ناصر کاظمی کے لیے
یہ ضروری نہیں تب ہو کوئی
جب یہ خواہش ہو کہ اب ہو کوئی
زندگی یوں بھی گزر جاتی ہے
کیوں تقاضا ہے کہ ڈھب ہو کوئی
ایک ترتیب ضروری ہے بہت
کب میسر نہ ہو، کب ہو کوئی
خوب ہے حضرتِ شاعر کا نسب
شعر کا بھی تو نسب ہو کوئی
آنکھ بیکار بھی بھر آتی ہے
کیا ضروری ہے سبب ہو کوئی
بات کہنے کا سلیقہ بھی بجا
بات سننے کا بھی ڈھب ہو کوئی
کوئی ساقی ہو مرے ساقی سا
اور پیاسا بھی غضب ہو کوئی
باتوں باتوں میں اسی کی باتیں
یار تم لوگ عجب ہو کوئی
زندگی اس کی ہے فرحان میاں
جس کے سینے میں طلب ہو کوئی
٭٭٭
خاموش ہیں ششدر ہیں پریشان بہت ہیں
کیوں کر نہ ہوں دل ایک ہے ارمان بہت ہیں
ایسا یہاں کوئی نہیں اپنا جسے کہتے
یوں شہر میں کہنے کو تو انسان بہت ہیں
افسوس کہ ایمان کی بو تک نہیں آتی
یہ بات الگ صاحبِ ایمان بہت ہیں
کچھ علم کی دولت بھی عطا کر انھیں مولا
کہنے کو یہاں صاحبِ عرفان بہت ہیں
اخلاق و محبت سے یہ محروم ہے کیسے؟
اس شہر میں سنتے ہیں مسلمان بہت ہیں
لیتے نہیں ہم لوگ سبق اس سے کوئی بھی
قرآن میں حکمت کے تو فرمان بہت ہیں
بس میرؔ کا دیوان ہے گنجینۂ معنی
یوں شہر کی دوکانوں پہ دیوان بہت ہیں
٭٭٭