۔۔۔ کیوں نہیں جاتا
ترتیب: یاور ماجد، اعجاز عبید
ایک ہی زمین میں چار شاعروں کی چار غزلیں ۔۔ میں نے اختر عثمان یا ندا فاضلی یا جمشید مسرور کی غزلیں پہلے نہیں سنی تھیں ۔۔۔ جگجیت سنگھ نے ندا فاضلی کی یہ غزل ۲۰۰۳ میں گائی، البم ’’دھوپ‘‘ میں شامل تھی، رضا صدیقی صاحب کا شکریہ کہ انہوں نے شاعر کا نام بتایا۔
یاور ماجد
ندا فاضلی
بے نام سا یہ درد ٹھہر کیوں نہیں جاتا
جو بیت گیا ہے وہ گزر کیوں نہیں جاتا
سب کچھ تو ہے، کیا ڈھونڈتی رہتی ہیں نگاہیں
کیا بات ہے میں وقت پہ گھر کیوں نہیں جاتا
وہ ایک ہی چہرہ تو نہیں سارے جہاں میں
جو دور ہے وہ دل سے اتر کیوں نہیں جاتا
میں اپنی ہی الجھی ہوئی راہوں کا مسافر
جاتے ہیں جدھر سب میں ادھر کیوں نہیں جاتا
وہ نام جو برسوں سے نہ چہرہ نہ بدن ہے
وہ خواب اگر ہے تو بکھر کیوں نہیں جاتا
ندا فاضلی
٭٭٭
اختر عثمان
اک رنج بہ پیرایۂ زر کیوں نہیں جاتا
کشکولِ ہوس ہے تو یہ بھر کیوں نہیں جاتا
وہ آئنہ رُو ہے تو مرا روپ دکھائے
میں اُس کے مقابل ہوں ، سنور کیوں نہیں جاتا!
دریا کا تلاطم تو بہت دِن کی کتھا ہے
لیکن مرے اندر کا بھنور کیوں نہیں جاتا!
کہتے ہو کہ ہو اُسوہِ شبّیر پہ قائم
دربار میں کیوں جاتے ہو ، سَر کیوں نہیں جاتا؟
کہتے ہو جو تم روح سے "لبّیک حسینا ”
پھر جی سے یزیدوں کا یہ ڈر کیوں نہیں جاتا؟
تم صاحب معنی ہو تو تمثال پہ مت جاؤ
الزام کبھی آئنے پر کیوں نہیں جاتا !
لو ، شام گئی، رات ہے ، کابوس ہے ، میں ہوں
میں صبح کا بھولا ہوں تو گھر کیوں نہیں جاتا
با وصفِ خلش ہائے خُدایانِ سلیقہ
اِس شخص کی سطروں سے ہنر کیوں نہیں جاتا
ہر سنگِ دعا مجھ کو لگا پھول سے بڑھ کر
جب اتنی دعائیں ہیں تو مر کیوں نہیں جاتا
اختر تری گفتار ِ فسوں سوز میں کیا ہے
جو بھی اِدھر آتا ہے، اُدھر کیوں نہیں جاتا؟
اختر عثمان
٭٭٭
یاور ماجد
خورشید کبھی راہِ دگر کیوں نہیں جاتا
جس سمت سے آتا ہے ادھر کیوں نہیں جاتا
میں سیدھے کسی راستے پر کیوں نہیں جاتا
اب کیسے بتاؤں میں سدھر کیوں نہیں جاتا
آوارگی! آوارگی! آوارگی! بتلا! ۔
میں لوٹ کے آخر کبھی گھر کیوں نہیں جاتا
میں دھوپ میں جھلسا ہی چلا جاؤں گماں کی
اب ابرِ یقیں مجھ پہ ٹھہر کیوں نہیں جاتا
اک عمر جسے یاد کے چہرے سے ہے کھرچا
آخر وہ مرے دل سے اتر کیوں نہیں جاتا
اے عکس مری یاد کی جھیلوں پہ پڑے عکس!
تُو ٹوٹ چکا کب کا، بکھر کیوں نہیں جاتا
جب ہم سفری کا کوئی امکاں ہی نہیں ہے
تُو اپنی، تو میں اپنی ڈگر کیوں نہیں جاتا
اے دشمنِ جاں چھوڑ بھی اب! جا بھی کہیں ! مر!
تو بیتا ہوا پل ہے گزر کیوں نہیں جاتا
جو دل کے گلستان میں چلتا ہے ہمیشہ
جھونکا وہ سرِ راہگزر کیوں نہیں جاتا
مشکل ہو اگر حد سے زیادہ تو ہو آساں
بکھرا ہوں میں اتنا تو سنور کیوں نہیں جاتا
وہ چاند ہے اور سامنے موجود ہے میرے
پھر بحر تخیل کا بپھر کیوں نہیں جاتا
یاور ماجد
٭٭٭
جمشید مسرور
اس کربِ مسلسل سے گزر کیوں نہیں جاتا
احساس مرا زندہ ہے مر کیوں نہیں جاتا
بےکار سی الجھن میں دل و جان گرفتار
جو کچھ بھی گزرنا ہے گزر کیوں نہیں جاتا
گلزار تمنا سے مہک کیوں نہیں اٹھتی
یہ موسم بے برگ و ثمر کیوں نہیں جاتا
خنجر تھا اگر میں تو میرے وار کہاں ہیں
میں وقت کے سینے میں اتر کیوں نہیں جاتا
جمشید مسرور
٭٭٭
اسی زمین میں ایک مزید غزل انٹر نیٹ پر مشہور ہے۔ جو کسی عامر کی ہے۔اس ربط کے مطابق یہ ’عامر گذر‘ کی ہے۔
قارئین سے درخواست ہے کہ اس کے شاعر کا درست نام بتائیں ۔
عامرگذر؟
انہونی کوئی ہو گی یہ ڈر کیوں نہیں جاتا
قسمت کا لکھا سر سے گزر کیوں نہیں جاتا
موجود ہے اس میں تو لبوں تک بھی یہ آئے
خالی ہے اگر جام تو بھر کیوں نہیں جاتا
دستک سے تھکے ہاتھ صدا دیتا رہا میں
آنکھوں سے مری بند وہ در کیوں نہیں جاتا
ساحل پہ کھڑے میرے دعاگو کی یہ خواہش
کشتی کو لئے ساتھ بھنور کیوں نہیں جاتا
کیا بچپنا ہے میرا خیال آئے جو دل میں
دنیا کا ہر اک فرد سنور کیوں نہیں جاتا
سو بار مرے کانوں میں سرگوشی ہوئی ہے
جینا نہیں آتا ہے تو مر کیوں نہیں جاتا
بوباس بسے اس کی ہر اک شے میں ہے چہرہ
تم پوچھتے ہو مجھ سے میں گھر کیوں نہیں جاتا
ہاتھوں سےتیرے مرنے میں ہے ایک فضیلت
اے عشق! رگ جاں میں اتر کیوں نہیں جاتا
جن رستوں کی میں خاک رہا چھانتا عامر
ان میں سے کوئی رستہ ادھر کیوں نہیں جاتا
عامر گذر؟
٭٭٭
اعجاز عبید
اور جب اس سلسلے کو مکمل کیا گیا تو یہ ذہن میں گونجتا رہا اور اسی زمین میں رات دو بجے احقر کی غزل ہو گئی۔ یہ بھی سن لیجئے۔
یہ عشق جو سودا ہے، اتر کیوں نہیں جاتا
طوفانِ بلا ہے تو گزر کیوں نہیں جاتا
پہنچوں میں جہاں ، لگتا ہے منزل یہ نہیں ہے
یہ پاؤں کا چکر، یہ سفر کیوں نہیں جاتا
وہ ابر ہے تو کیوں مجھے کرتا نہیں سیراب
سورج ہے تو دن گزرے گذر کیوں نہیں جاتا
یہ ابر کا ٹکڑا تو گریزاں رہا مجھ سے
جاتا ہوں میں جس سمت، اُدھر کیوں نہیں جاتا
ہے آج ہوا تیز کہ ہلتی ہے ہر اک شاخ
اس پھول پہ حیرت ہے، بکھر کیوں نہیں جاتا
یہ خونِ شہیداں ہے تو پھر لکھے گا تاریخ
ہر لاشہ مگر خوں سے سنور کیوں نہیں جاتا؟
اعجاز عبید
٭٭٭
ایک اور مزے کا شعر سن لیجئے، جس میں ردیف تھوڑی سی بدل دی ہے۔
سب لوگ کیا کرتے ہیں بس ’لو‘ کی ’افیریں ‘ (Love Affairs)
ہے عشق جو، کرنے کا جگر کیوں نہیں آتا؟
قارئین کو دعوتِ سخن ہے اس طرح پر غزل کہنے کی!!۔
ردیف: کیوں نہیں آتا
قوافی: گذر، سفر، گھر
٭٭٭
کیا جانئے وہ دل سے اُتر کیوں نہں جاتا
گر شام کا بھولا ھے تو گھر کیوں نہیں جاتا
ہم کو نہیں معلوم کہ اُجڑے ہوئے دل سے
آوارہ مزاجی کا اثر کیوں نہیں جاتا
صدیوں سے تجھے تکتے ہوئے سوچ رہا ہوں
جی تیرے خدوخال سے بھر کیوں نہیں جاتا
آنکھوں سے اُداسی کی گھٹا کیوں نہیں چھٹتی
سینے سے محـــبت ۔ کا بھنور کیوں نہیں جاتا
ٹھہرا ہے جو اک قافلہ غم میرے دل میں
اس چھوٹی سے بستی سے گزر کیوں نہیں جاتا
سانسوں سے میرے لرزش غم کیوں نہیں جاتی
پیروں سے میرے زخمِ سفر کیوں نہیں جاتا
فرحت عباس شاہ
یہ ہجر کا موسم بھی گذر کیوں نہیں جاتا
جاتا ہوا لگتا ہے مگر کیوں نہیں جاتا
بہتا ہوں تو میری کوئی گہرائی بھی ہو گی
دریا کی طرح خود میں اتر کیوں نہیں جاتا
لازم ہے کہ جاگے کبھی بچے کی طرح بھی
یہ شہر کسی خواب سے ڈر کیوں نہیں جاتا
ملبے سے نکل آتا ہے آسیب کے مانند
لوگوں کی طرح خوف بھی مر کیوں نہیں جاتا
اس کنج میں مدت سے بہار آئی نہیں ہے
یہ باغ مری آنکھ میں بھر کیوں نہیں جاتا
یہ بھید بھی کھلنے نہ دیا دربدری نے
گھر کے لیے جاتا ہوں تو گھر کیوں نہیں جاتا
ملبوس سے کیوں منتِ یکجائی ہے تابش
میں ٹوٹ چکا ہوں تو بکھر کیوں نہیں جاتا
عباس تابش
جو بیت گیا ہے وہ گزر کیوں نہیں جاتا
جذبات کا دریا ہے ، اتر کیوں نہیں جاتا
کیا یوں ہی سدا بے حِس و خاموش رہوں گا
ہمدم تو دعا گو ہے ، میں مر کیوں نہیں جاتا
رہی ایسی ہوائیں ہی سدا میرے مقابل
میں خاک اگر ہوں تو بکھر کیوں نہیں جاتا
تو آئینہ تمثال ہے گر ماہ جبیں ، پھر
ان عیب و ہنر میں ، میں سنور کیوں نہیں جاتا
مدّت سے مہربان نہیں یار تو ، لیکن
دل سے ، تری الفت کا اثر کیوں نہیں جاتا
مانا کےہے وا تجھ پے در صدغم و آلام
یہ وقت کڑا ہے تو گزر کیوں نہیں جاتا
دونوں ہی گرفتار اگر موج غم عشق
دامن یہ ترا صبح کو تر کیوں نہیں جاتا
جادو تیری نظروں کا اگر تھا نہ وہ کاشفؔ
اس دل سے مرے ان کا سحر کیوں نہیں جاتا
کاشف اسرار احمد
اُن تک مری آہوں کا اثر کیوں نہیں جاتا
تلخابہء دل بن کے شرر کیوں نہیں جاتا
جاتا ہوں جو اُس بزم میں دُکھ اپنا سُنانے
ہمراہ مرے، دیدہء تر کیوں نہیں جاتا
رکھتا ہے ترے عشق کے دھوکے میں جو مجھ کو
یہ پردہ بھی آنکھوں سے اُتر کیوں نہیں جاتا
دن ڈھل گیا سب لوٹ گئے اپنے گھروں کو
پھر صبح کا بھُولا ہوا گھر کیوں نہیں جاتا
اِک آہ سے ہِل جاتا ہے جب عرشِ الٰہی
یہ نظمِ جہاں پل میں بِکھر کیوں نہیں جاتا
ہم دھو چُکے اشکوں سے ہر اِک داغِ تمنا
کیا جانئے یہ داغِ جگر کیوں نہیں جاتا
محمد حفیظ الرحمٰن