بالآخر پاکستان کو ہندوستان پر فتح حاصل ہو ہی گئی۔ ٹی ٹوینٹی ورلڈ کپ کے ایک میچ میں ہندوستان کو ہرا کر پاکستان نے اپنا دیرینہ، بلکہ ’’نرینہ‘‘ خواب پورا کیا کہ دونوں ہی ملکوں میں ایک دوسرے سے شکست کھانے پر اہل وطن اپنے کھلاڑیوں کو چوڑیاں پہننے کا مشورہ دیتے ہیں۔ شکستوں کے برسوں پرانے سلسلے ٹوٹنے کے ساتھ ٹی وی اسکرین کا ٹوٹنا بھی بند ہوا۔ سنا تھا کرکٹ میچ میں ہندوستان کے ہاتھوں ہر شکست پر پاکستان کے ڈرائنگ رومس میں ٹی وی اسکرین چھنّاکے کے ساتھ ٹوٹا کرتے تھے۔ کبھی چشم بخود تو دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا مگر ہم تصور کر سکتے ہیں کہ صورتِ حال کیا ہوتی ہوگی۔ ٹیلی ویژن کمپنیاں ہر ہند و پاک کرکٹ میچ سے قبل اسپیشل آفر دیتی ہوں گی:
جلدی کریں… محدود آفر…انڈیا پاکستان ون ڈے میچ شروع ہونے سے صرف ایک گھنٹہ قبل تک ہی۔
صرف سات دن…صرف چھ دن باقی ہیں ….اور پانچ دن …جلدی بک کریں، آفر اسٹاک رہنے تک۔
ابھی فون کریں ….بہت کم سیٹس بچی ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ سنہری موقع ہاتھ سے نکل جائے کیوں کہ اگلا ہند و پاک کرکٹ میچ آٹھ مہینے بعد، اور ہندوستان کے حصہ لینے کی کوئی ضمانت بھی نہیں۔
اور پھر میچ کے دن صبح صبح تمام اخبارات میں ان کمپنیوں کے بڑے بڑے اشتہارات کی سرخیاں کچھ یو ں ہوتی ہوں گی:
خوشخبری …خوشخبری …خوشخبری… شاندار آفر میں توسیع …ٹاس ہونے سے لے کر پہلی اننگ کے ختم ہونے تک …اپنے اپنے موبائل ہاتھ میں رکھ کر ٹی وی کے سامنے بیٹھیں۔
پھر میچ ٹیلی کاسٹ کے دوران ٹی وی پر ہی آخری ڈرنکس سے قبل ایک نیا اشتہار دکھایا جاتا ہوگا:
پاکستانی شکست سے ٹھیک ایک اووَر قبل بذریعہ فون ۴۲ انچ ایل ای ڈی بک کرنے والوں کو ۲۳ انچ کا ایک ایل سی ڈی مفت …اب زیادہ نہ سوچیں، اپنی قومی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی پر بھرپور یقین کے ساتھ فون لگائیں۔
کچھ دیگر کمپنیوں کے اشتہارات قدرے مختلف ہوتی ہوں گے:
ہمارے ٹی وی سیٹس خاص طور سے انڈیا پاکستان کرکٹ میچ دیکھنے کے لئے بنائے جاتے ہیں …اسپیشل گوریلا گلاس کوَرنگ کے ساتھ۔
اس کے ساتھ ہی ایک ماڈل اپنے ٹی وی سیٹ کی اسکرین پر بڑے پیار سے ہاتھ پھیرتے اور تھپتھپاتے ہوئے کہتا ہوگا:
گزشتہ سال انڈو پاک کرکٹ میچ کے دوران آخری گیند کے ساتھ ہی میں نے اپنی بوتل بڑے زور سے اس پر ماری تھی،لیکن کیا مجال کہ ایک ہلکی سی خراش بھی آئی ہو…
پھر ایک ہاؤس وائف بڑی ادا کے ساتھ مسکراتے ہوئے کہتی ہوئی نظر آتی ہوگی:
یہ بڑے جذباتی اور غصّہ ور ہیں۔ پچھلے پانچ سالوں میں اس اسکرین پر دس گلاس توڑ چکے ہیں لیکن ٹی وی کا اسکرین چٹخنے کا نام ہی نہیں لیتا۔
غریب گھرانوں کی سمجھ دار خواتین آخری اووَر سے قبل گھر کے مین سوئچ بورڈ سے فیوز نکال لیتی ہوں گی اور اونچی آواز میں ’’اُف، یہ لوڈ شیڈنگ نے بھی ناک میں دم کر رکھا ہے‘‘ کہتی ہوئی اپنے شوہر کے پاس سے گزرتی ہوں گی۔ اگر ان کے سمجھ دار بچے کبھی ایسے کسی دوسرے موقعے پر ماں کو فیوز نکالنے کے اشارہ کرتے ہوں گے تو جواب ملتا ہوگا: ’’اس کی کوئی ضرورت نہیں، آج پاکستان بنگلہ دیش سے کھیل رہا ہے۔ اپنوں سے ہارنے کا غم کیسا؟‘‘
بہرحال، ٹی وی بنانے والی کمپنیوں کو بھاری نقصان تو اٹھانا پڑا ہی ہوگا۔ مگر اس کے ساتھ ہی میچ فکسنگ کا معاملہ اٹھانے اور انکوائری کمیشن بٹھانے کا سلسلہ بھی یکلخت بند ہو گیا ہوگا۔ ٹی وی کمپنیاں پاکستان میں اپنے نقصان کی بھرپائی ہندوستان میں کر سکتی ہیں بلکہ زیادہ فائدے میں رہیں گی کیوں کہ بالا پورا منظر نامہ سرحد کے اِس پار چلا آئے گا۔ بڑے بھائی کو غصّہ زیادہ آتا ہے۔ چھوٹا بھائی تو ٹی وی کا صرف اسکرین ہی توڑتا ہے مگر ’’بھائی جان‘‘ تو سڑک پر پورا ٹی وی سیٹ ہی پٹختے ہوئے نظر آتے ہیں۔ آبادی کے تناسب سے کمپنیاں بےتحاشا منافع کما سکیں گی۔ نفرت کے کاروبار میں سیاسی اور مالی دونوں طرح کے فائدے کی گارینٹی ہوتی ہے، اور حریف کو پچھاڑنا بھی آسان ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کھانسی کی دوا ’’ملتانی کوکا‘‘ اور ہاضمہ سرپ ’’ملتانی پچمینا‘‘ بنانے والی ہندوستانی کمپنیوں پر ہندوستان کے ’’نیم چینجر‘‘ وزیر اعلیٰ کی ’’نظرِ گرم‘‘ اب تک نہیں پڑی، حالانکہ کہ مشہور ڈابر کمپنی کو بابر کا ہم قافیہ ہونے کے سبب ماضی میں معتوب بھی ہونا پڑا ہے۔ پتہ نہیں قومی ترانے میں لفظ ’’سندھ‘‘ کی ’’گندھ‘‘ کیسے برداشت کرتے ہیں۔
نفرت کی کھیتی کو زرخیز بنانے میں 1947 کے ’’کمبھ میلے‘‘ میں بچھڑے دونوں بھائیوں نے اپنا اپنا رول نبھایا ہے۔
پاکستان پر ہندوستان کی جیت کی صورت میں ہندوستان میں اتنی بار رپیٹ ٹیلی کاسٹ اور ہائی لائٹس دکھائی جاتی ہیں گویا کارگل کے پہاڑوں پر ہندوستانی فوجوں نے پاکستانی فوجیوں سے اپنے جوتے صاف کروائے ہوں۔
مسلکی منافرت کم کرنے کی لیے مذہب میں اسپورٹس مین شپ کی ضرورت تھی۔ اس کی بجائے پاکستانی اسپورٹس میں مذہب کی اتنی ملاوٹ کر دی گئی ہے جتنی ہندوستانی سیاست میں مذہب کی۔ جب اللہ میاں نے پری پیڈ دعا قبول کر ہی لی تو پھر پوسٹ پیڈ شکرانے کی اتنی عجلت کیا تھی کہ جوتوں سمیت بغیر جانماز کے میدان میں ہی شروع ہو گئے؟ اوپر والے کی نظر ڈریسنگ روم کی چھت کے آر پار بھی دیکھ سکتی ہے! اب اگر ’’بھائی جان‘‘ نے ضد پکڑ لی کہ وہ بھی کھیل شروع ہونے سے قبل ناریل پھوڑیں گے یا ہَوَن رکھیں گے تو؟ ظاہر ہے ایسی صورت میں آئی سی سی کی منظوری سے پچ کا ایک ایک سِرا دونوں جڑواں بھائیوں کو الاٹ کرنا پڑے گا۔ ذرا تصور کریں کیا منظر ہوگا۔ ایک طرف تین اسٹامپس کی جگہ تین اگر بتّیاں گڑی ہوں گی اور جھوم جھوم کر مقدس کلمات کا ورد ہوگا تو دوسری جانب ہَوَن سے دھوئیں اٹھیں گے اور گھنٹیوں کے ساتھ سنسکرت شلوک پڑھے جائیں گے، ساتھ ہی ایک دوسرے کو شکست کی بد دعائیں بھی دی جائیں گی۔ پھر فریقین آنکھوں میں محبت کے پھول اور دلوں میں نفرت کے دھول لیے ایک دوسرے کی جانب بڑھیں گے اور پچ کے بیچوں بیچ شیرینی اور پرشاد کا تبادلہ ہوگا۔ یہ جذباتی منظر دیکھ کر اسٹیڈیم میں بیٹھے شیدائیوں کا بھی دل بھر آئے گا اور وہ فرطِ بھائی چارگی سے مغلوب ہو کر کھڑے ہو جائیں گے، اور بیک وقت ’’اللہ اکبر‘‘ اور ’’جئے شری رام‘‘ کے نعروں سے پورا اسٹیڈیم گونج اٹھے گا۔ پھر کھیل شروع ہونے پر ہر باؤنڈری، ہر وکٹ پر ایک دوسرے کو مبارک باد دی جائے گی۔ یہ منظر دیکھ کر دونوں ملکوں کے سیاست داں پیچ و تاب کھانے کے سوا کچھ نہیں کر پائیں گے۔ آسمان میں فرشتے انگشت بدنداں رہ جائیں گے کہ زمین پر فتنہ پھیلانے کی بدنامی کا طوق گلے میں ڈالے یہ انسان کیا کر رہا ہے؟ لیکن جلد ہی یہ استعجاب ختم ہوگا جب میچ کے نتیجے کے وقت انہیں معلوم ہوگا کہ زمین کی بجائے آسمان پر خدا اور بھگوان کے درمیان گھمسان کی جنگ جاری ہے۔ ظاہر ہے جو جیتے گا اسی کی ’مخلوق‘ فتح یاب ہوگی!
٭٭٭پ