چشمِ بینا ۔۔۔ سلطان جمیل نسیم

(ڈاکٹر الیاس عشقی کے بارے میں چند باتیں اور کچھ یادیں)

 

جوانی جس کو شاعروں نے زندگانی کہا ہے جب منہ پھیر کر چل دیتی ہے تو پھر ہر حیلے ہر بہانے گزرے دن گزار نے اچھے لگتے ہیں۔یہی حال آج میرا ہے مجھے 1955ء کے وہ دن یاد آ رہے ہیں جب میں نے پہلی مرتبہ ریڈیو اسٹیشن کی حدود میں قدم رکھا اور وہاں ایک ایسے نوجوان بزرگ سے ملاقات ہوئی جو آج تک بزرگی اور جوانی کو سنبھالے بیٹھے ہیں۔

حیدر آباد کے ہوم اسٹیڈ ہال میں ریڈیو اسٹیشن قائم ہوا تھا لیکن در حقیقت ہال کو مشاعروں اور اسٹیج ڈراموں کے لئے چھوڑ دیا گیا تھا جہاں مشاعرے تو کئی ہوئے لیکن ڈرامہ کوئی نہیں ہوا۔ ہال کو بالکل خالی نہ رکھنے کے لئے اسکرپٹ کاپی کرنے والے حضرات کو وہاں بٹھا دیا گیا تھا۔ ہال کے دونوں طرف یعنی شمالاً اور جنوباً کمرے بنے ہوئے تھے گیٹ سے داخل ہوں تو سامنے کی طرف ریجنل ڈائریکٹر سے لے کر پروگرام آر گنائزرس تک کے کمرے تھے اور پیچھے کی جانب اسٹوڈیوز بنائے گئے تھے ریجنل انجینئر امتیاز رفیقی اور ان کے معاون نظیر احمد وڑائچ کے دفتر اور انجینئرنگ سیکشن کے برابر سے جو نیم روشن گول زینہ جاتا تھا اس کو طے کر کے اوپر پہنچیں، تو وہاں چار پروڈیوسرز بیٹھے نظر آتے تھے ایک چوہدری محمود الحسن تھے دوسرے الیاس عشقی تیسرے ایم بی انصاری اور چوتھے مسعود احمد۔ علیک سلیک سب سے لیکن پہلی نظر میں جو شخص دل میں اتر گیا تھا اٹھنا بیٹھنا اسی کے ساتھ اور دل میں اتر جانے والا وہی نوجوان بزرگ جس کے سر کے تمام بال سفیدتھے بھنووں میں البتہ دو چار سیاہ بال چمک رہے تھے چہرے پر وہی سرخی تھی جو سرخ پتھروں کے دیس کے شہزادے کے چہرے پر ہونا چاہئے۔

میں اس زمانے میں دسویں پاس کرنے کے بعد تفریحاً کراچی گیا تو وہاں یکے بعد دیگرے دو مشکلوں سے دو چار کر دیا گیا۔ پہلی بات تو یہ ہوئی کراچی پہنچنے کے تیسرے دن والد صاحب اپنے ساتھ لے گئے اور ایس ایم کالج میں داخل کروا دیا، اردو کے استاد خان رشید سے ان کے مراسم تھے۔ اس زمانے میں پرنسپل ڈاکٹر غلام مصطفی شاہ مرحوم تھے اور وائس پرنسپل کوہاٹی صاحب۔ ابھی کالج جاتے ہوئے جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے تھے کہ اپنے دوست سید حسن ظہیر جعفری کے ساتھ بھائی سے ملنے چلا گیا۔ سید ذو الفقار حیدر رضوی ڈویژنل انجینئر ٹیلی گراف اور ٹیلی فون کے محکمے میں شاید ہیڈ کلرک تھے۔ کراچی میں مارٹن روڈ کے کوارٹر میں رہتے تھے انہوں نے ہمیں میٹرک کے لئے بغیر معاوضہ کے تیاری کروائی تھی۔ بھرت پور کے رہنے والے تھے۔ قیام پاکستان سے پہلے ہی صبا صاحب کی رثائی شاعری کے عاشق تھے ان کے بچے بھی ان کو بھائی کہتے تھے جن کی دیکھا دیکھی ہم بھی کہنے لگے۔ ہمارے میٹرک پاس کرنے کی خوشی ہم سے زیادہ بھائی کو ہوئی تھی لیکن جب انہوں نے یہ سنا کہ ہم نے ایس۔ ایم۔ کالج میں داخلہ لے لیا ہے تو لمحہ بھر کے لئے خاموش ہوئے پھر ان کی خوشی غصے میں بدلنے لگی۔

’’ تم حیدر آباد سے تفریح کرنے آئے تھے یا کالج میں داخلہ لینے؟ کب تک بوجھ بنے رہو گے باپ پر؟ کوئی کام کرو، ہاتھ بٹاؤ صبا صاحب کا۔‘‘

ہمیں اپنے والد کے لئے بھائی کی یہ ہمدردی اچھی لگی۔ کہا۔ لیکن ہمیں کوئی کام نہیں آتا۔ ۔ ۔

بھائی نے ہمیں جملہ پورا نہیں کرنے دیا، بولے۔

’’تمھیں تو انٹرنس پاس کرنا بھی نہ آتا تھا ایک مرتبہ فیل ہو چکے تھے وہ بھی ہم نے پاس کرایا ہے۔ اب نوکری دلانے کی ذمہ داری بھی ہماری․․․․․․․․․ حیدر آباد میں گھر ہے تمہارا․․․․․․․ وہاں چلے جاؤ فی الوقت تین مہینے تمہیں ٹیلی گراف آفس میں کام کرنا پڑے گا․․․․․․․ بعد کی بعد میں دیکھیں گے۔ ابھی تو تم حیدر آباد کا ٹکٹ کٹاؤ‘‘

’’اور یہاں پاپا نے جو کالج میں نام لکھوایا ہے ․․․․․․․؟‘‘ ہم نے منمنا کر پوچھا

’’وہ لکھا رہے گا․․․․․․․ صبا صاحب کے تو تعلقات ہیں نا․․․․․․․ بس آ کے امتحان دے دینا ․․․․․․․․ اب زیادہ سوال جواب کی ضرورت نہیں۔ یہ مٹھائی کھاؤ ،چائے پیو اور کل ہمارے پاس دفتر آ جاؤ‘‘

بھائی کی بات ہم نے راز کی طرح اپنے دل میں رکھی۔ دوسرے دن ان کے دفتر گئے۔ اپائٹمنٹ لیٹر وصول کیا۔ وہاں سے اٹھ کر والد صاحب کے پاس آئے، ذرا دیر چپ بیٹھے، پھر کہا ’’ ابھی تو کالج میں داخلے ہو رہے ہیں، پڑھائی شروع ہونے دس پندرہ دن تو لگیں گے۔ جب تک حیدر آباد ہو آتے ہیں۔ میرے والد اس زمانے میں صرف ایک کمرے میں رہ رہے تھے مجھے سونے کے لئے کسی خالہ ماموں کے پائنتی یا سرہانے جگہ مل جاتی تھی تو پڑا رہتا تھا ․․․ ․․․․میری بات سن کر انہوں نے حیدر آباد جانے کی اجازت کے طور پر دس روپے کا نوٹ دیا۔ اس زمانے میں حیدر آباد کا ٹکٹ ایک روپیہ دس آنے میں آتا تھا ․․․․․․․․ اس غیر ضروری تفصیل پر ناک بھون نہ چڑھائیے، میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ گزرے دن گزارنے اچھے لگتے ہیں۔

ٹیلی گراف آفس کی ملازمت کا پے اسکیل کیا تھا یہ تو خبر نہیں ․․․․․․․․․․ مہینہ بھر تک فائلوں کو خواہ مخواہ کھولنے بند کرنے کے 83 روپے8 آنے مل گئے۔ عید بقر عید پر بھی دس پندرہ روپے عیدی میں جمع نہیں ہوتے تھے۔ چنانچہ ہم خود کو شہنشاہ سمجھنے لگے۔ پاؤں زمین پر نہ ٹکتے ہی نہ تھے۔ امی کو جا کے ساری تنخواہ دی․․․․․․․ انہوں نے پہلے بلائیں لیں، پھر آٹھ آنے صدقے کے لئے تکیے کے نیچے رکھ دئیے۔ دو روپے کی مٹھائی منگا کر نیاز دی اور جیب خرچ کے لئے پانچ رُپے دئیے۔ جس میں سے ہم نے آزاد بک ڈپو صدر جا کے تین روپے میں منٹو کی کتاب ’’چغد‘‘ خرید لی۔

