تین قطعات ۔۔۔ عرفان عابد

قدرت کا فیصلہ ہے، کچھ بھی نہ منجمد ہو

وقتِ رواں کی رو میں ہر شئے پگھل رہی ہے

ہَم ہی میں عیب تھا جو تا عمر ہَم نہ بدلے

ورنہ تو رفتہ رفتہ دنیا بَدَل رہی ہے

٭٭

 

ممکن ہے عزمِ مردِ جواں سے ہر ایک کام

چاہے جو تُو تو اِس کی بھی صورت نکال دے

تاروں کو توڑ لائے فلک سے زمین پر

دریاؤں کو سمیٹ کے کوزے میں ڈال دے

٭٭

 

 

شہیدِ حق کو نہ بے جان تب تلک جانو

لہو کا ذہن میں جب تک کہ رنگ باقی ہے

ابھی تو جسم ہوا ہے فنا سپاہی کا

ابھی تو اس کے عقائد کی جنگ باقی ہے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے