مبالغہ نہیں یہ، واقعی زیادہ تھی
شروعِ عشق میں دیوانگی زیادہ تھی
میں اس کو پہلے پہل اپنا وہم سمجھا تھا
وہ لڑکی چھپ کے مجھے دیکھتی زیادہ تھی
نظر بچا کے وہ تکتی تھی مجھ کو، میں اس کو
یہ دل لگی تھی تو اس وقت بھی زیادہ تھی
نہ مجھ سے بات وہ کرتی نہ اس سے میں کرتا
تو پھر وہ کیا تھی کہ جو گونجتی زیادہ تھی
اسی زمانے میں ہم کو کچھ ایسا لگنے لگا
کہ زندگی میں کوئی آنچ سی زیادہ تھی
اس آگ کے تو سبھی رنگ خوب صورت تھے
وہ آگ جس کی لپک آتشی زیادہ تھی
عجب جھجک تھی جو کم بخت مجھ میں تھی ہی بہت
جو نارمل سے بھی اچھی بھلی زیادہ تھی
بڑا کمال تھا اس کا دو رنگ خاص لباس
نڈر بھی تھی وہ، اسے شرم بھی زیادہ تھی
تبھی ہوا کسی اک آدھ بات کا آغاز
یہ تب کی بات ہے جب خامشی زیادہ تھی
ہر اک سڑک پہ وہ شعلہ مجھے لیے پھرتا
وہ چلنا تھوڑا تھا، وہ شاعری زیادہ تھی
انہی دنوں کسی محفل میں وہ ملی لیکن
بہت سے لوگ تھے اور روشنی زیادہ تھی
پھر اس نے مجھ سے جھجکتے ہوئے وہ بات کہی
جو بات تھوڑی تھی اور ان کہی زیادہ تھی
محبتیں بھی مقدّر کا کھیل ہوتی ہیں
سو کی نہیں تھی محبت، ہوئی زیادہ تھی
پھر ایک دن مجھے بانہوں میں بھر لیا اس نے
وہی جو پہلے پہل اجنبی زیادہ تھی
جڑا ہوا تھا یہ ملنا بدن کی حدّت سے
جدائی میں یہ تپش اور بھی زیادہ تھی
کنارِ آب کوئی شام جھلملاتی ہے
جو اس قبا کی طرح کاسنی زیادہ تھی
عجب طلسم تھا وہ نیلا پیرہن اس کا
سیہ گھٹا میں وہ کھلتی ہوئی زیادہ تھی
وہ پھول اس کی مہک سے بہت گلابی تھے
وہ گھاس اس کی لَپٹ سے ہری زیادہ تھی
نہ جانے کب اسی مسند پہ وہ بھی آ بیٹھی
وگرنہ خود سے مری دوستی زیادہ تھی
بہت سناتی تھی وہ میری شاعری مجھ کو
جو میری کیا اسی دل دار کی زیادہ تھی
اسے گلہ تھا میں اظہار کم ہی کرتا ہوں
وہ خوش طلب تھی مجھے مانگتی زیادہ تھی
میں اپنے جسم کی بولی میں گنگ رہتا تھا
مگر کبھی کبھی یہ بولتی زیادہ تھی
کچھ اس لیے بھی میں اظہار کر نہ پاتا تھا
محبت اس سے مجھے واقعی زیادہ تھی
ہنسی ہنسی میں بہت اشک آ ٹپکتے تھے
ہماری خاک میں شاید نمی زیادہ تھی
کوئی جدائی تھی ٹھہری ہوئ، ملاپ کے بیچ
جو چاہیے ہی نہیں تھی وہی زیادہ تھی
ہم اک گھروندہ بناتے تھے اور وہ بنتا نہ تھا
نہ جانے کون سی ہم میں کمی زیادہ تھی
تم اس کی یاد کو معدوم جانتے تھے سعود
پتہ چلا کہ وہ کم بھی نہ تھی، زیادہ تھی؟
٭٭٭