ادیب عصر، شاہ قلمروئے قلم، قادر التحریر، ساحر الفاظ، ماہر زبان، نثّار بے مثل، صاحب اسلوب، صاحب طرز، نیز صاحب علم و فضل، قاضی عبد الستار وہ فرد فرید تھے، جن کے قلم کا لوہا دشمن بھی مانتے تھے۔ ان کے مخالف ان سے اختلاف تو کر سکتے تھے، کہ یہ ان کا جمہوری حق تھا۔ مگر یہ کہنے کی جسارت کوئی نہیں کر سکتا تھا کہ قاضی صاحب با کمال تخلیق کار نہیں، یا ماہر فن نثر نگار نہیں، کہ ایسا کوئی بھی قول، ادبی بے دیانتی کے مترادف ہوتا۔ حق یہ کہ آج کے عہد میں محمد حسین آزاد اور رتن ناتھ سر شار کے اسلوبی وارث وہی تھے۔ اگر شعر و سخن کی سطح پر انیسؔ کی زبان دانی مسلّمہ اور جوشؔ کی لفظی سحرکاری بے مثل ہے تو اسی زنجیر کی اگلی کڑی میں، نثر کی نہج پر، قاضی عبد الستار لفظوں کے بادشاہ بھی تھے اور ایک مخصوص طرز بیان، نیز اسلوب ترقیم کے سالار بھی۔ با وزن، در بحر، شعر تو سنے تھے، مگر با وزن شعری نثر قاضی عبد الستار کے یہاں دیکھی۔ ان کی نثر پرکھئے تو شعر، غیر شعر اور نثر کی بحث ہی معنویت سے محروم ہوتی نظر آتی ہے۔
خود قاضی صاحب کے نظرئے کے بموجب، کسی مضمون کی شان معراج یہ ہے کہ وہ نثر میں بیان ہو، ان کے خیال میں نثر شاعری سے کہیں افضل و برتر ہے۔ اور دلیل اس کی یہ ہے کہ تمام صحائف آسمانی نثر میں ہیں۔ حق یہ بھی کہ قاضی عبد الستار اپنے منفرد اسلوب کے موجود بھی تھے اور خاتم بھی۔ اگر انیسؔ کو ایک مضمون کو سوطرح سے باندھنے میں ملکہ حاصل تھا تو اپنی بات کو ہزار طرح سے بیان کرنے کا فن لازوال قاضی صاحب کی ملک تھا۔ قاضی صاحب ایک زوال شدہ تہذیب و تمدن کی یادگار اور نا پید ہو چکی اقدار کے نوحہ گر تھے، اگرچہ آج کے معاشرے کے سانچے میں ان کا وجود سماتا نہیں تھا، تاہم ان کا دم غنیمت تھا کہ وہ جہان ادب کے ایک فحول اکبر کی حیثیت سے، با تبریک تھے، اگر نئی نسل کو ان سے استفادہ کرنے کی توفیق ہوتی، تو وہ اپنی جگہ اِک مرجع طالبان فیض تھے۔
قاضی صاحب کے بارے میں رائے عامّہ یہ تھی کہ وہ بڑے مدمّغ اور کسی حد تک مغرور تھے، کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے، لیکن ہمارا مشاہدہ اور تجربہ دونوں اس کے برعکس رہے، ان کا معاملہ یہ تھا کہ بقول حالیؔ وہ خاکساروں کے لئے خاکسار تھے، مگر سربلندوں کے تئیں انکسار برتنے کے قائل بالکل نہیں تھے، ہرگز نہیں تھے۔ ہم نے قاضی صاحب کو بڑے بڑوں کا طنطنہ توڑتے دیکھا اور خردوں کی دلداری کرتے بھی۔ یہ خیال قطعی غلط، بلکہ گمراہ کن ہے کہ قاضی صاحب کسی کو گردانتے نہیں تھے، کسی کا ادب نہیں کرتے تھے، ہم نے خود انھیں متعدد اکابرین کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان دیکھا، ہزار بار دیکھا، مثال کے طور پر وہ رشید صاحب کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے، وہ ان کی ادبی شان کے علاوہ ان کی شخصی عظمت و اعلیٰ کردار کے بے حد مدّاح تھے، جس کا ثبوت یہ کہ انھوں نے صدر شعبہ کی حیثیت سے زمامِ اقتدار سنبھالتے ہی رشید احمد صدیقی پر مذاکرہ کرایا، شعبہ میں ان کی تصویر آویزاں کرائی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کی تاریخ میں رشید احمد صدیقی پر یہ پہلا سمینار تھا اور شاید آج تک آخری بھی۔ قاضی صاحب اپنے استادِ محترم احتشام حسین کی بھی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے، ان کی علمیت کی بھی اور حسنِ اخلاق اور وضع داری کی بھی۔ سرور صاحب کو وہ ہمیشہ استادِ محترم کے لقب سے یاد کرتے تھے، ان کی محبتیں انھیں یاد تھیں اور ستم بھی، اگرچہ ناخوش ساعتوں میں وہ ان کے نا منصفانہ طریقِ کار کے ضمن میں بعض درپردہ حقائق بھی افشا کرنے سے نہیں چوکتے تھے، لیکن انتہائی جائز تنقید کے ساتھ، نیز ان کی بعض اصول پسندیوں کا ذکر وہ ایمانداری سے کرتے تھے۔ ہم نے ہمیشہ قاضی صاحب کو جذبیؔ صاحب کا نام بڑے احترام و محبت کے ساتھ لیتے دیکھا۔ اسی طرح مجنوںؔ گورکھپوری کا ذکر بھی بڑے منصفانہ ڈھنگ سے کرتے تھے اور اختر انصاری کا ذکر جب بھی کرتے، ادب و اعتراف کے ہم رشتہ۔ علاوہ ازیں قاضی صاحب کا جذبۂ احترام، سیّد حامد صاحب کے لیے شدید طور پر وقف تھا، ہم نے اس کے نظارے کئی بار دیکھے، وہ ہمیشہ ان کی علمیت اور انشا پردازی کے بھی قائل رہے اور انصاف پسندی و نیک نیتی کے بھی۔
قاضی صاحب کے بارے میں عام خیال یہ تھا کہ وہ کسی سے سیدھے منہ بات نہیں کرتے، اور کسی کو منہ نہیں لگاتے تھے، تو آئیے ہم بتاتے ہیں کہ وہ بدتمیزوں کو منہ نہیں لگاتے تھے اور ہر کس و ناکس سے بات نہیں کرتے تھے، کیونکہ بقول میرؔ وہ اپنی زبان اور دہن کو بگاڑنے کے قائل نہیں تھے۔ ہم نے تو انھیں انتہائی مہذب پایا، بات کرتے کرتے اگر کھانسی آ جاتی یا کسی ضرورت کے تحت لمحے دو لمحے کو کمرے سے باہر جانا پڑتا تو معذرت کرتے، ان کے دولت خانے پر حاضری کے دوران اگر بجلی فرار ہو جاتی تو وہ ایسے معافی طلب کرتے، جیسے یہ بھی ان کی خطا ہو۔ یہ سب کچھ تو تھا، مگر وہ بلا کے بذلہ سنج تھے اور جملے بازی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ معاملہ دو آتشہ تھا۔ لکھنؤ کی دلنشیں زبان اور علی گڑھ کی رعایتِ لفظی، دونوں کی آمیزش تھی ان کے یہاں اس کی مثالیں بے شمار ہیں، مگر سردست تفصیل کا محل نہیں۔
قاضی صاحب کا ایک عہد عروج تھا، خود ان کے بقول، زندگی کے کم از کم دس برس ایسے گزرے کہ عیش ہی عیش تھا، عشرت ہی عشرت تھی۔ ذہنی طور پر بھی اور مادّی سطح پر بھی۔ اس دوران وہ نہ صرف شعبہ اُردو کے صدر رہے، بلکہ اُردو دنیا کے بے تاج بادشاہ بھی، اس دور کے شیخ الجامعہ، دانشگاہ سید، ہاشم علی اختر، ان کے زبردست مدّاح و معتقد تھے۔ نیز، اس سے قبل ایک زمانے میں (اس وقت کے) صدر جمہوریہ ہند فخر الدین علی احمد، ان پر اس درجہ مہربان تھے کہ وہ قصر صدارت میں بلا روک ٹوک آ جا سکتے تھے۔ کسی قسم کی رسمیات قطعاً نہ تھیں، بلکہ ان کا داخلہ اس خصوصی دروازے سے تھا، جو صدر کے اہل خانہ کے لئے مختص تھا۔ حتّیٰ کہ انہیں کے طفیل ایک مرتبہ عزت مآب صدر سے ہماری بھی ملاقات ہوئی تھی۔ اور ہم نے ان کی خدمت میں بطور نوجوان ادیب، سپا سنامہ بھی پیش کیا تھا۔ ایک زمانے میں قاضی صاحب کو اتر پردیش کی کسی دانشگاہ کے شیخ الجامعہ کے عہدۂ جلیلہ کی پیش کش بھی ہوئی تھی۔ جسے انہوں نے صرف اس لئے قبول نہیں کیا تھا کہ بقول خود، ’ہم اپنی مرضی سے جینے والے، کہاں سرکاری ضابطوں کے متّحمل ہوتے، پھر تعلیم گاہوں کی سیاست سے کون عہدہ برآ ہوتا، ہم اپنی درویشی میں ہی مطمئن اور خوش ہیں‘۔ تاہم اس تمام تر رسائی، نیز اثر و رسوخ کے باوجود، نہ انہوں نے کبھی شان بگھاری، نہ کسی ہم چشم پر رعب جمایا۔ بلکہ عوام کو ان کی اس حیثیت خصوصی کا اندازہ بھی نہ تھا۔
ان کے وقت رخصت اردو میں ان کے قد سے بلند کسی ادیب کا قد نہیں تھا۔ پرانے بادہ کش اٹھ چکے ہیں اور نئے پیدا کرنے میں قدرت کمال احتیاط سے کام لے رہی ہے۔ قاضی صاحب فرماتے تھے کہ اردو میں بڑی شاعری ہو چکی، اب میرؔ، غالبؔ یا اقبالؔ تو کجا کوئی فانیؔ، کوئی جگر، کوئی حسرتؔ، کوئی جوشؔ یا فراقؔ یا فیض بھی پیدا نہیں ہو گا۔ ان کی یہ بات اردوافسانوی ادب پر بھی صادق ہے، پریم چند، منٹو، کرشن، بیدی، عصمت اور احمد ندیم قاسمی ہی نہیں، اب تو کوئی قرۃ العین حیدر اور قاضی عبد الستار بھی نیا پیدا نہیں ہو گا، لیکن غالبؔ کی طرح عینی آپا اور قاضی صاحب کے ساتھ قسمت کی ستم ظریفی یہ رہی کہ ان کے دور نے ان کی عظمت کو آنکا اور پہچانا تو، مگر ادھورا، پورا نہیں۔
قاضی صاحب نے ہمیں کئی امتیازات سے سرفراز کیا، ہم ان کے سب سے پرانے شاگرد ہیں، ہم ان کے شاگردِ رشید تو نہیں شاگردِ عزیز ہونے کے دعویدار ضرور ہیں۔ آج کوئی کچھ کہے، مگر ہم سے پرانا کوئی نہیں، ہم اوّلون سابقون میں سے ہیں۔ قاضی صاحب کے ساتھ ہماری بہت سی دل خوش کن یادیں وابستہ ہیں، ہمیں یاد نہیں کہ ہم نے ان سے کوئی فرمائش کی ہو، ضد کی ہو، خواہ بے جا کی ہو (اور ہماری ضدیں اکثر و بیشتر بے جا ہی ہوتی تھیں) اور انھوں نے اسے پورا کرنے میں، ہماری دلبستگی کرنے ہیں ایک لمحے کے لیے تامل کیا ہو، تاخیر تو بڑی چیز ہے۔
دلچسپ بات یہ کہ قاضی صاحب نے ایک آدھ سال کے علاوہ ہمیں کوئی نصابی درس نہیں دیا، کیونکہ ہمارا اصل مضمون اردو تھا ہی نہیں، لیکن لکھنا پڑھنا، جینے کا سلیقہ، آدابِ محفل اور شعار علم و ادب، یہ سب اور بہت کچھ ہم نے قاضی صاحب سے ہی سیکھا۔ انھوں نے نہ صرف سکھایا بلکہ ہماری زنگ آلود شخصیت کو مسلسل صیقل کر کے ہمیں اس قابل بنایا کہ ہم آج یہ سطریں لکھ رہے ہیں اور منہ کھول کر بات کر پاتے ہیں۔ قاضی صاحب کا ایک کمال یہ بھی تھا کہ ان کی بارگاہ میں زانوئے ادب تہ کرنے والوں کے اندر ایسی ہمت اور ایسا حوصلہ پیدا ہو جاتا تھا کہ وہ تاثر تو سب سے لیتے مگر مرعوب کسی سے نہیں ہوتے تھے اور بے جا تو ہرگز نہیں۔ قاضی صاحب کے شاگردوں کا یہی طرۂ امتیاز ہے اور یہی ان کی شانِ منفرد، ہمارے استاد سے بڑھ کر کوئی استاد نہیں اور ہم جیسا کوئی شاگرد نہیں۔ بقولِ جوشؔ ؎
سبق ایسا پڑھا دیا تو نے
دل سے سب کچھ بھلا دیا تو نے
ہم مسلم یونیورسٹی علی گڑھ پہنچے تو قاضی صاحب کی سرپرستی حاصل ہوئی، ان کا فیضان جاری ہوا، ان کی راہ نمائی میں علی گڑھ میں ہماری ادبی ہنگامہ آرائیوں کا نقطۂ عروج ایک دو روزہ کل ہند مذاکرہ تھا، جس کا عنوان تھا، ’’اردو کہانی کے بیس برس‘‘، تیسرے دن محفل افسانہ تھی۔ یہ نام کا نہیں بلکہ کام کا کل ہند اجلاس تھا، کیونکہ اس میں علی گڑھ کے علاوہ مرکز میں دہلی سے لے کر مشرق میں لکھنؤ و پٹنہ، وسط میں بھوپال اور دکن میں حیدر آباد تک سے ممتاز ادباء تشریف لائے تھے اور شریک ہوئے تھے۔ مذاکرہ کا افتتاح پروفیسر محمد حسن نے کیا تھا۔ مختلف جلسہ ہائے موقر کی صدارت، اقبال متین، عابد سہیل، غیاث احمد گدی اور قمر رئیس نے فرمائی تھی۔ اس کے ممتاز شرکا میں انور عظیم، اقبال مجید، بلراج مینرا، عقیل رضوی اور علی احمد فاطمی وغیرہم کے علاوہ مقامی سطح پر نمتا سنگھ، نجمہ شہریار، م۔ ندیم، اظہار الحسن اور احمد رشید نے بحیثیت افسانہ نگار شرکت کی تھی۔ اس تاریخی واردات ادب کے سرپرست بھی قاضی صاحب ہی تھے، ان ہی کے نام پر بڑے بڑے ادیب جمع ہوئے تھے، لیکن ان کی نوازش اور محبت کہ انھوں نے کنوینر ہمیں مقرر کیا تھا۔ ہمارے مساعد ہمارے نصیر، سیّد محمد اشرف، طارق چھتاری، عبد الرحیم قدوائی، اسعد بدایونی، محمد احمد شیون، صغیر افراہیم اور مسعود مرزا نیازی تھے، لیکن یہ سب مہمان نہیں، میزبان تھے اور سمینار کی کامیابی در اصل انہی کی محنت کا ثمر تھی۔ یہاں ڈاکٹر نعیم احمد کا ذکر ضروری ہے جو ہمارے حبیب اور کرم فرما تھے، اس مذاکرے کی انفرادیت یہ تھی کہ اسے ہم چند قلندروں نے اپنے بل بوتے پر منعقد کیا تھا۔ اس کی پشت پر کوئی ادارہ نہ تھا بلکہ کئی ادارے اور با اثر حضرات، اجتماعی طور پر اس کو ناکام کرنے کے لیے شب و روز سرگرداں تھے۔ سب سے بڑا مسئلہ سرمائے کی فراہمی کا تھا۔ بہرحال سمینار ہوا اور خوب ہوا، ایک دو اصحابِ خیر کے علاوہ، احباب نے ساتھ دیا، اور بھرپور دیا۔ مختصر یہ کہ یہ سمینار علی گڑھ کی ادبی تاریخ میں آج بھی یادگار ہے کیونکہ یہ عوامی پروگرام تھا، سرکاری نہیں۔ اس کے علاوہ ہم نے اتنی ادبی محفلیں منعقد کیں کہ انھیں بے شمار ہی کہا جائے گا۔ بڑے بڑے قد آور ادیب و شاعر شریک ہوئے، بیرونی بھی اور مقامی بھی، اور مقامی بھی وہ جن کا ایک مقام تھا۔ قاضی صاحب ہر موقعے پر، ہر مرحلے پر ہمارے راہنما تھے۔ رہبر بھی اور رفیق اکبر بھی۔ علی گڑھ میں بھی اور علی گڑھ سے باہر بھی، متعدد ادبی مجالس میں ہمیں قاضی صاحب کے ہمرکاب ہونے کا شرف حاصل رہا۔ یہ ایک داستان طویل اور حکایت لذیذ ہے، جس کو مزید طول دینے کا محل نہیں، لہٰذا آیت۔ استاد محترم کی یادوں کو سلام۔
ع۔ عالم میں تجھ سے لاکھ سہی، تو مگر کہاں۔
ابھی کل تک اردو کے سب سے قد آور ادیب، قاضی عبد الستار تھے، جو نوّے کے لپیٹے میں ہونے کے با وصف، جوان ہوں نہ ہوں، اپنی رحلت سے چند ماہ قبل تک رواں دواں تھے، ہم سے کہیں زیادہ مستعد تھے۔ وہ بابر کے قول پر یقین رکھتے ہوئے زندگی کو بھرپور انداز سے جیتے تھے، کیونکہ یہ ایک بار ہی ملتی ہے۔ قاضی صاحب کے مزاج کا خاصّہ یہ رہا کہ، وہ چاہتے تھے کہ سب کچھ اُن کی مرضی کے عین مطابق ہو، اور اُن کے کہے بغیر ہو، ظاہر ہے کہ عملاً یہ ممکن نہیں تھا۔ اس بات کا اعتراف اُنھیں خود بھی تھا، مگر مزاج تو مزاج ہے، وہ کیسے منقلب ہوتا؟
در اصل، قاضی صاحب استعجاب کی آخری حدود تک نادر المزاج تھے، ان کا مائل بہ کرم ہونا اور آمادۂ قہر ہونا، دونوں انتہائی غیر یقینی امور تھے۔ وہ شمشیر بدست تھے اور شمشیر بھی ذو الفقار۔ ان کی تیغ آب دار کو چلنا تھا، اپنوں پر چلے یا غیروں پر۔ کب کون اس کی زد میں میں آ جائے، اس کی کوئی ضمانت نہیں تھی۔
قاضی صاحب مزاجاً و عادتاً کاہل تھے، ہمیں تو حیرت ہوتی تھی کہ انہوں نے اپنی تمام ترتساہلی و تن آسانی کے باوصف، اتنا کچھ کیسے لکھ لیا۔ شاید بلکہ یقیناً، اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کا جسم کاہل تھا، ذہن و قلم نہیں، ہرگز نہیں۔
قاضی صاحب کے کردار کا ایک نازک پہلو یہ بھی تھا کہ وہ اپنے دشمن خود پیدا کرتے تھے۔ اکثر با وجہ اور شاذ و نادر ہی سہی، بے وجہ بھی۔ در اصل ان کی خواہش عین ہوتی تھی کہ زمانہ ان کے حساب سے چلے، مگر زمانہ کسی کے حساب سے نہیں چلتا، صرف اپنے حساب سے چلتا ہے۔ ان کے ساتھ ایک ستم یہ ہوا کہ ان کی ازدواجی زندگی بھی کامیاب نہیں رہی، کاوش اوّل بھی ناکام رہی، اور سعیّ دوئم بھی۔ خواہ اسباب و عوامل کچھ رہے ہوں، مگر اس بے برکتی میں کچھ نہ کچھ دخل ان کے مزاج کا بھی رہا ہو گا۔ بہر حال، یہ ایک تکلیف دہ موضوع ہے، جس کا ذکر محدود ہی مناسب ہے۔
قاضی صاحب کی شخصیت کا ایک خاصّۂ منفی یہ تھا کہ وہ نا پختہ گوش تھے۔ عینی شہادت، نیز بصری ثبوت کی غیر موجودگی میں، محض سمعی ذرائع پر اعتماد کر لیتے تھے، کسی بھی شخص کے تئیں (خواہ وہ انہیں کتنا ہی عزیز کیوں نہ ہو یا ان کا دیرینہ وفا دار کیوں نہ ہو) ان کا ذہن مسموم کرنا بہت آسان تھا۔ اس ذیل میں ان کے تمام اقربا کو تلخ تجربات ہوتے رہے، اور ان کا یہ شاگرد نا رشید بھی اس سے مستشنیٰ نہیں۔ در اصل قاضی صاحب تکمیلاً شتابی کیفیات کے حامل تھے، تاہم ان کے اندر ایک وصف تھا، ان کی طبیعت میں جو طفلی عنصر تھا، وہ اقبالؔ کے بقول، جلد غصّہ ہو جانے والا اور جلد من جانے والا تھا۔ اگرچہ یہاں بھی غیر مستقل مزاجی کار فرما رہتی تھی، تاہم، خود انہیں اور ان کے ہم نفسوں کو اس کا کچھ فائدہ ضرور حاصل ہو جاتا تھا۔
قاضی صاحب کے بارے میں ایک دلچسپ بات یہ تھی کہ وہ اپنے اکثر ہم عصروں کے برعکس، دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کی سمت میں تقریباً ناکام تھے۔ پروانۂ قرض (کریڈٹ کارڈ) اور خودکار رقعۂ صرافی(اے۔ ٹی۔ ایم کارڈ) سے شاید ان کی شناسائی بھی نہ تھی۔ وہ آخر تک بھی رقّعۂ زر (چیک) کے استعمال میں یقین رکھتے تھے۔ آج کے دور میں بھی وہ گشتی تل فون (موبائل) کے استعمال پر کلّی طور پر قادر نہیں تھے، جیسے تیسے وہ فون پر بات تو کر لیتے تھے، مگر نہ پیغام (میسیج) بھیج سکتے تھے، نہ برقی پیام رسانی (ای۔ میل) کر سکتے تھے، وہ صرف روایتی برید رسانی میں یقین رکھتے تھے، یا پھر ہرکارہ بھیجنے میں۔ مگر انہوں نے حیرت انگیز طور پر رایانہ (کمپیوٹر) سے یارانہ کر لیا تھا اور بڑے مزے سے فلمیں دیکھتے رہتے تھے۔ ان کی عزلت نشینی میں یہ مشغلہ ان کا بڑا سہارا تھا۔
قاضی صاحب کے تعلق سے ایک بات ہمیں کسی طور ہضم نہیں ہوتی کہ اپنی تمام تر دقّت نظر اور مشکل پسندی کے باوجود، وہ پتہ نہیں کس قبیل کے سیل جذبات کے زیر اثر یا بہ لحاظ دلداریِ اصاغر، بعض نا اہلوں کی تعریف و توصیف کر گزرتے تھے، یا کم از کم توصیفی مبالغہ آرائی اختیار کرتے تھے، اگر چہ ماقبل، ان جیسوں کو انہوں نے کبھی ادیب و مصنف تو کیا قلم کار بھی تسلیم نہیں کیا، اور پھر خیال خاطر شناسائی کے دباؤ میں تحریر کردہ ان کی چند سطروں کو یہ تمام کم قدو کم قدر، بطور سند، تعویذ گلو بنا لیتے تھے۔ وسیع پیمانے پر ان کی نمائش کرتے تھے اور حقداروں کا منہ چڑاتے پھرتے تھے۔ یہ روش نازک قاضی عبد الستار کے مثل عالی وقار و ذی شان ادیب کو زیب نہیں دیتی تھی۔ کیونکہ جس طرح حقدار کی حق سلبی گناہ ہے، اس طرح بے حق کو غلط بخشی بھی کم از کم مکروہ تو ہے ہی۔ ستم بالائے ستم یہ کہ خود قاضی صاحب کو اس امر کا احساس نہیں تھا کہ ان کا عطا کردہ ایک ایک حرف اعتراف، اپنی جگہ زر نگا ہ ے، جسے بازار نیم روشن میں بآسانی فروخت کیا جا سکتا ہے۔ ؒ ٓتاہم، اس عمل کا سبب بڑا سادہ تھا۔ در اصل قاضی قلبی، ذہنی و عملی طور پر شرافت کا مجسمّہ تھے۔ اعتراف محبت و دلداریِ احباب و اصاغر میں بخل ان کے بس سے باہر کی شے تھا۔
افسوس صد افسوس کہ قاضیؔ صاحب کا دور آخر خاصا تکلیف میں گزرا۔ اخلاف دور تھے دوست، احباب کیا، لگے بندھوں نے بھی آنا جانا موقوف نہیں تو کم کر دیا تھا۔ چند وفا دار شاگردوں کی حاضری اور تین چار ملازموں کی موجودگی کے باوجود، وہ اکثر و بیشتر تنہا رہنے پر مجبور تھے۔ یہ امر ہمارے لئے موجب تکلیف اور باعث کوفت تھا کہ قاضی صاحب تقریباً بے رفیق تھے، بیشتر احباب دیرینہ یا تو رخصت ہو چکے تھے یا رخ بدل چکے تھے۔ ان کا ندیم مخلص ہمیں کوئی نظر نہیں آتا تھا۔ دوسری جانب انہیں منافقین نے حصار میں لے رکھا تھا اور ستم ظریفی یہ کہ اپنی سادہ مزاجی و سادہ دلی کے سبب انہیں حقیقت حال کا صحیح عرفان بھی نہیں تھا۔ ہمیں شدید افسوس تھا کہ ہم خود ان کے ’قیامی شہر‘ میں موجود نہ ہونے کے سبب ان کی خدمت واجب انجام نہیں دے پاتے تھے۔
مگر اب وقت گزر گیا، سو ما سوا ندامت، تاسف اور پشیمانی کے ہمارے دامن میں کچھ نہیں، البتہ ان کی روشن و سرسبز یادیں ہمارا گراں قدر سرمایۂ حیات ہیں اور ان کی خوبیاں یاد آتی ہیں، سدا آتی رہیں گی۔
ع۔ ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
٭٭٭