قاضی عبد الستار: یادیں، باتیں، ملاقاتیں ۔۔۔ مظفر حسین سید

اردو کے ذی شان نثری ادب کا ایک زریں باب ختم ہوا۔ آفتاب غروب ہوا، اب ماہتاب تو کیا کوئی روشن ستارہ بھی تا حدّ نگاہ نظر نہیں آتا۔ قلم ٹوٹ گیا، قرطاس محروم حرف ہوا۔ قاضی عبد الستار بھی عازم جہان دگر ہوئے۔ یادش بخیر، زاید از چہار عشری مدت گزر گئی، مگر روز گزشتہ کی سی بات لگتی ہے۔ اک شہیر ادب سے ہماری شناسائی اوّلین ان کے ناول ’شب گزیدہ‘ کے توسّط سے ہوئی تھی۔ اپنے قریبی اعزّہ کے عشرت کدے سے رخصت ہوتے وقت ہم نے دورانِ سفر مطالعے کے لیے کوئی کتاب طلب کی تو ان کی انگریزی داں دختر نے ایک منحنی سی کتاب عنایت فرمادی، ہم نے کتاب کا عنوان دیکھے بغیر اُسے اپنی سفری زنییل میں داخل کر لیا، علی گڑھ کے طویل سفر کے دوران ہم نے کوچ کی زرد، بیمار اور مدھم روشنی میں اس کتاب کا مطالعہ شروع کیا، کتاب دیکھی تو پتہ چلا، وہ کسی قاضی عبد الستار کا ناول تھا، اور اس کا عنوان تھا ’شب گزیدہ‘۔ مطالعہ شروع ہوا تو ناول کی ابتدائی سطروں نے ہی ہمیں مسحور کر لیا، اُس وقت تک ہم سنجیدہ ادب کا قاری ہونے کے دعویدار تو نہ تھے، لیکن داستانوں اور قصّوں سے لے کر اردو ادب کے ابتدائی دور کی اکثر کتابیں چاٹ چکے تھے، اس لیے ’شب گزیدہ‘ کی دقیق نثر، ہمیں اجنبی، ثقیل اور نامانوس نہیں لگی، ایک بار قرأت شروع ہوئی تو محویت کا عالم یہ ہوا کہ نہ تو کروٹ لی اور نہ پہلو بدلا۔ ذہن کو جھٹکا تب لگا، جب کتاب اچانک ختم ہو گئی۔ حیرت و استعجاب میں غرق ایک قاری کا پہلا ردِّ عمل یہ تھا کہ ’یہ دلچسپ کتاب اتنی جلد ختم کیوں ہو گئی‘، شاید کافی دیر تو ہم مبہوت سے لیٹے اور بیٹھے رہے، سُست گام مسافر گاڑی کا سفر ابھی جاری تھا، باقی ماندہ رات آنکھوں میں کٹی۔ ’شب گزیدہ‘ کا سحر، ذہن و قلب پر طاری تھا۔ تبھی ایک مغربی نقّاد کا مشہور تبصراتی جملہ یاد آ گیا کہ ’اچھی تخلیق وہ ہے جو کئی راتوں کی نیند حرام کر دے‘، اور بلا خوفِ تردید ’شب گزیدہ‘ ایک زبردست تخلیق تھی جس نے ہمیں بے خواب کر دیا تھا۔ کچھ عرصے کے بعد بغیہٕ یہی کیفیت ان کا افسانہ ’پیتل کا گھنٹہ‘ اور ناولچہ ’غبار شب‘ کی قرأت کے بعد طاری ہوئی تھی اور کئی کئی راتوں کی نیندیں حرام ہو گئی تھیں۔