ہماری ملازمت کی خبر جب والد صاحب کو ہوئی تو وہ خاصے برہم ہوئے۔ جس کا اندازہ ان کے پوسٹ کارڈ سے ہوا۔ انہوں نے لکھا ’’ تم نوکری چھوڑ کے فوراً کراچی آ جاؤ اور پڑھائی شروع کرو․․․․․‘‘ مگر تراسی روپے آٹھ آنے! عدول حکمی کر نہیں سکتے تھے۔ امی کی طرف سے جواب لکھا کہ ابھی طبعیت ٹھیک نہیں ہے، طبیعت ذرا ٹھیک ہو جائے پھر فوراً کراچی بھیج دوں گی۔

اس جواب کے پہنچنے سے پہلے ہی صبا صاحب حیدر آباد آ گئے۔ وہ مجھ سے ناراض ہوتے تھے تو گھنٹے آدھے گھنٹے کے لئے بات کرنا چھوڑ دیتے تھے۔ اور یہ وقفہ میرے لئے سوہان روح بن جاتا تھا۔

یہی ہوا۔ آدھے گھنٹے بعد میں روتا ہوا ان کے قدموں میں جا بیٹھا۔ نوکری چھوڑنے اور کراچی آ کر پڑھنے کا وعدہ کیا۔ تب انہوں نے بات چیت شروع کی اور بات چیت بھی کیا۔ پانچ سات منٹ سمجھایا کہ ایک چھوٹے اور عارضی فائدے کے لئے بڑے اور مستقل فائدے کو نظر انداز کر دینا عقلمندی نہیں ہے۔ کالج میں پڑھو گے، یونیورسٹی جاؤ گے تو ذہن و فکر میں کشادگی پیدا ہو گی۔ وہاں کی تعلیم تمہیں جو کچھ دے گی، وہ ان اسی پچیاسی روپوں سے کہیں زیادہ ہو گا۔ میں نظریں اور گردن جھکائے ان کی باتیں سنتا رہا۔ آخر میں انہوں نے کہا میں پرسوں کراچی جا رہا ہوں۔ میرے ساتھ چلنا۔ میں نے اقرار میں سر ہلا دیا۔

ماں بیٹے کی ملی بھگت۔ پاپا کو اکیلے کراچی جانا پڑا۔ غرض چار مہینے تک ٹیلی گراف آفس میں کلرکی کر کے تراسی روپے آٹھ آنے وصول کرتا رہا۔ آخر جن صاحب کی عوضی میں کام کر رہا تھا وہ چٹھیاں گزار کے آ گئے لیکن بھائی سید ذوالفقار حیدر رضوی نے کمال یہ دکھایا کہ جس روز سے ٹیلیگراف آفس میں ملازمت ختم ہوئی اسی دن سے ٹیلی فون کے محکمے میں ٹرنک آپریٹر کی حیثیت کا اپائنٹمنٹ لیٹر آ گیا۔ ایک ہی بلڈنگ۔ دفتر سے نکلے۔ ایکسچینج میں جا بیٹھے اور سونے پر سہاگہ تنخواہ میں دس روپے کا اضافہ بھی۔

جب میں نے ٹیلی فون آپریٹر کی حیثیت سے کام شروع کر دیا تو میرے والد بہت رنجیدہ ہوئے۔ انہوں نے اپنی دل شکستگی کا اظہار۔ رعنا صاحب یعنی میرے نانا جان سے کیا․․․․․․․․․ میرے نانا․․․․․․․ جن کو ہم سب لوگ ابا جان کہتے تھے، وہ خاصے معاملہ فہم اور روپیہ پیسے کی قدر و قیمت سے واقف انسان تھے۔ بہت ٹپ ٹاپ میں رہتے تھے۔ مشاعرے میں جانے سے دو گھنٹے پہلے تیاری کرتے تھے۔ کلف لگے کرتے کی آستینوں میں چنٹ ڈالتے۔ چوڑی دار پائجامے کے پائنچے یکساں رکھتے، یعنی جتنے بل ایک پائنچے میں اتنے ہی دوسرے میں۔ رگڑ کر شیو کرتے۔ جوتے پالش کراتے۔ شیروانی پر استری پھیری جاتی۔ کپڑوں پر عطر لگاتے۔ پھر ایک پھویا سیدھے کان میں اڑس لیتے۔ اور میرے والد اُن کے بالکل ہی بر عکس۔ ابا جان تیار ہو کر آواز دیتے ’صبا صاحب آئیے۔‘ تو وہ اٹھ کے کھونٹی پر ٹنگی شیروانی پہنتے ہوئے ساتھ ہو لیتے۔ ابا جان معائنہ کرتے۔ شیروانی سے باہر نکلتے ہوئے قمیض کے کالر کو اندر کرتے۔ خاص طور سے پائنچے جانچتے کہ کہیں نیچے اوپر تو نہیں ہیں۔

ابا جان نے میری والدہ کو اطمینان دلایا کہ انہوں نے صبا صاحب کو سمجھا دیا ہے۔ اسے نوکری کرنے دو۔

بس اطمینان سے ٹیلی فون کی نوکری ہو رہی تھی کہ حیدر آباد میں ریڈیو اسٹیشن قائم ہو گیا۔ میں سوائے حمایت علی شاعر کے اور کسی نام سے مانوس ہی نہیں تھا اور اس کا سبب یہ تھا کہ حمایت علی شاعر صاحب کا نام کراچی ریڈیو سے نشر ہونے والے ڈراموں میں بھی سنا تھا اور اخباروں، رسالوں میں بھی پڑھا تھا۔

ابتداء میں حیدر آباد ریڈیو سے براہِ راست نشریات کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ دوسرے اسٹیشنوں کے ریکارڈ کئے ہوئے پروگرام نشر ہوتے تھے۔ لیکن یہ بہت قلیل عرصہ تھا۔ بہر حال اسی زمانے میں استاد اختر انصاری اکبر آبادی ’’مشرب‘‘ کی ادارت چھوڑ کے مستقلاً حیدر آباد آ گئے۔ انکم ٹیکس آفس میں ا یک آفیسر عبدالعزیز خالد تھے یوں حیدر آباد میں ادبی طور پر خاصی چہل پہل ہو گئی۔

سٹی کالج حیدر آباد میں تاریخ پڑھاتے تھے جناب عبدالقوی ضیاء ․․․․․․ضیاء صاحب ہوم اسٹیڈ ہال کے مقابل ایک عمارت کی پہلی منزل پر رہتے تھے۔ ’’نئی قدریں‘‘ کے نائب مدیران میں سے ایک تھے۔ ان کے گھر پر ایک تنقیدی نشست ہوئی۔ حیدر آباد ریڈیو کے ریجنل ڈائریکٹر حمید نسیم خصوصی طور پر شریک ہوئے۔ اس محفل میں مجھے افسانہ پڑھنا تھا۔ بیس بائیس حضرات موجود تھے۔ میں نے سوچا، مجھے اس طرح پڑھنا چاہئے کہ دروازے کے قریب جو صاحب تشریف رکھتے ہیں، ان تک میری آواز پہنچے۔ جو صاحب میرے برابر تشریف فرما ہیں ان کو میری بلند آواز ناگوار بھی نہ گزرے۔ بہر حال اﷲ کا نام لے کر افسانہ شروع کیا۔ جب ختم ہوا تو حمید نسیم صاحب کی آواز سنائی دی۔ What a rich voice اس پوری محفل میں انہوں نے افسانے کے تعلق سے دوسرا جملہ ادا نہیں کیا۔ افسانے پر تنقید ہوئی۔ زبان و بیان کی غلطیاں گنوائی گئیں۔ جب نشست ختم ہوئی تو چلتے وقت حمید نسیم صاحب نے مجھ سے کہا ․․․․․ کل دس گیارہ بجے ریڈیو آ کر مجھ سے ملئے۔

اس سے پہلے میری حمید نسیم صاحب سے بات ٹیلیفون پر اس وقت ہوئی تھی جب نشریات شروع نہیں ہوئی تھیں۔ والد صاحب کا خط آیا تھا۔ حمید نسیم ہمارے دوست ہیں۔ ریڈیو کے ڈائریکٹر بن کے حیدر آباد پہنچے ہیں۔ ان سے مل کر معلوم کر لینا کسی چیز کی اور کسی کام کی ضرورت تو نہیں ہے۔ میں نے براہِ راست جانے کے بجائے ٹیلیفون کر کے والد صاحب کی بات ان تک پہنچا دی تھی اور ان کا شکریہ پوسٹ کارڈ میں لکھ کر والد صاحب کو بھیج دیا تھا۔

اب دوسرے دن مقررہ وقت پر حمید نسیم صاحب کے دفتر پہنچا۔ وہاں ایم بی انصاری موجود تھے۔ حمید نسیم صاحب نے ان سے کہا کہ وہ مجھے اسٹوڈیو لے جائیں۔ اسٹوڈیو پہنچے۔ بیچ والا کمرہ جس میں دونوں جانب شیشے لگے تھے میں بھی اس میں چلا گیا تو انصاری صاحب نے مجھے پہلے کمرے میں پہنچایا۔ گرمیوں کے دن تھے۔ ایک ٹب کے اوپر، برف کی سل رکھی ہوئی تھی۔ پنکھا چل رہا تھا۔ ذرا دیر بعد کوئی صاحب۔ غالباً ابراہیم نفیس صاحب مجھے کاغذ کے اوپر لکھی ایک عبارت جو گتے پر چپکی ہوئی تھی دے کر یہ کہتے ہوئے باہر چلے گئے کہ اس کو پڑھیں۔ اس عبارت پر پانی کی بوندیں گری تھیں یا پڑھنے والوں کے آنسو ٹپکے تھے۔ جگہ جگہ سے لفظ پھیلے ہوئے تھے اور پھیکے پڑ گئے تھے مجھ سے پہلے پڑھنے والوں کی انگلیوں کا میل بھی نشانات کی صورت میں جگہ جگہ جما ہوا تھا۔ جب بیچ کے کمرے میں حمید نسیم صاحب بھی پہنچ گئے تو مجھے ہاتھ ہلا ہلا کر اشارے کئے جانے لگے۔ اور میرا یہ حال کہ

اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کئے

جب اشاروں پر اشارے ہوا کئے تو ایم بی انصاری صاحب دروازہ کھول کر میرے پاس آئے۔ اُن کے آنے کا انداز ایسا تھا کہ آتے ہی ایک تمانچہ ماریں گے لیکن انہوں نے مسکرا کر ملائم لہجے میں الفاظ کو دانتوں سے پیستے ہوئے کہا۔ آپ کو جو اسکرپٹ دیا گیا ہے اس کو پڑھئیے، یہ ہدایت دینے کے بعد وہ پھر شیشے کے دوسری طرف چلے گئے۔ پنکھا بند ہو چکا تھا۔ ماتھے پر پسینے کے قطرے ابھر آئے تھے اور ادھر پھر سے اشارے ہونے لگے تھے۔ میں نے گرمی کی شدت ، اور بڑھتی ہوئی گھبراہٹ کے زیر اثر کہا۔ ’’جناب مجھ سے نہیں پڑھا جاسکتا یہ اسکرپٹ․․․․․شاید وہ لوگ یہی سننے کے منتظر تھے۔ پہلے حمید نسیم صاحب کمرے سے نکل کر چلے گئے۔ پھر انصاری صاحب اور ابراہیم نفیس صاحب یہ کہتے ہوئے ڈیوٹی روم کی طرف چل دئیے ’’آپ اپروو APPROVE ہو گئے مبارک ہو۔‘‘

اس Approval کے کتنے دن بعد مائکرو فون پر آنے کا موقع ملا یہ یاد نہیں۔ اتنا یاد ہے کہ پہلا لائیو پلے LIVE PLAY جو حیدر آباد اسٹیشن سے نشر ہوا وہ سلیم احمد کا لکھا ہوا ’’البرامکہ‘‘ تھا اس کے صدا کاروں میں محمد علی، ارشاد علی، حمایت علی شاعر، محمد اقبال ،فہیم انصاری، سجاد شاہد اور میری آوازیں شامل تھیں۔ خواتین میں صرف دو بہنیں یاد ہیں، حسین جہاں اور نسیم جہاں، جو اپنی والدہ کے ساتھ آتی تھیں۔ بعد میں ہم ان کی والدہ کو ’’مالکۂ دو جہاں‘‘ کہنے لگے تھے۔

ٹیلیفون کی ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد ریڈیو اسٹیشن جانا معمول بن گیا تھا۔ وہاں کوئی ملے نہ ملے۔ الیاس عشقی صاحب ضرور ملتے تھے۔ رات کے دس بجے ہوں یا گیارہ وہ بیٹھے کچھ نہ کچھ لکھتے پڑھتے رہتے تھے۔ میں جا کر ان کے سامنے خاموش بیٹھ جاتا۔ وہ اپنا کام کرتے ہوئے ایک عام سی بات پوچھتے۔ کیا حال ہے۔ ؟ میں کہتا ،جی اچھا ہوں۔

عشقی صاحب کی شخصیت کے طلسم میں آپ ہی آپ گرفتار ہوتا چلا گیا۔ وہ بات کریں نہ کریں۔ حال پوچھیں نہ پوچھیں میں ریڈیو جاتا۔ پروگرام کرتا اور عشقی صاحب کے سامنے جا کر بیٹھ جاتا۔ شاید میرے اس طرح جا کر بیٹھنے سے وہ بھی تنگ آ گئے تھے۔ ایک دن پوچھ ہی لیا۔

کہاں تک پڑھا ہے؟ جواب دیا۔ میٹرک تک۔ سوال کیا ، پھر آگے کیوں نہیں پڑھتے۔ ڈھلا ڈھلایا جواب۔ فرصت ہی نہیں ملتی۔ کیا کرتے رہتے ہو․․․․․․؟ نوکری۔ ۔ صبح سے شام تک نوکری کرتے ہو؟ اس مختصر سے سوال کا طویل جواب․․․․ ایک ہفتے صبح چھ بجے سے دو پہر ایک بجے تک ڈیوٹی ہوتی ہے۔ دوسرے ہفتے صبح سات بجے سے دو بجے دن تک۔ تیسرے ہفتے آٹھ سے تین تک۔ پھر اس کے بعد کے ہفتے میں صبح دس بجے سے شام پانچ بجے تک، اس کے بعد دوپہر ایک بجے سے رات آٹھ بجے تک، پھر دو بجے سے رات نو بجے تک۔ پھر تین سے دس تک۔ چار سے گیارہ تک۔ پانچ سے بارہ تک۔ اور کسی کسی ہفتے رات بارہ بجے سے صبح چھ بجے تک ․․․․․ ،میں ڈیوٹی چارٹ بتاتا رہا ․․․․ معلوم نہیں وہ سن بھی رہے تھے یا نہیں اس لئے کہ اپنی کہتے ہوئے دو ایک بار اُن کی طرف نظر اُٹھی تو ان کو اپنا کام کرتے پایا۔ میری بات ختم ہوتے ہی کہا۔ تو سٹی کالج میں داخلہ لے لو ،وہاں کے پرنسپل سے میری واقفیت ہے فیس میں بھی رعایت ہو جائے گی۔ اپنی ڈیوٹی کے حساب سے کالج جاتے رہنا۔

اب انہیں کیا بتاتا کہ ایک مرتبہ مرزا عابد عباس صاحب کے یہاں اک نشست میں شرکت کی تھی۔ وہاں زاہد نقوی نے تنقید کے لئے غزل پڑھی تھی۔ جس کے ایک شعر کی ابتداء ہی غلط انداز میں پو پھٹنے سے ہوئی تھی۔ تنقید میں تو بالکل ہی حصہ نہیں لیا تھا۔ البتہ مصرعے کو دہرایا ایسے تھا کہ سب ہنس پڑے تھے۔ نشست کے اختتام پر مرزا صاحب قریب آئے۔

’’آپ کو کبھی نہیں دیکھا۔‘‘ میں نے عرض کیا۔ ابھی کراچی سے آیا ہوں۔ انہوں نے خواہ مخواہ دوسرا سوال کیا۔

’’کون سے کالج میں پڑھا ہے وہاں؟‘‘ ایک جواب جس میں آدھا سچ آدھا جھوٹ شامل تھا مرزا صاحب کے سامنے پیش کر دیا۔ ایس ایم کالج میں․․․․․․ انہوں نے مسکرا کر اپنے قریب کھڑے پروفیسر علی رضا صاحب سے کہا۔ جمیل صاحب نے ایس ایم کالج سے گریجویشن کیا ہے۔ یا ﷲ! جو میں نے نہیں کہا وہ میرے تعارف میں شامل ہو گیا۔ شامل کیا ہو گیا۔ مرزا صاحب کی بات کی تردید کو اپنی ہتک سمجھا اور سٹی کالج کے دروازے ہمیشہ کے لئے اپنے واسطے بند کر لئے۔ میں فوراً ہی مرزا صاحب کے پاس سے ہٹ گیا اور ذرا فاصلے پر کھڑے حمایت علی شاعر صاحب کے پاس جا کر ان کی باتیں سننے لگا۔

الیاس عشقی صاحب نے جب سٹی کالج میں داخلہ لینے کے سلسلے میں میری بے تعلقی دیکھی تو اس موضوع پر مجھ سے کبھی بات نہیں کی۔ لیکن اب ان کا رویہ دوسرا ہو گیا۔ کتابوں کی باتیں کرتے۔ بعض مصنفین کے بارے میں بتاتے بعض کے بارے میں پوچھتے ایک دن مجھ سے پوچھا۔ ’سرشار کو پڑھا ہے؟‘‘

مجھے ہنسی آ گئی لیکن ان کے چہرے پر سنجیدگی کا تقدس پھیلا رہا۔

میں نے خود ہی اپنے ہنسنے کی وجہ بتائی۔ ’’آپ سے پہلے میرے ادبی ذوق کا امتحان لینے کے لئے میرے والد نے بھی مجھ سے یہی سوال کیا تھا اور میں نے اپنے ذوقِ ادب کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا۔ جی ہاں اکثر ان کی نظمیں اور غزلیں رسالوں میں پڑھی ہیں۔ یہ سن کر وہ دانت پیس کر رہ گئے تھے اور دوسرے دن اپنے کسی دوست کے یہاں سے فسانۂ آزاد کی چاروں جلدیں لے آئے اور کہا میں اگر میں بغیر کوئی غلطی کئے پہلا صفحہ پڑھ دوں تو مجھے ایک روپیہ انعام ملے گا۔‘‘ یہ سن کر عشقی صاحب ہنسے اور کہنے لگے۔ ’’افسوس تم ایک روپیہ کا انعام حاصل نہ کرسکے۔‘‘

میں نے عشقی صاحب سے پوچھا۔ ’’آپ کو کیسے معلوم ہوا؟‘‘

اس دن کے بعد سے انگریزی ناول پڑھنے کے لئے ملنے لگے۔ اس ہدایت کے ساتھ کہ پہلے پورا صفحہ یا سارا پیرا گراف پڑھ لو۔ پھر سوچو کیا سمجھے․․․․․․ اور نہیں سمجھے تو کیوں۔ سمجھنے میں کوئی لفظ آڑے آیا ہو تو اس کے معنی ڈکشنری میں دیکھو۔ ایک لفظ کے کئی معنی ہوتے ہیں۔ پھر بھی سمجھ میں نہ آئے تو دوسرے دن پوچھ لو۔ غرض ایک ایک کر کے مجھ پر کتابوں کا اتنا بوجھ لادا کہ سچل کالج میں داخلہ لیتے ہی بنی۔

٭٭٭

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے