ممتاز محقق، شاعر، نقاد اور کالم نگار مشفق خواجہ نے اردو ادب میں وہ گراں مایہ کارنامے انجام دیئے، جو کسی طور پر ایک ادارے کے کرنے لائق تھے۔ مشفق خواجہ کو کتابوں سے عشق تھا، وہ بہترین فوٹو گرافر تھے، تحقیق ان کا جنون تھا، سچ تو یہ ہے کہ تحقیق کا کام ان کے نام سے آبرو پا گیا۔ مشاہیر ادب کے شناور تھے۔ وہ اپنے ہم عصر ادیبوں اور شاعروں کے اچھے برے کاموں سے پوری طرح واقف تھے۔ خواجہ صاحب، خطوط پڑھنے کے شوقین اور خط لکھنے کے رسیا تھے۔ گو دیر سے جواب دیتے، لیکن تفصیل سے خط لکھتے۔ ان کے خطوط میں وہ باتیں بھی ملتی ہیں، جن کا اظہار انھوں نے عام زندگی اور بات چیت میں بہت کم کیا ہے۔ ایک محقق ہونے کے ناتے وہ نئے لکھنے والوں، سنجیدہ کام کرنے والوں اور تحقیق کرنے والوں کے لیے بڑا اثاثہ تھے۔ ان کے گذر جانے کے بعد ان گنت لوگوں نے خود کو بے سہارا پایا۔ خط سے رغبت کے بارے میں ایک خط میں لکھتے ہیں۔ ’’خط لکھنے کے لیے اس لمحے کا انتظار کرتا ہوں کہ جب ذہن پر کوئی دباؤ نہ ہو کیونکہ خط و کتابت خوشدلی کا معاملہ ہے اور دل فضولیات میں الجھا ہو تو بات نہیں بنتی‘‘۔
مشفق خواجہ کی وفات کے بعد ان کے خطوط مختلف رسائل میں شائع شدہ ہوتے رہے ہیں۔ ان کے خطوط کے اب تک تین مجموعے کتابی صورت میں شائع ہو چکے ہیں جن کے نام یہ ہیں :
۱۔ ’مشفق نامے ‘ (خطوط بنام محمد عالم مختار حق) لاہور: اردو اکادمی، ۲۰۰۶ء)۔
۲۔ ’خطوطِ مشفق ‘ (خطوط بنام طیب منیر) اسلام آباد: پورب اکادمی، ۲۰۰۷ء)۔
۳۔ ’مکاتیبِ مشفق خواجہ‘ (خطوط بنام رفیع الدین ہاشمی لاہور: ادارۂ مطبوعاتِ سلیمانی، ۲۰۰۸ء)۔
کتاب سے محبت کرنے والے، تحقیق سے لگاؤ رکھنے والے، ان سے ملاقات کے متمنی، ان کے کالموں کے رسیا اور ان کے کتب خانے کے اسیر وقت بے وقت انھیں تکلیف دیتے۔ ایک خط میں خواجہ صاحب لکھتے ہیں۔ ’’یونیورسٹیوں میں تحقیق کی وبا پھیلی ہوئی ہے اس کا سب سے زیادہ نقصان مجھے ہوتا ہے۔ ایسے لوگ کثرت سے آتے ہیں جو کسی موضوع پر پر تحقیق کا شوق فرماتے ہیں۔ میں نے اگرچہ دروازے پر اپنی بد اخلاقی کا اعلان چسپاں کر رکھا ہے۔ کہ پیشگی اطلاع کے بغیر زحمت نہ فرمائیں۔ مگر کراچی سے باہر سے آنے والوں کو دروازے پر آ کر ہی اس کی اطلاع ہوتی ہے۔‘‘
تحقیقی کام کرنے والوں کے بارے میں مشفق خواجہ کا ایثار، اور ان کی مدد کا انداز غیر معمولی تھا۔ علمی کاموں میں دوسروں کی مدد کرنا انھوں نے اپنا شعار بنا لیا تھا۔ وہ اپنے دوستوں ادیبوں تحقیق کاروں اور ضرورت مندوں کو زر کثیر خرچ کرکے ان کی ضرورت اور پسند کی کتابیں مسلسل فراہم کرتے رہتے۔ ایک خط میں لکھتے ہیں ’’یہ میرا معمول ہے کہ جو لوگ کام کرتے ہیں میں ان کی ہر ممکن مدد کرتا ہوں۔ اس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ خود درخواست کریں۔ بعض اوقات تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ میں نے ناواقفیت ہونے کے باوجود لوگوں کی مدد کی۔ مثلا عابد پشاوری ایک ہندوستانی محقق ہیں۔ جن کا جنوری 1999 میں انتقال ہوا ہے۔ ان کئ چند مضامین اب سے 17، 18 برس پہلے میری نظر سے گذرے، میں بے حد متاثر ہوا۔ اس دوران معلوم ہوا کہ وہ انشاء اللہ خان انشا پر کام کر رہے ہیں۔ میری نظر میں کلیات انشاء کا ایک ایسا نسخہ تھا جس میں بہت سا کلام غیر مطبوعہ تھا۔ اور حیات انشا کے بارے میں بعض اہم معلومات تھیں۔ میں نے سوچا کہ یہ نسخہ عابد کے سامنے ہونا چاہیئے۔ اتفاق سے ڈکٹر گوپی چند نارنگ کراچی آئے۔ میں نے اس نسخے کا عکس انھیں دیا کہ عابد کو پہنچا دیں۔ دراصل میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ کام کرنے والوں کی مدد بلا استثنا کرنی چاہیئے۔ کشن چند اخلاص کا تذکرہ ’ہمیشہ بہار‘ میری دریافت ہے۔ (بخط مصنف نسخہ) یہ میں نے ڈاکٹر وحید قریشی سے مرتب کرایا حالانکہ یہ کام میں بھی کرسکتا تھا۔ لیکن ڈاکٹر وحید قریشی مجھ سے کہیں زیادہ بہتر طور پر اس کو مرتب کرنے کے اہل تھے۔ غالب کی ’گل رعنا‘ کا ایک نسخہ مجھے ملا۔ اس کے حواشی پر غالب کی تحریریں تھیں۔ یہ میں نے قڈرت نقوی سے مرتب کرایا۔ اس طرح کے کاموں کی مجھے زیادہ خوشی ہوتی ہے۔‘‘
تحقیق کا کام چونکہ بنیادی طور پر حقیقت کی دید و دریافت اور طویل ریاضت کا کام ہے۔ جس کے لیے دستاویزی شہادت اور سندی ثبوت بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ خواجہ صاحب نے یہ ریاضت بابائے اردو مولوی عبد الحق سے سیکھی۔ ”لغت کبیر” کے سلسلے میں وہ مولوی عبد الحق کےمددگار رہے۔ اس دوران ان کا ریاض، بعد میں ان کے اپنے تحقیقی کاموں میں بہت مددگار ثابت ہوا۔ انجمن ترقی اردو میں انہوں نے اپنی نوجوانی کے ساڑھے چار سال بابائے اردو مولوی عبدالحق کی سایۂ عاطفت میں گزارے۔ تحقیق کا شوق یہیں پروان چڑھا۔
تحقیق کے بارے میں ان کا معیار بہت سخت تھا، اور اس پر وہ کوئی سمجھوتا نہیں کرتے، اس بارے میں ایک خط میں تحریر کرتے ہیں ’’بعض لوگوں نے تحقیق کو تخلیق سمجھ رکھا ہے، یا جمع و ترتیب کو تحقیق سمجھتے ہیں۔ میں نے اب تک اپنے نام سے جو کچھ چھپوایا ہے، اسے کبھی دیکھتا ہوں تو شرم آتی ہے کہ میں کیسی سطحی چیزیں تحقیق کے نام سے پیش کرتا ہوں۔ ایک محقق کا میرے ذہن میں میں جو تصور ہے، میں اس پر پورا نہیں اترتا۔ مرے پاس تقریبا دو سو غیر مطبوعہ مضامین ہیں۔ انھیں اس لیے نہیں چھپوایا کہ کوئی نہ کوئی کمی نظر آتی ہے۔ حالانکہ اس کمی کو دوسرے شاید ہی محسوس کر سکیں گے۔ اپنے بارے میں میری یہ رائے ہے تو اس سے قیاس کر لیجئے کہ دوسروں کے بارے میں، میں کیسی رائے رکھتا ہوں۔ دراصل یہ زمانہ کام کا نہیں نام کا ہے ہر شخص صاحب شہرت کے پیچھے دیوانہ وار بھاگ رہا ہے۔ ہم میں کون ہے جو کسی کو دیوانگی سے اور بھاگنے سے روکنیں۔‘‘
ایک اور خط میں رقم طراز ہیں:
’’آپ نے اپنے تجربے کو بنیاد بنا کر تحقیقی عمل کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے مجھے سے صد فیصد اتفاق ہے۔ یہ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ موضوعات اچانک ہی ذہن میں آتے ہیں، اور پھر آپ کے لفظوں میں غیبی امداد شامل ہو جاتی ہے۔ میں نے کبھی کسی کی فرمائش پر کچھ نہیں لکھا۔ ہمیشہ یہ ہوا ہے کہ کوئی چیز اتفاق ہاتھ لگ گئی یا دوران مطالعہ کوئی موضوع سوجھ گیا۔ اور پھر میں یہ نہیں کرتا کہ جو کام ہاتھ میں ہے، انہیں چھوڑ کر نئے موضوع کے پیچھے لگ جاؤں۔ بس یہ کرتا ہوں کہ اپنے کاموں کے دوران نئے موضوع سے متعلق جو کچھ ملتا ہے اسے الگ رکھتا جاتا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض موضوعات پر جو کام میں پندرہ بیس برس پہلے شروع کیے تھے، وہ اب تک مکمل نہیں ہوئے۔ یہ ہی ہوتا ہے کہ موضوع آپ کے ذہن میں رہا اور دوران مطالعہ مطلب کی بات کسی کتاب میں نظر آگئی تو اسے نوٹ کرلیا۔‘‘
پاکستان میں تحقیق کے معیار پر انھیں اطمینان نہ تھا۔ اس بارے میں ایک خط میں لکھتے ہیں۔
’’پاکستان میں تحقیق و تنقید دونوں اپنے زوال کی انتہا پر ہیں۔ اس کے مقابلے میں ہندوستان میں رشید حسن خان اور گیان چند کی وجہ سے تحقیق اور شمس الرحمن فاروقی اور وارث علوی کی وجہ سے تنقید عروج کے مراحل میں ہیں۔ فاروقی کی ذات کو تو میں ادنی معجزہ سمجھتا ہوں‘‘۔
مشفق خواجہ دولت، شہرت، نام و نمود کی خواہش سے بہت دور تھے۔ کالم نگاری میں انھوں نے بہت شہرت پائی، لیکن اس میں انھوں نے اپنا نام نہیں دیا۔ وہ مختلف قلمی ناموں سے یہ کالم لکھتے رہے۔ اُن کے بہت سے ہم عصروں نے اپنی دنیا سنواری، مگر مشفق خواجہ نہایت سنجیدگی سے تحقیق کا خشک کام کرتے رہے۔ ایک خط میں لکھتے ہیں
’’دراصل شہرت کا ہوکا آدمی کو خراب کر دیتا ہے۔ کاش انھیں معلوم ہوتا کہ شہرت اور رسوائی میں بس سود بھر ہی کا فرق ہے۔‘‘
مشفق خواجہ کا گھر ایک نادر کتب خانہ تھا۔ کتابوں کے علاوہ خطوط اور کاغذات کا بھی بڑا نادر ذخیرہ تھا۔ اس لائبریری پر انھیں بہت ناز تھا۔ یہ بہت بڑی لائبریری تھی۔ جن کے ساتھ وہ اپنا سارا وقت گزارتے تھے۔ اس میں قلمی نسخوں کا بھی ذخیرہ تھا۔ مشفق خواجہ ٹرسٹ کے رکن، ڈاکٹر کلیم اللہ لاشاری کے مطابق خواجہ صاحب کی کتابوں کی تعداد جب کیٹلاگ بنانے کا کام ختم ہو رہا تھا، ساڑھے اٹھارہ ہزار تھی۔ مشفق خواجہ ایک خط میں لکھتے ہیں
’’میرے پاس ہر مہینے چالیس پچاس رسالے آتے ہیں۔ بر صغیر کا تقریبا ہر علمی و ادبی رسالہ میری نظر سے گزرتا ہے۔ سال چھ ماہ تک یہ رسالے ایک ہی جگہ جمع ہوتے رہتے ہیں۔ اور پھر کسی اہل کار کی مدد سے ان کو ان کے سابقہ شماروں کے ساتھ رکھ دیا جاتا ہے۔ پاک و ہند دونوں ملکوں بے شمار اہل قلم از رہ کرم اپنی کتابیں مجھے بھیجتے ہیں۔ مگر میں دو دو مہینے کتابوں کی وصول کے خظ لکھنے میں لگا دیتا ہوں۔ صرف مئی کے مہینے میں ہندوستان سے 48 کتابیں آئیں۔ پاکستان سے آنے والی کتابوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔‘‘
آگے لکھتے ہیں ’’میرے پاس بہت بڑی تعداد میں کتابوں کے مکرر نسخے بھی ہیں۔ ویسے یہ مکرر نسخے میں ہندوستان کی تین لائبریریوں (علی گڈھ، دہلی، اور پٹنہ) کو تحفۃً بھیجتا رہتا ہوں۔ بلکہ اب تو ان کی فرمائش پر کتابیں خرید کر بھی بھیجنی پڑتی ہیں۔‘‘
ایک جگہ مشفق خواجہ اپنی لائبریری کے بارے میں تحریر کرتے ہیں۔
’’ساز مغرب از حسن الدین احمد کی سات یا آٹھ جلدیں ہیں۔ یہ لاہور کی کسی لائبریری میں ضرور ہوگی مجھے یاد پڑتا ہے اس میں ایٹ ا کی کئی نظموں کے تراجم ہیں۔ میرے پاس یہ ہے مگر ایک انبار کے نیچے دفن ہے۔ میری لائبریری کی کتابوں کا صرف وہ حصہ مرتب حالت میں ہے۔ جس سے روزمرہ کاموں کا تعلق ہے۔ جگہ کی کمی کی وجہ سے ایک بڑا حصہ غیر مرتب حالت میں ہے۔ جگہ کی کمی بھی وہاں ہے، جہاں گیارہ کمروں میں کتابیں رکھی ہیں۔ میرے مکان میں تین منزلیں اور بارہ کمرے ہیں، ایک میں ہم دونوں رہتے ہیں، اس سے زیادہ جگہ کہاں سے لاؤں۔ اس لائبریری کو سنبھالنا بہت مشکل کام ہے، مگر یہ خوشی ہے کہ ضرورت کی ہر کتاب موجود ہے‘‘۔
اقبالیات کے بارے میں بھی ان کے پاس نادر کتب کا ذخیرہ موجود تھا۔ ایک خط میں لکھتے ہیں۔
’’اقبالیات کی دو الماریاں ہیں اور بہت سی ایسی ہیں، جو پچھلے چھ ماہ میں اضافہ ہوئی ہیں۔ ان سب کتابوں کو موضوع وار شیلفوں میں رکھنا ہے‘‘
وہ کتابیں نہ صرف پڑھتے تھے۔ بلکہ علمی و تحقیقی کام کرنے والوں کو کتابیں فراہم بھی کرتے تھے۔ ایک جگہ مکتوب الیہ کو لکھتے ہیں:
’’آپ کو کراچی کی مبطوعہ کسی بھی کتاب کی ضرورت ہو تو بلا تکلف لکھیے۔ اقبال اقبالیات کی دو الماریاں ہیں اور ان کے آگے زمین پر کتابوں کا ایک ڈھیر رکھا ہے۔ تقریبا ایک ہزار کتابیں جلد ہو کر آئی ہیں، اور بہت سی ایسی ہیں جو پچھلے چھ ماہ میں اضافہ ہوئی ہیں۔ ان سب کتابوں کو موضوع وار شیلف میں رکھنا ہے۔‘‘
مشفق خواجہ کو آپ بیتی سے خصوصی شغف رہا ہے۔ ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’آپ بیتی پتمبر سنگھ مبطوعہ 1830 اس کا ذکر گارساں دتاسی نے تاریخ ادبیات ہندی ہندوستانی میں کیا ہے۔ شاید آپ کے علم میں ہو، مجھے آب بیتیوں سےبے حد دلچسپی ہے۔ میرے پاس ایک ہزار سے زیادہ آپ بیتیاں ہیں۔ اردو کی تو شاید ہی کوئی آپ بیتی ہو جو میرے پاس نہ ہو۔ مذکورہ آپ بیتی خیال ہے کہ یہ اردو کی پہلی آپ بیتی ہے اور یہ میری نظر سے نہیں گزری۔‘‘
کتابوں کے بارے میں انھیں بہت سے تلخ تجربات کا بھی سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ڈاکٹر جمیل جالبی سے ان کے مراسم بہت گہرے تھے۔ اکثر ڈاکٹر جمیل جالبی انھیں سے ریفرینس کی کتابیں منگواتے۔ ایک بار وہ خود کتابیں لینے آئے تو ایک کتاب مشفق خواجہ نے یہ کہہ کر الگ کرلی کہ یہ میں آپ کو فوٹو کاپی کرا کے بھیجوا دوں گا۔ کیونکہ اس کا میرے پاس یہی ایک نسخہ ہے۔ کتابوں کو دیتے وقت وہ انھیں اپنے پاس نوٹ کرلیتے تھے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں ’’کوئی کتاب یا رسالہ دیتا ہوں ہو تو ڈائری میں تاریخ کے ساتھ ساتھ درج کر لیتا ہوں۔‘‘
اپنے تلخ تجربات کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’کتابوں کے سلسلے میں میرے تجربات بھی بہت تلخ ہیں۔ آٹھ آٹھ، نو نو سال سے بعض لوگ کتابیں ہضم کیے بیٹھے ہیں۔ تقاضا کرتا ہوں تو نیا وعدہ کر لیتے ہیں۔ صلاح الدین محمود صاحب نے تو غضب کردیا۔ پچھلے سال مجھے کئی مرتبہ فون کیا تو میں نے دو کتابیں اور دے دیں۔ بیدی (وارث علوی) اور عصری آگہی کا بیدی نمبر انھیں بھیج دیا۔ انھوں نے وعدہ کیا کہ چند روز میں کتابیں واپس کر دیں گے۔ کئی بار یاد دہانی کے خط لکھ چکا ہوں۔ ایک حماقت یہ ہوئی کہ محمد سلیم الرحمن صاحب نے ایک کتاب شاہ امین الدین عالی منگوائی تھی میں نے انہیں لکھا کہ پڑھ کر صلاح الدین محمود صاحب کو دے دیجئے گا، تاکہ وہ اپنی کتابوں کے ساتھ بھیجوا دے۔ یہ کتاب بھی انہوں نے رکھ لی گویا اب میری تین کتابیں ان کے پاس ہیں۔ اگر ملاقات ہو تو انہیں کہیں کہ آپ سے اس سلوک کی توقع نہیں تھی۔ بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ دوسرے سے نیکی کی جائے تو وہ اپنے حق میں بدی بن جاتی ہے اس دوران میں ان کتابوں کی کئی مرتبہ ضرورت پیش آئی ہے حیرت ہے کہ ان جیسا نستعلیق آدمی اور ایسی حرکت‘‘
مشفق خواجہ انتھک محنت اور کام کرنے والے شخص تھے۔ سلطان جمیل نسیم بتاتے ہیں کہ ان کا معمول تھا کہ رات کو دو تین گھنٹے ہی سوتے تھے۔ ڈھائی تین بجے سے صبح دس بجے تک کام کرتے، پھر گھنٹہ بھر تک خط لکھنا اور آئے ہوئے خطوط کا جواب دینا۔ اس کے بعد ملاقاتی آجائیں تو ان کے ساتھ وقت گزارنا، ٹیلی فون سننا، دوپہرکو البتہ دو تین گھنٹے ضرور آرام کرتے۔ اردو کے تمام اہل قلم کے کوائف ایک خاص ترتیب سے فائل بنا کر رکھتے، ہر ادیب کے خط اور خط کے جواب کی نقل بھی فائل میں ترتیب سے رکھتے۔ اپنے معمولات کے بارے میں ایک جگہ لکھتے ہیں۔
’’میں عموما دس بجے رات کے بعد گھر پر ہی ہوتا ہوں ویسے تو سارا دن ہوتا ہوں مگر کبھی کبھی باہر بھی جانا ہوتا ہے۔ ہفتے میں ایک یا دو مرتبہ رات کو بھی باہر جاتا ہوں‘‘۔
مشفق خواجہ بلند پایہ محقق، کالم نگار اور شاعر ہونے کے علاوہ اعلیٰ درجے کے فوٹو گرافر بھی تھے۔ بر صغیر پاک و ہند کے بے شمار مشاہیر ادب کی تصاویر مشفق خواجہ کے ذاتی ذخیرے کا حصہ تھیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خود مشفق خواجہ کی بے حد کم تصاویر ملتی ہیں۔ ان کے پاس اعلیٰ درجے کے کیمرے تھے۔ شمس الرحمن فاروقی بتاتے ہیں کہ ان کے پاس ایک لاکھ سے زیادہ تصویریں تھیں۔ افراد اور مقامات کی اور انھیں اس طرح رکھا گیا تھا کہ بلا توقف مطلوبہ تصویر انھیں مل جاتی تھی۔ مشاہیرِ علم و ادب اور احباب کی تصویریں وہ اپنے کیمرے سے خود اُتارتے تھے۔ صرف فیض احمد فیضؔ کی ان کے پاس تقریباً پانچ سو تصویریں تھیں جو انھوں نے اپنے کیمرے سے خود لی تھیں۔
مشفق خواجہ کے پسندیدہ ادیب، قرۃ العین حیدر اور انتظار حسین تھے۔ اپنی پسندیدگی کے بارے میں یوں رقم طراز ہوتے ہیں
’’بات دراصل یہ ہے کہ قرۃ العین حیدر اور انتظار حسین کے سوا کسی اور کو پڑھنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ اپنے کاموں کے سلسلے میں اتنی کتابیں دیکھنی پڑتی ہیں کہ سارا وقت انہی کی نذر ہو جاتا ہے۔ قرۃ العین حیدر اور انتظار حسین کو تو اس لیے لازمی پڑھتا ہوں کہ یہ دونوں میری عادت مطالعہ کا حصہ بن چکے ہیں۔ بعض اوقات بڑا افسوس ہوتا ہے کہ انسانی زندگی اتنی مختصر ہے کہ بےشمار اچھی اور پسندیدہ کتابیں ’بے پڑھی‘ رہ جائیں گی۔‘‘
ممتاز حسن کو وہ اردو ادب کا محسن قرار دیتے ہیں۔ ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’پاکستان کے تقریبا ساری علمی و تحقیقی ادارے انھوں نے ہی قائم کیئے۔ پاکستان کی علمی ترقی میں ان کا ناقابل فراموش حصہ ہے۔‘‘
کراچی کے بارے میں انھیں یہ شکوہ بھی رہا کی یہاں علمی سرگرمیاں محدود ہیں، لکھتے ہیں
’’علمی اعتبار سے یہ شہر بالکل بنجر ہے۔ پورے شہر میں ایک بھی ایسا آدمی نہیں ہے۔ جسے میں اپنی تحقیقی دریافت کی خوشی میں شریک کرسکوں، میں نے تو یہاں کسی کو علمی گفتگو کرتے نہیں دیکھا۔‘‘
اپنی علمی تنہائی کے بارے میں ایک جگہ فرماتے ہیں۔
’’آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ میں اپنے کاموں کے سلسلے میں جب کوئی نئی چیز دیکھتا ہوں تو اس سے جو خوشی ہوتی ہے اس میں کسی اور کو شریک کرنا چاہتا ہوں تو دور دور تک کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا جس سے بات کر سکوں‘‘
مشفق خواجہ نے زندگی کی 70 بہاریں دیکھیں۔ لیکن انھوں نے ہمیشہ امید کا دامن تھامے رکھا۔ اور وہ اپنے دوستوں کو بھی امید اور حوصلہ دلاتے۔ ایک خط میں لکھا
’’میں زندگی کے 63 برس پورے کرچکا ہوں۔ مگر زندگی سے لگاؤ کا یہ عالم ہے کہ ہر صبح یہ محسوس ہوتا ہے جیسے میں آج ہی اس دنیا میں آیا ہوں۔ اس کا یہ فائدہ ہے کہ زندگی اپنی تمام کمیوں اور پریشان کن لوازم کے باوجود خوبصورت معلوم ہوتی ہے۔ بس یہی رویہ آپ بھی اپنایئے۔ دیکھیے وقت کتنی اچھی طرح گزرتا ہے۔‘‘ خواجہ صاحب کی زندگی کے آخری سال جن ذہنی پریشانیوں اور جسمانی بیماریوں میں گزرے ان کے اظہار سے انھوں نے ہمیشہ گریزکیا۔ ان کے چھوٹے بھائی طارق بتاتے ہیں کہ خواجہ صاحب کے قریب ترین احباب بھی یہ اندازہ نہ لگا سکے کہ ہر وقت ہنسنے اور ہنسانے والے اس شخص کی روح کے ساتھ تنہائی کے اور جسم کے ساتھ دکھوں کے کیسے کیسے زہریلے ناگ لپٹے ہوئے ہیں۔ وہ کبھی حرف شکایت زبان پر نہ لائے اور ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرتے رہے۔
٭٭
حوالے
مشفق خواجہ۔ صدیق جاوید کے نام خطوط مطبوعہ سویرا، شمارہ 9 مئی جون 2006
بحر تحقیق کا شناور۔ مشفق خواجہ انور سدید، سمت، شمارہ 30 اپریل تا جون 2016
مشفق خواجہ کی یاد میں۔ پروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ، سمت، شمارہ 15
مشفق خواجہ۔ رفیع الزماں زبیری، روزنامہ ایکسپریس 16 مارچ 2017
٭٭٭
السلام علیکم! مقالہ جس معیار کا ہونا چاہیے تھس،ویسا نہیں۔ان کے خطوط کے ٹکڑے جوڑ کر مقالہ بنا لیا گیا۔اگر ایک خاص موضوع کو سامنے رکھا جاتا تو مقالہ مفید ہو سکتا تھا۔