ساعتیں ادھوری ہیں
________________
ادھورا چہچہا
ہاتھوں کی پوروں نے
لکھا ہے
ادھوری نظم
ہونٹوں نے چنی ہے
ادھورا گیت
رستے میں کھڑا ہے
پرندے
راستہ بھولے ہوئے ہیں
گھنے جنگل میں
کوئل کوکتی ہے
کوئی خواہش ہے
اندر ہوکتی ہے!
ہوا کے ہاتھ سے
بہتی اداسی
خوشی بس پور بھر
بالکل ذرا سی
ذرا تو ٹھہرتے
جلدی ہی کیا تھی!
٭٭٭
گل مہر
___________
مرے گل مہر!
تیرے بازوؤں میں
ہے پگھلتی روشنی
جس کی طلب میں
جھومتی گاتی ہوائیں ہیں
یہ باران بہاراں رقص کرتا ہے
ترے رنگوں کے گیتوں سے!
مرے گل مہر!
تیرے آتشیں رنگوں کے دامن میں
یہ کیسی خوشبوؤں کی لو سلگتی ہے
دہکتے لب، کھلے عارض
مہکتے ہیں!
مرے گل مہر!
تیری چھاؤں میں
پھولوں کے بوسوں سے
عنابی، سرخ، نارنجی بہاریں اوڑھ لیں میں نے
یہ تو بھی جان لے اب سے
ترا ہر رنگ، میرا ہے!
٭٭٭