دو نظمیں ۔۔۔ منصف ہاشمی

چاہتوں کا اسیر

________________

 

جو زیتون اور انجیر کی تسبیح کرتے ہوئے

محبتوں، چاہتوں میں تڑپتے ہوئے

بنجر زمین کو لہو سے سراب کرتا ہے

جو صور اسرافیل کا انتظار کرتا نہیں

وہ دار پر لٹکتے ہوئے۔۔۔ سبز کہف کی تلاوت کرتے ہوئے۔۔

وقت سے بہت آگے بہت دور نکل جاتا ہے

وہ عزازیل کی طرح نوری فرغل اتارتا نہیں

کسی کا سینہ چیرتا نہیں۔۔۔ جگر کبھی کھاتا نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

زندگی

___________

 

 

دلفریب کبوتروں سے۔۔۔ خمار میں ڈوبی فاختاؤں تک۔۔۔ !

زندگی اپنے ہونے کااحساس دلاتے ہوئے

الہام کی رگوں میں۔۔۔ خواب کی تاثیر میں سمائی رہتی تھی

شفق کی بالیاں پہن کر

بہار کی سبز سرخ چوڑیاں پہن کر۔۔۔۔

روح میں سمائی رہتی تھی۔

اب قاتل وبا کے دنوں میں!

ہوائیں بھی دشمن بن گئی ہیں

شام و سحر دل۔۔

ہجر کے درد میں ڈوبا، اذیت میں تڑپتا رہتا ہے۔

اے میری بہار۔۔۔ !

تجھے یاد کرتے ہوئے

سفید فرشتوں کو دعائیں دیتا رہتا ہے

سونی گلیوں، ویران بازاروں میں۔۔۔

بچھڑنے والوں کے غم میں روتا رہتا ہے

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے