ریٹائرمنٹ ۔۔۔ محمد اسد اللہ

یہ وہ دلخراش واقعہ ہے جس کا مزہ ہر اس شخص کو چکھنا ہے جس نے کبھی ملازمت کے شعبے میں قدم رکھا ہو۔  ریٹائرمنٹ کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ وہ عورت دیکھتا ہے نہ مرد، بے جھجھک انسانی عمر کی پول کھول کر رکھ دیتا ہے۔ دور حاضر میں بے شمار عورتوں نے پر دہ کرنا بھلے ہی چھوڑ دیا ہو، اظہارِ عشق اور اظہارِ عمر کے معاملے میں خواتین کی اخفائے حال کی روایت بہر حال بر قرار ہے۔  ترقی کے اس زمانے میں خواتین نے مردوں کو کئی میدانوں میں پیچھے چھوڑ دیا ہے گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اب ان میں بھی مردانگی کے آ ثار نمایاں ہونے لگے ہیں، البتہ عمر چھپانے کے معاملے میں اکثر مرد بھی عورتوں کے شانہ بشانہ چل رہے ہیں۔  اپنی عمر گھٹا کر بتانے میں مرد بھی اب اسی مہارت کا ثبوت پیش کرتے ہیں جو عورتوں کا خاصہ ہے۔  اس کا ایک سبب شاید یہ ہے کہ اکثر مردوں میں بھی عورتانگی (نسوانیت) پائی جاتی ہے۔

ملازمت حاصل کرنے کے لئے ان دنوں خواتین اس قدر بے چین نظر آتی ہیں کہ اس راہ پر آگے بڑھنے میں ریٹائر منٹ کا یہ خطرہ بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، حالانکہ انھیں پختہ یقین ہوتا ہے کہ ریٹائرمنٹ وہ گھر کا بھیدی ہے جو ان کی عمر کا پردہ فاش کر کے رہے گا۔  اکثر مرد و زن آخری کوشش کے طور پر اپنے ریٹائر منٹ پر یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ اسکول میں ان کی عمر دو تین سال بڑھا کر بتائی گئی تھی۔ ان کے اس بیان کا آسان اور سلیس ترجمہ کسی شاعر نے پہلے ہی ان الفاظ میں کر رکھا ہے:  ابھی تو میں جوان ہوں

بچوں کو پولیو کے ڈوز پلانا اور بوڑھوں کو ریٹائرمنٹ کی کڑوی گولی کھلانا، در اصل دونوں کی عمر کا تقاضا ہے۔  ملازمت میں لاکھ جھمیلے ہوں، اپنے اعضا و جوارح جواب دینے لگے ہوں تب بھی کوئی ملازم ریٹائر منٹ کو بخوشی قبول نہیں کرتا۔  اس میں ہتکِ عزت کا خدشہ ہے، ایک ایسا خسارہ جس کے لئے آپ عدالت کا دروازہ بھی نہیں کھٹکھٹا سکتے۔  اپنے گھر لوٹنے کو سوا چارۂ کار نہیں۔  ہماری نظر میں ریٹائرمنٹ سے بہتر لفظ وظیفہ یاب ہونا ہے جس میں یہ اشارہ بھی موجود ہے کہ اب یہ آدمی سوائے عبادات اور اوراد و وظائف کے کسی کام کا نہیں رہا۔ ریٹائرمنٹ ایک قسم کا اعلانِ شکست ہے۔ اس کا شکار ہونے والا اکثر یہ کہتا ہوا محسوس ہوتا ہے:

میں بہادر ہوں مگر ہارے ہوئے لشکر میں ہوں

ستم ظریفی دیکھئے کہ تمام عمر، دنیا بھرکا علم اور تجربہ حاصل کرنے کے بعد جب آ دمی کسی قابل ہوتا ہے تو اسے سبک دوش کر دیا جاتا ہے۔ ریٹائر منٹ کے دکھ میں یقیناً یہ صدمہ بھی شامل ہوتا ہے کہ آنجناب کو تجربے کی کنگھی اس وقت دستیاب ہوئی جب سر سے سر گرمیوں کے سارے بال رفو چکر ہو گئے۔

ریٹائر منٹ ایک ایسا طلسمی آئینہ ہے جس میں ملازم کو عمرِ رفتہ کا سراغ ملے نہ ملے، حالاتِ حاضرہ کا بیان ضرور ملتا ہے، جو اکثر ناگفتہ بہ ہوتے ہیں۔ اس آئینے میں وہ اہلِ دنیا کو ایک نئے زاویے سے دیکھتا ہے اور حیران رہ جاتا ہے، یہ سوچ کر کہ آپ تو ایسے نہ تھے۔  دورانِ ملازمت بھلا آدمی اپنے فرائض منصبی میں میں غرق رہا، یہ سفینۂ روزگار جب کنارے پر آ لگا تو اس پر انکشاف ہوا کہ اب وہ اس کشتی کا ناخدا نہیں رہا؛ بندۂ بے دام ہو کر رہ گیا ہے۔  سبک دوشی کا یہ آئینہ اسے اپنے من میں ڈوب کر سراغِ زندگی پانے کی ترغیب دیتا ہے۔ اسے اپنے آس پاس موجود لوگوں کی محبت یا محبت کا سوانگ اس شیشے میں صاف نظر آ تا ہے۔

مجھے اکثر محسوس ہوتا ہے کہ جس شخص نے کسی بیماری یا حادثے کے نتیجے میں ناکارہ ہو جانے کا یا ریٹائر منٹ کا مزہ نہیں چکھا اس نے صحیح معنوں میں دنیا کو دیکھا ہی نہیں بلکہ وہ خود اپنے آپ سے بھی کبھی نہیں ملا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی میگزین میں یا ٹی وی پر شیر کی تصویر یا ویڈیو دیکھ کر کوئی خوش ہولے کہ میں نے شیر دیکھ لیا۔  ذرا اسے دو بدو دیکھو تو پتہ چلے۔

آدمی کے اندر کیا کیا چلنے لگتا ہے۔  زندگی کے اتنے قریب جانا کہ جذبات میں تلاطم برپا ہو جائے اور سانس اوپر تلے ہونے لگے، ایک الگ تجربہ ہے۔  اس وقت محسوس ہوتا ہے کہ ہم نہ صرف اپنے اندر چھپے ایک مختلف آدمی سے شرفِ ملاقات حاصل کر رہے ہیں بلکہ ہمارے باہر گھومتے پھرتے لوگوں کے اندر تک اتر کر دیکھنے لگے ہیں۔  دنیا میں حادثات اور غیر متوقع حالات اسی لیے پیش آتے ہیں تاکہ حسینۂ زیست کے چہرے سے چند لمحوں کے لیے ہی کیوں نہ ہو، نقاب اترے تو سہی۔ کوئی شخص اس جہاں فانی کو اچھی طرح سمجھنا چاہتا ہے تو اسے زندگی میں کم از کم ایک بار ضرور ریٹائر ہونا چاہئے۔  کوئی کہے کہ میں کوئی ملازم ہو جو اس سے سبک دوش ہو جاؤں تو ہماری مشورہ ہے اس کارِ خیر کے لیے چند ٹکوں کی چاکری کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ اس صورت میں آپ نہ صرف اس دنیا کا حقیقی چہرہ دیکھ سکیں گے، بلکہ اہلِ دنیا کا وہ روپ بھی آپ کو نظر آ جائے گا جسے عام حالت میں ’’ارنی‘‘ کہہ کر بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔

آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ تازہ تازہ ریٹائر ہونے والے لوگ اپنے سبک دوش ہونے کی خبر کے ساتھ یہ اطلاع ضرور دیتے ہیں کہ وہ جلد ہی کسی اچھی سی مصروفیت میں مبتلا ہونے والے ہیں، یعنی جلد یا بدیر کوئی ملازمت یا کام اختیار کر کے تلافیِ مافات کرنے والے ہیں۔  کوئی دکان لگا لیتا ہے، کوئی کسی اسکول، مدرسہ یا ٹیوشن کلاس میں تدریسی خدمات انجام دینے لگتا ہے۔  کچھ لوگ قران فہمی کی کلاس جوائن کر تے ہیں یا کسی فلاحی ادارے میں اپنے خدمات پیش کر دیتے ہیں، بعض کسی کمپنی میں کوئی ملازمت جوائین کر لیتے ہیں اور چند ایک تو سبک دوش ہونے سے پہلے ہی ان میں سے کوئی مشغلہ اپنے کاندھے اور اعصاب پر سوار کر لیتے ہیں۔ یہ در اصل سماج کے لیے ایک پیغام ہوتا ہے کہ ملازمت سے ان کی علاحدگی، مشین کے کسی ناکارہ پرزے کو نکال پھینکنے کا واقعہ نہیں ہے، وہ اب بھی اتنے ہی فِٹ ہیں۔  ملازمت کے دوران وہ کسی مورچے پر زندگی کی ایک جنگ میں شریک تھے اور ایک جانباز سپاہی کی طرح لڑتے رہے۔  اب جنگ بندی کے بعد ناکارہ سپاہی بن کر نہیں رہیں گے بلکہ ان کے لئے ایک نیا مورچہ تیار ہے۔  ان معاملات میں اکثر یہ ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو چند ماہ یا چند برسوں تک مشغول رکھتے ہیں، اس کے بعد خود فریبی کا یہ طلسم خود بخود ٹوٹنے لگتا ہے۔  وہ شخص اپنے آپ کو دھیرے دھیرے یہ سمجھا لیتا ہے یا حالات اسے باور کروا دیتے ہیں کہ اب وہ اس علاقے میں داخل ہو چکا ہے جسے جغرافیہ کی اصطلاح میں ’ ڈیلٹا ‘کہا جاتا ہے، سبک دوشی کے بعد کئے جانے والے اس سارے اہتمام کو آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں:  زور کا جھٹکا دھیرے سے لگے۔

ملازمت سے سبک دوش ہونے والا اس تلخ حقیقت کو قبول کرنے پر آ مادہ نہیں ہوتا کہ ایک دن وہ اچانک ایک فضول سی چیز بن گیا ہے۔  وہ اپنے فرائضِ منصبی بڑی تندہی سے انجام دیتا رہا، اب اسے وہاں سے صرف اس لیے ہٹا دیا گیا کہ کارِ جہاں نے اس کے تن بدن میں دوڑتی بجلیاں چرا لی ہیں، ماہ و سال کی گردش نے اس کے بالوں میں چاندی بھر دی ہے اور زندگی کے کٹھن سفر نے اس کے چہرے پر تھکن کا غازہ مل دیا ہے، حالانکہ اس کا دل تو اب بھی اسی طرح جوان ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ریٹائر منٹ ملازمت نامی ایک سہانے سفر کی منزلِ نامراد ہے، یہ چلتی ٹرین کا پٹری سے اتر جانا ہے، آنکھ کھل جانے پر کسی اچھے خواب کا ٹوٹ جانا ہے، محبوب کا بے وفائی کر جانا ہے۔ ملازمت سے جڑی ہوئی سبک دوشی کہہ مکرنی نہیں تو اور کیا ہے۔

ریٹائر منٹ کو اردو میں سبک دوشی شاید اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اپنی سبک دوشی کی اطلاع دینے والا ہر شخص اسے اعترافِ شکست مان کر سبکی محسوس کرتا  ہے۔ اس موقع پر پروین شاکر کا یہ شعر بے اختیار یاد آتا ہے۔

کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے

بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

ریٹائر منٹ سے کچھ پہلے میری ایک طالبہ نے جو اسی ادارے میں بر سر روزگار تھی، مجھے یہ خوشخبری سنائی کہ اس نے اس سال اردو کے بعد اب عربی میں بھی ایم اے کا امتحان پاس کر لیا ہے تو میں نے فخر محسوس کیا لیکن اس کے اگلے جملے نے میری وہ ساری خوشی چھین لی: ’سر اگلے سال آپ ریٹائر ہو رہے ہیں نا؟‘

گویا ریٹائر منٹ اس کرسی کو خالی کرنا ہے جس پر کئی لوگ نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔  وہ لوگ جنھیں ملازمت کے آخری ایام میں کرسی کاٹنے لگتی ہے ریٹائر ہو کر خوش ہوتے ہیں کہ چلو بلا ٹلی اور جنھیں اس کرسی کی محبت نے اپنے دونوں ہتھے پھیلا کر جکڑ لیا ہو وہ سبک دوش ہو کر بھی اپنے دل میں گرانی محسوس کر تے ہیں۔ ریٹائر منٹ دنیا کی بے ثباتی کو انڈر لائن کرنے کے لئے بنایا گیا قدرت کا ایک قانون ہے، یہ سمجھانے کے لیے کہ دنیا کی نعمتیں اور اقتدار اس فنا پذیری کے ساتھ مشروط ہیں جن کا اطلاق ہر ذی روح پر کسی نہ کسی دن ضرور ہو گا۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے