڑ دون گا۔”

دورانِ سر زنش رحیم بخش نے یکایک اپنا بایاں کان ہلایا تو بشارت کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ غصے کو لاحول اور ایک گلاس پانی سے بجھا کر، چابک ہاتھ میں لیے وہ رحیم بخش کے ساتھ ہو لیے کہ آج جھوٹے کو گھر تک پہنچا کر دم لیں گے۔ جائے واردات پر پہنچے تو دیکھا کہ ایک "بے رحمی والا” سچ مچ گھوڑے کی راس تھامے کھڑا ہے۔ بچے گلے میں تھرمس اور بستے لٹکائے، دھوپ میں سہمے کھڑے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر ان کے خون کی کھولن یکبارگی نقطہ انجماد پر اتر آئی۔ گلے میں اون کا گولا سا اٹکا ہوا محسوس ہونے لگا۔ وہ چابک کا سہارا لے کر کھڑے ہو گئے۔ "بے رحمی والے” کو علیحدہ لے جا کر انھوں نے رحم کی اپیل کی اور اپنے مخصوص دکاندارانہ انداز میں اس پہلو پر بھی توجہ دلائی کہ ہم تو آپ کے مستقل’ کلائنٹ‘ ہیں۔ اٹھاؤ چولھا پاوندے نہیں کہ آج ہیں، کل نہیں۔ اس نے بیس روپے کا ڈسکاؤنٹ دے کر صرف پانچ روپے میں معاملہ رفع دفع کر دیا۔

اسی اثنا میں”بے رحمی کا ہفتہ”جو اکیس دن تک منایا گیا، شروع ہو گیا۔ جب تک وہ بلا خیر و خوبی ختم نہ ہو گیا، گھوڑا، سلوتری اور رحیم بخش تینوں بالترتیب بندھے، کھڑے اور چھٹے کھاتے رہے۔ رحیم بخش کو گھوڑے کے ساتھ بریکٹ کرنا یوں بھی ضروری ہو کہ اس کی خوراک گھوڑے سے کسی طرح کم نہ تھی۔

گھوڑے کو تو خیر تیسرے چوتھے بد ہضمی ہوتی رہتی تھی۔ لیکن رحیم بخش کا نظام ہضم نہ صرف ہر قسم کے بیکٹیریا سے بلکہ مقدار سے بھی immune ہو گیا تھا۔ نئے pet، نئی نویلی دلہن اور لاڈلے بچے کے ساتھ شفقت کا اظہار کرنے کا ہمارے ہاں لے دے کے ایک ہی طریقہ ہے۔ وہ یہ کہ ہر شخص انھیں کچھ نہ کچھ کھلا کر اوور فیڈ کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ گھوڑے کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ نتیجتاً اسے بار بار رچمنڈ کرافورڈ ہاسپٹل (جانوروں کا اسپتال) بھیجنا پڑتا۔ بشارت کا بیان ہے کہ ایک دن شام کو انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ رحیم بخش گھوڑے کے جلاب کا سارا پاؤڈر پھنکے مار کر کھا گیا۔

"ہفتہ” ختم ہوتے ہی بچّوں کو پھر تانگے پر بھیجنا شروع کر دیا۔ ان کی اپنی دکان زیادہ دور نہیں تھی، لہٰذا پیدل ہی چلے جاتے تھے۔ تین ہفتے خیریت سے گزرے۔ مطلب یہ کہ گھوڑے کا لنگ بڑھ گیا، مگر چالانوں کا سلسلہ بند ہو گیا۔ چوتھا ہفتہ شروع ہی ہوا تھا کہ رحیم بخش چابک کا عَلم اُٹھائے، آہ و بُکا کرتا، بائیں ٹانگ سے لنگڑاتا آیا۔ گھوڑے کے دیکھا دیکھی اب وہ بھی بائیں ٹانگ سے لنگڑانے لگا تھا۔ کہنے لگا "سرکار! آج پھر دھر لیا! آگاہ کیے بغیر نا گاہ دھر لیا! چناں چہ بیس روپے بھر کے آ رہا ہوں۔ اگرچہ میں نے بہتیرے ٹھڈی میں ہاتھ دیے۔” بشارت نے بادل نخواستہ بیس روپے اس کے منہ پر مارے۔ اب جو تابڑ توڑ چالان ہونے شروع ہوئے تو چوٹ سہلانے تک کی مہلت نہیں ملی۔ انھوں نے رحیم بخش کو سختی سے ہدایت کی کہ چھپ چھپا کر راستے بدل بدل کر، گلیوں گلیوں جایا کرے۔ اس وضع احتیاط میں اس نے اپنی طرف سے یہ اضافہ اور کر لیا کہ خود بھی چھپ کر یعنی سر سے پیر تک ایک لال کھیس اوڑھ کے تانگا چلانے لگا۔ گھونگھٹ میں سے صرف اس کا سگریٹ باہر نکلا رہتا تھا۔ لیکن اس سے واقعی بڑا فرق پڑا۔ وہ اس طرح کہ انسپکٹر اب گھوڑے کو پہچانے بغیر ہی، دور سے صرف لال کھیس دیکھ کر چالان کر دیتا تھا۔

 

بزرگوار کی حکمتِ عملیات

 

رشوت اور مالش کی مجموعی رقم اب گھوڑے کی قیمت اور ان کی قوتِ برداشت سے تجاوز کر چکی تھی۔ پکڑ دھکڑ کا سلسہ کسی طرح ختم ہونے میں نہیں آتا تھا۔ عاجز آ کر انھوں نے رحیم بخش کی زبانی انسپکٹر کو یہ تک کہلایا کہ تم میری دکان پر اُگاہی کے کام پر ملازم ہو جاؤ۔ موجودہ تنخواہ سے زیادہ دوں گا۔ اس نے کہلا بھیجا "سیٹھ کو سلام بولنا اور کہنا کہ ہم تین ہیں۔”

انھوں نے گھوڑا تانگا بیچنا چاہا تو کسی نے سو روپے بھی نہ لگائے۔ بالآخر اس پریشانی کا ذکر اپنے والدِ بزرگوار سے کیا۔ انھوں نے سارا احوال سن کر فرمایا "اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ ہم دعا کریں گے۔ تانگے میں جوتنے سے پہلے ایک گلاس دَم کیا ہوا دودھ پلا دیا کرو۔ اللہ نے چاہا تو لنگ جاتا رہے گا اور چالانوں کا سلسلہ بھی بند ہو جائے گا۔ ایک دفعہ وظیفے کا اثر تو دیکھو۔”

بزرگوار نے اسی وقت رحیم بخش سے بستر پر ہارمونیم منگوایا۔ وہ دھونکنی سے ہوا بھرتا رہا اور بزرگوار کانپتی، کپکپاتی آواز میں حمد گانے لگے۔

ترے ہاتھ میں ہے فنا بقا، تری شان جل جلا لہ،

تری شان جل جلا لہ،

آنکھ جہاں پڑتی وہاں انگلی نہیں پڑ رہی تھی۔ اور جس پردے پر انگلی پڑتی، اس پر پڑی ہی رہ جاتی۔ ایک مصرع گانے اور بجانے کے بعد  یہ کہہ کر لیٹ گئے کہ اس ہارمونیم کے کالے پردوں کے جوڑ جکڑ گئے ہیں۔ ماسٹر باقر علی نے خاک مرمّت کی ہے۔

دوسرے دن بزرگوار کی چارپائی ڈرائنگ روم میں آ گئی۔ اس لیے کہ یہی ایک ایسا کمرہ تھا جہاں گھوڑا علی الصبح اپنے ماتھے پر اللہ لکھوانے اور دَم کروانے کے لیے اندر لایا جا سکتا تھا۔ صبح تڑکے بزرگوار نے دو نفلوں کے بعد  عرقِ گلاب میں انگلی ڈبو کر گھوڑے کی پیشانی پر اللہ لکھا اور سُموں کو لوبان کی دھونی دی۔ کچھ دیر بعد  اس پر ساز کسا جانے لگا تو بشارت دوڑے دوڑے بزرگوار کے پاس آئے اور کہنے لگے گھوڑا دَم کا دودھ نہیں پی رہا۔ بزرگوار متوجہ ہوئے۔ پھر آنکھیں بند کر کے سوچ میں پڑ گئے۔ چند  لمحوں بعد  انھیں نیم وا کر کے فرمایا، کوئی مضائقہ نہیں۔ کوچوان کو پلا دو۔ گھوڑا وجع الاسنان[5] میں مبتلا ہے۔ اس کے بعد  یہ معمول بن گیا کہ دَم کا دودھ رحیم بخش نوشِ جان کرنے لگا۔ بظاہر ایسی کراہت سے پیتا جیسے اس زمانے میں یونانی دواؤں کے قدحے پیے جاتے تھے۔ یعنی ناک پکڑ کے منہ بنا بنا کے۔ اللہ شافعی! اللہ شافعی!(نعوذ باللہ) کہتا جاتا۔ دودھ کے لیے نہ جانے کہاں سے دھات کا بہت لمبا گلاس لے آیا جو اس کی ناف تک پہنچتا تھا۔ بزرگوار کی عملیاتی تدابیر کا اثر پہلے دن ظاہر ہو گیا۔ وہ اس طرح کہ اس دن چالان ایک داڑھی والے نے کیا! رحیم بخش اپنا لہراتا ہوا چابک ہاف ماسٹ کر کے کہنے لگا "سرکار! باوجود دھر لیا” پھر اس نے قدرے تفصیل سے بتایا کہ ایک داڑھی والا آج ہی جمشید روڈ کے حلقے سے تبدیل ہو کے آیا ہے۔ بڑا ہی رحم دل اور اللہ والا آدمی ہے۔ چناں چہ صرف ساڑھے تین روپے لیے۔ وہ بھی بطور چند ا۔ پڑوس میں ایک بیوہ کے بچے کے علاج کے لیے۔ آپ چاہیں تو چل کر ملاقات کر لیں مل کر بہت خوش ہوں گے۔ ہر وقت منہ ہی منہ میں وظیفہ پڑھتا رہتا ہے۔ اندھیری رات میں سجدے کے گٹے سے ایسی روشنی نکلتی ہے کہ سوئی پرو لو۔ (اپنے بازو سے تعویذ کھولتے ہوئے ) گھوڑے کے لیے یہ تعویذ دیا ہے۔

کہاں پچیس روپے، کہاں ساڑھے تین روپے! بزرگوار نے رشوت میں کمی کو اپنے وظیفے اور کشف و کرامات پر محمول کیا۔ اور فرمایا کہ تم دیکھتے جاؤ۔ انشاء اللہ چالیسویں دن "بے رحمی” کے انسپکٹر کو گھوڑے کی ٹانگ نظر آنی بند ہو جائے گی۔ بزرگوار کی چارپائی کے گرد اُن کا سازو سامان بھی ڈرائنگ روم میں قرینے سے سجا دیا گیا۔ دوائیں، بیڈ پین، حقہ، سلفچی، ہارمونیم، آغا حشر کے ڈرامے، مولانا آزاد کے "الہلال” کے مجلد فائل، انیما کے آلات اور کجن ایکٹرس کی تصویر۔ ڈرائنگ روم اب اس قابل نہیں رہا تھا کہ اس میں گھوڑے اور بزرگوار اور ہر دو کا فضلہ اٹھانے والی مہترانی کے علاوہ کوئی اور پانچ منٹ بھی ٹھیر سکے۔ بشارت کے دوستوں نے آنا چھوڑ دیا۔ لیکن وہ گھوڑے کی خاطر بزرگوار کو برداشت کر رہے تھے۔

 

ایک گھوڑا بھرے گا کتنے پیٹ؟

 

جس دن سے داڑھی والے مولانا تعینات ہوئے، رحیم بخش ہر چوتھے پانچویں دن آ کے سر پر کھڑا ہو جاتا۔” چند ہ دیجیے۔” لیکن ڈھائی تین روپے زیادہ سے زیادہ پانچ روپے میں آئی بلا ٹل جاتی۔ اس سے جرح کی تو معلوم ہوا کہ کراچی میں تانگے اب صرف اسی علاقے میں چلتے ہیں۔ تانگے والوں کا حال گھوڑوں سے بھی خستہ ہے۔ انھوں نے پولیس اور "بے رحمی والوں” کا برائے نام ماہانہ باندھ رکھا ہے جو اُن کی گزر بسر کے لیے بالکل نا کافی ہے۔ ادھر ننگے بھوکے گدھا گاڑی والے مکرانی سر پھاڑنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ زخمی گدھا، پسینے میں شرابور گدھا گاڑی والا اور پھٹے حالوں "بے رحمی” کا انسپکٹر۔۔۔۔۔۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ ان میں کون زیادہ خستہ اور مظلوم ہے۔ یہ تو ایسا ہی تھا کہ جیسے ایک سُوکھی بھُوکی جونک دوسری سُوکھی بھُوکی جونک کا خون پینا چاہے۔ نتیجہ یہ کہ”بے رحمی والے”پو پھٹے ہی اکلوتی موٹی اسامی یعنی ان کے تانگے کے انتظار میں گلی کی نکڑ پر کھڑے ہو جاتے اور اپنے پیسے کھرے کر کے چل دیتے۔ اکیلا گھوڑا سارے عملے کے بال بچّوں کے پیٹ پال رہا تھا۔ لیکن کرامت حسین (داڑھی والے مولانا کا یہی نام تھا) کا معاملہ قدرے مختلف تھا۔ وہ اپنے حلیے اور پھٹے حالوں سے اتنے مسکین لگتے تھے کہ محسوس ہوتا تھا گویا انھیں رشوت دینا کارِ ثواب ہے۔ اور وہ رشوت لے کر در حقیقت رشوت دینے والے کو داخلِ حسنات کر رہے ہیں۔ وہ رشوت مانگتے بھی خیرات ہی کی طرح تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان کا سارا رزق اس گھوڑے کی لنگڑی ٹانگ کے توسَل سے نازل ہوتا ہے۔ ایسے پھٹیچر رشوت لینے والے کے لیے ان کے دل میں نہ کوئی ہمدردی تھی نہ خوف۔

 

کتّوں کے چال چلن کی چوکیداری

 

احباب نے مشورہ دیا کہ گھوڑے کو رچمنڈ کرافورڈ ہاسپٹل میں انجکشن سے ٹھکانے لگوا دو۔ لیکن ان کا دل نہیں مانتا تھا۔ بزرگوار تو سنتے ہی روہانسے ہو گئے۔ کہنے لگے آج لنگڑے گھوڑے کی باری ہے، کل اپاہج باپ کی ہو گی۔ شریف گھرانوں میں آئی ہوئی دلہن اور جانور تو مر کر ہی نکلتے ہیں۔ وہ خود تین دلہنوں کے جنازے نکال چکے تھے، اس لیے گھوڑے کے بارے میں بھی ٹھیک ہی کہتے ہوں گے۔ رحیم بخش بھی گھوڑے کو ہلاک کرانے کے سخت خلاف تھا۔ جیسے ہی ذکر آتا، اپنے تیس سالہ تجربات بیان کرنے بیٹھ جاتا۔ یہ تو ہم نے بھی سنا تھا تاریخ در حقیقت بڑے لوگوں کی بایوگرافی ہے۔ لیکن رحیم بخش کوچوان کی ساری آٹو بایوگرافی دراصل گھوڑوں کی بایوگرافی تھی۔ اس کی زندگی سے ایک گھوڑا نکل نہیں پاتا تھا کہ دوسرا داخل ہو جاتا۔ کہتا تھا اس کے تین سابق آقاؤں نے”ویٹ”سے گھوڑوں کو زہر کے انجکشن لگوائے تھے۔ پہلا آقا تین دن کے اندر چٹ پٹ ہو گیا۔ دوسرے کا چہرہ لقوے سے ایسا ٹیڑھا ہوا کہ دائیں باچھ کان کی لو سے جا ملی۔ ایک دن غلطی سے آئینے میں خود پر نظر پڑ گئی تو گھگھّی بندھ گئی۔ تیسرے کی بیوی جاکی کے ساتھ بھاگ گئی۔ دیدہ عبرت نگاہ سے دیکھا جائے تو ان تینوں میں جو فوراً مرگیا، اسی کا انجام نسبتاً با عزّت معلوم ہوتا ہے۔

اسی زمانے میں ایک سائیس خبر لایا کہ لاڑکانہ میں ایک گھوڑی تیلیا کمیت بالکل مفت یعنی تین سو روپے میں مل رہی ہے۔ بس وڈیرے کے دل سے اُتر گئی ہے۔ گنے کی فصل کی آمدنی سے اس نے گنے ہی سے لمبائی ناپ کر ایک امریکی کار خرید لی ہے۔ آپ کی صورت پسند آ جائے تو ممکن ہے مفت ہی دے دے۔ اس کی مخالفت پہلے ہم نے اور بعد  میں بزرگوار نے کی۔ ہمیں ان دنوں کتے پالنے کا نیا نیا شوق ہوا تھا۔ ہر بات انھی کے حوالے سے کرتے تھے۔ کتے کے لیے من حیث الجنس ہمارے دل میں دفعتاً اتنا احترام پیدا ہو گیا تھا کہ کتیا کو مادہ کتا کہنے لگے تھے۔ ہم نے بشارت کو سمجھایا کہ خدارا! مادہ گھوڑا نہ خریدو۔ عامل کالونی میں دستگیر صاحب نے ایک مادہ کتا پال لیا ہے۔ کسی خیر خواہ نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ جس گھر میں کتّے ہوں، وہاں فرشتے، بزرگ اور چور نہیں آتے۔ اس ظالم نے یہ نہ بتایا کہ پھر صرف کتے آتے ہیں۔ اب سارے شہر کے بالغ کتے ان کی کوٹھی کا محاصرہ کیے پڑے رہتے ہیں۔ عفیفہ خود غنیم سے ملی ہوئی ہے۔ ایسی تن داتا نہیں دیکھی۔ جو بوائے اسکاؤٹ کا ماٹو ہے وہی اس کا:، Be prepared،۔ مطلب یہ کہ ہر حملہ آور سے تعاون کے لیے ہمہ تن تیار رہتی ہے۔ پھاٹک کھولنا ناممکن ہو گیا ہے۔ خواتین نے گھر سے نکلنا چھوڑ دیا۔ مرد اسٹول رکھ کر پھاٹک اور کتے پھلانگتے ہیں۔ دستگیر صاحب ان کتوں کو دونوں وقت باقاعدگی سے راتب ڈلواتے ہیں تاکہ آنے جانے والوں کی پنڈلیوں کے بوٹوں سے اپنا پیٹ نہ بھریں۔ ایک دفعہ راتب میں زہر ڈلوا کر بھی دیکھ لیا۔ گلی میں کشتوں کے پشتے لگ گئے۔ اپنے خرچ پر ان کی تدفین کروائی۔ ایک صاحب کا پالتو کتا جو صحبت بد میں پڑ گیا تھا، اس رات گھر والوں کی نظر بچا کر تماش بینی کرنے آیا۔ وہ بھی وہیں کھیت رہا۔ ان جید کتّوں کے مرنے سے جو خلا پیدا ہوا وہ اسی طرح پر ہوا، جس طرح ادب اور سیاست میں پُر ہوتا ہے۔ مطلب یہ کہ نئی نسل کے نوجوانوں نے آگے بڑھ کر اس تیزی سے پُر کی کہ خلا بالکل نا کافی ثابت ہوا۔ ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ خود کو indispensable یعنی بے مثل و بے بدل سمجھنے والوں کے مرنے سے جو خلا پیدا ہوتا ہے وہ در حقیقت صرف دو گز زمین میں ہوتا ہے جو انھیں کے جسدِ خاکی سے اسی وقت پُر ہو جاتا ہے۔ خیر یہ علیحدہ قصّہ ہے۔ کہنا یہ تھا کہ اب دستگیر صاحب سخت پریشان ہیں۔ ” پیڈگری” (خاندانی) مادہ نیچ ذات کے کتوں سے شجرہ بگڑنے کا خدشہ ہے۔ میں نے تو دستگیر صاحب سے کہا تھا کہ ان کی توجہاتdivert کرنے کے لیے کوئی معمولی ذات کی کتیا رکھ لیجیے تا کہ کم از کم یہ دھڑکا تو نہ رہے۔ راتوں کی نیند تو حرام نہ ہو۔ تاریخ میں آپ پہلے آدمی ہیں جس نے کتّوں کے چال چلن کی چوکیداری کا بیڑا اٹھایا ہے۔

 

مونسِ تنہائی

 

اس قصّے سے ہم نے انہیں عبرت دلائی۔ بزرگوار نے دوسرے پینترے سے گھوڑی خریدنے کی مخالفت کی۔ وہ اس پر بہت برافروختہ ہوئے کہ بشارت کو ان کے کراماتی وظیفے پر یقین نہیں۔ وہ خاصے گلیر تھے۔ بیٹے کو کھل کر گالی تو نہیں دی۔ بس اتنا کہا کہ اگر تمہیں اپنی نسل چلانے کے لیے پیڈگری گھوڑی ہی رکھنی ہے تو شوق سے رکھو۔ مگر میں ایسے گھر میں منٹ نہیں رہ سکتا۔ انھوں نے یہ دھمکی بھی دی کہ جہاں بلبن گھوڑا جائے گا وہ بھی جائیں گے۔ قصہ دراصل یہ تھا کہ بزرگوار اور گھوڑا ایک دوسرے سے اس درجہ مانوس ہو چکے تھے کہ اگر گھر والے مانع نہ ہوتے تو وہ اسے ڈرائنگ روم میں اپنی چارپائی کے پائے سے بندھوا کر سوتے۔ وہ بھی ان کے قریب آ کر خود بخود سر نیچے کر لیتا تاکہ وہ اسے بیٹھے بیٹھے پیار کر سکیں۔ وہ گھنٹوں منہ سے منہ بھڑائے اس سے گھر والوں اور بہوؤں کی شکایتیں اور برائیاں کرتے رہتے۔ بچوں کے لیے وہ زندہ کھلونا تھا۔ بزرگوار کہتے تھے جب سے یہ آیا ہے میرے ہاتھ کا رعشہ کم ہو گیا ہے اور بُرے خواب آنے بند ہو گئے۔ وہ اب اسے بیٹا کہنے لگے تھے۔ سدا روگی سے اپنے پرائے سب اکتا جاتے ہیں۔ ایک دن وہ چار پانچ گھنٹے درد سے کراہتے رہے۔ کسی نے خبر نہ لی۔ شام کو اختلاج اور مایوسی زیادہ بڑھی تو خانساماں سے کہا کہ بلبن بیٹے کو بلاؤ۔ بڑھاپے اور بیماری کے بھیانک سناٹے میں یہ دکھی گھوڑا ان کا واحد ساتھی تھا۔

 

اک لقمۂ تر کی صورت

 

گھوڑے کو جوت نہیں سکتے۔ بیچ نہیں سکتے۔ ہلاک نہیں کروا سکتے۔ کھڑے کھلا نہیں سکتے۔ پھر کیں تو کیا کریں۔ جب بلیک موڈ آتا تو اندر ہی اندر کھولتے اور اکثر سوچتے کہ سیٹھ، سرمایہ دار، وڈیرے، جاگیردار اور بڑے افسران اور کرپشن کے لیے زمانے بھر میں بدنام ہیں۔ مگر”بے رحمی والے”دو ٹکے کے آدمی کس سے کم ہیں۔ انھیں اس سے پہلے ایسے رجعتی اور غیر انقلابی خیال کبھی نہیں آئے تھے۔ ان کی سوچ میں ایک مردم گزیدہ کی کلبیت اور جھنجھلاہٹ در آئی۔ یہ لگ تو غریب ہیں۔ مظلوم ہیں۔ مگر یہ کس کو بخشتے ہیں؟ سنتری بادشاہ بھی تو غریب ہے۔ وہ ریڑھی والے کو کب بخشتا ہے؟ اور غریب ریڑھی والے نے کل شام آنکھ بچا کر ایک سیر سیبوں میں دو داغ دار سیب ملا کر تول دیے۔ اس کی ترازو صرف ایک چھٹانک کم تولتی ہے۔ صرف ایک چھٹانک اس لیے کہ ایک من کم تولنے کی گنجائش نہیں۔ اسکول ماسٹر لائقِ صد رحم و احترام ہے۔ ماسٹر نجم الدین برسوں سے چیتھڑے لٹکائے ظالم سماج کو کوستے پھرتے ہیں۔ انھیں ساڑھے چار سو روپے کھلائے جب جا کے بھانجے کے میٹرک کے نمبر بڑھے۔ اور رحیم بخش کوچوان سے زیادہ مسکین کون ہو گا؟ ظلم، ظالم اور مظلوم دونوں کو خراب کرتا ہے۔ ظلم کا پہیہ جب اپنا چکر پورا کر لیتا ہے اور مظلوم کی باری آتی ہے تو وہ بھی وہی کچھ کرتا ہے جو اس کے ساتھ کیا گیا تھا۔ اژدھا سالم نگلتا ہے۔ شارک دانتوں سے خونم خوں کر کے کھاتی ہے۔ شیر ڈاکٹروں کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق اچھی طرح چبا چبا کے کھاتا ہے۔ بلی، چھپکلی، مکڑی اور مچھر سب حسبِ مقدور و مقدار خون کی چسکی لگاتے ہیں۔ بھائی میرے ! بخشتا کوئی نہیں۔ وہ یہاں تک پہنچے تھے کہ معاً انھیں اپنے انکم ٹیکس کے ڈبل بہی کھاتے یاد آ گئے اور وہ بے ساختہ مسکرا دیے۔ بھائی میرے ! بخشتا کوئی نہیں۔ ہم سب ایک دوسرے کا ازوقہ ہیں۔ بڑے جتن سے ایک دوسرے کو چیرتے پھاڑتے ہیں۔

تب نظر آتی ہے اک لقمہ تر کی صورت

 

سطحِ سمندر اور خطِ ناداری سے نیچے

 

آئے دن کے چالان تاوان سے وہ عاجز آ چکے تھے۔ کیسا اندھیر ہے۔ سارے پاکستان میں یہی ایک جرم رہ گیا ہے! بہت ہو چکی۔ اب وہ اس کا دو ٹوک فیصلہ کر کے چھوڑیں گے۔ مولانا کرامت حسیں سے وہ ایک دفعہ مل چکے تھے اور ساری دہشت نکل چکی تھی۔ پون انچ کم پانچ فٹ کا پودنا! اس کی گردن ان کی کلائی کے برابر تھی۔ گول چہرے اور تنگ پیشانی پر چیچک کے داغ ایسے چمکتے تھے جیسے تانبے کے برتن پر ٹھنکے ہوئے کھپرے۔ آج وہ گھر کا پتہ معلوم کر کے اس کی خبر لینے جا رہے تھے۔ پورا ڈائیلاگ ہاتھ کے اشاروں اور آواز کے زیر و بم سمیت تیار تھا۔ آج اس کا داڑھا پکڑ کے پوچھوں گا کہ ماتھے پہ یہ ادھورے سدھورے گٹّے کا ٹریڈ مارک لگائے پھرتے ہو۔ ایک دفعہ پیسا آگ پر دہکا کر اچھی طرح دغوا کیوں نہیں لیتے کہ پانچ وقت ٹکریں مارنے کے جھنجھٹ سے نجات ملے۔ داڑھی پر انھیں کسی دل جلے کی بھپتی بھی یاد آئی۔” قصرِ تقدس کا چھجا!” ان کے  طنز کا سارا زور نماز پڑھنے اور داڑھی رکھنے پر تھا، گویا اصل گناہ وہی ہے ! "سمجھتے کیا ہو؟ تم جیسے چپڑ قنات تو اپنے نیفے میں رکھتا ہوں۔ حلوہ پلاؤ کھا کھا کے تم مُلاّں لوگ ایک دوسرے کی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہو اور سمجھتے ہو کہ اللہ کی رسی کو پکڑ رہے ہو! تم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہو! میں بھی اپنی پہ آ گیا تو پائی پائی آنتوں میں سے نکلوا لوں گا۔” ریہرسل اتنا مکمل تھا کہ ذہن میں یہ تک نوٹ کر لیا تھا کہ اللہ کی رسی کہنے سے پہلے دل میں نعوذ با للہ ضرور کہیں گے۔

انھیں لیاری میں مولانا کرامت حسین کی جھگّی تلاش کرنے میں خاصی دشواری ہوئی، حالانکہ بتانے والے نے بالکل صحیح پتہ بتایا تھا کہ جھگی بجلی کے کھمبے نمبر 23 کے عقب میں کیچڑ کی دلدل کے اس پار ہے۔ تین سال سے کھمبے بجلی کے انتظار میں کھڑے ہیں۔ پتے میں اس کے بائیں طرف ایک گیابھن بھُوری بھینس بندھی ہوئی بتائی گئی تھی۔ سڑکیں نہ راستے۔ گلیاں نہ فٹ پاتھ۔ ایسی بستیوں میں گھروں کے نمبر یا بورڈ نہیں ہوتا۔ ہر گھر کا ایک انسانی چہرہ ہوتا ہے۔ اسی کے پتے سے گھر ملتا ہے۔ کھمبا تلاش کرتے کرتے انھیں اچانک ایک جھگی کے ٹاٹ کے پردے پر مولانا کا نام کرامت حسین سرخ روشنائی سے لکھا نظر آیا۔ بارش کے ریلوں نے بد خط لکھائی کو خطِ غبار بنا دیا تھا۔ کراچی کا یہ سب سے پسماندہ علاقہ سطح سمندر اور خطِ ناداری ( Poverty Line ) سے گزوں نیچے تھا۔ سمندر کا حصہ ہوتے ہوتے اس لیے رہ گیا تھا کہ درمیان میں انسانی جسموں کا ایک ڈھیٹ پشتہ کھڑا ہو گیا تھا۔ زمین سے ہر وقت کھاری پانی رِستا رہتا تھا جو لکڑی اور لوہے کو چند  مہینوں میں گلا دیتا تھا۔ ہوا میں رُکے ہوئے سمندری پانی کی سڑاند بسی ہوئی تھی جو سڑی ہوئی مچھلی کی بدبو سے بھی بدتر تھی۔ چاروں طرف ٹخنوں ٹخنوں بج بجاتا کیچڑ۔ خشک زمین کہیں نظر نہ آئی۔ چلنے کے لیے لوگوں نے پتھر اور اینٹیں ڈال کر پگ ڈنڈیاں بنا لی تھیں۔ ایک نو دس سال کی بچی سر پر خود سے زیادہ بھاری گھڑا رکھے، اپنی گردن اور کمر کی جنبش سے پیروں کو ڈگمگاتے پتھروں پر اور گھڑے کو سر پر بیلنس کرتی آ رہی تھی۔ اس کے چہرے پر پسینے کے ریلے بہ رہے تھے۔ راستے میں جو بھی ملا اس نے بچی کو احتیاط سے چلنے کا مشورہ دیا۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر پانچ چھ اینٹوں کا ٹریفک آئی لینڈ آتا تھا، جہاں جانے والا آدمی کھڑے رہ کر آنے والے کو راستہ دیتا تھا۔ جھگیوں کے اندر بھی کچھ ایسا ہی نقشہ تھا۔ بچے، بزرگ اور بیمار دن بھر اونچی اونچی کھاٹوں اور کھٹّوں پر ٹنگے رہتے۔ قرآن شریف، لپٹے ہوئے بستر، برتن بھانڈے، متروکہ جائداد کی دستاویزات، میٹرک کے سرٹیفکٹ بانس کے مچان پر۔۔۔۔۔ ترپال تلے ۔۔ اور ترپال کے اوپر مرغیاں۔ مولانا کرامت حسین نے جھگّی کے ایک کونے میں کھانا پکانے کے لیے ایک ٹیکری پر ایک چبوترہ بنا رکھا تھا۔ ایک کھاٹ کے پائے سے بکری بھی بندھی تھی۔ کچھ جھگّیوں کے سامنے بھینسیں کیچڑ میں دھنسی تھیں اور ان کی پیٹھ پر کیچڑ کا پلاسٹر پپڑا رہا تھا۔ یہ بھینسوں کی جنّت تھی۔ ان کا گوبر کوئی نہیں اٹھاتا تھا۔ اس لیے کہ اُپلے تھاپنے کے لیے کوئی دیوار یا خشک زمین نہ تھی۔ گوبر بھی انسانی فضلے کے ساتھ اس زمین میں متھ جاتا تھا۔ ان ہی جھگیوں میں ٹین کی چادر کے سلنڈر نما ڈبّے بھی نظر آئے جن میں دودھ بھر کے صدّر کی سفید ٹائلوں والی ڈیری کی دوکانوں میں پہنچایا جاتا تھا۔ ایک لنگڑا کتا جھگی کے باہر کھڑا تھا۔ اس نے اچانک خود کو جھڑجھڑایا تو اس کے زخم پر بیٹھی ہوئی مکھیوں اور ادھ سوکھے کیچڑ کے چھرّے اُڑ اُڑ کر بشارت کی قمیض اور چہرے پر لگے۔ جن پڑھنے والوں نے اس زمانے کی بہار کالونی، چاکی واڑہ اور لیاری نہیں دیکھی وہ شاید اندازہ نہ کرسکیں کہ انسان ایسی گندی، اگھوری حالت میں نہ صرف زندہ رہ سکتا ہے بلکہ نئی زندگیوں کو جنم بھی دے سکتا ہے۔ ایسا تعفن، ایسی بھیانک غلاظت تو مشرقی پاکستان میں بھی نظر نہ آئی۔ وہاں انسان نہ سہی کم از کم نیچر تو مہربان تھی۔ دھوپ، پانی اور ہوا ہر ایک چیز کو پاک اور صاف کرتے رہتے تھے۔ چلچلاتی دھوپ، لال آندھیاں، بچے کے آنسوؤں جیسی برسات، کفِ در کنار سیلاب، سائیکلون۔۔۔ ان سے زیادہ تیزو تند، ظالم اور بے خطا ڈس انفکٹنٹ اور کیا ہو گا۔ تا ہم باریسال کے دو منظر نہیں بھولتے۔ لگتا ہے کسی نے ذہن پر تیزابی قلم سے کندہ کر دیے ہیں ۔

 

سونار بنگلہ

 

1967ء میں ہمیں کار اور”فیری”سے مشرقی پاکستان کا دورہ کرنے کا اتفاق ہوا۔ چھ سات سو میل کے سفر میں کوئی فرلانگ ایسا نہ تھا جس میں اوسطاُ پانچ چھ آدمی سڑک پر پیدل چلتے نظر نہ آئے ہوں۔ اوسطاُ بیس میں سے صرف ایک کے پیر میں چپل ہوں گے۔ نہ ہمیں کسی کے پورے تن پر کپڑا نظر آیا، سوائے میت کے! راستے میں تین جنازے ایسے دیکھے جن کے کفن کی چادر دو مختلف رنگ کی لنگیاں جوڑ کر بنائی گئی تھی۔ ایک ضعیف شخص ایک جنازے پر پھٹی چھتری لگائے چل رہا تھا۔ یہ مرنے والے جوان کا باپ تھا۔ اس کی سفید داڑھی اور آنکھوں سے بارش کے ریلے بہہ رہے تھے۔ ہم باریسال سے گزر رہے تھے۔ بلا کی اُمس تھی۔ پیاس سے برا حال۔ پانی یا لیمنیڈ پینے کا سوال ہی نہ تھا، اس لیے کہ ان دنوں ہر جگہ ہیضہ پھیلا ہوا تھا۔ سڑکوں پر جنازے ہی جنازے نظر آ رہے تھے۔ ایک بے تکلف دوست نے ٹپ دیا تھا کہ راستے میں خود کشی کرنے کو جی چاہے تو بازار سے کوئی بھی چیز لے کر کھا لینا۔ ناریل کے بارے میں البتہ ایک بنگالی دوست نے کم و بیش وہی بات کہی جو غالب آم کے بارے میں کہہ گئے ہیں :

انگبیں کے بحکم ربّ الناس

بھر کر بھیجے ہیں سر بمہر گلاس

اس دوست نے کہا تھا کہ ناریل میں جراثیم کا گزر نہیں۔ پانی کے بجائے یہی توڑ توڑ کر پینا۔ السر کو بھی فائدہ کرتا ہے۔ ہم نے چھ چھ پیسے کے دو ناریل خریدے۔ ڈرائیور نے ناریل والے ہی سے مانگ کر پانی پیا اور اپنے حصے کا ناریل کار کے بوٹ میں سنگوا کر رکھ لیا۔ ہم نے ناریل وہیں توڑا۔ اندر کھوپرے کی بہت پتلی اور نرم تہ نکلی۔ ایسے ادھ کچرے ناریل کی ڈابھ بہت مفرّح، ملین اور شیریں ہوتی ہے۔ ڈابھ پی کر ناریل ہم نے کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا۔ پان والے سے”تھری کاسل”سگریٹ کی ڈبیا خریدی۔ سگریٹ نکالا تو بے حد پرانا اور سوکھا کھڑنک۔ کیڑے نے اس میں مہین مہین سوراخ کر دیے تھے جن کی وجہ سے کش میں جگہ جگہ سے پنکچر ہو جاتے تھے۔ ایسے سگریٹوں سے ہمارے یہاں ان گھروں میں تواضع کی جاتی ہے جہاں صاحبِ خانہ خود سگریٹ نہیں پیتا۔ اور عید الفطر پر خریدے ہوئے سگریٹ کے پیکٹ سے دوسرے عید الفطر تک بالاصرار اپنے ملاقاتیوں کے حلق اور اخلاق کی آزمائش کرتا رہتا ہے۔ ہم ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ وہ کون سا ظالم کیڑا ہو گا جو تمباکو سے اپنا پیٹ بھر کر زندہ رہتا ہے۔ اس کا تو ماءاللحم اور کشتہ بنا کر کینسر کا علاج کیا جا سکتا ہے۔ اتنے میں ایک بوڑھی عورت کوڑے کے ڈھیر کی طرف بڑھی۔ اس نے گھورے کی گہرائیوں میں سرنگیں لگاتی ہوئی بلیوں اور آنول سے جڑی آلائش کو بھنبھوڑتے ہوئے کتے کو ڈھیلے مار مار کر بھگا دیا۔ اس کے تن پر بغیر چولی کے لیر لیر ساری کے سوا کچھ نہ تھا۔ وہ قدم جما جما کر گھورے پر چڑھی۔ جیسے ہی اس نے پیر سے آنول پرے ہٹایا ایک چیل جھپٹا مار کر اسے لے گئی، مگر ابھی پوری طرح اٹھی بھی نہ تھی کہ پنجے سے چھوٹ گیا۔ بڑھیا رسان سے ناریل اٹھا لائی کہ اس کا کوئی اور دعوے دار نہ تھا۔ اس کے ساتھ ایک منی سی بچی اور دو ننگ دھڑنگ لڑکے تھے جن کی یہ غالباً نانی یا دادی ہو گی۔ وہ ناریل کا گودا کھرچ کھرچ کے بڑے ندیدے پن سے کھاتی رہی، یہاں تک کہ چھوٹے لڑکے نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے منہ میں رکھ لیا۔ اس نے دونوں لڑکوں کو تھوڑا سا کھوپرا دیا۔ بچی اتنی چھوٹی تھی کہ بڑھیا نے کھوپرے کو پہلے خود اپنے پوپلے منہ سے چبا چبا کر نرم کیا۔ پھر منہ سے منہ ملا کر اگال بچی کے منہ میں ڈالا۔ جب وہ ناریل اٹھانے کے لیے گھورے پر جھکی تو اس کی ننگی چھاتیاں بھلبھلائے بینگن کی مانند جھریائی ہوئی اور خالی اوجھڑی کی طرح جھول رہی تھیں۔ لگتا تھا کھمبیوں کی طرح یہ بھی اسی زمین سے اُگی ہیں۔ نہ تو دیکھنے والوں کو، نہ خود اس مائی کو اپنے ننگے ہونے کا احساس تھا، لیکن اس دن میں نے اپنے آپ کو بالکل ننگا محسوس کیا۔

دوسرا منظر ذرا آگے چل کر بازار میں دیکھا۔ بینک کے دفتر کے سامنے کوئی چار فٹ اونچے تھڑے پر ایک شخص مچھلی بیچ رہا تھا۔ اس کے بنیان میں بے شمار آنکھیں بنی تھیں۔ اس پر اور لنگی پر مچھلی کے خون اور آلائش کی تہ چڑھی ہوئی تھی۔ ہاتھ بہت گندے ہو جاتے تو وہ انھیں لنگی پر رگڑ کر تازہ گندگی کو پرانی گندگی سے پونچھ لیتا تھا۔ جب تھوڑے تھوڑے وقفے سے مچھلیوں پر پانی کے چھپکے دینے سے مکھیوں کے چھتے اڑ جاتے تو نظر آتا کہ مچھلی کتنی چھوٹی اور کس ذات کی ہے۔ غلیظ پانی اور مچھلیوں کا کیچڑ ایک ٹین کی نالی سے ہوتا ہوا نیچے رکھے ہوئے کنسٹر میں جمع ہو رہا تھا۔ وہ بغدے سے کسی بڑی مچھلی کے ٹکڑے کر کے بیچتا تو اس کے کھپرے اور آلائش بھی اسی کنسٹر میں جاتی تھی۔ وہ جب بھر جاتا تو اسے ہٹا کر دوسرا کنسٹر رکھ دیا جاتا۔ بلیاں بار بار پچھلی ٹانگوں پر کھڑی ہو ہو کر منہ مارتیں اور چھیچھڑوں کو کنسٹر میں گرنے سے پہلے ہی بڑی تیزی سے اچک لیتیں۔ دیکھنے والے کو ہول آتا تھا کہ تیز چلتے ہوے بغدے سے بلی کا سر کھچ سے اب اُڑا کہ اب اُڑا۔ کوئی جوان عورت مچھلی لینے آتی تو مچھلی والا ڈھال ڈھال کر بلی کو آرزو بھری گالیاں دینے لگتا۔ کوئی ایک گھنٹے میں اس نے دو بھرے ہوئے کنسٹر ایک ایک آنے میں بیچے۔ ایک صاحب نے بتایا کہ غریب غربا اس پانی میں چاول پکاتے ہیں تاکہ چاولوں میں مچھراند (مچھلی کی باس) بس جائے۔ مچھلی کی بدبو کے اس ایسنس کے ایک کنسٹر سے تین گھروں میں ہنڈیا پکتی ہے۔ غریبوں میں جو لوگ نسبتاً آسودہ حال ہیں، وہی یہ لگژری افورڈ کر پاتے ہیں !

 

خاندانِ مغلیہ کا زوال و نزول

 

بشارت نے جھگی کے باہر کھڑے ہو کر مولانا کو آواز دی، حالانکہ اس کے”اندر”اور”باہر”میں کچھ ایسا فرق نہیں تھا۔ بس چٹائی، ٹاٹ اور بانسوں سے اندر کے کیچڑ اور باہر کے کیچڑ کے درمیان حد بندی کر کے ایک خیالی privacy (تخلیہ) اور ملکیت کا حصار کھینچ لیا تھا۔

یہ میری لحد، وہ تیری ہے

کوئی جواب نہ ملا تو انھوں نے حیدرآبادی انداز سے تالی بجائی، جس کے جواب میں اندر سے چھ بچّوں کا تلے اوپر پتیلیوں کا سا سیٹ نکل آیا، جن کی عمروں میں بظاہر نو نو مہینے سے بھی کم فرق نظر آ رہا تھا۔ سب سے بڑے لڑکے نے کہا، مغرب کی نماز پڑھنے گئے ہیں، تشریف رکھیے۔ بشارت کی سمجھ میں نہ آیا کہاں تشریف رکھیں۔

ان کے پیر تلے اینٹیں ڈگمگا رہی تھیں۔ تعفن سے دماغ پھٹا جا رہا تھا۔

جہنم اگر رُوئے زمین پر کہیں ہو سکتا ہے تو

ہمیں است و ہمین است و ہمین است

وہ دل ہی دل میں مولانا کو ڈانٹنے کا ریہرسل کرتے ہوئے آئے تھے۔ "یہ کیا اندھیر ہے مولانا؟” کچکچا کر مولانا کہنے کے لیے انھوں نے بڑے طنز و تلخی سے وہ لہجہ کمپوز کیا تھا جو بہت سڑی گالی دیتے وقت اختیار کیا جاتا ہے۔ لیکن جھگی اور کیچڑ دیکھ کر انھیں اچانک خیال آیا کہ میری شکایت پر اس شخص کو بالفرض جیل ہو جائے تو اس کے تو الٹے عیش آ جائیں گے۔ مولانا پر پھینکنے کے لیے طعن و تشنیع کے جتنے پتھر وہ جمع کر کے لائے تھے، ان سب پر داڑھیاں لگا کر جا نمازیں لپیٹ دی تھیں تاکہ چوٹ بھلے ہی نہ آئے، شرم تو آئے۔ وہ سب دھرے رہ گئے۔ ان کا ہاتھ شل ہو گیا تھا۔ اس شخص کو گالی دینے کا فائدہ؟ اس کی زندگی تو خود ایک گالی ہے۔ ان کے گرد بچّوں نے شور مچانا شروع کیا تو سلسلہ ملامت ٹوٹا۔ انھوں نے ان کے نام پوچھنا شروع کیے۔ تیمور، بابر، ہمایوں، جہانگیر، شاہ جہاں، اورنگ زیب۔ یا اللہ پورا دودمانِ مغلیہ اس ٹپکتی جھگی میں تاریخی تسلسل سے ترتیب وار اترا ہے۔

ایسا لگتا تھا کہ مغل بادشاہوں کے ناموں کا اسٹاک ختم ہو گیا، مگر اولادوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوا۔ چنانچہ چھُٹ بھیّوں پر اتر آئے تھے۔ مثلاً ایک لختِ جگر کا پیار کا نام (مرزا) کوکا تھا، جو اکبر کا دودھ شریک بھائی تھا، جس کو اس نے قلعے کی فصیل پر سے نیچے پھنکوا دیا تھا۔ اگر حقیقی بھائی ہوتا تو اس سے بھی سخت سزا دیتا۔ یعنی قزاقوں کے ہاتھوں قتل ہونے کے لیے حج پر بھیج دیتا یا آنکھیں نکلوا دیتا۔ رحم کی اپیل کرتا تو از راہ ترحمِ خسروانہ و شفقتِ برادرانہ جلاد سے ایک ہی وار میں سر قلم کروا کے اس کی مشکل آسان کر دیتا۔ جو شیر خوار اور گھٹنیوں چلتے بچے اندر رہ گئے تھے ان کے ناموں سے بھی شکوہِ شاہانہ ٹپکتا اور تاج و تخت سے وابستگی کا نشان ملتا تھا، حالانکہ یہ یاد نہیں آ رہا تھا کہ ان میں سے کون تخت پر متمکن ہونے کے بعد  قتل ہوا اور کون پہلے۔ بات یہ ہے کہ اورنگزیب کی وفات کے بعد  انتزاع سلطنت اور طوائف الملوکی کا دور شروع ہوا۔ بارہ سال میں آٹھ بادشاہ اس طرح سریر آرائے سلطنت ہوئے کہ ایک بادشاہ ٹھیک سے تخت پر بیٹھ نہیں پاتا تھا کہ اس کا تختہ الٹ دیا جاتا۔ تاج اور سر ہوا میں بازیگر کی گیندوں کی طرح اچھلنے لگے۔ ہر چند  کہ اورنگزیب کو موسیقی سے نفرت تھی، لیکن س کی آنکھیں بند ہوتے ہی تخت و تاج کے دعوے داروں نے شاہی تخت کے گرد میوزیکل چیئرز کھیلنا شروع کر دیا۔ اس ادنیٰ تصرف کے ساتھ کہ میوزک کے بجائے شاعر لہک لہک کر قصیدے پڑھتے اور جب پڑھتے پڑھتے اچانک رک جاتے تو ایک نیا شہزادہ جھٹ سے تخت پر بیٹھ جاتا۔ نادر شاہ کو یہ مغلئی کھیل ایسا بھایا کہ تختِ طاؤس اٹھوا کے وطن لے گیا۔ اس کے باوجود کھیل جاری رہا۔ تخت اٹھوانے کے ضمن میں ہم نے نہ رہے بانس نہ بجے بانسری کا محاورہ جان بوجھ کر استعمال نہیں کیا۔ اس لیے کہ چین کی بانسری بجانے کے لیے بادشاہوں اور آمروں کو بانس کی محتاجی کبھی نہیں رہی۔ شاہوں کا نالہ پابندِ لے ہی نہیں، پابندِ نے بھی نہیں ہوتا۔

ہم عرض یہ کر رہے تھے کہ خانوادہ تیمور کے جو باقی ماندہ چشم و چراغ جھگی کے اندر تھے ان کے نام بھی تخت نشینی بلکہ تخت الٹنے کی ترتیب کے اعتبار سے درست ہی ہوں گے، اس لیے کہ مولانا کا حافظہ اور تاریخ کا مطالعہ بہت اچھا معلوم ہوتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ لائحہ حمل بناتے وقت انھوں نے خاندانی منصوبہ شکنی کو تاریخِ مغلیہ کے تقاضوں اور تخت نشینی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے تابع رکھا ہے۔ بشارت نے پوچھا”تم میں سے کسی کا نام اکبر نہیں؟”بڑے لڑکے نے جواب دیا”نہیں جی۔۔ وہ تو دادا جان کا تخلص ہے۔”

گفتگو کا سلسلہ کچھ انہوں نے کچھ بچوں نے شروع کیا۔ انھوں نے دریافت کیا "تم کتنے بہن بھائی ہو؟”جواباً ایک بچے نے ان سے پوچھا "آپ کے کتنے چچا ہیں؟” انھوں نے دریافت کیا "تم میں سے کوئی پڑھا ہوا بھی ہے؟” بڑے لڑکے تیمور نے ہاتھ اٹھا کر کہا "جی ہاں! میں ہوں” معلوم ہوا یہ لڑکا جس کی عمر تیرہ چودہ سال ہو گی مسجد میں بغدادی قاعدہ پڑھ کر کبھی کا فارغ التحصیل ہو چکا تھا۔ تین سال تک پنکھے بنانے کی ایک فیکٹری میں مفت کام سیکھا۔ ایک سال ہوا دائیں ہاتھ کا انگوٹھا مشین میں آ گیا۔ کاٹنا پڑا۔ اب ایک مولوی صاحب سے عربی پڑھ رہا ہے۔ ہمایوں اپنے ہم نام کی طرح ہنوز خواری و آوارہ گردی کی منزل سے گزر رہا تھا۔ جہانگیر تک پہنچتے پہنچتے پاجامہ بھی طوائف الملوکی کی نظر ہو گیا۔ البتہ شاہ جہاں کا ستر پھوڑوں پھنسیوں پر بندھی ہوئی پٹیوں سے اچھی طرح ڈھکا ہوا تھا۔ اورنگ زیب کے تن پر صرف اپنے والد کی ترکی ٹوپی تھی۔ بشارت کو اس کی آنکھیں اور اسے بشارت نظر نہ آئے۔ سات سال کا تھا مگر بے حد باتونی۔ کہنے لگا”ایسی بارش تو میں نے ساری زندگی نہیں دیکھی، ،۔ ہاتھ پیر ماچس کی تیلیاں لیکن اس کے غبارے کی طرح پھولے ہوئے پیٹ کو دیکھ کر ڈر لگتا تھا کہ کہیں پھٹ نہ جائے۔ کچھ دیر بعد  ننھی نور جہاں آئی۔ اس کی بڑی بڑی ذہین آنکھوں میں کاجل اور کلائی پر نظر گزر کا ڈورا بندھا تھا۔ سارے منہ پر میل، کاجل، ناک اور گرد لپی ہوئی تھی، سوائے ان حصوں کے جو ابھی ابھی آنسوؤں سے دھلے تھے۔ انھوں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ اس کے سنہری بالوں میں گیلی لکڑیوں کے کڑوے کڑوے دھوئیں کی بو بسی ہوئی تھی۔ ایک بھولی سی صورت کا لڑکا اپنا نام شاہ عالم بتا کر چل دیا۔ آدھے رستے سے واپس آ کر کہنے لگا کہ میں بھول گیا تھا۔ شاہ عالم تو بڑے بھائی کا نام ہے۔ یہ سب مغل شہزادے کیچڑ میں ایسے مزے سے پھچاک پھچاک چل رہے تھے جیسے ان کا سلسلہ نصب امیر تیمور صاحبقران کے بجائے کسی راج ہنس سے ملتا ہو۔

ہر کونے کھدرے سے بچے ابلے پڑ رہے تھے۔ ایک کمانے والا اور یہ ٹبر! دماغ چکرانے لگا۔

عالم تمام حلقہ دامِ عیال ہے

 

کوئی دیوارسی گری ہے ابھی

 

کچھ دیر بعد  مولانا آتے ہوئے نظر آئے۔ کیچڑ میں ڈگمگ ڈگمگ کرتی اینٹوں پر سنبھل سنبھل کر قدم رکھ رہے تھے۔ اس ڈانوا ڈول پگڈنڈی پر اس طرح چلنا پڑتا تھا جیسے سرکس میں کرتب دکھانے والی لڑکی تنے ہوئے تار پر چلتی ہے۔ لیکن اس کی کیا بات ہے۔ وہ تو خود کو کھلی چھتری سے بیلینس کرتی رہتی ہے۔ ذرا ڈگمگا کر گرنے لگتی ہے تو تماشائی پلکوں پر جھیل لیتے ہیں۔ مولانا خدا جانے بشارت کو دیکھ کر بوکھلا گئے یا اتفاقاً ان کی کھڑاؤں اینٹ پر پھسل گئی، وہ دائیں ہاتھ کے بل، جس میں دم کے پانی کا گلاس تھا، گرے۔ ان کا تہبند اور داڑھی کیچڑ میں لت پت ہو گئی اور ہاتھ پر کیچڑ کا موزہ سا چڑھ گیا۔ ایک بچے نے بد قلعی لوٹے سے پانی ڈال کر ان کا منہ دھلایا، بغیر صابن کے۔ انھوں نے انگوچھے سے تسبیح، منہ اور ہاتھ پونچھ کر بشارت سے مصافحہ کیا اور سر جھکا کر کھڑے ہو گئے۔ بشارت ڈھے چکے تھے۔ ریہرسل کیے ہوئے طعن آمیز ابتدائیہ فقرے جو داڑھی، نماز اور گٹے سے متعلق تھے، اس کیچڑ میں غرق ہو گئے "قصرِ تقدّس کا چھجّا” والی پھبتی بھی اسی بج بجاتی دلدل میں دھنستی چلی گئی۔ ان کا بے اختیار جی چاہا کہ بھاگ جائیں۔ مگر دلدل میں آدمی جتنی تیزی سے بھاگنے کی کوشش کرتا ہے، اتنی ہی تیزی سے دھنستا چلا جاتا ہے۔

ان کی سمجھ میں نہ آیا کہ اب شکایت و فہمائش کا آغاز کہاں سے کریں۔ اسی شش و پنج میں انھوں نے اپنے دائیں ہاتھ سے، جس سے ذرا دیر پہلے بہ کراہت مصافحہ کیا تھا، ہونٹ کھجایا تو اُبکائی آنے لگی۔ اس کے بعد  انھوں نے اس ہاتھ کو اپنے جسم اور کپڑوں سے ایک بالشت دور رکھا۔ مولانا غایتِ آمد بھانپ گئے۔ خود پہل کی۔ اس اعتراف کے ساتھ کے میں آپ کے کوچوان رحیم بخش سے پیسے لیتا رہا ہوں، پڑوسن کی بچی کے علاج کے لیے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ میری تعیناتی سے پہلے یہ دستور تھا کہ آدھی رقم آپ کا کوچوان رکھ لیتا تھا۔ اب جتنے پیسے آپ سے وصول کرتا ہے وہ سب مجھ تک پہنچتے ہیں۔ اس کا حصہ ختم ہوا۔ ہوا یہ کہ ایک دن وہ مجھ سے اپنی بیوی کے لیے تعویذ لے گیا۔ اللہ نے اس کا مرض دور کر دیا۔ وہی شافی و کافی ہے۔ وہی جلاتا اور مارتا ہے۔ اس کے بعد  وہ میرا معتقد ہو گیا۔ بہت دکھی آدمی ہے۔

مولانا نے یہ بھی بتایا پہلے آپ چالان اور رشوت سے بچنے کے لیے جب بھی اسے راستہ بدلنے کا حکم دیتے، وہ محکمے والوں کو پیشگی نوٹس دے دیتا تھا۔ وہ ہمیشہ برضا و رغبت پکڑا جاتا تھا۔ بلکہ یہاں تک ہوا کہ ایک دفعہ انسپکٹر کو نمونیہ ہو گیا اور وہ تین ہفتے تک ڈیوٹی پر نہیں آیا تو رحیم بخش ہمارے آفس میں یہ دریافت کرنے آیا کہ اتنے دن سے چالان کیوں نہیں ہوا۔ خیریت تو ہے؟

بشارت نے دو تین سوال کوچوان کے متعلق تو کیے، لیکن مولانا کو کچھ کہنے سننے کا اب ان میں یارا نہ تھا۔ ان کا بیان جاری تھا۔ وہ محجوب خاموشی سے سنتے رہے:

میرے والد کی کولھے کی ہڈی ٹوٹے دو سال ہو گئے۔ وہ سامنے پڑے ہیں۔ بیٹھ بھی نہیں سکتے چارپائی کاٹ دی ہے۔ مستقل لیٹے رہنے سے ناسور ہو گئے ہیں۔ ایک تو اتنا گہرا ہے کہ پوری انگلی اندر چلی جائے۔ ستلی برابر موٹی ایک رگ اندر نظر آتی ہے۔ پیپ رستی رہتی ہے۔ زخم صاف کرتے ہوئے مجھے کئی دفعہ قے ہو چکی ہے۔ ڈالڈا کے ڈبوں میں پانی بھر کے چاروں پایوں کے نیچے رکھ دیے ہیں تاکہ دوبارہ لال چیونٹے زخموں میں نہ لگیں۔ پڑوسی آئے دن جھگڑتا ہے کہ تمہارے بڑھؤ دن بھر تو خراٹے لیتے ہیں اور رات بھر چیختے کراھتے ہیں۔ ناسوروں کی سڑاند کے مارے ہم کھانا نہیں کھا سکتے۔ وہ بھی ٹھیک ہی کہتا ہے۔ فقط چٹائی کی دیوار ہی تو بیچ میں ہے۔ چار مہینے قبل فضلِ ایزدی سے ایک اور فرزند تولد پذیر ہوا۔ اللہ کی دین ہے بِن مانگے موتی ملیں مانگے ملے نہ بھیک۔ اللہ نبی کی امت کو بڑھاتا ہے۔ جاپے کے بعد  ہی بیوی کو whit leg ہو گئی۔ ہل نہیں سکتی۔ مرضی مولا۔ رکشا میں ڈال کر جناح ہسپتال لے گیا۔ کہنے لگے، فوراً ہسپتال میں داخل کرواؤ مگر یہاں کوئی بیڈ خالی نہیں ہے۔ ایک مہینے بعد  پھر لے گیا۔ اب کی دفعہ کہنے لگے، اب لائے ہو لمبی بیماری ہے۔ ہم ایسے مریض کو ایڈمٹ نہیں کرسکتے۔ صبر کیا۔ راضی ہیں ہم اسی میں جس میں رضا ہو تیری۔ فجر اور مغرب کی نماز سے پہلے دونوں مریضوں کا گُوہ مُوت کرتا ہوں۔ نماز کے بعد  خود روٹی ڈالتا ہوں تو بچوں کے پیٹ میں کچھ جاتا ہے۔ ایک دفعہ نور جہاں نے ماں کے لیے بکری کا دودھ گرم کیا تو کپڑوں میں آگ لگ گئی تھی۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے میرے ہاتھ پاؤں چلتے ہیں۔”

بشارت اب کہیں اور پہنچ چکے تھے۔ اب نہ انھیں بد بو آ رہی تھی نہ متلی ہو رہی تھی۔ سناّٹے میں آ گئے تھے:

سمجھتے کیا تھے، مگر سنتے تھے فسانہ دہر

سمجھ میں آنے لگا جب، تو پھر سنا نہ گیا

مولانا نے کہا کہ دائی کا علاج ہے۔ عرقِ مکو، رومی مصطگی، مغزِ کنجشک اور افیم کا لیپ بتایا ہے۔ بڑی ہمدرد عورت ہے۔ فجر اور مغرب کی نماز کے بعد  مسجد سے پانی دَم کروا کے لاتا ہوں۔ سو ڈیڑھ سو نمازیوں کے انفاسِ متبرکہ بڑے بڑے رئیسوں کو نصیب نہیں ہوتے۔ مگر شاید مولا کو شفاء منظور نہیں۔ مرضیِ مولا از ہمہ اولیٰ۔

مشیتِ ایزدی اور مرضیِ مولا کے جتنے حوالے اس آدھ گھنٹے میں بشارت نے سنے اتنے پچھلے دس برسوں میں بھی نہیں سنے ہوں گے۔ مولانا کی باتوں سے انہیں لگا جیسے اس بے نوا نگری میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ خدا کی مرضی کے عین مطابق ہو رہا ہے۔

انھیں سُرنگ کے دوسری طرف بھی اندھیرا ہی اندھیرا نظر آیا۔ ایسی نا امیدی، ایسی بے بسی، ایسے اندھیرے اور اندھیر کی تصویر کھینچنے کے لیے تو دانتے کا قلم چاہیے۔

 

پلید ہاتھ

 

مولانا کو جیسے کوئی بات اچانک یاد آ گئی اور معذرت کر کے کچھ دیر کے لیے اندر چلے گئے۔ ادھر بشارت اپنے خیالات میں کھو گئے۔ اس ایک آر پار جھگی میں جس میں نہ کمرے ہیں نہ پردے، نہ دیواریں نہ دروازے، جس میں آواز، ٹیس اور سوچ تک ننگی ہے، جہاں لوگ شاید ایک دوسرے کا خواب بھی دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں ایک کونے میں بوڑھا باپ پڑا دَم توڑ رہا ہے۔ دوسرے کونے میں زچگی ہو رہی ہے اور درمیان میں بیٹیاں جوان ہو رہی ہیں۔ بھائی میرے ! جہاں اتنی رشوت لی تھی وہاں تھوڑی سی اور لے کر بیوی کو ہسپتال میں داخل کرا دیتے تو کیا حرج تھا۔ جان پر بنی ہو تو شراب تک حرام نہیں رہتی۔ لیکن پھر ہانڈی چولھا، جھاڑو بہارو کون کرتا؟ اس ٹبر کا پیٹ کیسے بھرتا؟ مولانا نے بتایا تھا کہ زچگی کے دوسرے ہی دن بیوی نے بچوں کے لیے روٹی پکائی اور کپڑے دھوئے تھے۔ بشارت سوچنے لگے کہ ان جنگجو تاتاری عورتوں کے قصیدوں سے تو تاریخ بھری پڑی ہے جو عرب شاہ کے بیان کے مطابق تیمور کی فوج کے شانہ بشانہ نیزوں اور تلواروں سے لڑتی تھیں۔ اگر کوچ کی حالت میں کسی عورت کے دردِ زہ شروع ہو جاتا تو وہ دوسرے گھڑ سواروں کے لیے راستہ چھوڑ کر ایک طرف کو کھڑی ہو جاتی۔ گھوڑے سے اتر کر بچہ جنتی۔ پھر اسے کپڑے میں لپیٹ کر اپنے گلے میں حمائل کرتی اور دوبارہ گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار ہو کر لشکر سے جا ملتی۔ مگر جھگیوں میں چپ چاپ جان سے گزر جانے والی ان بے نام بی بیوں کا نوحہ کون لکھے گا؟ بشارت کا دَم گھُٹنے لگا۔ اب تلک مولانا نے کل ملا کر یہی سو ڈیڑھ سو روپے وصول کیے ہوں گے۔ وہ نا حق یہاں آئے۔ انہوں نے موضوع بدلا اور دَم کے پانی کی تاثیر کے بارے میں سوچنے لگے کہ ابھی تو یہ بے چاری ایک بیماری میں مبتلا ہے۔ سو آدمیوں کا پھونکا ہوا پانی پی کر سو نئی بیماریوں میں مبتلا ہو جائے گی۔

کچھ دیر بعد  مولانا نے اندر پردہ کرایا۔ یعنی جب نور جہاں نے اپنی بیمار ماں کو سر سے پیر تک چیکٹ لحاف اڑھا کر لٹا دیا تو مولا نا نے بشارت کو جھگی میں چلنے کو کہا۔ دونوں ایک چارپائی پر پیر لٹکا کر بیٹھ گئے۔ اَدوان پر ایک نقشین سینی میں تام چینی کی نیلی چینک اور دو کپ رکھے تھے۔ کپ کے کناروں پر مکھیوں کی کلبلاتی جھالر۔ مولانا نے کپ میں تھوڑی سی چائے ڈالی اور انگلی سے اچھی طرح رگڑ کر دھویا۔ پھر اس میں چائے بن کر بشارت کو پیش کی۔ اگر وہ اس انگلی سے نہ دھوتے جو کچھ دیر پہلے کیچڑ میں سنی ہوئی تھی تو شاید اتنی اُبکائی نہ آتی۔ مولانا چائے دینے کو جھکے تو ان کی داڑھی میں سے گٹر کی بو آ رہی تھی۔

مولانا کا بیان جاری تھا۔ بشارت میں اب اتنا حوصلہ باقی نہیں رہا تھا کہ نظر اٹھا کر ان کی صورت دیکھیں۔ "مجھے محکمہ انسدادِ بے رحمیِ جانوران ساٹھ روپے تنخواہ دیتا ہے۔ اک بیٹا سات سال کا ہے ذہن، ڈیل اور شکل و صورت میں سب سے اچھا۔ چار پانچ مہینے ہوئے اسے تین دن بڑا تیز بخار رہا۔ چوتھے دن بائیں ٹانگ رہ گئی۔ ڈاکٹر کو دکھایا۔ بولا، پولیو ہے۔ انجکشن لکھ دیے۔ خدا کا شکر کس زبان سے ادا کروں کہ میرا بچہ صرف ایک ٹانگ سے معذور ہوا۔ پڑوس میں، چار جھگی چھوڑ کر، ایک بچی کی دونوں ٹانگیں رہ گئیں۔ وبا پھیلی ہوئی ہے۔ جو رَب چاہتا ہے وہی ہوتا ہے۔ بن باپ کی بچی ہے۔ ڈاکٹر کی فیس کہاں سے لائے۔ میں نے اپنے بیٹے کے تین انجکشن اس بچّی کو لگوا دیے۔ کیا بتاؤں اس بیوہ بی بی نے کیا دعائیں دی ہیں۔ پانچوں وقت اس بچّی کے لیے بھی دعا کرتا ہوں۔ ہر جمعے کو جنگلی کبوتر کے خون اور لونگ اور بادام کے تیل سے بیٹے اور اس بچّی کی ٹانگوں کی مالش کرتا ہوں۔ ویسے اس ڈاکٹر کا علاج بھی جاری ہے۔ آپ کے کوچوان سے جتنی بار پیسے لیے اسی علاج معالجے کے واسطے لیے۔”

بشارت کو ایسا محسوس ہوا جیسے دماغ سُن ہو گیا ہو۔ بیماری، بیماری! یہاں لوگ کچرگھان بچے پیدا کرنے اور بیمار پڑنے کے علاوہ کچھ اور بھی کرتے ہیں یا نہیں؟ اس آدھے گھنٹے میں ان کے منہ سے بمشکل دس بارہ جملے نکلے ہوں گے۔ مولانا ہی بولتے رہے۔ بشارت کی زبان پر ایک سوال آ آ کر رہ جاتا تھا۔ کیا سب جھگیوں میں یہی حال ہے؟ کیا ہر گھر میں لوگ اسی طرح رِنجھ رِنجھ کر جیتے ہیں؟

مولانا جاری تھے "اسے قرضِ حسنہ سمجھ کر معاف کر دیجیے۔ آپ کے کوچوان نے دھمکی دی تھی کہ، ہمارا صاب کہتا ہے اس دڑھیل کو بول دینا کہ ایسا ذلیل کروں گا، ایسا ملیا میٹ کروں گا کہ یاد کرے گا۔ ، یہ آپ دیکھ رہے ہیں۔ برستا بادل ہمارا اوڑھنا اور کیچڑ ہمارا بچھونا ہے۔ اس کے آگے اب اور کیا ہو گا؟ مولا سے دعا کی تھی کہ اکل حلال اور صدقِ مقال عطا ہو۔ عزت کی روٹی ملے۔ گنہ گار ہوں۔ دعا قبول نہ ہوئی۔ اس پر سب روشن ہے۔ آج صبح ناشتے میں ایک روٹی کھائی تھی۔ اس کے بعد  ایک کھیل کا دانہ بھی منہ میں گیا ہو تو لحم الخنزیر ہے۔ وہ جس کو چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے تم اتنے بے بس اور عاجز ہو کہ تمہارے ہاتھ سے مکھی بھی ایک ریزہ اٹھا کر لے جائے تو تم اس سے چھین نہیں سکتے۔”

مولانا نے کرتا اٹھا کر اپنا پیٹ دکھایا جس میں غار پڑا ہوا تھا۔ دھونکنی سی چل رہی تھی۔ بشارت نے نظریں جھکا لیں۔

” مدت سے حضرت ذہین شاہ تاجی سے بیعت ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔ ایک پڑوسی نے جو اس بیوہ بی بی سے شادی کرنا چاہتا ہے اور مجھے اس میں حارج سمجھتا ہے، پیرو مرشد کو ایک گمنام خط بھیجا کہ میں رشوت لیتا ہوں۔ اب حضرت فرماتے ہیں کہ حضرت با با فرید الدّین گنج شکر علیہ الرحمہ نے رزقِ حلال کو اسلام کا چھٹا رکن قرار دیا ہے۔ ارشاد فرمایا کہ جب تک تم رشوت کا ایک ایک پیسا واپس نہ کر دو گے، پلید ہاتھ سے بیعت نہیں لوں گا۔ خدا مجھ پر رحم فرمائے۔ میرے حق میں دعا کیجیے۔”

مولانا ان کے سامنے دعائیہ انداز میں ہاتھ پھیلائے کھڑے تھے۔ ان کے ملیشیا کے کرتے پر جذب ہوتے ہوئے آنسوؤں کا ایک سیاہ زنجیر سا بن گیا تھا۔ بشارت نے ان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔

 

دو اکیلے

 

ایک ہفتے بعد  دیکھا کہ مولانا کرامت حسین بشارت کی دکان پر منشی کے فرائض انجام دے رہے ہیں اور فیتہ ہاتھ میں لیے دیودار اور”پین”کی لکڑی کی پیمائش کرتے خوش خوش پھر رہے ہیں۔ ان کی تنخواہ تگنی ہو گئی۔ تین چار دن بعد  بشارت نے صرف اتنی تنبیہ کی کہ مولانا ایمانداری اچھی چیز ہے، مگر آپ گاہک کے سامنے لکڑی کی گرہ کو اس طرح نہ تکا کیجیے جیسے گھوڑے کی گردن کے زخم کو دیکھ رہے ہوں۔ رحیم بخش کوچوان کو برخواست کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ مولانا کے آتے ہی وہ کہے سنے بغیر غائب ہو گیا۔

گھوڑے کے بکنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی۔ مولانا کے لحاظ اور مروت میں "بے رحمی والوں” نے ستانا چھوڑ دیا۔ بشارت نے بزرگوار سے اشارتاً کہا کہ آپ کی دعا سے چالانوں کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے۔ اب آپ ڈرائنگ روم سے اپنے کمرے میں تشریف لے جا سکتے ہیں۔ لیکن بزرگوار گھوڑے کے اسقدر عادی ہو گئے تھے کہ کسی طرح نفل نماز اور وظیفہ چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے۔ گھوڑا انھیں دیکھتے ہی بقول کوچوان کے بچیانے لگتا، یعنی مارے خوشی کے اپنے کان کھڑے کر کے دونوں سرے ملا دیتا۔ علی الصبح گھوڑا ڈرائنگ روم میں بالاصرار و بالالتزام بلوایا جاتا۔ جیسے ہی”گھوڑا آ رہا ہے!” کا غلغلہ بلند ہوتا تو جس کو دین و دل یا کچھ اور بھی عزیز ہوتا راستہ چھوڑ کر تماشا دیکھنے کھڑا ہو جاتا۔ یہ منظر آرسی مصحف کی یاد دلاتا تھا۔ جب نوشہ کو زنانے میں بلوایا جاتا ہے تو بار بار اعلان کیا جاتا ہے”لڑکا آ رہا ہے! لڑکا آ رہا ہے!” یہ سن کر لڑکیاں بالیاں اور پردہ نشین بیبیاں نقاب الٹ کر طباق سے چہرے کھول کر بیٹھ جاتی ہیں۔ یہ بد گمانی بیجا نہیں معلوم نہیں ہوتی کہ بعض مرد بڑھاپے میں شادی فقط "لڑکا آ رہا ہے” سننے کے لالچ میں کرتے ہیں ورنہ جہاں تک نکاح یا وظیفہ زوجیت کا تعلق ہے تو

اس سے غرض نشاط ہے کس رو سیاہ کو

بزرگوار اس کی پیشانی پر انگشتِ شہادت سے”اللہ”لکھتے۔ کچھ عرصے سے اس کے پیر پر دَم کر کے ہاتھ بھی پھیرنے لگے تھے۔ جس دن سے وہ ایال میں انگلیوں سے کنگھی کرتے ہوئے، اس سے گھر والوں کی شکایتیں نام لے لے کر کرنے لگے۔ اس دن سے رشتہ انسان اور جانور کا نہیں رہا۔ جب وہ اپنی نئی تکلیفوں کا حال سنا کر چپ ہو جاتے تو وہ بڑے پیار سے اپنا منہ ان کے مفلوج جسم کے ساتھ رگڑتا اور پھر سر جھکا لیتا۔ جیسے کہہ رہا ہو بابا! آپ تو مجھ سے بھی زیادہ دکھی نکلے ! وہ کہتے تھے کہ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میری بائیں ٹانگ میں دھیرے دھیرے پھر سے sensation (حس) آ رہی ہے۔

غرض کہ بزرگوار اب اسے گھوڑا سمجھ کر بار نہیں کرتے تھے۔ ادھر گھوڑا بھی ان سے اس قدر مانوس ہو گیا اور ایسے یگانگت برتنے لگا جیسے وہ انسان نہ ہوں۔ وہ اب اسے کبھی گھوڑا نہیں کہتے تھے۔ بلبن یا بیٹا کہہ کر پکارتے۔ وہ آتا تو دونوں کی ملاقات دیدنی و شنیدنی ہوتی:

جیسے مجذوب کے گھر دوسرا مجذوب آئے

بزرگوار ایک دن کہنے لگے کہ گھوڑا دراصل مزمن وجع المفاصل میں مبتلا ہے (انہی کی طرح اب گھوڑے کو بھی ہر مرض عربی میں ہوتا تھا) پھر صراحتاً فرمایا کہ ٹانگ کے جوڑ جکڑ گئے ہیں۔ چنانچہ اس کے جوڑ کھولنے کے لیے ڈرائنگ روم میں ‌انگیٹھی جلوا کر اپنی نگرانی میں تین سیر کھوئے اور گھی میں گھیکوار کا حلوہ بنوا کر چالیس دن تک خود کھایا، جس سے ان کی اپنی زبان اور بھوک کھل گئی۔ ادھر وہ کچھ دن سے یہ بھی کہنے لگے تھے کہ گھوڑے میں ‌جن سما گیا ہے۔ اسے اتارنے کے لیے جمعرات کی جمعرات مرچوں کی دھونی دیتے اور آدھ سیر دانے دار قلاقند پر نیاز دے کر مستحقین میں تقسیم کرتے۔ مطلب یہ کہ آدھا خود کھاتے آدھا اپنے دوست چودھری کرم الٰہی کے ہاں بھجواتے۔ قلاقند کھاتے جاتے اور فرماتے جاتے بعض جنوں کی نیت کسی طرح نہیں بھرتی۔ سابق کوچوان رحیم بخش بھی کہتا تھا یہ گھوڑا نہیں، جن ہے۔ جن پلید آدمیوں کو دکھلائی نہیں دیتے۔ اسی سے روایت ہے کہ ایک دن میں بلبن کو صبح ڈرائنگ روم میں نہ لے جا سکا تو شام کو مغرب کے بعد  رسّی تڑّا کر خود ہی دَم کروا کے واپس آ گیا۔ میں دانہ چارا لے کر آیا تو جناب ادھر کچھ اور ہی سماں تھا۔ دیکھا کہ اس کے سُم کافور کے ہو گئے ہیں اور ان میں سے ایسی چکا چوند شعاعیں نکل رہی ہیں کہ آپ ادھر نظر بھر کر دیکھ نہیں سکتے۔ نتھنوں سے لوبان کا دھواں نکل رہا ہے۔ اس پر عبد اللہ گزک والے نے رحیم بخش کے سر کی قسم کھا کر کہا کہ جس وقت کا یہ واقعہ ہے، عین اسی وقت میں نے گھوڑے کو کلفٹن میں حضرت عبد اللہ شاہ غازی کی درگاہ کے سامنے کھڑے دیکھا تھا۔ اس پر ایک نورانی داڑھی والے سبز پوش بزرگ سوار تھے۔

بزرگوار نے گھوڑے کی کرامات کو اپنی کرامات سمجھا۔ کرید کرید کر کئی بار سبز پوش بزرگ کا حلیہ پوچھا اور ہر بار جھنجھلاہٹ کا اظہار کیا کہ بزرگ کا حلیہ ان سے نہیں ملتا تھا۔ اب وہ بلبن بیٹے کو مغرب کے بعد  بھی اپنے پاس بلوانے لگے۔ دونوں عشاء تک سر جوڑے ایسی باتیں کرتے کہ

لوگ سن پائیں تو دونوں ہی کو دیوانہ کہیں

اس واقعہ کے بعد  کوچوان گھوڑے کو بلبن صاحب اور شاہ جی کہنے لگا۔ بزرگوار اکثر فرماتے کہ یہ گھوڑا بڑا بھاگوان ہے۔ بشارت کے ہاں لڑکے کی پیدائش کو وہ گھوڑے کی آمد سے منسوب کرتے تھے ! محلّے کی چند  بانجھ عورتیں شاہ جی کے درشن کو آئیں۔

 

"وقوعہ ہو گیا”

 

ہم یہ تو بتانا تو بھول ہی گئے کہ رحیم بخش کے جانے کے بعد  انھوں نے ایک نیا کوچوان رکھا۔ نام مرزا وحید الزمان بیگ۔ مگر شرائطِ ملازمت کے مطابق بزرگوار اسے بھی الٰہ دین ہی کہہ کر پکارتے تھے۔ بات چیت اور شکل و صورت سے مسکین لگتا تھا۔ اس نے اپنا حلیہ ایسا بنا رکھا تھا کہ اس کے ساتھ خواہ مخواہ بھلائی کرنے کو جی چاہتا۔ منگول نقوش، سانولا رنگ، گٹھا ہوا بدن، چھوٹے چھوٹے کان، کشادہ پیشانی۔۔۔ کاٹھی ایسی ٹانٹھی کہ عمر کچھ بھی ہو سکتی تھی۔ صدری کی اندرانی جیب میں پستول کے بجائے ایک گھسی ہوئی نعل کا شیر پنجہ رکھ چھوڑا تھا۔ بندر روڈ کے عقب میں ٹرام ڈپو کے پاس جو تھیٹریکل کمپنی تھی، اس کے کھیل "رستم و سہراب” میں وہ ڈیڑھ مہینے تک رستم کا گھوڑا "رخش” بنا تھا۔ اسٹیج پر پوری طاقت سے ہنہناتا تو تھیٹر کے باہر کھڑے ہوئے تانگوں کی گھوڑیاں اندر آنے کے لیے لگام تڑانے لگتیں۔ اس کی ایکٹنگ سے خوش ہو کر ایک تماشائی نے یہ نعل اسٹیج پر پھینکی تھی۔ چھوٹے سے جثے پر بڑی پاٹ دار آواز پائی تھی۔ روز مرّہ گفتگو کے دوران اچانک تھیٹر کی یاد آ جائے تو گھوڑے کو اسپ، گویے کو رامش گر اور خود کو روسیاہ کہنے لگتا۔ آغا حشر کے دھواں دھار ڈراموں کے گرجتے کڑکتے مکالمے زبانی یاد تھے، جنہیں گھوڑے کے ساتھ بولتا رہتا تھا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ایسے مکالموں کے صحیح مخاطب بھی وہی ہو سکتے ہیں۔ آغا حشر کے مکالمے حجلہ عروسی میں بھی خود اور زرہ بکتر پہنے، برہنہ تلوار لہراتے داخل ہوتے ہیں، جب کہ میدانِ جنگ میں ان کا ہر قدم نقارے پر پڑتا ہے۔ الفاظ کے دھنی ہمیشہ قبضے پر گھنگرو باندھ کر تلوار چلاتے ہیں۔ اور اگر بہ تقاضائے بشریت یا پبلک کے پر زور اصرار پر، آ گیا عین لڑائی میں وقتِ وصال، تو محبوبہ سے بھی اس مقفیٰ شمشیر برہنہ زبان میں گفتگو فرماتے ہیں جس میں جانی دشمنوں کا قافیہ تنگ کرتے ہیں۔ ایسے نازک مقامات پر بھی جہان صبر یا شائستگی کا جامہ اترنے لگے وہ قافیے کا دامن دانتوں سے پکڑے رہتے ہیں۔ آغا حشر کے ہیرو کی جان اور آن الفاظ کے طوطوں میں بند ہوتی ہے اور طوطا جتنا چھوٹا ہو، اس سے اتنی ہی بڑی توپ چلواتے ہیں۔ جس زمانے کا یہ ذکر ہے تانگے والے، ملوں کے مزدور اور خوانچہ فروش تک آپس میں انھیں مکالموں کے ٹکڑے بولتے پھرتے تھے۔

مرزا وحید الزمان بیگ جس کے نام کے آگے یا پیچھے کوچوان لکھتے ہوئے کلیجہ خون ہوتا ہے، اپنا ہر جملہ "قصور معاف!” سے شروع کرتا تھا۔ ملازمت کے انٹرویو کے دوران اس نے دعویٰ کیا کہ میں موٹر ڈرائیونگ بھی بہت اچھی جانتا ہوں۔ بشارت نے جل کر حقارت سے کہا، تو پھر تم تانگہ کیوں چلانا چاہتے ہو؟ دعا کے انداز میں ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہنے لگا، پاک پروردگار آپ کو کار دے گا تو کار بھی چلا لیں گے۔

بشارت نے اسے یہ سوچ کر ملازم رکھا تھا کہ چلو مسکین آدمی ہے۔ قابو میں رہے گا۔ مرزا عبدالودود بیگ نے ٹِپ دیا تھا کہ ذہانت پر ریجھ کر کبھی کسی کو ملازم نہیں رکھنا چاہیے۔ ملازم جتنا غبی ہو گا اتنا ہی زیادہ تابعدار اور خدمتی ہو گا۔ لیکن اس نے کچھ دن تو بڑی تابعداری دکھائی، پھر یہ حال ہو گیا کہ سکول سے کبھی ایک گھنٹا لیٹ آ رہا ہے، کبھی دن میں تین تین گھنٹے غائب۔ ایک دفعہ اسے ایک ضروری انوائس لے کر پاکستان ٹوبیکو کمپنی بھیجا۔ چار گھنٹے بعد  لوٹا۔ بچے اسکول کے پھاٹک پر بھوکے پیاسے کھڑے رہے۔ بشارت نے ڈانٹا۔ اپنی پیٹی کی طرف جسے راچھ اوزار کی پیٹی بتاتا اور تانگے میں ہر وقت اپنے ساتھ رکھتا تھا، اشارہ کر کے کہنے لگا، قصور معاف، وقوعہ ہو گیا۔ میونسپل کارپوریشن کی بغل والی سڑک پر گھوڑا سکندری (ٹھوکر) کھا کے گر پڑا۔ ایک تنگ ٹوٹ گیا تھا۔ نعل بھی جھانجھن کی طرح بجنے لگی۔ انھیں ٹھیک کر رہا تھا۔ قصور معاف، نعل کی ایک بھی میخ ڈھیلی ہو تو ایک میل دور سے فقط ٹاپ سن کر بتا سکتا ہوں کہ کون سا سُم ہے۔ بشارت نے حیرت سے پوچھا، تم خود نعل باندھ رہے تھے؟ بولا، اور نہیں تو۔ کہاوت ہے، کھیتی، پانی، بینتی اور گھوڑے کا تنگ۔ اپنے ہاتھ سنواریے چاہے لاکھوں ہوں سنگ[6] گھوڑے کی چاکری تو خود ہی کرنی پڑتی ہے۔

وہ ہر دفعہ نئی داستان اور نیا عذر تراشتا تھا۔ جھوٹے لپاٹی آدمی کی مصیبت یہ ہے کہ وہ سچ بھی بولے تو لوگ جھوٹ سمجھتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوا کہ اسی کی بات سچ نکلی۔ تاہم اس کی بات پر دل نہیں ٹھکتا تھا۔ ایک دن بہت دیر سے آیا۔ بشارت نے آڑے ہاتھوں لیا تو کہنے لگا "جنابِ عالی! میری بھی تو سنیے۔ میں ریس کلب کے اصطبل کے سامنے سے اچھا بھلا گزر رہا تھا کہ گھوڑا ایک دَم اَڑ گیا۔ چابک مارے تو بالکل الف ہو گیا۔ راہ گیر تماشا دیکھنے کھڑے ہو گئے۔ اتنے میں اندر سے ایک بڈھا سلوتری نکل کے آیا۔ گھوڑے کو پہچان کے کہنے لگا، "ارے ارے ! تُو اس شہزادے کو کائے کو مار ریا ہے۔ اس نے اچھے دن دیکھے ہیں۔ قسمت کی بدنصیبی کو صیّاد کیا کرے۔ یہ تو اصل میں دُرِ شہوار (گھوڑی کا نام) کی بُو لیتا یہاں آن کے مچلا ہے۔ جس ریس میں اس کی ٹانگ میں موچ آئی ہے، دُرِ شہوار بھی اس کے ساتھ دوڑی تھی۔ دو اتوار پہلے پھر اوّل نمبر پر آئی ہے۔ اخباروں میں فوٹو چھپے تھے۔ بھاگوان نے مالک کو لکھ پتی کر دیا” پھر اس نے اس کے پرانے سائیس کو بلایا۔ ہم تینوں اسے تانگے سے کھول کے اندر لے جانے لگے۔ اسے سارے رستے معلوم تھے۔ سیدھا ہمیں اپنے تھان پہ لے گیا۔ وہاں ایک بے ڈول کالا بھجنگ گھوڑا کھڑا پشتک (دولتی) مار رہا تھا۔ ذرا دور پہ، دوسری طرف دُرِ شہوار کھڑی تھی۔ وہ اسے پہچان کے بے کل ہو گئی۔ کہاں تو یہ اتنا مچل رہا تھا اور کہاں یہ حال کہ بالکل چپکا، بے ست ہو گیا۔ گردن کے زخم کی مکھیاں تک نہیں اڑائیں، صاحب جی، اس کا گھاؤ بہت بڑھ گیا ہے۔ سائیس نے اسے بہت پیار کیا۔ کہنے لگا، بیٹا! اس سے تو بہتر تھا کہ تجھے اسی وقت انجکشن دے کے سلا دیتے۔ یہ دن تو نہ دیکھنے پڑتے۔ یہ تیرے مالک کو ترس آ گیا ۔۔ پھر اس نے اس کے سامنے ریس کلب کا راتب رکھا۔ صاحب، ایسا چبینا تو انسان کو بھی نصیب نہیں۔ پر قسم لے لو جو اس نے چکھا ہو۔ بس سر جھکائے کھڑا رہا۔ سائیس نے کہا، اسے تو بخار ہے۔ اس نے اس کا بقیہ ساز کھول دیا اور لپٹ کے رونے لگا۔

"صاحب جی! میرا بھی جی بھر آیا۔ ہم دونوں جنے مل کر آبدیدہ ہو رہے تھے کہ اتنے میں ریس کلب کا ڈاکٹر آن ٹپکا۔ اس نے ہم تینوں کو نکال باہر کیا۔ کہنے لگا: ابے اس بھنکنی ہتّیا کو یہاں کائے کو لایا ہے؟ اور گھوڑوں کو بھی مارے گا؟”

 

نتھ کا سائز

 

ایک اور موقع پر دیر سے آیا تو قبل اس کے کہ بشارت ڈانٹ ڈپٹ کریں، خود ہی شروع ہو گیا "صاحب جی! قصور معاف۔ وقوعہ ہو گیا۔ میونسپل کارپوریشن کے پاس ایک مشکی گھوڑی بندھی ہوئی تھی، اسے دیکھتے ہی ایسا درپے ہوا کہ دونوں نے کلفٹن پہنچ کے دَم لیا۔ آگے آگے گھوڑی اس کے پیچھے گھوڑا۔ پھر کیا نام، یہ رو سیاہ۔ چوتھے نمبر پہ گھوڑی کا دَھنی۔ صاحب جی، اپنا گھوڑا اس طریوں جا ریا تھا جیسے گلے سے ملائی اتر رئی ہو۔”

یہاں اس نے چابک اپنی ٹانگوں کے بیچ دبایا اور اور دوڑ کر بتایا کس طرح گھوڑا، آپ کا غلام اور گھوڑی کا مالک، اسی ترتیب سے گھوڑے کی مطلوبہ کے تعاقب میں سر پٹ جا رہے تھے۔ ” جناب والا اس شخص نے پہلے تو مجھے کیا نام کہ نرگسی کوفتے جیسی آنکھوں سے دیکھا۔ پھر الٹا مجھی پہ غرایا۔ حالانکہ میرا گھوڑا بے قصور تھا۔ سارے رستے اسی کی گھوڑی مُڑ مُڑ کے اپن کے گھوڑے کو دیکھتی رہی کہ بربر پیچھے آ رہا ہے کہ نہیں۔ میں نے اس کو بولا کہ اگر ایسا ہی ہے تو اپنی بے نتھی سنکھنی[7] کو سنبھال کر کیوں نہیں رکھتے۔ مالک کی آبرو تو گھوڑی کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ راہ چلتے گھوڑے کے ساتھ زلیخائی کرتی ہے۔ جناور کو پیغمبری آزمائش میں ڈالتی ہے۔ آخر کو مرد ذات ہے۔ برف کا پُتلا تو نہیں۔ صاحب جی! میں نے کیا نام اس دیوث کو بولا کہ جا جا! تیری جیسی گھوڑیاں بہت دیکھی ہیں۔ کراچی تھیٹر کومپنی میں اس جیسی ایک اُچھال چھکا چھوکری ہے۔ پر اس کی نائکہ ماں اسے اب بھی کنوار پنے کی نتھ پہنائے رہتی ہے۔ جیسے جیسے اس پٹاخہ کا چال چلن خراب ہوتا جائے ہے، نتھ کا سائز بڑا ہوتا جائے ہے۔ صاحب جی! یہ سنتے ہی اس کا غصہ رفو چکر ہو گیا۔ مجھ سے تھیٹر کومپنی کا پتہ اور چھوکری کا نام پوچھنے لگا۔ کہاں تو گالی پہ گالی بک رہا تھا، اب مجھے استاد! استاد! کہتے زبان سوکھ رئی تھی۔ بولا! استاد! غصہ تھوکو، یہ لو پان کھاؤ! قسم سے ! اپن کا گھوڑا تو نظریں نیچی کیے، توبڑے میں منہ ڈالے، میونسپل کارپوریشن کے پاس کھڑا جگالی کر رہا تھا۔ جناب والا! سوچنے کی بات ہے۔ اس کی گھوڑی تو دو رکابہ (بہت اونچی) تھی۔ ڈھؤ کی ڈھؤ! جب کہ گھوڑا! بہت سے بہت آپ کے قد کے برابر ہو گا”

بشارت کے آگ ہی تو لگ گئی ” ابے قد کے بچے ! تیرے گھوڑے کے ساتھ ہر وقوعہ میونسپل کارپوریشن کے پاس ہی ہوتا ہے !”

ہاتھ جوڑ کے بولا” اب کے وقوعہ گھوڑے کے ساتھ نہیں ہوا بلکہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ”

 

بشارت ہئیر کٹنگ سیلون

 

میونسپل کارپوریشن والا عقدہ بھی بالآخر کھل گیا۔ ان دنوں بشارت اپنی دکان میں سڑک کے رخ کچھ تبدیلیاں اور اضافے کرنا چاہتے تھے۔ نقشہ پاس کرانے کے سلسلے میں میونسپل کارپوریشن جانے کی ضرورت پیش آئی، مگر کوچوان کا کہیں پتا نہ تھا۔ تھک ہار کر وہ تین بجے رکشا میں بیٹھ میونسپل کارپوریشن چل دیے۔ وہاں کیا دیکھتے ہیں کہ فٹ پاتھ پر مرزا وحید الزمان بیگ کوچوان پھٹی دری کا ٹکڑا بچھائے ایک شخص کی حجامت بنا رہا ہے۔ وہ اوٹ میں کھڑے ہو کر دیکھنے لگے۔ حجامت کے بعد  اس نے اپنی کلائی پر لگی ہوئی صابن اور شیو کی قاشیں اُسترے سے صاف کیں اور اسے چموٹے اور اپنی کلائی پر تیز کیا۔ پھر گھٹنوں کے بَل نیم قد کھڑے ہو کر بغلیں لیں۔ انہیں اپنی آنکھوں پہ یقین نہیں آیا۔ لیکن "اوزاروں ” کی جانی پہچانی پیٹی سے پھٹکری کا ڈلا اور تبت ٹیلکم پاؤڈر نکالتے دیکھا تو اپنی بینائی پر اعتماد بحال ہو گیا۔ اب جو غور سے دیکھا تو دری کے کنارے پر گتّے کا ایک سائن بورڈ بھی نظر آیا جس پر نہایت خوش خط اور جلی حروف میں لکھا تھا:

بشارت ہئیر کٹنگ سیلون

ہیڈ آفس

ہر چند  رائے روڈ

بیچ بازار میں اسے بے آبرو کرنا مناسب نہ سمجھا۔ غصّے میں بھرے، رکشا لے کر دکان واپس آ گئے۔ اس روز وہ اسکول سے بچوں کو لے کر سات بجے شام گھر لوٹا۔ بشارت نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، اس کے ہاتھ سے چابک چھین کر دھمکی آمیز انداز میں لہراتے ہوئے بولے "سچ سچ بتا۔ ورنہ ابھی چمڑی اُدھیڑ  دوں گا۔ حرام خور! تم نائی ہو! پہلے کیوں نہیں بتایا؟ ہر بات میں جھوٹ بات بے بات جھوٹ۔ آج دیکھتا ہوں کیسے جھوٹ بولتا ہے۔ سچ سچ بتا کہاں تھا۔” وہ ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا اور تھر تھر کانپتے ہوئے کہنے لگا ” قصور معاف! سرکار سچ فرماتے ہیں۔ آج سے قسم وحدہٗ لا شریک کی، ہمیشہ سچ بولوں گا۔ ”

چنانچہ اس کے بعد  زندگی میں اس کی جتنی بھی خواری ہوئی، وہ سب سچ بولنے کے سبب ہوئی۔ مرزا کہتے ہیں کہ سچ بول کر ذلیل و خوار ہونے کی بہ نسبت جھوٹ بول کر ذلیل و خوار ہونا بہتر ہے۔ آدمی کو کم از کم صبر تو آ جاتا ہے کہ کس بات کی سزا مل رہی ہے۔

بشارت کی جرح پر پہلا سچ جو اس نے بولا وہ یہ تھا کہ میونسپل کارپوریشن کے بندھے ہوئے گاہکوں کو نمٹا کر میں ساڑھے چار بجے برنس روڈ پر ختنے کرنے گیا۔ ختنے کے براتیوں کو جمع ہونے میں خاصی دیر ہو گئی۔ پھر لونڈا کسی طرح راضی نہیں ہوتا تھا۔ اکلوتا لاڈلا ہے۔ آٹھ سال کا دھینگڑا۔ اس کے باوا حاجی مقصود الٰہی پنجابی سوداگران دلّی نے بہتیرا بہلایا پھسلایا کہ بیٹا! مسلمان ڈرا نہیں کرتے۔ تکلیف ذرا نہیں ہو گی۔ مگر لونڈا بضد تھا کہ پہلے آپ! آپ کے تو داڑھی بھی ہے۔

بشارت کا چہرا غصّے سے سرخ ہو گیا۔

ایک اور سچ بزورِ چابک اس سے بلوایا گیا کہ اس کا اصل نام بدھن ہے۔ اس کے میٹرک پاس بیٹے کو اس کے نام اور کام دونوں پر سخت اعتراض تھا۔ بار بار خودکشی کی دھمکی دیتا تھا۔ اس نے بہتیرا سمجھایا کہ بیٹا بزرگوں کے نام ایسے ہی ہوا کرتے ہیں۔ نام میں کیا دھرا ہے۔ جھنجھلا کے بولا۔ ” ابا جی! یہ بات تو شیخ پئیر (شیکسپئیر) نے کہی تھی۔ پر اس کے باپ کا نام بدھن تھوڑا ہی تھا۔ وہ کیا جانے۔ تم اور کچھ نہیں بدل سکتے تو کم از کم نام تو بدل لو”۔ چنانچہ جب کچھ دن اس نے ایسٹرن فیڈرل انشورنس کمپنی میں چپراسی کی ملازمت کی تو اپنا نام مرزا وحید الزمان بیگ لکھوا دیا۔ بس اسی زمانے سے چلا آ رہا تھا۔ دراصل یہ اس افسر کا نام تھا جس کی وہ بیس سال پہلے حجامت بنایا کرتا تھا۔ وہ لا ولد مرا۔ رشوت سے بنائی ہوئی جائداد پر بھتیجوں بھانجوں نے اور نام پر اب اس نے قبضہ کر لیا۔

اب جو کمبخت سچ بولنے پر آیا تو بولتا ہی چلا گیا۔ مرزا عبد الودود بیگ کا قول ہے کہ فی زمانہ 100 فیصد سچ بول کر زندگی کرنا ایسا ہی ہے جیسے بجری ملائے بغیر، صرف سیمنٹ سے مکان بنانا۔ کہنے لگا” قصور معاف! اب میں سارا سچ ایک ہی قسط میں بول دینا چاہتا ہوں۔ میرا خاندان غیرت دار ہے۔ اللہ کا شکر ہے، ذات کا سائیس نہیں۔ سو سال سے بزرگوں کا پیشہ حجّامی ہے۔ ماشا اللہ سے دس بارہ کھانے والے ہیں۔ سرکار کے علم میں ہے کہ ایک گھوڑے پر جتنا خرچ آتا ہے، اس کی آدھی تنخواہ مجھے ملتی ہے۔ ستّر روپے سے کس کس کے ناک میں دھونی دوں۔ ہار جھک مار کر یہ پرائیویٹ پریکٹس کرنی پڑتی ہے۔ برسوں اپنا اور بیوی بچوں کا پیٹ کاٹ کے بڑے لڑکے کو میٹرک پاس کروایا۔ علیم الّدین صاحب کے بال بیس برس سے کاٹ رہا ہوں۔ سر پہ تو اب کچھ رہا نہیں۔ بس بھنویں بنا دیتا ہوں۔ سرکار! اس فن کے قدردان سب اللہ کو پیارے ہو گئے۔ اب تو بالبر (باربر) اس طرح بال اتاریں گویا کہ بھیڑ کو مونڈ رہے ہوں۔ میری نظر موٹی ہو گئی ہے، مگر آج بھی پیر کے انگوٹھے کے ناخن نہرنی روکے بغیر ایک ہی دفعہ میں تراش لیتا ہوں۔ تو علیم الدّین صاحب کے ہاتھ پیر جوڑ کے لونڈے کو مسلم کمرشل بینک میں کلرک لگوا دیا۔ اب وہ کہتا ہے مجھے تمہارے نائی ہونے سے شرم آتی ہے۔ پیشہ بدلو۔ سرکار میرے باپ دادا نائی تھے، نواب نہیں۔ محنت مشقت سے حق حلال کی روٹی کماتا ہوں۔ پر صاب جی، میں نے دیکھا ہے کہ جن کاموں میں محنت زیادہ پڑتی ہے، لوگ انہیں نیچ اور ذلیل سمجھتے ہیں۔ بیٹا کہتا ہے کہ میرے ساتھ کے سب لڑکے اکاؤنٹینٹ ہو گئے۔ تجوری کی چابیاں بجاتے پھرتے ہیں۔ فقط ولدیت کے چکر میں میری ترقی رکی ہوئی ہے۔ اگر تم نے نائی کا دھندا نہیں چھوڑا تو تمہارے ہی استرے سے اپنا گلا کاٹ لوں گا۔ کبھی کبھی اپنی ماں کو ڈرانے کے لیے رات گئے نرخرے سے ایسی آوازیں نکالنے لگا جیسے بکرا ذبح ہو رہا ہو۔ وہ نیک بخت مجھے خدا رسول کے واسطے دینے لگی۔ مجبور ہو کر میں نے کوچوانی شروع کر دی۔ یہ پرائیویٹ پریکٹس اس سے لُک چھُپ کے کرتا ہوں۔ اس کی بے عزتی کے ڈر سے پیٹی، اوزار، کسبت وغیرہ کبھی گھر نہیں لے جاتا۔ یقین جانیے، اسی وجہ سے اپنے ہیر ڈریسنگ سیلون کے سائن بورڈ پہ حضور کا نام پتا لکھوا دیا۔ بڑی برکت ہے آپ کے نام میں۔ قصور معاف!”

 

الٰہ دین بے چراغ

 

وہ ہاتھ جوڑ کر زمین پر بیٹھ گیا اور پھر ہل ہل کے ان کے  گھٹنے دبانے لگا۔ جیسے ہی وہ پسیجے، اس نے ایک اور سچ بولا۔ کہنے لگا کہ سرکار کے چہرے پر روزانہ صبح کٹ دیکھ کر اس کا دل خون ہو جاتا ہے۔ دیسی بلیڈ بال کم اور کھال زیادہ اتارتا ہے۔ کھونٹیاں رہ جاتی ہیں۔ قصور معاف! قلمیں بھی اونچی نیچی۔ جیسے نو بج کر بیس منٹ ہوئے ہوں۔ اس نے درخواست کی کہ اسے گھوڑے کا کھریرا کرنے سے پہلے ان کا شیو بنانے کی اجازت دی جائے۔ مزید خدمات یہ کہ بچوں کے بال کاٹے گا۔ بہاری کباب، بمبیا بریانی، مرغ کا قورمہ اور شاہی ٹکڑے لاجواب بناتا ہے۔ اور دیگ کا حلیم اور ڈھبریوں کی فیرنی ایسی کہ انگلیاں چاٹتے رہ جائیں۔ سو ڈیڑھ سو آدمیوں کی دعوت کے لیے تین گھنٹے میں پلاؤ زردہ بنا سکتا ہے۔ بشارت چٹورے آدمی ٹھرے۔ یوں بھی انگریزی محاورے کے مطابق، مرد کے دل تک پہنچنے کا راستہ معدے سے ہو کر گزرتا ہے۔ کارل مارکس بھی یہی کہتا ہے :

ہر رہ جو ادھر کو جاتی ہے، معدے سے گزر کر جاتی ہے

انہیں یہ حجام اچھا لگنے لگا۔

اس نے یہ بھی کہا کہ گھوڑے کے کھریرے کے بعد  وہ ان کے والد کے پیر دبائے گا۔ اور رات کو ان (بشارت) کا مساج کرے گا۔ گردن کے پیچھے جہاں سے ریڑھ کی ہڈی شروع ہوتی ہے، ایک رگ ایسی ہے کہ نرم گرم انگلیوں سے ہولے ہولے دبائی جائے تو سارے جسم کی تھکن اتر جاتی ہے۔ یہ آنکھ کو نظر نہیں آتی۔ اس کے استاد مرحوم لڈّن میاں کہا کرتے تھے کہ مالشیا اپنی انگلی کی پور سے ریکھتا ہے۔ یہی اس کی دوربین ہے جو چھوتے ہی بتا دیتی ہے کہ درد کہاں ہے۔ پھر اس نے بشارت کو لالچ دیا کہ جب روغنِ بادام سے سر کی مالش کرے گا اور انگوٹھے سے ہولے ہولے کنپٹیاں دبانے کے بعد ، دونوں ہاتھوں کو سر پر پرندے کے بازوؤں کی طرح پھڑپھڑائے گا تو یوں محسوس ہو گا جیسے بادلوں سے نیند کی پریاں پرے باندھے روئی کے پہل در پہل گالوں پر ہولے ہولے اتر رہی ہیں۔ ہولے ہولے، ہولے ہولے۔

بشارت دن بھر کے تھکے ہارے تھے۔ اس کی باتوں ہی سے آنکھیں آپ ہی آپ بند ہونے لگیں۔

اور آخری ناک آؤٹ وار اس ظالم نے یہ کیا کہ” ماشے اللہ سے ننھے میاں تین مہینے کے ہونے کو آئے۔ ختنے جتی کم عمری میں ہو جائیں، وتّی ہی جلدی کھرنڈ آئے گا”

اب تو چہرے کا گلاب کھل اٹھا۔ بولے ” بھئی خلیفہ جی! تم نے پہلے کیوں نہ بتایا۔ اماں حد کر دی! بھئی تم تو چھپے رستم نکلے!”

تِس پر اس نے اپنی جیب سے وہ نعل نکال کر دکھائی جو اسے رستم کا گھوڑا بننے پر انعام میں ملی تھی۔

مرزا وحید الزّمان بیگ اس دن سے خلیفہ کہلائے جانے لگے۔ ویسے یہ الٰہ دین نہم تھا۔ کام کم، ڈینگیں بہت مارتا تھا۔ مرزا عبد الودود بیگ اسے الٰہ دین بے چراغ کہتے تھے۔ بزرگوار نے اس کو الٰہ دین کے بجائے خلیفہ کہنا اس شرط پر منظور کیا کہ آئندہ اس کی جگہ کوئی اور کوچوان یا ملازم رکھا جائے گا تو اسے بھی خلیفہ ہی کہیں گے۔

 

گھوڑے کے آگے بین

 

رفتہ رفتہ مولانا، خلیفہ، گھوڑا اور بزرگوار ۔۔۔۔۔۔ باعتبارِ اہمیت، اسی ترتیب سے خاندان کے فرد گردانے گئے اور یہ ادغام و اختلاط اتنا مکمل تھا کہ گھوڑے کی لنگڑی ٹانگ بھی کنبے کا اٹوٹ انگ بن گئی۔ گھوڑے کے طفیل گھر کے معاملات میں بزرگوار کا دوبارہ عمل دخل ہو گیا۔ عمل دخل ہم نے محاورتاً کہہ دیا، ورنہ سراسر دخل ہی دخل تھا۔ ایک عمر ایسی آتی ہے جب انسان دوسروں کے معاملات میں دخل دینے ہی کو اپنا عمل شمار کرنے لگتا ہے۔ بعض لوگ تو ساری عمر اوروں کی خطائیں گننے اور ان کی حماقتوں کی اصلاح یعنی دخل در نا معقولات میں گزار دیتے ہیں۔ اپنے بارے میں سوچنے کی فرصت ہی نہیں ملتی

ع

محشر میں گئے شیخ تو اعمال ندارد

جس مال کے تھے تاجر وہی مال ندارد

سب گھر والے فرداً فرداً بلبن کو چمکارتے، تھپتھپاتے۔ دانہ چارا تو غالبا اب بھی اتنا ہی کھاتا ہو گا۔ پیار کی نظر سے اس کی ایال اور جلد ایسی چمکیلی اور چکنی ہو گئی کہ نگاہیں اور مکھیاں پھسلیں۔ بچّے چھپ چھپ کر اپنے حصے کی مٹھائی کھلانے آتے اور اسی کی طرح کان ہلانے کی کوشش کرتے۔ کچھ بچے اب فٹ بال کو آگے کک کرنے کی بجائے ایڑی سے دولتی مار کر پیچھے کی طرف گول کرنے لگے تھے۔ بیت بازی کے مقابلے میں جب کسی لڑکے کا گولہ بارود ختم ہو جاتا یا کوئی غلط شعر پڑھ دیتا تو مخالف ٹیم اور سامعین مل کر ہنہناتے۔ خود بزرگوار کوئی اچھی بری خبر سنتے یا سورج کے سامنے بادل کا کوئی اودا ٹکڑا آ جاتا تو فوراً گھوڑے کو ہارمونیم سنانے بیٹھ جاتے۔ اکثر فرماتے کہ جب واقعی اچھا بجاتا ہوں تو یہ بے اختیار اپنی دُم چنور کی طرح ہلانے لگتا ہے۔ ہمیں ان کے دعوے کی صداقت میں نہ جب شبہ تھا، نہ اب ہے۔ حیرت اس پر ہے کہ کہ انھوں نے کبھی غور نہیں فرمایا کہ گھوڑا ان کے کمالِ فن کی داد کس عضو سے دے رہا ہے !

بلبن بزرگوار کا کھلونا، اولاد کا نعم البدل، مونسِ تنہائی، آنسوؤں سے بھیگا تکیہ۔۔۔۔۔۔ سبھی کچھ تھا۔ اس کے آنے سے پہلے وہ تمام وقت اپنی زنگ خوردہ چول پر اَن گھڑ کواڑ کی طرح کراہتے رہتے، خواہ درد ہو یا نہ ہو۔ اگر ان کے سامنے کوئی دوسرا بوجھ اٹھاتا تو منہ سے ایسی آوازیں نکالتے گویا خود بھی بوجھوں مر رہے ہیں۔ کوئی پوچھتا، کہ طبیعت کیسی ہے تو جواب میں دائیں ہاتھ کو آسمان کی طرف اٹھا کر نفی میں ڈگڈگی کی طرح ہلاتے اور دو تین منٹ تک سُر بدل بدل کر کھانستے۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ اپنی بیماری کو ” انجوائے ” کرنے لگے ہیں۔ بعض کہنہ مشق مریض یہ تسلیم کرنے میں اپنے مرتبہ علالت کی توہین سمجھتے ہیں کہ اب تکلیف میں افاقہ ہے۔ بزرگوار بڑی زبردست قوتِ ارادی کے مالک تھے۔ اگر کبھی مرض دور ہو جاتا تو محض اپنی قوتِ ارادی کے زور سے دوبارہ پیدا کر لیتے۔ آپ نے انھیں نہیں دیکھا، مگر ان جیسے دائم المرض بزرگ ضرور دیکھے ہوں گے جو اپنی پالی پوسی بیماریوں کا حال اس طرح سناتے ہیں جیسے ننانوے پر آؤٹ ہونے والا بیٹس مین اپنی ادھوری سنچری اور دیہات کی عورتیں اپنی زچگیوں کے قصے سناتی ہیں۔ مطلب یہ کہ ہر دفعہ نئی کمنٹری اور نئے پچھتاوے کے ساتھ۔ بلبن کے آنے سے پہلے طبیعت بے حد چڑ چڑی رہنے لگی تھی۔ لوگ عیادت سے احتراز کرنے لگے۔ سب نے ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا۔ کسی کی جرات نہیں تھی کہ ان کے لطفِ علالت میں مخل ہو۔

لیکن اب طبیعت میں اعتدال بلکہ انشراح پیدا ہو چکا تھا۔ ہر ایک کو اپنے امراض کی تازہ ترین کیفیت سے آگاہی بخشتے۔ ذات الجنب، وجع المفاصل اور احتباسِ بول کی تفصیلات بتاتے۔ پیٹ پر ہاتھ پھیر پھیر کر نفخ اور آنتوں کی قراقر کا حال، متعلقہ صوتی اثرات کے ساتھ سناتے۔ رات کو خواب میں جن جن محلہ والوں کو مُردہ حالت میں دیکھا تھا، ان کے نام گنواتے اور باز آنے اور بکرا صدقہ دینے کی تلقین کرتے۔ کبھی فرماتے کہ تین دن سے بلغم میں اس قدر لزوجت ہے کہ سر کو دس بارہ دفعہ زور زور سے جھٹکا دوں تب کہیں ٹوٹ کر اگالدان میں گرتا ہے۔ ان دنوں بہار کالونی میں جاہل سے جاہل شخص کو۔۔۔۔۔ حتیٰ کہ مہترانی اور پروفیسر عبدالقدوس کو بھی۔۔۔۔۔ لزوجت[8] کے معنی مع مثال معلوم ہو گئے تھے۔ مرزا کہتے تھے کہ قبلہ کے امراض کے جراثیم عربی بولتے ہیں۔ انگریزی دواؤں کے قابو میں نہیں آنے کے۔

 

نشہ بڑھتا ہے شرابی جو شرابی سے ملیں

 

ان کے ایک پرانے وضع دار دوست فدا حسین خاں تائب جمعے کے جمعے مزاج پُرسی کو آتے تھے۔ کسی زمانے میں بڑے یار باش اور رنگین مزاج ہوا کرتے تھے۔ چوری چھُپے پیتے بھی تھے، مگر مفت کی۔ گناہ سمجھ کر چوری چھپے پینے میں فائدہ یہ ہے کہ ایک پیگ میں سو بوتلوں کا نشہ چڑھ جاتا ہے۔ لیکن ایک منحوس عادت تھی۔ جب بہت زیادہ چڑھ جاتی تو سب موضوعات چھوڑ کر صرف اسلام پر گفتگو فرماتے۔ اس پر تین جار مرتبہ شرابیوں سے پٹ بھی چکے تھے۔ وہ کہتے تھے ہمارا نشہ خراب کرتے ہو۔ لیکن شیخ حمید الدین جن کے ساتھ تائب پیتے تھے، ان کے انتخابِ موضوع پر اعتراض نہیں کرتے تھے۔ شیخ صاحب بڑے اہتمام سے پیتے اور یاروں کو پلاتے تھے۔ عمدہ وہسکی۔ چیکوسلواکیہ کے کرسٹل گلاس، تیز مرچوں کی بھُنی کلیجی اور کباب، ریاض خیرآبادی کے اشعار۔۔۔۔۔ اور ایک تولیے سے مے نوشی کا آغاز ہوتا۔ تائب کو جیسے ہی چڑھتی، اپنی پہلی بیوی کو یاد کر کر کے بھُوں بھُوں روتے اور تولیے سے آنسو پونچھتے جاتے۔ کبھی لمبا ناغہ ہو جاتا تو شراب پر فقط اس لیے ٹوٹ کر پڑتے کہ

اک عمر سے ہوں لذتِ گریہ سے بھی محروم

کبھی نشہ زیادہ چڑھ جاتا اور گھر یا محلّے میں جا کر چاندنی رات میں مرحومہ کو یاد کر کے دھاڑیں مارتے تو موجودہ بیوی اور محلّے والے مل کر ان کے سر پر بھشتی سے ایک مَشک چھڑکوا دیتے تھے۔ ایک مرتبہ جنوری میں ٹھنڈی برف مَشک سے انھیں زکام ہو گیا جس نے بعد  میں نمونیے کی شکل اختیار کر لی۔ اس واقعے کے بعد  بیوی ان کو تُرکی ٹوپی اُڑھا کر مَشک چھڑواتی تھی۔

 

فدا حسین خاں تائب

 

فدا حسین خاں تائب کی عمر یہی کوئی ساٹھ کے لگ بھگ ہو گی۔ لیکن تاکنے جھانکنے کا لپکا نہیں گیا تھا۔ بقول شخصے، جس نظر سے وہ پرائی بہو بیٹیوں کو دیکھتے تھے، اس نظر کے لیے ان کی اپنی بیوی ایک عمر سے ترس رہی تھی۔ تیسرے بچے کے بعد  ان کی شوہرانہ توجہات میں فرق آ گیا تھا کہ ہمارے ہاں گرہستی محبت کے لیے بچے اسپیڈ بریکرس (رفتار شکن) کا کام دیتے ہیں۔ طبع آزاد نے ایک بیوی پر توکل نہ کیا۔ مدتوں زنانِ زود یاب میں نروان ڈھونڈا کیے۔ جب تک بد رای ہونے کی استطاعت رہی، تنگنائے نکاح سے نکل نکل کر شب خون مارتے رہے۔ ادھر بے زبان بیوی یہ سمجھ کر سب کچھ انگیز کرتی رہی کہ

کچھ اور وسعت چاہیے مرے میاں کے لیے

لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ موصوف نے کیا سمجھ کے تائب تخلص اختیار کیا۔ کون سا عیب ہے جو اُن میں نہیں۔ آخر کس چیز سے تائب ہوئے ہیں؟ پھر یہ سوچ کر خاموش ہو جاتے کہ شاید اشارہ نیکیوں کی طرف ہو۔

تائب کسی زمانے میں ایک کو آپریٹو بینک میں ملازمت اور شاعری کرتے تھے۔ اعداد و شمار کے ساتھ بھی شاعری کرنے کی کوشش کی اور غبن کے الزام میں نکالے گئے۔ شاعری اب بھی کرتے تھے، مگر سال میں صرف ایک بار۔ پچاسویں سالگرہ کے بعد  یہ وتیرہ بنا لیا کہ ہر سال یکم جنوری کو اپنا قطعہ تاریخِ وفات کہہ کر رکھ لیتے جو بارہ تیرہ سال سے شرمندہ تعبیر ہونے سے محروم تھا۔ کلام میں صفائیِ بیان، سلاست، بندش کی چستی، خیال آفرینی اور نحوست کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ دورانِ سال کسی دوست یا واقف کار کا انتقال ہو جاتا تو اس کا نام کسی مصرعے میں ٹھونس کر اپنا قطعہ اسے بخش دیتے۔

"Thy need is yet greater than mine”[9]

کلام میں آمد تھی نہ آورد۔۔۔ بس مرحومین کی آمدو رفت تھی۔ بزرگوار ان کے کلام کی داد ایک عجیب انداز سے دیتے جس کی نقل اتاری جا سکتی ہے، بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں مارے باندھے کی رسمی داد، مجلسی شائستگی، دانستہ طنز اور بے ساختہ ہنسی کی بحصہ غیر مساوی آمیزش ہوتی تھی۔ ہنسی ایسی کہ دور سے کوئی سنے تو طے نہ کرسکے کہ ہنس رہے ہیں یا رو رہے ہیں۔ مطلب یہ کہ زار و قطار ہنستے تھے۔

نام کی تبدیلی کے سبب بہت سے قطعات میں سکتہ پڑنے لگتا جسے وہ ضرورتِ شعری اور تقاضائے موت کے تحت روا سمجھتے تھے۔ بعض لبِ گور دوست محض ان کے قطعے کے خوف سے مرنے سے گریز کر رہے تھے۔ بزرگوار کو تائب صاحب کا آنا بھی ناگوار گزرنے لگا۔ ایک دن کہنے لگے، یہ منحوس کیوں منڈلاتا رہوے ہے؟ میں تو جانو اس کی نیت مجھ پہ خراب ہو رہی ہے۔ اسسال کا قطعہ میرے سر، گویا کہ میرے سرہانے چیپکنا چاہتا ہے۔ پھر بطور خاص وصیت فرمائی کہ اول تو میں ایسا ہونے نہیں دوں گا، لیکن بالفرضِ محال، بالفرضِ محال فدا حسین تائب سے پہلے مر جاؤں، گو کہ میں ایسا ہر گز نہیں ہونے دوں گا۔۔۔۔۔ تو اس کا قطعہ میری پائینتی لگانا۔ جن قبروں کے کتبوں پر یہ قطعات مع مرحومین کے ناموں اور پھر ان کے اپنے تخلص، تائب، کے کندہ تھے، ان سے یہ پتہ نہیں چلتا تھا کہ در حقیقت قبر میں دفن کون ہے۔ یا بقول پروفیسر قاضی عبدالقدوس، انتقال اہلِ قبر کا ہوا ہے یا شاعر کا۔ بعض لوگ یہ کتبے دیکھ کر تعجب کرتے کہ ایک ہی شاعر کو بار بار کیوں درگور کیا گیا۔ لیکن جب کلام پر نگاہ کرتے تو کہتے ٹھیک ہی کیا۔ کسی شاعر ہی نے کہا ہے کہ ” اے بسا شاعر کہ بعد  از مرگ زاد” مطلب یہ کہ بہت سے شاعر ایسے ہوتے ہیں کہ مرنے کے بعد  بھی زندہ رہتے ہیں۔ شاعر مر جاتا ہے، مگر کلام باقی رہ جاتا ہے۔ اردو شاعری کو یہی چیز لے ڈوبی۔

 

محفلِ سماع خراشی

 

یوں کوئی دن ایسا نہیں جاتا تھا کہ بزرگوار مرنے کی دھمکی نہ دیتے ہوں۔ جنرل شیر علی کی طرح قبرستان میں ایک قطعہ زمین خرید کر اپنا پختہ مزار بنوا لیا تھا جو کافی عرصے سے بے آباد پڑا تھا کہ قبضہ لینے سے ہنوز کتراتے تھے۔ اکثر خود پر عالمِ یاس طاری کر کے یہ شعر پڑھتے :

دیکھتے ہی دیکھتے دنیا سے اُٹھ جاؤں گا میں

دیکھتی کی دیکھتی رہ جائے گی دنیا مجھے

شعر میں اپنی چٹ پٹ موت پر زبان کا کھیل دکھلایا گیا ہے۔ تذکیر و تانیث کی اُلٹ پلٹ سے، یعنی دیکھتے ہی دیکھتے اور دیکھتی کی دیکھتی سے بیک وقت نزاکتِ زبان و نزع اور لذّتِ تجنیس دکھانی مقصود ہے۔ اس سے تو بقول مرزا عبد الودود بیگ یہی پتہ چلتا ہے کہ بزرگوار کی موت زبان کے چٹخارے سے واقع ہوئی۔ گویا زبان سے اپنی قبر کھودی۔ تاہم حق مغفرت کرے عجب پابندِ محاورہ و روز مرہ مرد تھا۔

جس دن سے گھوڑا بزرگوار کی محفلِ سماع خراشی میں شریک ہونے لگا، انھوں نے اپنی پرانی کمخواب کی اچکن اُدھڑوا کر ہارمونیم کا غلاف بنوا لیا۔ خلیفہ دھونکنی سنبھالتا اور وہ کانپتی لرزتی انگلیوں سے ہارمونیم بجانے لگتے۔ کبھی بہت جوش میں آتے تو منہ سے بے اختیار گانے کے بول نکل جاتے۔ یہ فیصلہ کرنا ذرا مشکل تھا کہ ان کی آواز زیادہ کپکپاتی ہے یا انگلیاں۔ جیسے ہی انترا سانس جھکولے کھانے لگتا، ان کے  پڑوسی چودھری کرم الٰہی، ریٹائرڈ ایکسائز انسپکٹر ٹلکتے ہوئے آ نکلتے۔ عرصہ ہوا، گلا کوما (کالا پانی) سے ان کی دونوں آنکھوں کی بینائی جاتی رہی تھی۔ انھوں نے بطورِ خاص گجرات سے ایک گھڑا منگوا کر اس کی شوخ شنگرفی زمین پر ہالہ (سندھ) ٹائلز کے نقوش پینٹ کروا لیے تھے۔ کہتے تھے اوروں کو تو نظر آتا ہے۔ وہ جب اپنی آستین چڑھا کر چوڑی کلائی پر چنبیلی کا گجرا لپیٹے گھڑے پر سنگت کرتے تو سماں باندھ دیتے۔ وہ اکثر کہا کرتے کہ جب سے آنکھیں گئی ہیں مالک نے مجھ پر سُر سنگیت اور سُگند کے ان گنت بھید کھول دیے ہیں۔ گمّت ہو چکتی اور راگ خوشبو بن کے سارے میں رچ بس جات تو بزرگوار فرماتے "واہ وا! چوئی صاحب بھئی خوب بجاتے ہو۔ "اور چودھری صاحب اپنی بے نور آنکھیں وفورِ کیف سے بند کرتے ہوئے کہتے ” لو جی تسی وی اج بڑا کمال کیتا اے” اور واقعی یہ کمالِ فن نہیں تو اور کیا تھا کہ دونوں معذور بزرگ جب جھوم جھوم کے اپنے اپنے ساز پر بیک وقت اپنے اپنے راگ درباری اور تین تال بے تال میں ماہیا کی دھن بجا کر ایک دوسرے کی سنگت کرتے تو یہ کہنا بہت دشوار تھا کہ کون کس کا ساتھ نہیں دے رہا ہے۔

 

کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں !

 

بزرگوار اپنی مفلوج ٹانگ کی پوزیشن چودھری کرم الٰہی سے بدلواتے ہوئے اکثر کہتے کہ جوانی میں ایسا ہارمونیم بجاتا تھا کہ اچھے اچھے ہارمونیم ماسٹر کان پکڑتے تھے۔ ان کا یہ شوق اس دور کی یاد گار تھا جب وہ بمبئی سے آئی ہوئی تھیٹریکل کمپنی کا ایک ہی کھیل ایک مہینے تک روزانہ دیکھتے اور بقیہ گیارہ مہینے اس کے ڈائیلاگ بولتے پھرتے۔ 1925 سے وہ ہر کھیل آرکسٹرا کے Pit میں بیٹھ کر دیکھنے لگے تھے جو اس زمانے میں شوقینی اور رئیسانہ ٹھاٹ کی انتہا سمجھی جاتی تھی۔ ہارمونیم ایک کمپنی کے ریٹائر پیٹی بجانے والے سے سیکھا تھا جو پیٹی ماسٹر کہلاتا تھا۔ فرماتے تھے کہ پوروں کے جوڑوں اور انگلیوں کے رگ پٹھوں کو نرم اور رواں دواں رکھنے کے لیے میں نے مہینوں انگلیوں پر مہین روے کی سوجی کا حلوہ باندھا۔ ان کا رنگ گورا اور جلد بہت شفاف اور نازک تھی۔ اتنی لمبی بیماری کے باوجود اب بھی جاڑوں میں رخساروں پر سرخی جھلکتی تھی۔ غلافی آنکھیں بند کر لیتے تو اور خوب صورت لگتیں۔ سفید اچکن۔ بھری بھری پنڈلیوں پر پھنسا ہوا چوڑی دار۔ جوانی میں وہ بہت وجیہہ اور جامہ زیب تھے۔ اپنی جوانی کا ذکر آتے ہی تڑپ اٹھتے :

اک تیر تو نے مارا جگر میں کہ ہائے ہائے !

وہ بھی کیسے ارمان بھرے دن تھے، جب ہر دن ایک نئے کنول کی مانند کھِلتا تھا۔ "جب سائے دھانی ہوتے تھے جب دھوپ گلابی ہوتی تھی” ان کے تصور ہی سے سانس تیز تیز چلنے لگتی۔ بیتے ہوئے روز و مہ و سال خزاں کے پتّوں کی مانند چاروں اور اُڑنے لگتے۔ ہائے ! وہ استاد فیاض خاں کی وحشی بگولے کی طرح اٹھتے ہوئی الاپ۔ وہ گوہر جان کی ٹھنکتی ٹھنکارتی آواز۔ اور مختار بیگم کیسی بھری بھری آسودہ آواز میں گاتی تھی۔ اس میں ان کی اپنی جوانی تان لیتی تھی۔ پھر خواب گینے پگھلنے لگتے۔ یادوں کا دریا بہتے بہتے خواب سَراب کے آبِ گم[10] میں اترتا چلا جاتا۔ موٹی موتی بوندیں پڑنے لگتیں۔ زمین سے لپٹ اٹھتی اور بدن سے ایک گرم مدھ ماتی مہکار پھوٹتی۔ بارش میں بھیگے تر بہ ستر مہین کُرتے کچھ بھی تو نہ چھپا پاتے۔ پھر بادل باہر بھیتر ایسا ٹوٹ کے برستا کہ سبھی کچھ بہا کر لے جاتا:

سینے سے گھٹا اُٹھے، آنکھوں سے جھڑی برسے

پھاگن کا نہیں بادل جو چار گھڑی برسے

برکھا ہے یہ بھادوں کی، جو برسے تو بڑی برسے

جھما جھم مینھ برستا رہتا اور وہ ہارمونیم پر دونوں ہاتھوں سے کبھی بین، کبھی استاد جھنڈے خاں کی چہچہاتی دھوم مچاتی سلامیاں بجاتے تو کہنے والے کہتے ہیں کہ کالے ناگ بلوں سے نکل کر جھومنے لگتے۔ دریچوں میں چاند نکل آتے۔ کہیں ادھورے چھڑکاؤ سے کورے پنڈے کی طرح سنسناتی چھتوں پر لڑکیاں دھنک کو دیکھ دیکھ کر اپنے لہریوں میں اتارتیں۔ اور کہیں چند ن بانہوں پر سے چٹکی اور کچی چُنری کے رنگ چھٹائے نہیں چھوٹتے۔ انترے کی لے تیز ہوتی تو فضا جھن جھنن جھن گونج اٹھتی، جیسے کسی نے مستی میں آسمان اور زمین کو اٹھا کے مجیرے کی طرح ٹکرا دیا ہو اور اب رگ تاروں میں جھنک جھنکار ہے کہ کسی طور تھمنے کا نام نہیں لیتی۔

 

اخباری ٹوپی

 

تین چار مہینے بڑے سکون و عافیت سے گزرے ۔ بچوں کا اسکول گرمیوں کی تعطیلات میں بند ہو گیا۔ ایک دن بشارت نے تانگا جتوایا اور کوئی دسویں دفعہ نقشہ پاس کروانے میونسپل کارپوریشن گئے۔ چلتے چلتے مولانا سے کہہ گئے کہ آج نقشہ پاس کروا کے ہی لوٹوں گا۔ بہت ہو چکی۔ دیکھتا ہوں آج باسٹرڈ کیسے پاس نہیں کرتے۔ یہ فقط گالی بھری شیخی نہیں تھی۔ اب تک وہ نظیریں اور دلائل و براہین ساتھ لے کے جاتے تھے۔ لیکن آج وہ "سبزوں”[11] سے لیس ہو کر جا رہے تھے کہ شمشیرِ زر ہر گتھی اور گرہ کو کاٹ کر رکھ دیتی ہے۔ تانگا گلیوں گلیوں بڑے لمبے راستے سے لے جانا پڑا، اس لیے کہ بہت کم سڑکیں بچی تھیں جن پر تانگا چلانے کی اجازت تھی۔ تانگا اب رکشہ سے بھی پھٹیچر چیز سمجھی جانے لگی۔ لہٰذا صرف انتہائی غریب علاقوں میں چلتا تھا جو شہر میں ہوتے ہوئے بھی شہر کا حصہ نہیں تھے۔ نیرنگیِ زمانہ کیا کہیے۔ کانپور سے یہ خواب دیکھتے ہوئے آئے تھے کہ اللہ ایک ایسا دن بھی لائے گا جب فٹن میں ٹانگوں پر اٹالین کمبل ڈال کر نکلوں گا تو لوگ ایک دوسرے سے پوچھیں گے، کس رئیس کی سواری جا رہی ہے؟ لیکن جب خواب کی تعبیر نکلی تو دنیا اتنی بدل چکی تھی کہ نہ صرف تانگہ چھپ کر نکلتا بلکہ وہ خود بھی اس میں چھُپ کر بیٹھتے۔ ان کا بس چلتا تو اٹالین کمبل سر سے پیر تک اوڑھ لپیٹ کر نکلتے کہ کوئی پہچان نہ لے۔ دن میں جب بھی تانگے میں بیٹھتے تو "ڈان” اخبار کے دونوں ورق اپنے چہرے اور سینے کے سامنے پھیلا کر بیٹھتے کہ ان کی لٹکی ہوئی ٹانگیں اخبار ہی کا ضمیمہ معلوم ہوتی تھیں۔ مرزا عبد الودود بیگ نے تو ایک دن کہا بھی کہ تم اخبار کی ایک ٹوپی بنوا لو جس میں اپنا منہ چھپا سکو۔ ویسی ہی جِلادی ٹوپی جیسی مجرم کو پھانسی پر لٹکانے سے پہلے پہنائی جاتی ہے۔ بلکہ وہ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ مجرم کو اخباری ٹوپی ہی پہنا کر پھانسی دینی چاہیے تاکہ اخبار والوں کو بھی تو عبرت ہو۔

 

اسپ کی ایک جست نے۔۔۔

 

میونسپل کاپوریشن کی عمارت کوئی چار پانچ سو گز دور رہ گئی ہو گی کہ اچانک گلی کے موڑ سے ایک جنازہ آتا ہوا دکھائی دیا۔ خلیفہ کو ملازم رکھتے وقت انھوں نے سختی سے ہدایت کی تھی کہ گھوڑے کو بہر صورت جنازے سے دور رکھنا۔ لیکن اس وقت اس کا دھیان کہیں اور تھا اور جنازہ تھا کہ گھوڑے پر چڑھا چلا آ رہا تھا۔ بشارت اخبار پھینک کر پوری طاقت سے چیخے "جنازہ! جنازہ!! خلیفہ جنازہ!!!” یہ سنتے ہی خلیفہ نے چابک مارنے شروع کر دیے۔ گھوڑا وہیں کھڑا ہو کر ہنہنا نے لگا۔ خلیفہ اور بد حواس ہو گیا۔ بشارت نے خود لگام پکڑ کر گھوڑے کو دوسری طرف موڑنے کی کوشش کی۔ لیکن وہ اڑیل ہو کر دو لتیاں مارنے لگا۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ دراصل یہی وہ جگہ تھی جہاں خلیفہ گھوڑے کو باندھ کر حجامت کرنے چلا جاتا تھا۔ وہ چیخے ” ذرا طاقت سے چابک مار۔ ” ادھر خطرہ یعنی جنازہ لمحہ بہ لمحہ قریب آ رہا تھا۔ ان پر اب دہشت طاری ہو گئی۔ ان کے بوکھلائے ہوئے اندازے کے مطابق جنازہ اب اسی ” رینج ” میں آ گیا تھا جہاں چند  ماہ بیشتر بقول اسٹیل مل کے سیٹھ کے

اسپ کی ایک جست نے طے کر دیا قصہ تمام

وہ خود اس وقت گھوڑے سے بھی زیادہ بدکے ہوئے تھے، اس لیے کہ گھوڑے کے پیٹ پر لات مارنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس کی ہنہناہٹ ان کی چیخوں میں دب گئی۔ گھوڑے کے اس پار خلیفہ دیوانہ وار چابک چلا رہا تھا۔ چابک زور سے پڑتا تو گھوڑا پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہو ہو جاتا۔ خلیفہ نے غصے سے بے قابو ہو کر دو مرتبہ اسے ” تیرا دھنی مرے! ” کی گالی دی تو بشارت سناٹے میں آ گئے۔ لیکن سرِ دست وہ گھوڑے کو قابو میں لانا چاہ رہے تھے۔ خلیفہ کو ڈانٹنے لگے  "ابے کیا ڈھیلے ڈھیلے ہاتھوں سے مار رہا ہے، خلیفے!”

یہ سننا تھا کہ خلیفہ فاسٹ بولر کی طرح سٹارٹ لے کر دوڑتا ہوا آیا اور دانت کچکچا تے ہوئے، آنکھیں بند کر کے پوری طاقت سے چابک مارا، جس کا آخری سرا بشارت کے منہ اور آنکھ پر پڑا۔ ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے تیزاب سے لکیر کھینچ دی ہے۔ فرماتے تھے ” یہ کہنا تو under statement ( کسربیانی) ہو گا کہ آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا۔ مجھے تو ایسا لگا جیسے دونوں آنکھوں کا فیوز اڑ گیا ہو۔ ” خلیفہ سے خلیفے، خلیفے سے ابے اور ابے سے الّو کے پٹّھے تک کی تمام منزلیں ایک ہی چابک میں طے ہو گئیں۔ عالِم وحشت میں وہ خلیفہ تک کیسے پہنچے، گھوڑے کو پھلانگ کر گئے یا ٹانگوں کے نیچے سے، یاد نہیں۔ خلیفہ کے ہاتھ سے چابک چھین کر دو تین اسی کو رسید کیے۔ اس نے اپنی چیخوں سے گھوڑے کو سر پر اٹھا لیا۔

ایک آنکھ میں اتنی سوزش تھی کہ اس کے اثر سے دوسری بھی بند ہو گئی۔ اور وہ بند آنکھوں سے گھوڑے پر چابک چلاتے رہے۔ کچھ دیر بعد  دفعتاً احساس ہوا کہ چابک کو روکنے کے لیے سامنے کچھ نہیں ہے۔ زخمی آنکھ پر ہاتھ رکھ کر بائیں کھولی تو نقشہ ہی کچھ اور تھا۔ جنازہ بیچ سڑک پر اریب (diagonal) رکھا تھا۔ تانگا بگٹٹ جا رہا تھا۔ کندھا دینے والے غائب۔ خلیفہ لا پتا۔ البتہ ایک سوگوار بزرگ جو زرد املتاس کے پیڑ سے لٹکے ہوئے تھے گھوڑے کے شجرہ نسب میں پدری حیثیت سے داخل ہونے اور اپنا وظیفہ زوجیت حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کر رہے تھے۔

چند  منٹ بعد  لوگوں نے اپنی اپنی گھُڑ پناہ سے نکل کر انہیں نرغے میں لے لیا۔ جسے دیکھو اپنی ہی دھائیں دھائیں کر رہا ہے، ان کی سننے کے لیے کوئی تیار نہیں۔ طرح طرح کی آوازیں اور آوازے سنائی دیے:

"اس پر سالے اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں!”

"گھوڑے کو شوٹ کر دینا چاہیے”

"گھوڑے کو نہیں مالک کو”

"تھانے لے چلو۔”

( بشارت کی ٹائی پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے) ” ہماری میت کی بے حرمتی ہوئی ہے” "اس کا منہ کالا کر کے اسی گھوڑے پہ جلوس نکالو”

بشارت نے اسی وقت فیصلہ کر لیا کہ وہ بلبن کو انجکشن سے ہلاک کروا دیں گے۔

گھر آ کے انھوں نے بلبن کو چابک سے اتنا مارا کہ محلّے والے جمع ہو گئے۔

اس رات وہ اور بلبن دونوں نہ سو سکے۔ اس سے پہلے انہوں نے نوٹس نہیں کیا تھا کہ خلیفہ نے چابک میں بجلی کا تار باندھ رکھا ہے۔

 

بلبن کو سزائے موت

 

صبح انھوں نے خلیفہ کو برخواست کر دیا۔ وہ پیٹی بغل میں مار کے جانے لگا تو ہاتھ جوڑ کے بولا "بچوں کی قسم ! گھوڑا بالکل بے قصور تھا۔ وہ تو چپکا کھڑا تھا۔ آپ ناحق پٹوا رہے تھے ۔ اتنی مار کھا کے تو مردہ گھوڑا بھی اُٹھ کے سرپٹ دوڑنے لگتا۔ السلام علیکم (لوٹ کر آتے ہوئے) قصور معاف! حجامت بنانے جمعے کو کس وقت آؤں؟”

ایک دوست نے رائے دی کہ گھوڑے کو "ویٹ” سے انجکشن نہ لگواؤ۔ جانور بے انتہا اذیت اٹھا کے تڑپ تڑپ کے مرتا ہے۔ میں نے اپنے السیشن کتّے کو اسپتال میں انجکشن سے مرتے دیکھا تو دو دن تک ٹھیک سے کھانا نہ کھا سکا۔ وہ میرے کڑے وقتوں کا ساتھی تھا۔ مجھے بڑی بے بسی سے دیکھ رہا تھا۔ میں اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھے بیٹھا رہا۔ یہ بڑا بدنصیب، بڑا دکھی گھوڑا ہے۔ اس نے اپنی معذوری اور تکلیف کے باوجود تمھاری، تمھارے بچوں کی بڑی خدمت کی ہے۔

اسی دوست نے کسی شخص کو فون کر کے بلبن کو گولی مارنے کا انتظام کر دیا۔

بلبن کو ٹھکانے لگوانے کا کام مولانا کرامت حسین کے سپرد ہوا۔ وہ بہت الجھے۔ بڑی منطق چھانٹی۔ کہنے لگے، پالتو جانور، خدمتی جانور، جانور نہیں رہتا۔ وہ تو بیٹا بیٹی کی طرح ہوتا ہے۔ بشارت نے جواب دیا، آپ کو معلوم ہے گھوڑے کی عمر کتنی ہوتی ہے؟ اس لنگڑ دین کو آٹھ نو سال تک کھڑا کون کھلائے گا؟ میں نے تمام عمر اسے ٹھسانے، زندہ رکھنے کا ٹھیکا تو نہیں لیا۔ مولانا اپنی ماتحتانہ حیثیت بھول کر یکایک جلال میں آ گئے۔ زمین کے قضیے کا رخ آسمان کی طرف موڑتے ہوئے کہنے لگے کہ انسان کی یہ طاقت، یہ مجال کہاں کہ کسی کو روزی دے سکے۔ رازق تو وہی ہے جو پتھر کے کیڑے کو بھی رزق دیتا ہے۔ جو بندہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ کسی کو رزق دیتا ہے، وہ در حقیقت خدائی کا دعوے دار ہے، ہر ذی روح اپنا رزق اپنے ساتھ لاتا ہے۔ اللہ کا وعدہ برحق ہے۔ وہ ہر حال میں، ہر صورت میں رزق دیتا ہے۔

” بے شک! بے شک! رشوت کی صورت میں بھی!” بشارت کے منہ سے نکل گیا۔ فقرہ ترازو ہو گیا۔ مولانا ہی نہیں خود بشارت بھی دھک سے رہ گئے کہ کیا کہہ دیا۔ جس کمینے، انتقامی فقرے کو آدمی برسوں سینے میں دبائے رکھتا ہے، وہ ایک نہ ایک دن اچھل کر اچانک منہ پر آ ہی جاتا ہے۔ پٹّی باندھنے سے کہیں دل کی پھانس نکلا کرتی ہے۔ اور جب تک وہ نکل نہ جائے آرام نہیں آتا۔

 

وہ جو قرض اک تھا زبان پر، وہ حساب آج چکا دیا

 

مولانا صبح تڑکے بلبن کو لینے آ گئے۔ گیارہ بجے اسے نارتھ ناظم آباد کی پہاڑیوں کی تلیٹی میں گولی ماری جانے والی تھی۔

بشارت ناشتے پر بیٹھے تو ایسا محسوس ہوا جیسے حلق میں پھندا لگ گیا ہو۔ آج انھوں نے بلبن کی صورت نہیں دیکھی۔ "گولی تو ‌ظاہر ہے پیشانی پر مارتے ہوں گے۔ ” انھوں نے سوچا بائیں آنکھ کی بھونری واقعی منحوس نکلی۔ جان لے کر رہے گی۔ مولانا کو انھوں نے رات ہی کو ہدایت کر دی تھی کہ لاش کو اپنے سامنے ہی گڑھے میں دفن کرا دیں۔ جنگل میں چیل کوؤں کے لیے پڑی نہ چھوڑیں۔ انھیں جھرجھری آئی اور وہ کباب پراٹھا کھائے بغیر اپنی دکان روانہ ہو گئے۔ راستے میں انھوں نے اس کا ساز اور روہڑ کا وہ خون آلود پیڈ پڑا دیکھا جو اس کی زخمی گردن پر باندھا جاتا تھا۔ ایسا لگا جیسے انھیں کچھ ہو رہا ہے۔ وہ تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے نکل گئے۔

بزرگوار کو اصل صورتِ احوال سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ انھیں صرف یہ بتایا گیا کہ بلبن دو ڈھائی مہینے کے لیے چَرائی پر پنجاب جا رہا ہے۔ وہ کہنے لگے "گائے بھینسوں کو تو چرائی پر جاتے سنا تھا، مگر گھوڑے کو گھانس کھانے کے واسطے کرانچی سے صوبہ پنجاب جاتے آج ہی سنا! کرانچی سے تو صرف سیٹھ اور لکھ پتی سیزن کے سیزن چَرائی پر کوہ مری جاویں ہیں۔ ” یہ ان سے الجھنے کا موقع نہیں تھا۔ ان کا بلڈ پریشر پہلے ہی بہت بڑھا ہوا تھا۔ انھیں کسی زمانے میں اپنی طاقت اور کسرتئ بدن پر بڑا ناز تھا۔ اب بھی بڑے فخر سے کہتے تھے کہ میرا بلڈ پریشر دو آدمیوں کے برابر ہے۔ دو آدمیوں کے برابر والے دعوے کی ہم بھی تصدیق کریں گے کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ انھیں معمولی سا درد ہوتا تو دو آدمیوں کی طاقت سے چیختے تھے۔ لہٰذا بشارت اپنے دروغِ مصلحت آمیز پر ڈٹے رہے۔ اور ٹھیک ہی کیا۔ مرزا اکثر کہتے ہیں کہ اپنے چھوٹوں سے کبھی جھوٹ نہیں بولنا چاہیے، کیوں کہ اس سے انھیں بھی تحریک ہوتی ہے۔ لیکن بزرگوں کی اور بات ہے۔ انھیں کسی خارجی تحریک کی ضرورت نہیں ہوتی۔

مولانا راس پکڑے بلبن کو بزرگوار سے ملوانے لے گئے۔ ان کا آدھے سے زیادہ سامان ان کے اپنے کمرے میں منتقل ہو چکا تھا۔ ہارمونیم رحیم بخش کے لال کھیس میں لپیٹا جا رہا تھا۔ بلبن کا فوٹو ریس جیتنے کے بعد  اخبار میں چھپا تھا، ابھی دیوار سے اتارنا باقی تھا۔ وہ رات سے بہت مغموم تھے۔ خلافِ معمول عشاء کے بعد  دو مرتبہ حقّہ پیا۔ اب وہ صبح و شام کیسے کاٹیں گے؟ اس وقت جب بلبن ان کے پاس لایا گیا تو وہ سرجھکائے دیر تک اپنے ایال میں کنگھی کراتا رہا۔ آج انھوں نے اس کے پاؤں پر دَم نہیں کیا۔ جب وہ اس کی پیشانی پر اللہ لکھنے لگے تو ان کی انگلی چابک کے اُپڑے ہوئے لمبے نشان پر پڑی اور وہ چونک پڑے۔ جہاں تک یہ درد کی لکیر جاتی تھی ہاں تک خود کو زخماتے رہے۔ پھر دکھ بھرے لہجے میں کہنے لگے ” کس نے مارا ہے ہمارے بیٹے کو؟” مولانا اسے لے جانے لگے تو اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے ” اچھا ۔ بلبن بیٹے ! ہمارا تو چل چلاؤ ہے۔ خدا جانے واپسی پر ہمیں پاؤ گے بھی یا نہیں۔ جاؤ، اللہ کی امان میں دیا۔ ”

بلبن کی جدائی کے خیال سے بزرگوار ڈھے گئے۔ اب وہ اپنے دل کی بات کس سے کہیں گے؟ کس کی شفا کے لیے دعا کو بے اختیار ہاتھ اٹھیں گے؟ انھوں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ قدرت کو اتنا سا آسرا، ایک جانور کی دُسراتھ تک منظور نہ ہو گی۔ جو خود کبھی تنہائی کے جان کو گھلا دینے والے کرب سے نہ گزرا ہو وہ اندازہ نہیں لگا سکتا کہ اکیلا آدمی کیسی کیسی دسراتھ کا سہارا لیتا ہے۔ بے مثل انشائیوں کے مصنف چارلس لیمب نے ایک عمر کرب و تنہائی میں گزاری۔ پیر 12 مئی 1800 کو وہ کولرج کو اپنے خط میں لکھتا ہے ” گزشتہ جمعے کو ہیٹی ( ضعیف ملازمہ ) آٹھ دن کی علالت کے بعد  چل بسی۔ اس کی میّت اس وقت کمرے میں میرے سامنے رکھی ہے۔ میری (چارلس لیمب کی بہن جسے دیوانگی کے دَورے پڑتے تھے ) اس صدمے کی تاب نہ لا سکی اور اس پر شدید دَورہ پڑا۔ لہٰذا اسے دوسری جگہ منتقل کرنا پڑا۔ اب اس گھر میں، میں تنہا ہوں اور دسراہٹ کے لیے ہیٹی کی نعش کے سوا اور کوئی نہیں۔ کل میں اسے بھی دفن کر دوں گا تو بالکل ہی تنہا رہ جاؤں گا۔ پھر اس بلی کے اور کوئی نہ ہو گا جو مجھے یاد دلائے کہ ان آنکھوں نے کبھی اس گھر کو بھرا پُرا دیکھا تھا۔ کبھی اس میں بھی مجھ جیسے ذی روح رہتے تھے۔ ”

مولانا دن بھر غیر حاضر رہے۔ دوسرے دن وہ بند بند اور کھنچے کھنچے سے نظر آئے۔ کئی سوال ہونٹوں پر لرز لرز کر رہ گئے۔ کسی کو ان سے پوچھنے کی ہمت نہ ہوئی کہ بلبن کے گولی کہاں لگی۔ کہتے ہیں جانوروں کو موت کا premonition (پیش آگاہی) ہو جاتا ہے۔ تو کیا جب وہ ویران پہاڑیوں میں لے جایا جا رہا تھا تو اس نے بھاگنے کی کوشش کی؟ اور کبھی آخری لمحے میں معجزہ بھی تو ہو جایا کرتا ہے۔ وہ بہت جفا کش، سخت جان اور حوصلے والا تھا۔ دل نہیں مانتا کہ اس نے آسانی سے موت سے ہار مانی ہو گی:

Do not go gentle into that good night.

Rage, rage against the dying of the light

 

آہا آہا! برکھا آئی!

 

کوئی دو ہفتے بعد  بشارت کی طاہر علی موسیٰ بھائی سے اسپنسر آئی ہاسپٹل کے سامنے مڈبھیڑ ہو گئی۔ موسیٰ بھائی بوہری تھا اور اس کی لکڑی کی دکان ان سے اتنے فاصلے پر تھی کہ پتھر پھینکتے تو ٹھیک اس کی سنہری پگڑی پر پڑتا۔ یہ حوالہ اس لیے بھی دینا پڑا کہ کئی مرتبہ بشارت کا دل اس پر پتھر پھینکنے کو چاہا۔ وہ کبھی سیدھے منہ بات نہیں کرتا تھا۔ ان کے لگے ہوئے گاہک توڑتا اور طرح طرح کی افواہیں پھیلاتا رہتا۔ دراصل وہ ان کی بزنس خراب کر کے ان کی دکان خریدنا چاہتا تھا۔ اس کی چھدری داڑھی طوطے کی چونچ کی طرح مڑی رہتی تھی۔

وہ کہنے لگا "بشارت سیٹھ! لاسٹ منتھ ہم کو کسی نے بولا آپ گھوڑے کو شوٹ کر وا رہے ہو۔ ہم بولا، باپ رے باپ! یہ تو ایک دَم ہتھیا ہے۔ وہ گھوڑا تو عشرہ (محرم) میں جُل جنا ( ذوالجناح) بنا تھا! ہماری آرا مشین پہ ایک مجور کام کرتا ہے، تراب علی۔ اس نے ہم کو آ کے بولا کہ میری جھگّی کے سامنے سے دُلدل کی سواری نکلی تھی۔ آپ ہی کا گھوڑا تھا۔ سیم ٹو سیم۔ سولہ آنے۔ تراب علی نے اس کو اپنے ہاتھ سے دودھ جلیبی کھلائی۔ آپ کے کوچوان نے اس کا پورا بھاڑا وصول کیا۔ پچاس روپے۔ وہ بولتا تھا بشارت سیٹھ دُلدل بھاڑے ٹیکسی پہ چلانا مانگتا ہے۔ دُلدل کے آگے وہ شاہ مرداں، شیرِ یزداں، وگیرہ وگیرہ گاتا جا رہا تھا۔ اس کے پندرہ روپے الگ سے۔ گھوڑے کو ہمارے پاس بھی سلام کرانے لایا تھا۔ گریب بال بچے دار مانس ہے۔”

اس کے اگلے روز مولانا کام پر نہیں آئے۔ دو دن سے مسلسل بارش ہو رہی تھی۔ چار دن قبل جیسے ہی ریڈیو کراچی والوں نے بارش کا پہلا قطرہ گرتے دیکھا ساون کے گیت مسلا دھار نشر کرنے شروع کر دیے۔ گیتوں ہی سے اطلاع ملی کہ یہ ساون ہے ورنہ ساون کے مہینے کو کراچی میں کون پہچانتا ہے۔ لیکن ذرا سوچیے تو، گیت میں اگر ساون کے بجائے جون جولائی تو برکھا رُت کا سارا رومانس پُروا اڑا کر لے جائے۔ وہ مسکرا دیے۔ آج صبح گھر سے چلتے وقت کہہ آئے تھے ” بیگم! آج تو کڑھائی چڑھنی چاہیے۔ کراچی میں تو ساون کے پکوان کو ترس گئے۔ خستہ سموسے، کرارے پاپڑ اور کچوریاں۔ کراچی کے پپیتے کھا کھا کے ہم تو بالکل پلپلا گئے۔ ” شام کو جب وہ دکان بند کرنے والے تھے، ایک شخص خبر لایا کہ کل شام مولانا کے والد کا انتقال ہو گیا۔ آج ظہر و عصر کے درمیان جنازہ اٹھا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ چلو اچھا ہوا۔ اللہ نے بیچارے کی سُن لی۔ برسوں کی جان کنی ختم ہوئی۔ مٹی عزیز ہو گئی۔ بلکہ یوں کہیے، کیچڑ سے اٹھا کر کر خشک مٹی میں دبا آئے۔ وہ تعزیت کے لیے سیدھے مولانا کے گھر پہنچے۔ بارش تھم چکی تھی اور چاند نکل آیا تھا۔ آسمان پر ایسا لگتا تھا جیسے چاند بڑی تیزی سے دوڑ رہا ہے اور بادل اپنی جگہ ساکت ہیں۔ اینٹوں، پتھروں اور ڈالڈا کے ڈبوں کی پگڈنڈیاں جا بجا پانی میں ڈوب چکی تھیں۔ ننگ دھڑنگ لڑکوں کی ایک ٹولی پانی میں ڈبک ڈبک کرتے ایک گھڑے میں باری باری منہ ڈال کر فلمی گانے گا رہی تھی۔ ایک ڈھئی ہوئی جھگی کے سامنے ایک کریہہ الصّوت شخص بارش کو روکنے کے لیے اذان دیے چلا جا رہا تھا۔ ہر جزو کے آخری لفظ کو اتنا کھینچتا گویا اذان کے بہانے پکا راگ الاپنے کی کوشش کر رہا ہے۔ کانوں میں انگلی کی پور زور سے ٹھونس رکھی تھی تاکہ اپنی آواز کے عذاب سے محفوظ رہے۔ ایک ہفتے پہلے اسی جھگی کے سامنے اسی شخص نے بارش لانے کے لیے اذانیں دی تھیں۔ اسوقت بچوں کی ٹولیاں گھروں کے سامنے مولا میگھ دے! مولا پانی دے! تال، کنویں، مٹکے سب خالی۔ مولا! پانی! پانی! پانی!” گاتی اور ڈانٹ کھاتی پھر رہی تھیں۔

عجیب کسمپرسی کا عالم تھا۔ کہیں چٹائی، ٹاٹ، سرکی اور اخبار کی ردی سے بنی ہوئی چھتوں کے پیالے پانی کے لبالب بوجھ سے لٹکے پڑ رہے تھے اور کہیں گھر کے مرد پھٹی ہوئی چٹائیوں میں دوسری پھٹی ہوئی چٹائیوں کے پیوند لگا رہے تھے۔ ایک شخص ٹاٹ پر پگھلا ہوا تارکول پھیلا کر چھت کے اس حصے کے لیے تر پال بنا رہا تھا جس کے نیچے اس کی بیمار ماں کی چارپائی تھی۔ دوسرے کی جھگی بالکل ڈھیر ہو گئی تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا مرمت کہاں سے شروع کرے۔ چنانچہ وہ ایک بچے کی پٹائی کرنے لگا۔ جگہ جگہ لوگ نالیاں بنا رہے تھے جن کا مقصد بظاہر اپنی غلاظت کو پڑوسی کی غلاظت سے علیحدہ رکھنا تھا۔ ایک صاحب آٹے کی بھیگی بوری میں بغل تک ہاتھ ڈال ڈال کر دیکھ رہے تھے کہ اندر کچھ بچا بھی ہے کہ سارا پیڑے بنانے کے لائق ہو گیا۔ ایک جھگی کے باہر بکری کی اوجھڑی پر برساتی مکھیاں چپکو اور لدّھڑ ہو گئیں تھیں، خارشی کتّے کے اُڑائے سے نہیں ‌اُڑ رہی تھیں۔ یہ اس دودھ دینے والی مگر بیمار بکری کی اوجھڑی تھی جسے تھوڑی دیر پہلے اس کے دو مہینے کے بچے سے ایک گز دور تین پڑوسیوں نے مل کر تُرت پھُرت ذبح کیا تھا تاکہ چھری پھرنے سے پہلے ہی ختم نہ ہو جائے۔ اس کا خون معاون نالوں اور نالیوں کے ذریعے دور دور تک پھیل گیا تھا۔ وہ تینوں ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے ایک بھائی کی حق حلال کی کمائی کو ضائع ہونے سے بال بال بچا لیا۔ موت کے منہ سے کیسا نکالا تھا انھوں نے بکری کو! چند  جھگیوں میں مہینوں بعد  گوشت پکنے والا تھا۔ سب سے زیادہ حیرت انھیں اس وقت ہوئی جب وہ اس جھگی کے سامنے سے گزرے جس میں لڑکیاں شادی کے گیت گا رہی تھیں۔ باہر لگی ہوئی کاغذ کی رنگ برنگی جھنڈیاں تو اب نظر نہیں آ رہی تھیں، لیکن ان کے کچے رنگوں کے باؤلے ریلوں سے ٹاٹ کی دیوار پر psychedelic patterns بن گئے تھے۔ ایک لڑکی آٹا گوندھنے کے تسلے پر سنگت کر رہی تھی کہ بارش سے اس کی ڈھولک کا گلا بیٹھ گیا تھا:

اماں ! میرے بابا کو بھیجو ری کہ ساون آیا!

امّاں ! میرے بھیا کو بھیجو ری کہ ساون آیا!

کہ ساون آیا

ہر بول کے بعد  لڑکیاں بے وجہ ہنستیں۔ گاتے ہوئے ہنستیں اور ہنستے ہوئے گاتیں تو راگ اپنی سُر سیما پار کر کے جوانی دوانی کی لے میں لے ملاتا کہیں اور نکل جاتا۔ سچ پوچھیے تو کنوار پنے کی کلکارتی گھنگھرالی ہنسی کی مُرکی ہی گیت کا سب سے البیلا ہریالا انگ تھا۔ ایک جھگّی کے سامنے میاں بیوی لحاف کو رسّی کی طرح بل دے کر نچوڑ رہے تھے۔ بیوی کا بھیگا ہوا گھونگھٹ ہاتھی کی سونڈ کی طرح لٹک رہا تھا۔ بیس ہزار کی اس بستی میں دو دن سے بارش کے سبب چُولہے نہیں جلے تھے۔ نشیبی علاقے کی کچھ جھگیوں میں گھٹنوں گھٹوں پانی کھڑا تھا۔ جھگیّوں کی پہلی قطار کے سامنے ایک نیک نیت، خدا ترس، باریش بزرگ قورمہ اور تنوری روٹیاں تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے تھے جو وہ رکشا میں رکھ کر لائے تھے۔ تین لحاف بھی مستحقین میں بانٹنے کے لیے ساتھ لائے تھے۔ وہ گھر سے چلے تو انھیں اندازہ نہیں تھا کہ بیس ہزار کی بستی میں تین لحاف لے جانا ایسا ہی ہے جیسے کوئی انجکشن کی سرنج سے آگ بجھانے کی کوشش کرے۔ پھر یہ بھی تھا کہ کسی جھگّی میں دو گز زمین کا ایسا خشک جزیرہ نہ تھا جہاں کوئی یہ لحاف اوڑھ کر سو سکے۔ اس بزرگ کے چاروں طرف کوئی ڈیڑھ دو سو ننگ دھڑنگ بچوں کا ہجوم جسے وہ کیو بنانے کے فوائد سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ لیکن ان اَن پڑھ ٹھوٹ بچوں کی حِس حساب ان سے کہیں بہتر تھی، کیوں کہ ان کے اندر والا بھوکا حساب داں بخوبی جانتا تھا کہ اگر تیس روٹیوں کو دو سو ننگے بھوکوں اور تین لحافوں کو بیس ہزار مستحقین میں تقسیم کیا جائے تو حاصل تقسیم میں مخیر بزرگ کے تن پر ایک دھجّی بھی باقی نہ رہے گی۔ اور اس وقت یہی صورت پیدا ہو چلی تھی۔ بشارت آگے بڑھے تو دیکھا کوئی جھگّی ایسی نہیں جہاں سے بچوں کے رونے کی آواز نہ آ رہی ہو۔ پہلی مرتبہ ان پر یہ انکشاف ہوا کہ بچے رونے کی ابتدا ہی انترے سے کرتے ہیں۔ جھگّیوں میں آدھے بچّے تو اس لیے پٹ رہے تھے کہ رو رہے تھے۔ اور بقیہ آدھے اس لیے رو رہے تھے کہ پٹ رہے تھے۔

وہ سوچنے لگے، تم ایک شخص کو پُرسا دینے چلے تھے، یہ کس دکھ ساگر میں آ نکلے۔ طرح طرح کے خیالوں نے گھیر لیا۔ بڑے میاں کو تو کفن بھی بھیگا ہوا نصیب ہوا ہو گا۔ یہ کیسی بستی ہے جہاں بچے نہ گھر میں کھیل سکتے ہیں، نہ باہر۔ جہاں بیٹیاں دو گز زمین پہ ایک ہی جگہ بیٹھے بیٹھے درختوں کی طرح بڑی ہو جاتی ہیں۔ جب یہ دلہن بیاہ کر پردیس جائے گی تو اس کے ذہن میں بچپن اور میکے کی کیا تصویر ہو گی؟ پھر خیال آیا کیسا پردیس، کہاں کا پردیس، یہ تو بس لال کپڑے پہن کر یہیں کہیں ایک جھگّی سے دوسری جھگّی میں پیر پیدل چلی جائے گی۔ یہی سکھیاں سہیلیاں "کاہے کو بیاہی بدیس رے ! لکھی بابل مورے !” گاتی ہوئے اسے دو گز پرائی زمین کے ٹکڑے تک میں چھوڑ آئیں گی۔ پھر ایک دن مینہ برستے میں ایسا ہی سماں ہو گا، وہاں سے آخری دو گز زمین کی جانب ڈولی اٹھے گی۔ اور زمین کا بوجھ زمین کی چھاتی مین سما جائے گا۔ مگر سنو! بندہ خدا! تم کاہے کو یوں جی بھاری کرتے ہو؟ کہیں اس طرح آنکھوں میں پانی بھر کے دنیا کو دیکھا کرتے ہیں؟ درختوں کو کیچڑ گارے سے گھن تھوڑا ہی آتی ہے۔ کبھی پھول کو بھی کھاد کی بدبو آئی ہے؟

انھوں نے ایک پھریری لی اور ان کے ہونٹوں کے دائیں کونے پر ایک کڑوی سی، ترچھی سی مسکراہٹ کا بھنّور پڑ گیا۔ جو رونے کا یارا نہیں رکھتے وہ اسی طرح مسکرا دیتے ہیں۔

انھوں نے پہلے پہل اس اگھور بستی کو دیکھا تھا تو کیسی ابکائی آئی تھی۔ آج خوف آ رہا تھا۔ بھیگی بھیگی چاندنی میں یہ ایک شہرِ آسیب لگتا تھا جو کسی طور کراچی کا حصہ نہیں معلوم ہوتا تھا۔ حدِ نگاہ تک اونچے نیچے بانس ہی بانس۔ اور ٹپکتی چٹائیوں کی گپھائیں۔ بستی نہیں بستی کا پنجر لگتا تھا جسے ایٹمی دھماکے کے بعد  بچ جانے والوں نے کھڑا کیا ہو۔ ہر گڑھے میں چاند نکلا ہوا تھا اور مہیب دلدلوں پر آسیبی کرنیں اپنا چھلاوا ناچ ناچ رہی تھیں۔ جھینگر ہر جگہ بولتے سنائی دے رہے تھے اور کسی جگہ نظر نہیں آ رہے تھے۔ بھُنگوں اور پتنگوں کے ڈر سے لوگوں نے لالٹینیں گل کر دیں تھیں۔ عین بشارت کے سر کے اوپر سے چاند کو کاٹتی ایک ٹیٹری بولتی ہوئی گزری۔ اور انھیں ایسا لگا جیسے اس کے شہ پَر کی ہَوا سے ان کے سر کے بال اُڑے ہوں۔ نہیں۔ یہ سب کچھ ایک بھیانک خواب ہے۔ جیسے ہی وہ موڑ سے نکلے، اگربتیوں اور لوبان کی ایک سوگوار لپٹ آئی اور آنکھیں ایکا ایکی چکا چوند ہو گئیں۔ یا خدا! ہوش میں ہوں یا عالمِ خواب ہے؟

کیا دیکھتے ہیں کہ مولانا کرامت حسین کی جھگّی کے دروازے پر ایک پیٹرومیکس جل رہی ہے۔ چار پانچ پُرسا دینے والے کھڑے ہیں۔ اور باہر اینٹوں کے ایک چبوترے پر ان کا سفید براق گھوڑا بلبن کھڑا ہے ! مولانا کا پولیو زدہ بیٹا اس کو پڑوسی کے گھر سے آئے ہوئے موت کے کھانے کے نان کھلا رہا تھا۔

٭٭٭

[1] کوچوان انجمنِ انسدادِ بے رحمی جانوراں ((SPCA کو اسی مختصر نام سے پکارتا اور کوستا تھا۔

[2] بم: گاڑی کے آگے لگانے والی لکڑی جس میں گھوڑا جوتتے ہیں۔

[3] پنگت: فرشی دعوت میں مہمانوں کی قطار۔

[4] 1985ء میں سترہ ارب روپے کو حکومت نے بیک لغزشِ قلم بلیک سے وہائٹ کر دیا۔ اس امید میں کہ اب لوگ بلیک کرنا چھوڑ دیں گے، جب کہ کالا دھن اس اساطیری ہزار سر والے اژدھے کی طرح ہے جس کا ایک سر کاٹیں تو اس کی جگہ سو نئے سَر نکل آتے ہیں۔

[5] وجع الاسنان: دانتوں کے درد کو کہتے ہیں۔ جس شخص کے دانتوں میں درد ہو وہ اس کا تلفظ بھی نہیں کر سکتا۔

[6] کھیتی، پانی، دست بستہ التجا اور گھوڑے کی زین کا تسمہ، یہ سب اپنے ہاتھ سے کرنے کے کام ہیں خواہ تمہارے ساتھ لاکھوں آدمی ہوں۔

[7] سنکھنی: شاستروں میں عورت کی ایک قسم آئی ہے۔ اس وقت ہمارے پاس جو لغت ہے ( علمی اردو لغت ) وہ کہتا ہے کہ اس کا قد دراز، جسم چھریرا، مزاج چڑ چڑا اور زلفیں اور خواہشِ نفسانی بڑھی ہوئی ہوتی ہے

[8] لزوجت: پروفیسر قاضی عبدالقدوس ایم اے، بی ٹی کے شعور لا شعور میں یہ لفظ ایسا بیٹھا کہ کئی سال بعد  اسے اپنے تھیسس کا موضوع بنایا ” ملٹن، جوش، ابوالکلام آزاد، علامہ مشرقی، آغا حشر کاشمیری، عبدلعزیز خالد اور مشتاق احمد یوسفی کے یہاں لزوجت کا عنصر ” ان مشاہیر کو ہمارے ساتھ بریکٹ کرنے میں پروفیسر موصوف کا منشا ہماری توقیر بڑھانا ہر گز نہ تھا۔ غزالوں کو اس عاجز کے ساتھ three ۔ legged race ریس میں نتھی کر کے انہیں رگیدنا اور ہمیں کھدیڑنا مقصود تھا۔ سنا ہے اس تھیسس کی آؤٹ لائن کو پروفیسروں نے اس بنا پر رد کر دیا کہ ایک پتھر سے اتی ساری چڑیاں نہیں ماری جا سکتیں ! اب انہیں کون سمجھاتا کہ پروفیسر عبدلقدوس تیر، تفنگ اور پتھر کے محتاج نہیں۔

کیوں وہ صیاد کسی صید پر توسن ڈالے

صید جب خود ہی چلے آتے ہوں گردن ڈالے

[9] سر فلپ سڈنی زتفن کے میدانِ جنگ ( 1586 ) میں زخمی حالت میں اپنی موت سے ذرا دیر پہلے پانی کی چھاگل ایک دم توڑتے ہوئے سپاہی کو دیتے ہوئے یہ الفاظ کہے تھے جو امر ہو گئے۔

[10]   آبِ گم: اس نام کا ایک ریلوے اسٹیشن، اور بستی بھی، بلوچستان میں ہے۔ وجہِ تسمیہ کم و بیش وہی ہے۔ قواعد کی رو سے گُم شدہ ہونا چاہیے۔ حضرت ذہین شاہ تاجی مرحوم کا شعر ہے:

وہ آئینہ کہ جس میں دیکھتے تھے عکس تم اپنا

لیے بیٹھا ہے آغوش تہی میں عکسِ گُم اپنا

[11] سبزے : سو روپے کے نوٹ، اپنے سبز رنگ کے سبب سبزے کہلاتے تھے۔ جب نوٹ کا رنگ سرخ ہو گیا تو لوگ نوٹ کو نوٹ ہی کہنے لگے۔ سُرخا کسی نے نہیں کہا۔

٭٭٭

ٹائپنگ: رضوان نور

ماخذ:

http://goo.gl/HXjzVJ

٭٭٭

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے