فہیم اس طرح بھیڑ میں گھر گیا تھا کہ ایک قدم آگے بڑھانا دو بھر ہو رہا تھا۔ بڑی مشکل سے دو قدم آگے بڑھتا تو چار قدم پیچھے دھکیل دیا جاتا تھا۔
’’میں کس مصیبت میں آن پھنسا۔۔۔؟‘‘
اس ہجوم کے نرغے سے نکلنے کے لئے راہ ملنا تو درکنار اُس کو سوچنے تک کی مہلت نہیں مل رہی تھی بلکہ کبھی کبھی تو وہ لوگوں کے بیچ اس طرح بھنچ جاتا کہ سانس لینی مشکل معلوم ہونے لگتی۔۔۔۔۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ کسی تیز رَو دریا کے بہاؤ کے خلاف تیر رہا ہے۔ اب اسے صرف اتنا یاد ہے کہ سویرے جاگا تو آسمان پر سورج گہرے بادلوں کی چادر میں لپٹا ہوا تھا تب اس نے سوچا کتنے عرصے بعد گھنگھور گھٹا دیکھی ہے، خدا کرے آج مینہ برسے۔۔۔۔۔ گرمی اور حبس کے دائرے سے لوگ نکلیں۔ فہیم نے چائے کی کیتلی چولہے پر رکھی۔۔ شیو کیا۔۔ نہایا پھر چائے کی پیالی اور کتاب لے کے بالکنی میں آیا تو پلکیں چکا چوند سے جھپک گئیں۔۔۔۔ سورج چمک رہا تھا اور بلڈنگ سے ذرا فاصلے پر جو شاہراہ تھی وہاں آدمیوں کا سیلاب اُمڈ آیا تھا اور سب ایک ہی رُخ بہے جا رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔ غیر متوقع ہجوم دیکھ کر بادلوں کا خیال ہوا ہو گیا۔۔۔ فہیم حیرت و استعجاب میں نہا گیا۔۔۔۔ یہ لوگ ایک ہی جانب رواں دواں کیوں ہیں؟
وہ کبھی کبھار ہی بالکنی میں آ کے کھڑا ہوتا تھا۔۔۔ آس پاس کے گھروں سے نظریں سمیٹ کر سڑک پر لوگوں کو آتے جاتے دیکھتا رہتا۔۔۔ راستہ اتنا صاف ہوتا تھا کہ ٹیکسی اور کار چلانے والوں کو ہارن بجانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی، زن سے نکل جاتی تھیں۔۔۔ رکشا، ٹرک، گھوڑا گاڑی یا بار برداری کے لئے چلنے والی دوسری گاڑیوں کے واسطے ایک اورمتوازی راستہ تھا جو ذرا لمبا بھی تھا اور میونسپلٹی والوں کی بے توجہی کا شکار بھی۔۔۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ سب لوگ کہاں بھاگے جا رہے ہیں۔۔۔ کل تک سب ٹھیک ٹھاک تھا۔۔۔ ایک دم شہر پہ کیا افتاد پڑی کہ سب ایک طرف منہ اُٹھا کے بھاگ کھڑے ہوئے۔۔۔۔۔ یقیناً کوئی خاص بات ہے۔ کوئی اہم واقع رونما ہوا ہے۔ کیا 9/11 (نائن الیون) کی طرح ہمارے شہر کی بھی کوئی عمارت ڈھے گئی؟ معلوم کرنا چاہئے کہ سبب کیا ہے۔۔ رات بھر میں شہر پہ کس آسیب کا سایا پڑا ہے کون سی بلا نازل ہوئی ہے۔ کیا عراق کی طرح امریکا نے میرے ملک پر بھی حملہ کر دیا ہے؟ اسی تجسّس میں اس نے کتاب کرسی پر رکھی۔۔۔ چائے کی پیالی منڈیر پر چھوڑی، دروازہ بھیڑے بغیر اپنے فلیٹ سے باہر نکلا۔۔ پڑوس میں رہنے والے پروفیسر کا دروازہ تھپتھپایا۔۔۔ دو تین مرتبہ کنڈی کھڑکائی۔۔ شاید گھر میں کوئی نہیں۔۔۔ عجلت کے ساتھ زینہ طے کر کے نیچے آیا۔۔۔۔ پہلے انجینئر صاحب پھر اُن کے پڑوسی کنٹریکٹر صاحب کے دروازوں پر دستک دی۔۔۔ کیا سب ہی گھر چھوڑ کر چلے گئے؟۔۔۔ اس سے پہلے کہ گھبراہٹ پوری طرح فہیم پر حاوی ہو جائے اُسے ڈاکٹر صاحب کا خیال آیا۔۔۔ وہ اتنے صبح سویرے اپنی ڈسپنسری میں آکے بیٹھ جاتے ہیں کہ لو گوں کو یہ گمان ہو گیا ہے وہ پیسہ بٹورنے کی لت میں ایسے پڑے ہیں کہ رات کو بھی اپنے گھر نہیں جاتے کہ خدا معلوم کب کوئی مریض آ جائے۔ فہیم نیچے پہنچا۔۔۔ اب اُسے چکر سا آ گیا۔۔۔ دوا خانہ بھی بند تھا۔
لمحہ بھر تذبذب کے عالم میں بلڈنگ کے دروازے پر کھڑا رہا۔۔۔ اب اِس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ دوڑتا ہوا سڑک کی طرف جائے اور ایک طرف رُخ کیے جانے والوں سے اس افراتفری کا سب پوچھے۔۔۔۔۔ وہ چھوٹی سی گلی سے نکل کر سڑک پر آیا۔۔۔ یہ جلوس تھا یا تماش بین تھے۔۔۔ سب قبلہ رُو۔۔ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی فکر میں۔۔۔ عورت اور مرد کی کوئی تخصیص نہیں تھی۔ البتہ عورتیں کم تھیں، چھوٹے بچے اور بہت زیادہ بوڑھے بھی اس مجمع میں شامل نہیں تھے۔۔۔ ہر شخص دوسرے کو پیچھے کی جانب کھینچ کر خود آگے بڑھنے کی کوشش میں لگا ہوا۔۔۔ سب ہانپ رہے تھے جیسے میراتھن ریس (Merathon Race) جاری ہو۔
فہیم نے سڑک پر ٹھہر کر۔۔۔ بہت سارے لوگوں کو۔۔۔ ایک کے بعد ایک کو مخاطب کیا۔۔۔ چیخ چیخ کر پوچھا کہ وہ کہاں جا رہے ہیں اور کیوں۔۔۔۔ لیکن کسی نے اس کی بات کا جواب نہیں دیا۔ جس کا ہاتھ پکڑ کر روکنے کی کوشش کی وہ ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑا کر آدمیوں کے اس ریلے میں آگے بڑھ گیا۔ فہیم نے محسوس کیا جیسے وہ سمندر کے کنارے کھڑا ہے اور موجوں کو روک لینے کی حماقت کر رہا ہے۔۔۔ مگر اس ہجوم کا۔۔ اس بے ربط انبوہ کا۔۔۔ آخر کوئی مطلب، کوئی مقصد کوئی منزل تو ہو گی۔۔۔۔۔؟ یہ سب مغرب کی طرف رُخ کیے ایک دوسرے پر فوقیت حاصل کرنے کی جد و جہد میں مبتلا صرف آگے بڑھ رہے ہیں۔ کبھی دس پانچ قدم جلدی بڑھ جاتے ہیں کبھی آگے بڑھنے کی کوشش میں اِنچ بھر آگے نہیں سرکتے۔۔ مگر جس سمت سے یہ بھیڑ آ رہی ہے اُس طرف تو سیمی کا گھر ہے۔۔۔۔ اچانک اُسے سیمی کا خیال آیا۔۔۔ کیا اس وقت وہ بھی میری طرح حیران و پریشان کھڑی اِس ہجوم کو دیکھ رہی ہو گی۔۔۔؟ مجھے اُس کی طرف جانا چاہیے۔۔ ممکن ہے وہ میرا ہی انتظار کر رہی ہو۔۔۔
سیمی کے گھر پہنچ کر اس کا حال احوال معلوم کرنے کی بات اِس یک رُخے اور بے معنی آوازیں نکالتے ہجوم کو دیکھ کر فہیم کے ذہن میں آ گئی۔۔۔ پھر اس کا ذہن ان آوازوں کی اُلجھی ڈور میں پھنس گیا۔ یہ آوازیں بے معنی نہیں ہیں کیوں کہ سب لوگ اپنے اپنے انداز اپنے اپنے لہجے میں کچھ بول رہے ہیں اس لئے آوازوں کا بھی ایک ہجوم ہو گیا ہے۔۔۔۔۔ جس طرح یہ لوگ آگے بڑھنے کی جلدی دکھا رہے ہیں۔۔۔ اپنے سامنے والے کو پیچھے دھکیلنے کے بعد خود کو اطمینان دلا رہے ہیں کہ وہ آگے بڑ ھ گئے ہیں۔ یہ نفسا نفسی کی کیفیت ہے۔ ورنہ یہ ہجوم تو ایسا ہے جیسے دسہرے میں راون کے پُتلے کو قریب سے دیکھنے کی کوشش کرنا۔۔۔ یا جیسے محرم کی دسویں تاریخ کو تعزیوں کے جلوس میں شامل ہو جانا۔۔۔۔ معاً اُس کاذہن ایک فلم کے ایسے سین کی طرف چلا گیاجہاں قیدیوں نے جیل خانے کا دروازہ کھول لیا تھا اور سب ایک ساتھ نکل بھاگنے کی کوشش میں اسی قید خانے میں پھنس کر رہ گئے تھے۔۔۔ اب یہ لوگ یہاں جمع ہیں۔۔۔ اور نجانے کب سے اِس حالت میں ہیں، تو آخر کوئی نہ کوئی بات ضرور ہو گی۔۔۔ یہ سب دیوانے تو نہیں ہیں۔ معاملہ کچھ سنگین ہی لگتا ہے اس لئے لازم ہے سیمی کی خیر خیریت معلوم کی جائے۔
بعض لوگ جنہیں تیرنا نہیں آتا، محبت اور جذبات سے مغلوب ہو کر دریا میں چھلانگ لگا دیتے ہیں، ایسے ہی بغیر سمجھے بوجھے۔ اُس نے دو قدم آگے بڑھائے اور ہجوم کی مخالف سمت جانے کے لئے اُس کے بیچ گھِر گیا۔۔۔۔۔ وہ تازہ دم تھا اِس لئے مجمع کو چیرتا پھاڑتا ذرا دور تک نکل گیا۔ جب پہلو میں لوگوں کی کہنیاں چبھیں، پیروں پر پیر رکھے گئے۔۔۔۔ سامنے سے آتے ہوئے لوگوں کی بھنبھناہٹ بھری سانس۔۔۔ بدبو دار بھاپ کی طرح محسوس ہوئی تو اُس نے اپنا راستہ بنانے کے لئے کچھ اور زور آزمائی شروع کر دی لیکن ذرا ہی دیر میں یقین آ گیا کہ یہی حال رہا تو سیمی کا گھر تو دور کی بات ہے، واپس اپنے گھر جانا بھی ممکن نہیں رہے گا، اِس لئے کہ دونوں جانب سے فاصلہ گھٹنے کی بجائے بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ لوگوں کا ریلا جس طرف بہا لے جا تا ہے وہ اُسی طرف بڑھ جاتا ہے۔ اس کے باوجود یہ کوشش جاری رکھی کہ رُخ سیمی کے گھر کی طرف ہی رہے۔۔ وہ یہ بھی محسوس کر رہا تھا کہ ہجوم میں نہیں، کسی مصیبت میں پھنس گیا ہے۔ اِس بھیڑ میں چند جان پہچان والے بھی دکھائی دئیے۔
اُس نے کوشش کی ذرا اُن کے قریب پہنچے اور جو بات اب تک سمجھ نہیں سکا ہے وہ معلوم کرے۔۔۔۔ مگر سب ہی اپنی دھُن میں مگن تھے۔ کسی کی طرف کوئی دھیان ہی نہیں دے رہا تھا۔۔۔۔۔ شہر بھر کے لوگوں کا اپنے گھر سے نکل پڑنا اور ایک ہی سمت چلے جانا۔۔۔۔۔۔۔ آخر کوئی وجہ تو ہو گی۔۔۔ کوئی جواب بھی تو اُسی وقت دے گا جب کچھ سنے گا۔۔۔ یہاں تو سب اپنی ہی اپنی کہہ رہے ہیں۔۔۔۔ بس اِس بھیڑ بھڑکے میں شامل ہونے سے صرف ایک اطمینان ہوا ہے کہ یہ کسی مصیبت سے نہیں بھاگ رہے ہیں۔ لیکن کس مصیبت کی طرف بھاگ رہے ہیں، یہ کوئی بتاتا ہی نہیں ہے۔ ٹھیک اِنہی خیالات کے بیچ اُسے اپنا ایک کلاس فیلو دکھائی دیا۔ کالج کے دنوں میں بہت ہنس مکھ اور کھلنڈرا تھا اور فہیم کے ساتھ ہی اُس کا سب سے زیادہ اُٹھنا بیٹھنا تھا۔ اپنے پرانے ساتھی کو دیکھ کر ڈھارس بندھی کہ اب شاید اصلی بات معلوم ہو جائے کہ یہ بھیڑ کہاں جا رہی ہے، مگر بیچ میں کم سے کم بیس پچیس آدمیوں کا فاصلہ تھا۔ فہیم نے پہلے ہاتھ ہلا کر پھر نام لے لے کر۔۔۔ ایک بار۔۔۔ دو بار۔۔۔ کئی بار پکارا۔۔ یہ سارے لوگ جس بے ترتیبی سے آگے بڑھ رہے تھے اِسی طرح اُن سب کی ملی جلی آوازیں شور مچا رہی تھیں۔ پھر جیسے کوئی گویّا ایک ہاتھ کان پر رکھ کے تان بھرتا ہے اِسی طرح اپنی پوری طاقت سے فہیم نے ایک بار پھر نام لے کر پکارا۔۔۔ اب کے اتفاق سے اُس کے دوست نے سن لیا اور آواز کی سمت گردن گھما کے دیکھا بھی۔۔ ایک لمحہ کے لئے یہ انداز رہا جیسے پہچاننے کی کوشش کر رہا ہو۔۔۔۔ پھر پہچان کر ہنس دیا۔۔ اُس نے کچھ کہا۔ فہیم سن ہی نہیں سکا۔ آواز بھی کہیں درمیان میں ہی رہ گئی۔۔ اُس کے خوش مزاج دوست نے ہاتھ کا اشارہ کیا۔۔ جیسے کہہ رہا ہو، اپنا رُخ بدلو اور میرے قریب آ جاؤ۔۔ فہیم نے چیخ کر پوچھا۔۔ کہاں جا رہے ہو؟ جواب میں چند لوگوں نے ٹہوکے دے کر۔۔۔ بلکہ ٹھیل ٹھیل کر فہیم کو پیچھے کیا۔۔۔ اب اُس نے مڑ کر اپنے دوست کو دیکھا۔ وہ فہیم کی طرف سے بے نیاز ہو کر پہلے کی طرح آگے بڑھنے کی جد و جہد میں لگا ہوا تھا۔
اُس نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ اِس راستے پر خلقت یوں ٹوٹ پڑے گی جیسے مردہ جانور کی بو پر بھوکے بھیڑئیے چاروں طرف سے دوڑ پڑتے ہیں۔۔۔ بے شک یہ بڑی شاہراہ ہے لیکن آگے جا کر یہ سمندر اور پہاڑوں کے سنگم پر ختم ہوتی ہے۔ وہی لوگ اِس طرف جاتے ہیں جن کے گھر ہیں یا جو لنگر ڈالے جہازوں سے واسطہ رکھتے ہیں یا پھر وہ لوگ جن کو کوہ پیمائی کا شوق کا شوق ہو۔۔۔ زناٹے بھرتی کاروں اور ٹیکسیوں میں ہوائی اڈے جانے والے بھی ہوتے ہیں۔ بلکہ سڑک پر زیادہ گہما گہمی ائر پورٹ جانے آنے والوں کے سبب ہی رہتی ہے۔ سڑک کی حالت بھی اِسی لئے بہتر ہے کہ بر سرِ اقتدار طبقہ کا کوئی وزیر سفیر بھی جہاز سے آتا جاتا رہتا ہے۔۔۔ ورنہ شہر کی باقی سڑکوں کی طرف میونسپلٹی والے اتنی توجہ بھی نہیں دیتے جتنی کوئی بھولا بھٹکا بڈھی طوائف کی طرف دیکھ لیتا ہے اور وہ جو شہر کا نقشہ بناتے ہیں اور فخریہ اپنے آپ کو ٹاؤن پلانر کہتے ہیں۔۔ اُن کو بھی اپنی جیب سے آگے کچھ دکھائی نہیں دیتا، وہ یہ اندازہ بھی نہیں لگا سکتے کہ اُن کے بچوں کے بڑے ہونے تک شہر کتنا بڑا ہو گا۔ آبادی کتنی بڑھے گی، مسائل میں کتنا اضافہ ہو گا۔۔۔۔ بس آج۔۔
یہ آج ہی تو ہے جس میں گزرے ہوئے کتنے کل اور آنے والے کتنے دن سمٹے ہوئے ہیں۔۔۔ اِسی لئے اتنی بھیڑ ہے۔۔ پر مجھے اِس بھیڑ سے کیا مطلب۔۔۔ میں تو سیمی کے گھر جانا چاہتا ہوں۔۔۔ مانا اُس کا گھر ویسٹ اوپن ہے مگر ہے تو مشرق میں۔ میں جس رُخ چل رہا ہوں اُس طرف۔۔۔ سیمی ہاں۔۔ شاید اِس وقت وہ بھی میری ہی راہ دیکھ رہی ہو گی۔۔۔ ذہن میں اٹھنے والے خیال اور راستے میں بڑھنے والے قدم۔۔ دونوں کی رفتار یکساں تھی۔
کل رات کو ہی تو وہ سیمی سے ملا تھا۔۔ کل رات کو۔۔! ہاں شاید اور ایک رات پہلے۔۔ وہی باتیں ہوئیں جو عشق و عاشقی میں ہوتی ہیں۔۔ سیمی نے بتایا تھا کہ ایک چمڑے کا بیوپاری اُس کے گھر آنے جانے لگا ہے اور کانا پھوسی کرتا رہتا ہے۔ اِس لئے فہیم اپنی شاعری‘مصوری سے دامن چھڑائے اور ایسے حالات پیدا کرے کہ بغیر کسی رکاوٹ کے وہ ایک دوسرے کے بن جائیں۔۔۔ سیمی کے ہاں سے واپس آنے کے بعد فہیم نے ذرا دیر کے لئے سوچا تھا۔۔۔ چلا جاؤں کسی دور دیس میں۔۔ مزدوری کروں، ٹیکسی چلاؤں۔ قلم اور بُرش کی طرف آنکھ اُٹھا کے نہ دیکھوں، اگر ایسا ہو جائے تو پھر کہیں جانے کی ضرورت بھی کیا ہے۔۔ اِس اپنے ملک میں کرپشن کا حصہ بن جاؤں۔۔ وہی ہتھکنڈے اپناؤں جو مالدار لوگوں کے ہیں۔۔۔ کیا ہو گا۔۔؟ لوگ یہی تو کہیں گے کہ۔۔۔ مشکل تو یہی ہے کہ لوگ اب کچھ کہتے بھی نہیں ہیں۔۔ سب تماشائی ہیں۔۔ اور تماشے کا حصہ بھی۔۔ قلم اٹھاؤ۔۔ یا چمڑے کا بیوپار کرو۔۔۔ کسی کو مطلب ہی نہیں۔۔
اُس نے غیر ارادی طور سے لوگوں کو گھورنا شرع کر دیا۔۔ شاید اِن میں چمڑے کا کوئی بیوپاری بھی ہو۔۔ پھر اُس کے ذہن میں آیا کہ اِن میں سے کوئی چمڑے کا بیوپاری نہیں ہے یا سب ہیں۔۔ اِن سب لوگوں کی آنکھوں میں بھوکے جانوروں کی سی چمک ہے۔۔ سب کی نظریں ایک ہی طرف یوں گڑی ہیں جیسے شکار کی تاک میں ہوں۔
اُس نے ایک بار پھر اِس ریلے کی طرف دیکھا جس کی مخالف سمت جانے کی تگ و دو کر رہا تھا۔ پھر بالکل سامنے آ جانے والے آدمی سے پوچھا۔۔ جس کی سانسوں میں سارے ہجوم کی گندی سانسوں اور پسینے کی بُو شامل ہو کر ایک عجیب سی سڑاند پیدا کر رہی تھی۔۔۔ ’’آپ کہاں جا رہے ہیں۔۔؟‘‘ جواب دینے کی بجائے اُس نے کہنیوں کے ٹہوکے سے فہیم کو دوسرے آدمی کے رُو برو کر دیا اور خود ذرا سا آگے بڑھ گیا۔ فہیم کو حیرت یوں ہو رہی تھی کہ وہ اِسی شہر میں پلا بڑھا ہے۔ اِس شہر کی سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں کی تصویریں اُس نے بنائی ہیں اور لوگوں نے پسند بھی کی ہیں۔۔ اخباروں کے پورے پورے صفحے اُس کے فن پر لکھے گئے ہیں۔ وہ ان سب لوگوں کے لے انجان نہیں ہے پھر بھی سب لوگ اُس کے لئے اجنبی ہو گئے ہیں۔۔ اتنے غیر کہ اب اُس کی بات بھی اَن سنی کر رہے ہیں۔۔ فہیم کو اگر سیمی کا خیال نہ آیا ہوتا تو وہ اِن میں سے کسی بھی آدمی کو دبوچ کر ایک طرف لے جاتا پھر اِس ہنگامے۔۔ اِس ہڑبونگ اور اِس یک طرفہ روانگی کا سبب معلوم کیے بغیر نہ چھوڑتا۔۔ یا پھر ان سب لوگوں کی زبان سے نکلنے والے الفاظ کو سمجھنے اور پہچاننے کی کوشش کرتا۔۔ فی الحال تو سانپوں کی پھنکار اور اور سرسرانے کی سی ملی جلی آوازیں ایک بے معنی شور بن کر اِس کے کانوں میں سیٹی سی بجا رہی ہیں۔
اِس ہجوم کے دھکے کھاتے ہوئے اُن تمام راستوں کے بارے میں سوچا جو اُسے سیمی کے گھر تک جلدی سے جلدی لے جا سکتے تھے۔۔۔ مگر سب ہی راستوں میں خلقت کی دیوار کھڑی تھی۔۔ اُس نے سوچا کوئی ایسا راستہ ضرور اختیار کرنا چاہئے جہاں یہ لوگ رکاوٹ بن کے موجود نہ ہوں۔۔۔ ورنہ اِس بھیڑ کی مخالف سمت چلنا تو اپنی راہ کھوٹی کرنا ہے۔۔ اِس خیال کے آتے ہی اُس نے بھیڑ سے نکل کے سڑک کے ایک طرف ہو جانا چاہا۔۔ مگر وہ اکیلا تھا جو ایک کنارے کی طرف جانا چاہتا تھا اور وہ بہت سے تھے جو اُسے اپنے راستے میں حائل دیکھ کر دھکیلتے ہوئے پھر بیچ میں پہنچا دیتے تھے۔
آخر۔۔ خدا خدا کر کے وہ راستے کے ایک کنارے پہنچا۔۔۔ چراغ جل چکے تھے۔ اُس کے کپڑے کہیں سے اُدھڑ گئے تھے اور کہیں سے پھٹ گئے تھے۔۔۔ بے شمار لوگوں کے پسینے اور سانسوں کا تعفّن اُس کے بدن سے چپکا ہوا تھا۔۔ دِن بھر منہ زور مجمع کا مقابلہ کرتے رہنے سے پورے بدن پر تھکن کے گھاؤ پڑ گئے تھے۔ پیاس خنجر کی طرح حلق میں اور بھوک تلوار کی مانند پیٹ میں اتر آئی تھی۔ اب وہ اپنے ہی درد میں اتنا نڈھال ہو چکا تھا کہ سیمی کے خیال کا پھاہا بھی پھوڑے کی طرح دکھتے ہوئے بدن کو سکون نہیں پہنچا رہا تھا ساتھ ہی اِس منہ زور ہجوم سے جوجھنے کی اب اُس میں اور سکت نہیں رہی تھی۔۔ اتنا تو اُسے معلوم تھا اب وہ ایسی جگہ ہے جہاں سے اپنے گھر اور سیمی کے پاس جانے کے لئے فاصلہ برابر ہے۔
وہ خود کو کوشش کر کے خود کو سنبھال رہا تھا۔ یہ بات اُس کو سمجھ میں آ گئی تھی اگر وہ اِس بھیڑ میں گر گیا تو قدموں تلے روند دیا جائے گا۔ اب اُس کی کوشش یہی تھی کہ جتنی طاقت اور توانائی اُس میں باقی ہے۔ اُس کے سہارے وہ سڑک کے ایک طرف ہو جائے۔۔۔ جب اپنی زندگی بچانے کا معاملہ ہو تو آدمی سارا حوصلہ۔۔ تمام ہمت جمع کر کے بڑے سے بڑے طوفان سے مقابلہ کرنے کی ٹھان لیتا ہے۔۔۔ بس اُسی لمحے ایسا لگا جیسے کسی نے ہاتھ پکڑ کے فہیم کو اپنی طرف کھینچا ہے۔۔ وہ ایک دکان کے تھڑے پر جا کے کھڑا ہو گیا۔ اتنی اونچی جگہ، جہاں سے یہ سارا ہجوم بہتے ہوئے پانی کی طرح لگا۔۔۔۔۔ فہیم نے اس بھیڑ سے نکالنے والے کی طرف شکریہ ادا کرنے کے لئے دیکھا تو ایسا معلوم ہوا جیسے آئینہ دیکھ رہا ہو۔۔ مگر تھکن نے پوری طرح دیکھنے کی طاقت بھی چھین لی تھی۔ اِس بھیڑ نے اُسے کمہار کے چاک پر رکھی ہوئی گیلی مٹی بنا دیا تھا۔۔ دکان کے تھڑے پر پہنچ کر وہ کچّے گھروندے کی طرح ڈھے گیا۔
اِس بھنبھناہٹ بھرے شور میں جب ذرا حواس جاگے تو اُس نے آنکھیں کھول کر تھکے ہوئے لہجے اور بجھی ہوئی آواز میں کہا۔
’’میں صبح سے۔۔۔ یا شاید کل سویرے سے یا کئی دنوں سے۔۔۔ مجھے یاد نہیں ہے بس اتنی خبر ہے کہ آج آدمیوں کے اِس بھنور سے نکلا ہوں۔۔۔۔ تھکان، بھوک اور پیاس نے یہاں لا ڈالا ہے۔۔۔‘‘ اتنا کہنے کے بعد اُس کی نظریں اجنبی نگاہوں کے ساتھ ساتھ دکان کے بند تالے پر جا ٹکیں۔۔۔۔۔ مجمع سے زور آزمائی کرنے کے بعد خدا جانے اتنی طاقت کیسے باقی رہ گئی تھی کہ تالا توڑ لیا۔۔۔
اندر ایک صراحی میں پانی موجود تھا۔۔ پیاس بجھی تو کھانے کی تلاش ہوئی۔۔۔ بھکراندے بسکٹوں کے ایک ڈبے کے ساتھ ایک شیشی میں چنے بھی رکھے تھے۔۔۔۔ اب جان میں جان آئی۔۔۔ اور وہ وہیں پھر آنکھیں موند کے لیٹ گیا۔۔ ’’کچھ خبر ہے اِن لوگوں پر کیا افتاد پڑی ہے جو اپنے گھر بار۔۔۔ بیوی بچّوں سے بے نیاز ہو کر ایک ہی طرف منہ اُٹھائے یوں بھاگے۔۔ نہیں۔۔ بس چلے جا رہے ہیں؟‘‘ اُس کی سمجھ میں نہیں آیا یہ سوال اُس نے کیا ہے یا اجنبی نے پوچھا ہے۔
’’میں نے بھی یہ بات کئی لوگوں سے پوچھی تھی مگر خدا جانے وہ کون سی جناتی زبان بول رہے تھے یا اُن سب کی آوازیں گڈ مڈ ہو کر اُلجھے ہوئے دھاگے کا ایک گچھا سا بن گئی تھیں۔۔ کچھ پتا ہی نہیں چل رہا تھا۔۔۔ اِس کی ایک وجہ شاید یہ بھی تھی کہ ان لوگوں کے ساتھ بلکہ ان کے بیچوں بیچ رہتے ہوئے میرا دھیان اِدھر اُدھر لگا رہا۔۔۔ مگر ساتھ ہی ساتھ اُن کی آوازوں کے رنگ برنگے لچھے کو سلجھاتا بھی رہا۔۔۔ پھر جس کو عقلِ سلیم کہتے ہیں، اُس کے بل بوتے پر اتنا سمجھ سکا کہ یہ سارے لوگ ایک بیماری میں مبتلا ہیں۔۔۔۔‘‘
’’بیماری۔۔۔۔۔!‘‘
’’ہاں۔۔۔ اِس بیماری کی کہانی ماضی کے کئی سو سال پر پھیلی ہوئی ہے۔ آجکل تو بیماریاں ملکوں ملکوں بھی سفر کرتی ہیں جیسے فِلو ہانگ کانگ سے۔۔۔ سارس، چین اور کوریا سے نکل کر دوسرے ملکوں میں پہنچتے ہیں۔۔ ایڈز امریکا سے پھیلی ہے۔۔۔ لیکن ہمارے ملک میں یہ بیماری آج سے صدیوں پہلے انگریز لے کر آیا۔۔۔ تاجرانہ ذہنیت کے یہ جرثومے صرف ایک خاص طبقہ تک ہی پھیل سکے۔۔۔ تجارت بُری چیز نہیں ہے۔۔ بُری چیز ہے فراڈ جو تجارت کے نام پر کیا جاتا ہے۔۔۔ ہمارے ملک کے خاص طبقے میں یہ جراثیم پھیلے۔ اُس کو آج بھی اچھے نام سے نہیں پکارا جاتا۔۔۔ جو لوگ اِن بیماروں کی نسل سے ہیں وہ بھی اپنا رشتہ اُن سے نہیں جوڑتے تھے۔۔۔ اب نیا زمانہ ہے۔۔ سماجی اور اخلاقی قدریں بدلتی چلی جا رہی ہیں۔ انسان ترقی کر کے اَن دیکھی دنیاؤں کی طرف نکل رہا ہے۔۔۔ پہلے اُس بیماری کا نام لالچ تھا۔۔۔ چند ہی لوگوں تک محدود رہی۔۔۔ اب تو۔۔ رشوت کھانے والا ہر شخص اِس کا شکار ہے۔۔۔۔ زمیندار اور جاگیر دار میں سے کوئی بھی اِس بیماری نہیں بچ سکا ہے۔ جب یہ بیماری کالج اور یونیورسٹی میں پہنچی تو اِس کا نام ہی بدل دیا گیا۔۔ پہلے کوئی لالچ کہتا تھا کوئی حرص و ہوس۔۔۔ اب اِسے (Prosperity) کہتے ہیں۔۔۔ کامیابی۔۔۔ خوشحالی۔۔ اب سے چند سال پہلے زیادہ سے زیادہ ہزار دو ہزار لوگ اِس خوشحالی کے پیچھے بھاگے تھے۔۔ اُن میں سے آدھے واپس آئے تواُن کی جیب میں دولت ٹھنسی ہوئی تھی۔۔ آتے ہی شاندار کوٹھیاں بنائیں۔۔۔ مہنگی موٹر کاریں خریدیں۔۔۔ بس پھر تو چھوت کی بیماری کی طرح۔۔۔ خوشحالی کی خواہش میں سب ہی مبتلا ہوتے چلے گئے۔۔ اچھے بُرے کی تمیز اُٹھ گئی۔۔ جب اپنے ملک میں خواہش پوری ہوتے نہ دیکھی تو لوگ بیوی بچّوں کو۔۔۔ بڈھے ماں باپ کو یہ آسرا دے کر گھر سے نکل کھڑے ہوئے کہ جائیں گے اور دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹ لائیں گے۔۔۔ یہ قطار میں کھڑے لوگ۔۔۔ یہ سب جانے کے انتظار میں ہیں۔ خود آگے بڑھنے کے لئے دوسرے کو پیچھے کھینچتے ہیں۔۔ کیا تم بھی اِس قطار میں تھے؟‘‘
یہ باتیں سنتے ہوئے فہیم کی پلک جھپک گئی۔۔ جب آنکھ کھلی تو اُس نے حیرت سے چاروں طرف دیکھا۔۔ یہ میں کہاں ہوں۔۔؟ اور وہ کہاں ہے۔۔؟ پھر ایک ایک کر کے ساری بات یاد آنے لگی۔۔۔ فوراً دکان سے باہر نکلا۔۔۔ شٹر گرایا۔۔۔ تالا لگایا۔ سارے مجمع سے الگ ہو کے۔۔۔ چھوٹی چھوٹی گلیوں میں چلتا ہوا یہ سوچتا رہا۔۔۔ وہ نازک سی لڑکی جو بانہوں میں آ کے سہم جاتی ہے۔۔۔ اتنے لوگوں کو دیکھ کر ضرور ڈر گئی ہو گی۔ اُس نے چلتے چلتے دیکھا۔۔ بوڑھی عورتیں جانے والوں کے لئے دعا میں مصروف ہیں۔۔۔ جوان اور شرمیلی عورتیں صبر کی چادر اوڑھے آنکھوں میں انتظار کا کاجل لگائے کھڑی ہیں۔ کچھ بوڑھے ایسے ہیں جن کی آنکھوں میں غصے کی سرخی ہے مگر کچھ ایسے بھی ہیں جن کے چہروں پر تاسّف کی جھریاں پڑی ہیں۔۔۔۔ البتہ بچّوں کے چہرے ایک سے تھے، لاپرواہی اور معصومیت کے رنگ میں رنگے ہوئے۔۔۔۔۔ سیمی کا گھر قریب آتا جا رہا تھا۔۔۔۔ فہیم کے خیالوں میں یکسوئی پیدا ہوتی جا رہی تھی۔ اب وہ صرف سیمی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔۔ جدائی کے اِن لمحوں میں اُس لڑکی کو کیا کچھ خیال نہیں آئے ہوں گے۔ وہ سمجھتی ہو گی، میں بھی اس بھیڑ کا حصہ بن کے چمڑے کے بیوپاری کا مقابلہ کرنے کے لے کہیں چلا گیا ہوں۔۔ لیکن اُسے کیا معلوم میں اُس کے خیال تک سے دور نہیں رہا۔۔۔ سیمی کے گھر کا راستہ آتے ہی بھیڑ چھٹ چکی تھی۔۔ خالی راستہ دیکھ کر فہیم نے تیزی سے قدم اُٹھائے۔۔۔ اُس کے گھر کا دروازہ کھلا تھا۔۔۔ بالکل ایسے ہی جیسے دوسرے بہت سے مکانوں کے دروازے کھلے تھے۔۔۔ ایک لحظہ کے لئے فہیم کا دل دھڑکا۔۔ کہیں سیمی اور اُس کے گھر والے بھی تو اُس مجمع کا حصہ نہیں بن گئے۔۔ اِدھر فہیم نے گھر میں قدم رکھا۔ اُدھر سیمی بیتابی کے ساتھ کمرے کے باہر آئی۔۔۔ اُس کو دیکھ کر فہیم کی ساری تھکن کافور ہو گئی۔۔۔ اپنے بازو پھیلا کے سیمی کو سمٹ آنے کی دعوت دی تو اُس نے لمحہ بھر ٹھٹھک کر فہیم کے تھکے ماندے چہرے کو دیکھا۔۔۔ ایک قدم آگے بڑھایا پھر فہیم کا میلا کچیلا بوسیدہ لباس دیکھ وہ جہاں تھی وہیں ٹھہر گئی۔۔۔ پھر بہت ہی مرجھائے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’تم آ گئے۔۔۔ آج بھی۔۔۔ پہلے کی طرح۔۔۔۔‘‘
اُس نے اور کیا کچھ کہا، فہیم نے نہیں سنا۔۔۔ اُس کے پھیلے ہوئے خالی ہاتھوں پر سیمی کے لہجے کا اتنا بوجھ پڑا کہ بازو لٹک گئے۔۔۔ اور طویل عرصے کی جد و جہد نے اتنا دباؤ بڑھایا کہ وہ وہیں مٹی کی طرح ڈھیر ہو گیا۔
٭٭٭