یہ تھا پہلا حملہ، قاضی صاحب سے اوّلین تعارف غائبانہ۔ علی گڑھ پہنچ کر قاضی صاحب کے دیگر ناولوں اور افسانوں کی تلاش شروع ہوئی۔ سب کام چھوڑ کر ان کی کتابیں پڑھی گئیں، اب ہم انھیں خوب خوب جاننے لگے تھے۔ ان کی تمام تخلیقات ایک سے بڑھ کر ایک تھیں، ایک دوسرے پر سَوا۔ بالمشافہ تعارف کی منزل ابھی دور تھی۔ کچھ تلاش و جستجو کے بعد قاضی صاحب کو دیکھ بھی لیا۔ پھر شاید بی۔ اے کے سال اوّل میں اردو کے کسی ابتدائی نصاب کی تدریس کے لئے وہ ہمارے درجے میں تشریف لائے، پرچہ شاعری کا تھا، جس سے نہ ہمیں کوئی خاص دلچسپی تھی اور نہ قاضی صاحب کو، یہ تو ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ قاضی صاحب شاعری کے خلاف صف آرا تھے، حالانکہ یہ پوری سچائی نہیں تھی۔ درس کے دوران بھی انھوں نے میرؔ، سوداؔ، قائمؔ، غالبؔ، مومنؔ، اور مصحفیؔ کے کئی اشعار کی تعریف کی، جبکہ کتنے ہی شعروں کو معمولی کہہ کر آگے بڑھ گئے۔ تاہم ان کا اندازِ تدریس اتنا دلچسپ تھا کہ ہم جیسے کئی طالبِ علم صرف ان کے موثر اندازِ بیان کی خاطر درس گاہ میں جاتے تھے، پہلی ہی نظر میں قاضی صاحب کی رعب دار شخصیت نے ہمارے اوپر سحر کر دیا تھا، ان کی جامہ زیبی، اُن کی شاہانہ چال، نپے تُلے قدم اور سب پر حاوی ایک زبردست اندازِ گفتار، ان سب خواص نے اجتماعی طور پر قاضی صاحب کے گرد عظمت کا ایک ہالہ قائم کر دیا تھا اور یہی ہالہ ہمارے اور ان کے درمیان حدِ فاصل تھا۔

اس وقت کا علی گڑھ ہم جیسے ادب کے شیدائیوں کے لیے ایک صنم خانہ تھا، جس میں رشید احمد صدیقی، معین احسن جذبیؔ، آل احمد سرور اور اختر انصاری جیسے اصنام نصب تھے، ان اکابرین کے نام ہم نے اپنی نصابی کتابوں میں پڑھے تھے، رسائل میں دیکھے تھے۔ اور اب ان کی زیارت کا شرف حاصل ہو رہا تھا، اب اسے ہماری متعصبانہ ذاتی پسند کہیے یا نثر پرستی کہ ہمیں قاضی صاحب ان سب سے ممتاز لگے۔ ہمیں ان سے ملاقات کا شرف حاصل نہیں تھا تو کیا ہوا، ہم ان کے ناولوں اور افسانوں کو تو کئی کئی بار پڑھ چکے تھے۔ ذاتی تعارف نہ تھا مگر ہم انھیں تقریباً روزانہ دیکھتے تھے اور آنکھیں جما جما کر دیکھتے تھے۔ چہرہ کچھ گول، کچھ بیضاوی، چیچک کی ہلکی نشانیوں سے پر، رنگ گندمی اور سانولے کے مابین، آنکھیں بڑی بڑی اور روشن، بصارتی عینک کی اوٹ میں ذہانت و فطانت کا راز افشاء کرتی ہوئی، بال بڑے مگر با ترتیب۔ وہ کسی زاوئے سے خوبصورت نہیں، مگر بد صورت بھی نہیں تھے کہ ان کا جلال آمیز جمال سب سے منفرد و ممتاز تھا۔ قد دراز سے کم اور میانہ سے سوا، خد و خال بظاہر معمولی مگر بہ باطن غیر معمولی کہ شخصیت کے اثرات عامی وجودات پر حاوی رہتے ہیں، اور علیٰ کل خوش لباسی و جامہ زیبی۔ کبھی شیروانی اور چوڑی دار پاجامہ، یعنی نوابی شان اور کبھی بند گلے کے کوٹ اور پتلون میں کسی راجہ کی چھب، اور کبھی دونوں کے درمیان ایک خاص قسم کی آستین دار صدری یا نادری (جو شاید قاضی صاحب کی ہی ایجاد تھی)، ستم بالائے ستم، ان کے بٹلر جوتے یا سینڈل، مگر ان کے پاپوش ہمیشہ چمک دار اور شاندار ہوتے تھے، شاید انھیں بزرگوں کا یہ قول یاد رہتا تھا کہ ’جوتے اچھے پہنو، کیونکہ دشمن کی نظر جوتوں پر ہوتی ہے‘ اور دانشگاہ سید کی چھوٹی سی دنیا میں قاضی صاحب کے دشمن بہت تھے، دوستوں سے کہیں زیادہ۔ ان کی یہ اعلیٰ نصیبی آخر تک برقرار رہی۔ دوست تو سبھی کے ہوتے ہیں، کچھ اچھے، کچھ کم اچھے اور کچھ کچھ بُرے بھی، مگر دشمن سب کو نصیب نہیں ہوتے، دشمن صرف قد آوروں اور زور آوروں کو ہی میسر آتے ہیں، کمزور پر رحم کھا کر اس کا دوست تو کوئی بھی ہو سکتا ہے، لیکن کسی بے طاقت سے کوئی کیوں دشمنی باندھے گا۔ چلیے یہ سلسلہ تو روز اوّل سے دراز ہے اور تا قیامت رہے گا۔

تو بات ہو رہی تھی قاضی صاحب کی۔ ہم انھیں دور سے دیکھتے رہے اور خوش ہوتے رہے، کبھی کبھار پیدل اور اکثر و بیشتر مرکش، یعنی رکشہ پر سوار، ہم نے قاضی صاحب کو کبھی سائیکل پر نہیں دیکھا، حالانکہ اس زمانے کے علی گڑھ میں بڑے جیدّ اور با رعب پروفسور بھی سائیکل پر چلتے تھے، پیدل چلنا بھی کوئی معیوب بات نہ تھی۔ در اصل تب تک موٹر سائیکل اور اسکوٹر کا زیادہ رواج نہ ہوا تھا اور کار دیکھنے پر تو ٹکٹ لگتا تھا۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے، شیخ الجامعہ کی نو درآمد شدہ چمچماتی، لمبی چوڑی موٹر اور پروکٹر کی جیپ کے علاوہ چار پہیوں والی تیز رفتار سواری کا دیدار کم ہی ہوتا تھا، کچھ ولایت پلٹ پروفسور حضرات کے پاس موٹریں تھیں بھی تو وہ ان کے دروازوں کی زینت بنی رہتی تھیں، اور وہ بھی گنی چنی ہی ہوں گی۔

قاضی صاحب ان سب سے الگ تھے، بلکہ تھلگ تھے، ہم نے انھیں نہ تو کبھی مکرّس دیکھا اور نہ مسکّل یعنی نہ کار میں، نہ سائیکل پر، پیدل سفر کی حد بھی کلیات فنون (آرٹس فیکلٹی) سے کتب خانۂ آزاد تک تھی، کیونکہ اتنے کم فاصلے کے لیے رکشہ کا استعمال غیر عملی تھا۔ اس طرح ہم قاضی صاحب کو کئی برس تک دیکھتے رہے، ان کے افسانے اور ناول پڑھتے رہے، ان کی تقریریں سنتے رہے، مگر قریب جانے کی ہمت نہ ہوئی، البتّہ ہم انہیں سلام ضرور کرتے، جس کا جواب اڑتا اڑتا سا وصول ہوتا، ہمیں ان کے انداز میں اک گونہ بے نیازی کے ساتھ ہلکی سی سرد مہری بھی نظر آتی، اس لیے ہم ڈر کر اور سمٹ جاتے، ان کے چہرے پر ایک قسم کی کرختگی اور سختی طاری رہتی تھی، جو غالباً ان کے جاگیردارانہ پس منظر کی دین تھی۔

ایک دن دربار قاضی کے ایک حاضر باش نے ہماری بے قراری کو بھانپ کر قاضی صاحب کے دولت کدے پر لے جانے کی پیش کش کی، وہ غالباً قاضی صاحب کا درسی شاگرد تھا، اور ان کے یہاں باریاب بھی تھا۔ ہمیں انتہائی شرمندگی ہے کہ اس نیکو کار کا نام آج ہمیں یاد نہیں، جمال تھا یا شاید کمال تھا۔ در اصل اس کا کردار بہت مختصر تھا، لیکن اس نے کمال تو کر دکھایا تھا۔ ہم نے اس نیک طینت نوجوان کو جو ہمارے لیے اس وقت حاتم طائی سے کم نہ تھا، چائے اور وائے کی رشوت دی اور شام کو ساتھ چلنے کے لیے آمادہ کر لیا۔ ان دنوں قاضی صاحب کا قیام نہرو خاندان کے بنگلے ’آنند بھون‘ کے ہم نام ایک کشادہ مکان میں تھا، معروف شاعر، وحید اختر ان کے ہمسائے تھے۔ یہ مکان ایک پنڈت جی کا تھا اور بقول قاضی صاحب، اس مکان کی تمام چیزیں، عجب بے تکی، بلکہ بے ہنگم تھیں۔ خیر صاحب، شام ڈھلے، ہم اپنے راہبر کو سائیکل پر بٹھا کر اور اس کی خوشنودی کی خاطر سائیکل چلا کر، درِ قاضی پر پہنچ گئے۔ دستک دی گئی، اندر سے ایک با رعب اور گرجدار آواز آئی، ’’کون ہے؟‘‘ ہم دونوں اور سمٹ گئے، پھر ایک ملازم نے دروازے سے جھانکا، شاید ہمارے ہمراہی کو پہچانا اور پھر دیوان خانے کا دروازہ کھلا۔ ہم لوگ صوفوں پر بٹھائے گئے، ہم حیرت سے در و دیوار کو تکنے لگے۔ ایک طرف ’پدم شری‘ کا اعزاز، ایک فریم میں آویزاں تھا تو دوسری طرف غالب انعام اور امتیاز میرؔ کے اسنادی جلسوں کی تصاویر۔ پھر داہنی جانب کا پردہ پہلے ہلا، پھر کھلا اور قاضی صاحب اپنی پوری شان، آن، بان اور کرّ و فر کے ساتھ برآمد ہوئے، نہ شیروانی تھی نہ کوٹ، مگر کرتا ریشمین اور چمک دمک والا تھا، پاجامہ بھی تنگ نہیں، کچھ کھلا کھلا تھا۔ ادب کے زمیندار کا ایک ایک قدم جیسے ہماری جرأت کو پامال کر رہا تھا۔ قاضی صاحب بڑے ٹھسّے سے چوکی پر گاؤ تکیے سے کمر لگا کر نیم دراز ہو گئے، چشمے کی اوٹ سے ہمیں دیکھا اور پوچھا، ’’آپ کی تعریف؟‘‘ ہم لوگ جو ان کے احترام میں کھڑے ہو گئے تھے، اب بیٹھ چکے تھے۔ ہم نے اپنا نام عرض کیا۔ ہمارے راہنما نے صرف اتنا کہا۔ ’’یہ میرے دوست ہیں، سوچتے ہیں اور کچھ لکھتے بھی ہیں، آپ سے ملنے کے مشتاق تھے، اس لیے۔۔ ۔‘‘۔۔ ۔ اس نے شاید جان بوجھ کر اپنا جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔ ’’ہونہہ‘‘—- پھر اس طویل ہونہہ کے خاصی دیر بعد قاضی صاحب ہماری طرف متوجّہ ہوئے، ’’میاں کیا لکھا ہے آپ نے؟‘‘۔ ’’جی، ابھی تین کہانیاں لکھی ہیں۔ ویسے غیر ادبی مضامین کوئی درجن بھر ہیں، شائع بھی ہو چکے ہیں‘‘۔ ’’شاعری تو نہیں کرتے؟‘‘ دوسرا سوال تھا۔ ’’الحمد للّلہ نہیں‘‘۔ ہمارے اس جسارتی جواب پر وہ مسکرائے بغیر نہ رہ سکے۔ ’’بہت خوب، یہ آپ کے حق میں بہتر ہے، یہ نثر کا دور ہے، شاعری کا زرّیں دور گزر چکا۔ اگلی بار آئیں تو اپنے افسانے لائیے گا‘‘۔ ہمیں لگا کہ یہ فرمائش نہیں حکم تھا۔ ہم نے فوراً حامی بھری کیونکہ انکار کی نہ کوئی گنجائش تھی اور نہ ہمارے اندر ہمت۔

اس کے بعد ادب پر گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا۔ گفتگو کم و بیش اردو ادب کو محیط تھی، لیکن درمیان میں ہندی ادب بھی آیا اور بات عالمی ادب تک بھی پہنچی۔ ہم نے بھی اپنی اوقات سے بڑھ کر چونچ کھولی۔ اسی دوران چائے آئی بھی اور پی بھی گئی، پُرتکلف گرین لیبل چائے، وہ بھی سیٹ میں اور ٹرے کئی قسم کے بسکٹوں سے مالا مال۔ تاہم گفتگو، گرم چائے سے بھی زیادہ گرما گرم تھی۔ کئی گھنٹے کب بیت گئے، پتہ ہی نہیں چلا۔ ہم ان کا بہت سارا بیش قیمت وقت برباد کر چکے تو ہوش آیا، تب رخصت لی، پھر کبھی آنے کی اجازت بھی طلب کر ڈالی، جو مرحمت ہوئی۔ اس دن قاضی صاحب نے کوئی نصیحت نہیں کی، اس کے علاوہ کہ، ’’لکھتے رہیے، اپنی کہانیاں سنائیے گا‘‘۔ آواز مہربان تھی، اور لہجہ خاصا ہمت کشا۔

چند دن بعد ہم پھر کمال بے غیرتی سے، بغیر کسی رہبر کے، اپنے ساتھ ایک عدد ہمدم و رفیق کو لے کر پہنچ گئے، قاضی صاحب کے یہاں۔ ہم اندر ہی اندر خوف سے لرزہ بر اندام تو تھے، مگر ہماری جرأتِ رندانہ، ہمیں سنبھالے ہوئے تھی۔ بہرکیف قاضی صاحب نے ہماری اس دیوانگی بھری جسارت کو بہ کمالِ شرافت انگیز کیا اور ہمارے اندیشوں کو ایک مرتبہ پھر شکست دی، بڑے اخلاق سے گفتگو کی۔ اس مرتبہ بات ادب سے ذرا نچلی سطح پر آ کر دانشگاہ کی ادبی فضا، غلط بخشیوں، عروج نا اہلی اور علمی بے انصافیوں تک آ گئی۔ قاضی صاحب نطق آرا رہے اور ہم خاموش سامع بنے رہے۔ وہی آن، بان، وہی شان، وہی طرح داری۔ پھر بات تاریخ پر آ گئی، ہم تاریخ کے طالبِ علم ہونے پر نازاں تھے، مگر ہمارے اوپر مغل تاریخ کے چودہ نہیں، بیس اکیس طبق روشن ہو گئے۔ قاضی صاحب نے ایک مشہور تاریخ داں کے ایک تاریخی ’شاہکار‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا، ’’ان معصوموں کو کچھ پتہ نہیں، کوئی فہم نہیں، کوئی ادراک نہیں، نہ پڑھتے ہیں، نہ سمجھتے ہیں، ان کے یہاں مغل شہنشاہ طولانی تقریریں کرتے ہیں، شہزادے ٹھٹھولیاں کرتے ہیں اور شہزادیاں بے جھجک گھومتی ہیں۔ ارے بھائی، انھیں یہ پتہ ہی نہیں کہ مغل بادشاہ بولتے نہیں تھے اور جب بولتے تھے تو تمام حاضرین کان بن جاتے تھے، ان کا ایک جملہ پورا ہندوستان ہمہ تن گوش ہو کر سنتا تھا‘‘۔ علم کا ایک دریا تھا جو بہہ رہا تھا اور ہم سیراب ہو رہے تھے۔ قاضی صاحب کی آواز کبھی بلند ہو جاتی تھی اور کبھی بلند سے بلند تر، کبھی انھیں جہالتِ عام پر غصہ آ جاتا تھا اور کبھی ادب و علم کے عوام الناس کی حماقت پر ہنسی آتی تھی۔ گاؤ تکیہ کبھی ان کی کمر کے پیچھے ہوتا تھا، کبھی ان کی گود میں، جوش و خروش کے مراحل بدلتے رہتے تھے۔ اور یہ تو ایک محفل کا ذکر ہے، ایسی محفلیں آئے دن ہوتی تھیں، روز ہوتی تھیں۔ اگر ان کی گفتگو اور بحث و مباحث صدا بند کر لیے جاتے تو نہ جانے کتنے مذاکروں پر بھاری ہوتے۔ ہم ان علمی ضیافتوں کے مستقل خوشہ چیں تھے۔ باقی رفقا بدلتے رہتے تھے۔ ان کی شفقت بھری انسیت کا عالم یہ تھا کہ کبھی دیر ہو جاتی تو فرماتے، ع۔ بہت دیر کی مہرباں آتے آتے۔ یہاں خود ستائی کی غرض سے نہیں، بلکہ اظہار حقیقت کے طور پر عرض ہے کہ آج علی گڑھ کے تمام اور بیرون علی گڑھ کے بیشتر افسانہ نگاروں و نقّادوں کی قاضی صاحب سے اوّلین ملاقات کا سہرا اس کم سواد کے سر ہے، ظاہر ہے کہ کچھ حضرات کو یاد ہے، کچھ کو نہیں، اور تجاہل عارفانہ کا رویہّ تو عام ہے، بہر کیف وہ اپنی جگہ شاد کام اور ہم اپنی جگہ بے نیاز۔

در اصل قاضی صاحب ہمارے ابھی تک کے تصور اور تاثر سے قطعی مختلف تھے، اوپر سے کرخت نظر آنے والے قاضی صاحب اندر سے خاصے رقیق القلب اور بظاہر خشک نظر آنے کے با وصف، انتہائی با اخلاق اور متواضع تھے، اس کا تجربہ ہمیں بعد میں مسلسل ہوتا رہا، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ خوش اخلاقی سے خیرمقدم نہ ہوا ہو، چائے نہ ملی ہو یا خالی چائے ملی ہو۔ کئی عشروں پر محیط روابط میں یہ بات کافی اہم تھی۔ جب بے تکلفی بڑھی تو ہم اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان کے یہاں اکثر و بیشتر دھمکنے لگے، اور سچ پوچھیے تو کبھی کبھی صرف چائے پینے کی غرض سے بھی جاتے تھے۔ طلب علمی کے دور میں ہمارے لیے اتنی چھوٹی چھوٹی باتیں بھی بڑی تھیں، خصوصاً اس زمانے میں، جب ماں باپ اپنے بچوں کو بے حساب رقمیں نہیں دیتے تھے اور سکّہ زر بہت فراواں نہیں تھا۔

قاضی صاحب کی محفلوں کے چند جملے یاد گار ہیں، جن کا قلم بند کرنا اس لیے ضروری ہے کہ سند رہے۔ ایک مرتبہ عصری شاعری پر گفتگو ہو رہی تھی، کسی نے استفسار کیا، ’’فلاں صاحب کی شاعری کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ فرمایا، ’’سوکھی لکڑی ہے‘‘ یہ تبصرہ ایک بزعم خود شاعر اعظم پر تھا۔ کسی دن پھر ذکر چھڑا شاعری کا اور بات پہنچی ایک جیّد مدّرس اور علم کے زور پر شاعری گڑھنے والے شعر گر تک۔ قاضی صاحب نے برجستہ فرمایا، ’’جی ہاں، گھوڑا تو ہے، بس ذرا مرا ہوا ہے‘‘۔ اسی طرح تنقید پر ان کے متعدد مشہور جملے اور درجہ دوم کی شاعری پر ان کے کئی عدد تبصرے، زبان زد ہیں، جن کا یہاں دُہرانا چنداں ضروری نہیں، لیکن ایک جملہ جو ضرب المثل بن چکا ہے، اس کا اعادہ لازم ہے کہ ’’علی گڑھ میں سب بہت اچھے ہیں، بس خدا کرے کہ کسی سے آپ کا کام نہ پڑے‘‘۔ ایسے ایسے بے شمار جملے روزمرہ کی گفتگو میں شامل تھے، بات صاف تھی، تبصرے بے لاگ تھے۔ نہ کوئی مصلحت، نہ کوئی ریا، جو درست سمجھا برملا کہہ دیا۔ خنجر کو چلنا تھا، سینہ کسی کا ہو۔ شرط یہ تھی کہ وارسامنے سے ہو گا، پشت سے نہیں۔ ویسے قاضی صاحب سے تو یہ بھی بعید نہیں تھا کہ انھیں جو شخص پسند نہ ہو، اس کے منہ پر برملا کہہ دیں، ’’مجھے آپ سے نہیں ملنا، صاحب! مجھے بخشیے‘‘۔ یا کم از کم اتنا تو کرتے ہی کہ پینترا بدل کر، داؤں دے کر نکل جاتے، اور ممکن ہوتا تو راستہ بدل دیتے۔ ایک مرتبہ ایک ہمسائے سے کچھ ناخوشی، بلکہ ناچاقی ہو گئی۔ قاضی صاحب نے اُن کے سامنے سینہ تان کر پوری جاگیردارانہ اکڑ کے ساتھ کہا، ’’دیکھئیے بات نہ بڑھے، ورنہ ہم دونوں میں سے ایک تھانے جائے گا اور ایک اسپتال، اب یہ طے نہیں کہ کون کہاں جائے گا؟‘‘۔

ایک دن قاضی صاحب نے شہرہ آفاق، فرانسیی افسانہ نگار موپساں اور اس کے استاد فلابیئر کا مشہور قصہ سنایا، جس کے مطابق استاد نے اپنے شاگرد کی ایک درجن کہانیاں لگاتار نذرِ آتش کرائی تھیں، اس کے بعد جس کہانی کو پسند کر کے فلابیئر نے شائع کرایا، اس ایک کہانی سے موپساں، راتوں رات موپساں بن گیا تھا۔ ہم قاضی صاحب کا اشارہ سمجھ گئے تھے کہ ہم اپنی ان کہانیوں کے اتلاف کا دکھ نہ پالیں، جنھیں استاد محترم نے بڑی محبت آمیز سخت گیری سے مسترد فرما دیا تھا۔ ہم نے سرتسلیم خم کر دیا۔ اگرچہ ہم موپساں تو کیا بنتے اس کی گرد کو بھی نہ پا سکے، مگر اس وسیلے سے قاضی صاحب کی محبت اور شفقت ہمارے دل پر نقش ہو گئی، جو آج، ان کے بعد تک ثبت ہے، بلکہ وقت کے ساتھ یہ نقش گہرا اور گہرا ہوتا چلا گیا ہے۔ ایسی ہی شفقت بھری اصلاح قاضی صاحب نے پیغام، اشرف، طارق، غیاث اور ابن کنول کی بھی فرمائی جس کا ثمر ان لوگوں کی کامیابی کی شکل میں انھیں ملا، غالباً اسی دن انہوں نے ایک سکّہ بند فقرہ ایجاد کر کے ہم لوگوں کو سنایا تھا، کہ، ’افسانہ نگاری چاول پر قل ہو اللہ لکھنے کا فن ہے‘۔

اس کے بعد قاضی صاحب کے ساتھ ملاقاتوں کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ پہلے کبھی کبھار، پھر جلد جلد اور اس کے بعد روزانہ کی منزل تک پہنچ گیا۔ ملاقاتیں طویل بھی ہونے لگیں اور مسلسل، بلکہ بلا ناغہ بھی۔ ہماری نیاز مندی قائم رہی، ان کی شفقت دائم رہی اور لمحۂ آخر تک رہی۔ قاضی صاحب سے ہماری رفاقت اور وابستگی کو آج کوئی نصف صدی ہونے کو ہے یا ہو چکی، ہم روز گئے یا دن میں کئی بار گئے، مگر ہم نے کبھی ان کی خوش خلقی اور متبسم خیرمقدم میں کمی نہیں پائی، نہ کوئی فرق آیا، اس طرح وہ مقولہ کم از کم قاضی صاحب کے ذیل میں باطل قرار پایا کہ ’قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا‘۔ حق کہیں تو قاضی صاحب چند حاضریوں کے بعد ہی بڑی سنجیدہ خرامی کے ساتھ ہمارے دل میں اُترے اور گھر کر گئے اور آج تک کیے ہوئے ہیں۔ وہ نہ سہی، ان کی یاد سہی۔ بات شروع ہوئی تھی اُنسیت سے، جو محبت اور وارفتگی کی راہ سے گزرتی ہوئی عشق تک پہنچ گئی۔ مگر ایک محترم فاصلے کے ساتھ۔ ان کا خوف ہم پر دم آخر تک مسلط رہا۔ ابھی کل تک وہ ہمیں سرِمحفل ڈانٹ دیتے تھے، جس پر دوسروں کو حیرت اور ہمیں مسرت ہوتی تھی، فخر محسوس ہوتا تھا، کہ آج بھی کوئی گھڑکنے والا ہے تو۔ دن رات ’آپ‘ سننے کے بعد اُن سے ’تم‘ سننا اچھا لگتا تھا۔

یہ صرف ایک جھلک ہے، کوئی نصف صدی کے تعلق خاطر اور ارادت مندی کی ورنہ یہ ایک داستان طویل اور حکایت لذیذ ہے، جس کو مزید طول دینے کا محل نہیں، لہٰذا آیت۔ استاد محترم کی یادوں کو سلام۔ ہر چند کہ آج وہ باوجود نہیں، مگر۔ ع۔ رفتید ولے نہ از دلے ما۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے